سانحہ بادامی باغ: کیا خوب ’’ غیرتِ ایمانی ‘‘ ہے

گزشتہ ہفتے لاہور کے مضافات میں واقع بادامی باغ میں عیسائی آبادی پر قیامت ٹوٹ پڑی جب ان کے گھروں پر شر پسندوں نے حملہ کرکے ان کی املاک کو باقاعدہ جلایا گیا۔ یہاں میں نے باقاعدہ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ اخباری اطلاعات کے مطابق شر پسندوں نے صرف ان کے گھروں کو آگ نہیں لائی بلکہ ان کے گھروں سے سامان نکال نکال کر اس کو بھی جلایا گیا۔ اس واقعے پر عیسائی آبادی کا مشتعل ہونا ایک فطری عمل ہے۔

جب اس واقعے کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئیں تو بہت سی باتیں ایسی تھیں جنھوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس پر کچھ بات کروں۔آگے بڑھنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ آپ میرے ساتھ ذرا ماضی کی سیر کیجیے۔یہ سن ۹ ہجری ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے اور نبی اکرمؐ کو اطلاع ملی کہ شام کے عیسائی روم کے بادشاہ ہرقل کی مدد سے مدینہ پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ ہرقل چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر چل پڑا ہے۔ نبی مہربان ؐ نے یہ اطلاعات سن کر مسلمانوں کو تیاری کا حکم دے دیا۔ رمضان کا مہینہ ، سخت گرمی کا عالم، اس کے ساتھ ساتھ مکہ کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی کھجوریں بھی تقریباً پک چکی ہیں لیکن اس وقت جہاد کی تیاری کا حکم ملتا ہے۔ بہر حال جب لشکر کی روانگی کا وقت آیا تو چشم فلک نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ آج تک یہ ہوتا آیا تھا کہ جب کسی ملک پر جنگ کے بادل منڈلاتے تھے اس وقت بادشاہوں کی جانب سے رعایا پر مختلف ٹیکس لگا کر رقم بٹوری جاتی تھی تاکہ جنگی اخراجات پورے کیے جائیں لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل بر عکس تھا اور مسلمان مدینے میں بسنے والے غیر مسلموں( عیسائیوں اور یہودیوں ) کو ان کے جزیے کی رقوم واپس کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے ہیں کہ یہ رقم ہم نے اس معاہدے کے تحت لی تھی کہ اس کے عوض آپ کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی لیکن اب جو معرکہ درپیش ہے شائد ہم آپ کی جان و مال کی کما حقہ حفاظت نہ کرسکیں اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ جزیے کی رقم پر ہمار کوئی حق نہیں ہے۔ ذرا س منظر کو سامنے رکھیں اور پھر آج ہم اپنا طرزِ عمل دیکھیں تو خدا لگتی کہیے کہ کیا ہم لوگ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں؟؟

اب ہم سانحہ بادامی باغ کی طرف واپس آتے ہیں۔یہ واقعہ نہ صرف ہماری انتظامیہ کی بد انتظامی اور ناقص حکمت عملی کا شاہکار ہے بلکہ یہ ہماری منافقت اور دہرے معیارات و طرزِ عمل کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ تفصیلات اس سانحے کی یہ ہیں کہ ساون مسیح اور شاہد نامی نوجوان کا شراب نوشی کے دوران کچھ جھگڑا ہوا۔ دورانِ جھگڑاساون مسیح نے مبینہ طور پر پیغمبراسلام کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے۔جب مقامی آبادی میں یہ بات پھیلی تو وہاں اشتعال پھیل گیا۔ مقامی عیسائی آبادی کے معتبر افراد نے ازخود مبینہ ملزم ساون مسیح کو پولیس کے حوالے کردیا تاکہ فساد نہ پھیلے لیکن انتظامیہ نے ملزم کی گرفتاری ظاہر نہیں کی جس سے مقامی آبادی میں اشتعال مزید بڑھتا چلا گیا۔ انتظامیہ نے عیسائی افراد کی جانب سے توجہ دلانے اور درخواست کرنے کے باوجود نہ تو ملزم کی گرفتاری ظاہر کی اور نہ ہی عیسائی آبادی کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے جس کے باعث یہ سانحہ رونما ہوا۔

دیکھیں توہین رسالت کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے تاکہ کسی بھی فرد کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ نبی مہربان ؐ کی ذات پاک پر گستاخانہ حملے کرے؟ ان کی ذات کو نشانہ بنائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اعتدال کا دامن تھامنا بھی ضروری ہے۔ جو قصور وار ہو صرف اسی کو سزا دی جائے ۔ یہ انتہائی نامناسب بات ہے کہ کسی ایک فرد کے جرم کی سزا اس کے پورے خاندان یا اس کی پوری کمیونٹی کو دی جائے۔ اسلامی ، اخلاقی اور قانونی طور اس بات کا کوئی جواز نہیں تھا کہ ایک فرد کے جرم کی پاداش میں اس کی پوری بستی کو تاراج کردیا جائے۔ یہ اسلام نہیں ہے اور نہ ہی اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے۔

توہینِ رسالت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم توہین عدالت کی کچھ بات کریں تاکہ آگے جو بات کرنے والے ہیں وہ اچھی طرح سمجھ آجائے۔ توہین عدالت صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی فرد عدالت یا ججز کو براہ راست گالیاں دے یا برا بھلا کہے بلکہ کمرہ عدالت کے آداب کا خیال نہ رکھنا، ججز کے کسی فیصلے پر تنقید کرنا، عدالتی نظام کو ہدف تنقید بنانا وغیرہ یہ ساری باتیں توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں یا یہ کہہ لیں کہ ان باتوں پر توہین عدالت کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔

ذرا غور کیجیے دونوں نوجوانوں کا جھگڑا شراب نوشی کے دوران ہوا۔ یہاں یہ دونوں نوجوان توہین رسالت کے مرتکب ہوئے دونوں کے مذہب میں شراب نوشی حرام اور ناجائز ہے لیکن دونوں نے اپنے اپنے مذہب اور نبیوں کے واضح احکام کو پس پشت ڈالتے ہوئے غلط کام کیا اس طرح یہ دونوں توہین انبیاء کے مرتکب ہوئے۔پھر مقامی آبادی کا ردعمل بھی ہماری منافقت کا ثبوت ہے۔سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔اگرکوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘ کیا مقامی لوگوں کے پیش نظر قرآن کی یہ آیت نہیں تھی؟ کیا ان کو نہیں پتاکہ اسلام نے اقلیتوں کے کیا حقوق رکھے ہیں؟؟ کیا ان کی نظروں سے تاریخِ اسلام کا یہ روشن باب ( غزوہ تبوک ) اوجھل رہا تھا؟

پھر یہاں ایک بات اور ہے کہ ہم زنا خوری کریں، رشوت، چوری ،ڈاکا، قتل ، اغوا، شراب نوشی کریں۔ معاشرے میں بے حیائی پھیلائیں،پردے کے احکام کو پس پشت ڈالیں، قرآن کے احکامات پر اپنے نفس کی باتوں پر عمل کریں تو ہم ان ساری باتوں کو تو کوئی اہمیت نہ دیں ، خود ہم مسلم تو دن رات توہین اسلام، توہین رسالت کرتے رہیں لیکن جہاں کسی غیر مسلم کے بارے ذرا شک ہوجائے کہ اس نے کوئی ایسی ویسی بات کی ہے وہاں ہماری ایمانی غیرت انگڑائی لے کر بیدار ہوجاتی ہے۔ہم خود قدم قدم پر نبی مہربان ؐ کے احکامات کو قدموں تلوں روند ڈالیں اس کا ہمیں کوئی احساس نہیں ہے۔سوچیں اور غور کریں کہ کیا توہین رسالت یا توہین اسلام صرف یہی ہے کہ کوئی فرد پیغر اسلام کی ذات کو نشانہ بنائے ؟کیاپیغمبر اسلام کے احکامات پر عمل نہ کرنا توہین رسالت نہیں ہے؟؟

ذرا سوچیے!
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1452533 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More