جیل کے اندر جرائم

سنٹرل جیل کراچی ، حیدرآباد کالونی کے قریب ،بہادریارجنگ اور یونیورسٹی روڈ کے سنگم پر واقع ہے ۔کراچی کی دیگر تاریخی عمارتوں کی طرح یہ بھی تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔1906میں تعمیر کی گئی اس جیل میں تحریک پاکستان کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہر بھی قید رہے۔ یہ ستمبر 1921 کی بات ہے جب انہیں تحریک پاکستان کی پاداش میں دو سال قید کی سزا دی گئی قید کے دوران اس دوران انہوں نے اپنی سوانح حیات بھی تحریر کی۔یہ جیل 1906 میں شہر سے دور تھی اس وقت شہر صرف کھارادر سے صدر تک تھا۔ لیکن پھلتے اور پھولتے کراچی نے اسے اپنے بیچ میں کرلیا۔سنٹرل جیل کراچی کو پاکستان کی پہلی باقاعدہ جیل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اس جیل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کئی سالوں سے اس کی توسیع بھی نہیں کی گئی ۔ ابتدائی طور پر جیل میں 325مرد اور 75زنانہ قیدیوں کی گنجائش تھی ، سوا سو سال بعد اس میں چھ ہزار قیدیوں کے گنجائش کے قابل بنایا گیاتاہم اس کے رقبے میں توسیع نہیں کی جاسکی البتہ جیل کے احاطے سے باہر موجود جگہ پر جیل کے عملے کے لیے دفاتر اور رمکانات تعمیر کیے گئے ۔اس جیل کا کل رقبہ 10,889 مربع گز ہے۔

جیل کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ لیکن جیل کے اندر جو تاریخ رقم ہورہی ہے اسے یہاں لکھنا ممکن نہیں ہے ۔ جیل کے سپرنٹیڈنٹ سمیت پورے عملے کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ جیل کے قیدی ہیں۔قیدی بھی وہ جن کی کوئی سیاسی وابستگی یا اثر و رسوخ نا ہو۔ سیاسی اور بااثر قیدیوں کے لیے جیل ، جیل نہیں رہتی بلکہ ایک گھر بن جاتی ہے جہاں ان کو ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہوتی ہے۔جبکہ عام قیدیوں کو قانونی سہولیات بھی روپے کے عوض حاصل کرنی پڑتی ہے۔حکومت کی جانب سے فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات کے ساتھ تین وقت کھانے کی سہولت بھی موجود ہے ، اس مد میں کروڑوں روپے حکومت مختص کرتی ہے لیکن عام قیدیوں کے لیے انہیںسب سہولتیں مفت حاصل کرنا ناممکن ہے ۔ یہاں جو قیدیوں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے اسے بھوکے قیدی مجبوراََ ہی کھاتے ہونگے ورنہ یہ خوراک کسی بھی طور پر معیاری نہیں ہوتی۔بیشتر قیدی گروپ کی شکل میں خود ہی کھانا تیار کرتے ہیں لیکن اس سہولت کے لیے انہیں علیحدہ پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

چند ماہ قبل صوبائی وزیر جیل خانہ جات نے نوید سنائی تھی کہ قیدیوں کو ناشتے میں انڈا دیا جائے گا۔ اس اعلان پر قیدی صرف ہنستے رہے اوراب اعلان کو یاد کرکے انہیں ہنسی آتی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دو سال قبل جیل کا دورہ کیا اور جیل مینوئل کے مطابق معاملات نا پاکر سخت برہمی کا اظہار کیا ۔ ان کی برہمی کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلا ،۔ قیدیوں سے ملاقات کے لیے آنے والوں سے رشوت لینا معمول کی بات ہے ۔ اگر قیدی کے لیے کچھ اندر بجھوانا ہے تو اس کے علیحدہ چارجز ہیں۔ اگر کوئی حکومت یا حکومتی نظام ہو تا تو ایسا کبھی نا ہوتا ۔۔۔قیدیوں کے لواحقین سے رشوت لینے والوں کو پکڑنا چاہے تو محکمہ اینٹی کرپشن کسی بھی وقت اچانک کارروائی کرسکتا ہے ۔اور چاہے تو لواحقین سے تعاون حاصل کرکے بھی کرپٹ عناصر کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ کون کرے گا؟ ہزاروں قیدی اور ان کے لواحقین یہ سوال حکمرانوں سے پوچھتے ہیں۔

جیل کی صورتحال کے بارے میں ایک قیدی ایم اے ساغر نے اپنے ایک رقعہ میں کچھ یوں بیان کیاہے۔۔۔۔۔اس تحریر کو بغیر کسی ترمیم کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے ۔

یہ سنٹرل جیل کراچی ہے جس میں تین ہزار سے زائد ملزم اور مجرم قید ہیں۔ یہاں کی ہر چیز ہی الگ ہے۔ یہاں کا نظام ، اس کا تو خدا ہی حافظ ہے ۔مجھے یہاں چار سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے مگر یہاں مظالم روز بروز ہی بڑھتے جارہے ہیں یہاں کے موجودہ سپرنٹنڈنٹ شاکر صاحب ہیں جو کہ کہنے کو تو انتہائی فعال قسم کے افسر ہیں مگر شائد پیسے کی ہوس نے ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔اسی وجہ سے یہاں کی ظلم کی داستانیں ان کے ضمیر پر دستک دینے سے قاصر ہیں۔میو وارڈ ہے یہاں کی بیرک 47 میں نئے آنے والے قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ جرم بھی شرما جائے۔انسانیت تو سرے سے موجود ہی نہیں ۔ حیدر وارڈ میں بیرک نمبر پانچ ہے ۔جہاں پر ضیا ءالرحمٰن نامی قیدی ہے جو ہر قیدی سے مک مکا کرتا ہے ۔جو مان جائے اسے ایک سے چار روز کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے گھر سے پیسے منگوالے ، گھروالوں سے رابطے کے لیے چند لمحوں کے لیے موبائل فون کی سہولت مل جاتی ہے ۔جب ملاقات آتی ہے تو وہ اس کے ساتھ جاکر پیسے وصول کرتا ہے ۔پیسے نا دینے پر گھروالوں کے سامنے تشدد کیا جاتا ہے پھر بعد میں اس سے جیل کی صفائی ،دھلائی ، کھدائی ، اور پٹائی کی مد میں مشقت لی جاتی ہے ۔صفائی میں ان گٹروں کی صفائی بھی شام ہوتی ہے جو انسانی فضلے سے بھرے ہوتے ہیں۔حالانکہ قیدی مسلمان ہوتا ہے ۔لیکن زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنے کا یہ ہی سب سے موثر طریقہ ہے ۔نئے آنے والے قیدیوں کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔جو چور ،ڈکیت اور غریب نظر آتے ہیں ان کو بھی درج ذیل بیرکوں میں بھیجا جاتا ہے۔میو بیرک 47 ، حیدر بیرک پانچ اور تعلیم القران بیرک 5/15، جہاں کے ذمہ داران ان سے وصولیاں کرکے افسران تک پہنچاتے ہیں۔جو قیدی اعلٰی معیار کے ہوتے ہیں ان سے جیل کے ٹاور پر جوڑ توڑ کیا جاتا ہے ، یہ جوڑ توڑ 25 ہزار سے شروع ہوکر دس لاکھ تک بعض اوقات اس سے بھی بڑھ جاتا ہے۔اس جوڑ توڑ کے عوض قیدی کو اس کی من پسند جگہ پر رکھا جاتا ہے ، وی آئی پی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ، ایسے قیدیوں کو موبائل فون سے لیکر کام کرنے کے لیے نوکر تک فراہم کیا جاتا ہے ۔ ایسے قیدیوں میں منشیات وغیرہ کے اسمگلرزبینکرز اور بڑے جعلساز ہوتے ہیں۔ایسے قیدیوں سے وصولی کے لیے اکرم ، زاہد اور اشوک کمار جسے مامور ہیں،یہ بھی قیدی ہیں لیکن ان کی حیثیت کسی جیلر سے کم نہیں ہے ۔جیل کے تمام مظالم سے محفوظ ہیں تو صرف وہ قیدی ہیں جن کا تعلق سیاسی جماعتوں متحدہ، جئے سندھ، پیپلز پارٹی ، اے این پی اور دیگر جماعتوں سے ہے یا پھر جہادی تنظیموں سے۔عبداللہ نامی شخص یہاں کم عمر قیدیوں سے زیادتی بھی کرتا ہے ۔ اب آتے ہیں پرانے قیدیوں کی طرف ان سے بھی بھتہ ، رشوت لی جاتی ہے ۔جیل کے ٹاور پر شہاب احمد صدیقی ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ منتقل کرنے کے لیے دو سے بیس ہزار روپے تک رشوت لیتا ہے ۔جیلز احسان مہر ان کی موبائل شاپ جیل میں ہے ۔پہلے موبائل دیتے ہیں جس کے لیے پندرہ سے بیس ہزار روپے وصول کرتے ہیں، پھر ماہانہ بانچ سے دس ہزار وصول کیے جاتے ہیں نا دینے پر چھاپہ مارکر موبائل برامد کرلیا جاتا ہے ۔پھر مجبورا 25ہزار روپے بھی دیئے جاتے ہیں۔احسان مہر کا معاون ذیشان تھا جو اب سپرنٹنڈینٹ کے پاس ہے۔جیل سے رہائی کا حکم ملنے کی صورت میں بھی قیدیوں کو چھوڑنے کے 20 سے 25روپے وصول کیے جاتے ہیں۔جیل کے رحیم وارڈ کے بارے مین کہا جاتا ہے کہ یہ جیل کے اندر جیل ہے اس وارڈ کے انچارج رفیق چنہ عرف چلبل پانڈے ہیں جو نوٹ دیکھ کر سب کچھ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ان کی اجازت سے جیل میں منشیات بھی فروخت ہوتی ہے ان کے وارڈ میں موبائل فون بھی استعمال کیا جاسکتا ہے بس شرط ہے کہ چلبل پانڈے کع نوٹ دیتے رہنا پڑتا ہے۔یہ صاحب کم عمر قیدیوں میں بھی غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔جیل میں حکومت نے فون کی سہولت فراہم کی ہے تاکہ قیدی ہفتے میںایک بار دس منٹ مفت بات کرسکیں لیکن یہاں تین منت کے 30روپے وصول کیے جاتے ہیں۔جیل کی کرپشن سے سب واقف ہیں لیکن کسی ایک میں خوف خدا نہیں ہے ۔ کیا چیف جسٹس پاکستان جیلمیں کیئے جانے والے ظلم پر بھی کوئی ایکش لے سکتے ہیں؟ فقط ، ایم سی ساغر ، سنٹرل جیل کراچی۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 153070 views I'm Journalist. .. View More