خوابوں کی دنیا کا مسافر

قرآن پاک کی آیات کا مفہوم ہے کہ یہ زندگی تو دھوکے کا مال ہے اور یہ کہ اس دنیا کی زندگی بس یہی ہے کہ چند دن برت لینا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کا مال و متاع اور یہاں کی عیش و عشرت اور لذیذ چیزوں کا مزہ عارضی ہے اور چند لمحوں تک ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں ایک خواب کی مانند ہو جاتی ہیں۔مثلاً مشاہدے کی بات ہے کہ کھانا چاہے کتنا ہی لذیذ کیوں نہ ہو جب وہ حلق سے نیچے اترے گا تو اسکا ذائقہ ختم ھو جاتا ہے، اسی طرح کسی بھی مشروب ،پانی ، شربت یادودھ وغیرہ کی مثال ہے کہ اسکا گھونٹ گلے سے اترتے ہی اسکی لذت اور مٹھاس ختم ہو جاتی ہے، حتی کہ زوجین کا ملاپ جسے حاصل کرنے کیلئے انسان سب کچھ کر گزرتا ہے اور عمر زیادہ ہونے کے با وجود اسکی خواہش ختم نہیں ہوتی اسکی لذت بھی محض چند لمحوں تک ہے اور گزرا ہوا وقت خواب کی مانند ہو جاتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی خواب دیکھا تھا۔ بقول شاعر.......وقت مرگ یہ محسوس ہو ا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا-

یہ ہے اس دنیاوی زندگی کی حقیقت!! کہ ساٹھ ستّر یا سو برس عمر عزیز گزارنے کے با وجود یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خواب دیکھا تھا۔ اور دیکھا جائے تو اس دنیا میں انسان کی مثال ایک خوابوں کے مسافر کی سی ہے جیسے کوئی شخص خواب میں کھاتا پیتا ہے،چلتا پھرتا ہے ،سفرکرتاہے یا دیگر عیش و عشرت کی کیفیّت محسوس کرتا ہے مگر آنکھ کھلتے ہی یہ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اور وہ وہیں بستر پر موجود ہوتاہے جہاں لیٹا تھااور اسے گزرے ہوئے وقت کا کوئی اثر محسوس نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر وہ اپنی سابقہ زندگی پر نظر ڈالے اور پیچھے مڑ کر دیکھے تو اسے کچھ محسوس نہیں ہوتا ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی جسمانی ساخت میں ضرور فرق آجاتا ہے اور اسکی توانائیاں آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔

مگر با اینہمہ جب اس خوابوں کی دنیا کی مدت ختم ہوتی ہے یعنی انسان کا انتقال ہو جاتا ہے تو پھر حقیقت کی دنیا کاایک دور شروع ہوتا ہے اس دنیا کو عالم برزخ یا آخرت کی زندگی کہا جاتا ہے اس زندگی میں خواب نہیں بلکہ حقیقت ہی حقیقت ہے اس حیثیت سے کہ جو کچھ انسان نے اپنی گزری ہوئی زندگی میں کیا تھا اسکی جزا اسے یہاں ملنی یعنی اُس دنیا میں اس نے جو کچھ بویا تھا اس کھیتی کو کاٹنے کا وقت اب آ گیا ہے۔
جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا ہے کہ اس زندگی کی ہر لذّت و راحت فانی ہے اور اسکا اثر جلد ہی زائل ہو جاتا ہے بعینہٖ اسکی درد اور تکلیف بھی فانی ہے کہ بڑے سے بڑا زخم بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھر جاتا ہے۔ دیکھئے کہ ایک مزدور، ورکر یا دفتروں میں کام کرنے والے لوگ تھک ہار کر جب شام کو گھر آتے ہیں اور رات کو آرام کرتے ہیں تو صبح کو تازہ دم ہوکر کام پر جاتے ہیں اور کل کے کام کا کوئی اثر یا تھکاوٹ انھیں محسوس نہیں ہوتی، اسی طرح کسی حادثہ میں خدانخواستہ کوئی چوٹ وغیرہ لگ جائے یا زخم آجائے تو وہ بھی علاج سے ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ اسکے بر عکس روحانی تکلیف کا زخم کبھی نہیں بھرتا اور جوں کاتوں باقی رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ روح کی تکلیف کیا ہے؟

اس بات کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ارواح کو پیدا کس لئے کیا گیا تھا؟ تو قرآن پاک میں ارواح کا مقصد پیدائش بیان کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اورجب آپکے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی ارواح کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟سب نے جواب دیا کیوں نہیں ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم انکے بعد انکی نسل ہے ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈالے گا؟‘‘(الاعراف :۱۷۳)ان آیا ت کا مفہوم یہ ہے کہ ازل سے ابد تک جو ارواح بھی اس دنیا میں آئیں گی ان کا ایک ہی مقصد پیدائش ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی پہچان اور اسکی عبادت! بقول شاعر.....
بندہ آمد از برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی

ارواح نے جو عہد’’ یوم الست‘‘کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے کیا تھا اسے یاد دلانے کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک عظیم الشان سلسلہ انبیآء علیہم السلام قائم فرمایا جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے جنہوں نے اپنے قول و عمل سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ انکا مقصد پیدائش کیا ہے۔ اب جو لوگ اپنی زندگیوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کے مطابق گذاریں گے انکی ارواح کو دائمی سکون و راحت نصیب ہو گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ بیشک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئے اور مشرکین یہ سب دوزخ کی آگ میں جائیں گے جہان وہ ہمیشہ (ہمیشہ) کیلئے رہیں گے۔یہ لوگ بد ترین خلائق ہیں۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے یہ لوگبہترین خلائق ہیں انکا بدلہ انکے رب کے پاس ہمیشگی والی جنتیں ہیں جنکے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور یہ اس سے راضی ہوئے یہ اس کیلئے جو اپنے پروردگار سے ڈرے‘‘(البیّنہ:۸) لہٰذا جولوگ سیدھے راستہ سے ہٹ جائیں گے انکی ارواح ہمیشہ کیلئے تکلیف اور عذاب میں مبتلا رہیں گی اور انہیں کبھی چین نصیب نہ ہوگا۔

امت مسلمہ کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ کلمہ گو مسلمان اگرچہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ایک نہ ایک روزدوزخ سے نکلے گا اورجنت میں داخل ہوگا۔ حدیث شریف ہے من قال لا الٰہ الا اللہ دخل الجنۃ کہ جس نے کہا لا ا لٰہ الااللہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔(المشکوٰۃ) جب گناہگار مومن دوزخ سے نکال لئے جائیں گے اور کفار اور مشرکین ہی باقی رہ جائیں گے تو دوزخ کا منہ بند کر دیا جائے گا اور وہ لوگ ہمیشہ کیلئے اس میں جلتے رہیں گے اور وہاں سے نکلنا نصیب نہ ہوگا۔یہ ہے روح کی تکلیف کی مثال کہ جسکا زخم کبھی نہیں بھرتا اور وہ دائمی عذاب میں گرفتار رہے گی۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان جسم کی اس تکلیف کو برداشت کر لے جو گزرے ہوئے وقت کے ساتھ ایک خواب کی مانند ہو جاتی ہے یعنی اسلامی تعلیما ت پر عمل!!اوریہ اس کیلئے اس ’’خوابوں کی دنیا‘‘ سے لے جانے والا بہترین زاد راہ ہے جس کا صلہ جنت ہے اور جس کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں اور انہیں کبھی زوال نہیں اور جہاں اسکی روح ہمیشہ کے سکھ چین میں رہے گی ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے اطمینان والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا‘‘(الفجر:۳۰)
Mohammad Rafique
About the Author: Mohammad Rafique Read More Articles by Mohammad Rafique: 6 Articles with 9767 views I am a true Sunni Muslim and want to serve Islam and the Muslimeen. May God Give us "Taufeeq" to do so.Ameen... View More