یہی ہے عبادت یہی دین

زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اب کے رمضان کا مبارک مہینہ آیا تو میں نے اس کا بھرپور استقبال کیا اور اس کی برکتوں اور سعادتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے خصوصی اہتمام کیا۔

سب سے پہلے تو میں نے نماز پڑھنے کیلئے ٹوپی خریدی۔ پھر ایک چمکتی ہوئی خوبصورت تسبیح ہر وقت ہاتھ میں پکڑنا شروع کی تاکہ جو وقت بھی میسر ہو ذکر میں گزرے۔ ایک ایک لمحہ اس ماہ مبارک کا انمول خزانوں پر بھاری ہے۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے میرے تو ہر وقت ذہن پر یہ بات چھائی رہتی ہے کہ رمضان کی ایک ایک گھڑی ایک ایک لمحے کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔

پہلے روزے ہی کو لیجئے سحری ختم ہوئی تو میں مسجد میں گیا اور اگلی صف میں کھڑاہوا۔ ٹوپی میرے سر پر تھی اور تسبیح ہاتھ میں۔ نماز کے دوران میںنے تسبیح سامنے والی جگہ پر رکھی۔

واپس آکر لیٹا تو آنکھ لگ گئی اٹھا تو نو بج چکے تھے۔ دس بجے دکان کھولنا تھی۔ نہا دھو کر روانہ ہوا۔ چوک پر پہنچا تو لال بتی کی وجہ سے رکنا پڑا میری گاڑی کے آگے ایک ٹیکسی تھی۔ بتی سبز ہوئی تو ٹیکسی والا چل ہی نہیں رہا تھا۔ ہارن دیا تو پھر بھی نہ چلا یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ میں کروڑ پتی تاجر ہوں۔ اور یہ مقام میں نے بہت محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹیکسی والے سائیکل سوار یا پیدل چلنے والے چپڑ قناتیے میری زندگی کی پرسکون سطح پر ارتعاش پیدا کریں۔ میں گاڑی سے اترا، ٹیکسی والے کو بازو سے پکڑ کر باہر گھسیٹا اور ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔ وہ کہتا رہا کہ اس کی ٹیکسی خراب ہوگئی ہے اور سٹارٹ نہیں ہو رہی لیکن میں نے اس کی ایک نہ سنی ٹیکسی قابل اعتبار نہیں تھی تو اسے روڈ پر لایا ہی کیوں؟

عید نزدیک ہونے کی وجہ سے گاہکوں کی تعداد میں ان دنوں بتدریج اضافہ ہونے لگتا ہے۔ میں نے کچھ وقت اپنی کپڑے کی دکانوں میں گزارا۔ منیجروں اور سیلز مینوں کی حاضری نوٹ کی اور انہیں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ پاکستانی کی نفسیات بھی عجیب ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے لیکن یہ اب تک میڈ ان جاپان انگلینڈ اور اٹلی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں میں جب بھی تھائی لینڈ چین اور ملائشیا جاتا ہوں، فیکٹریوں کو آرڈر دیتے وقت خصوصی ہدایت دیتا ہوں کہ میرے کپڑے پر جاپان اٹلی اور انگلینڈ کی مہر لگائی جائے۔ چنانچہ جو مردانہ کوٹ پتلون کا کپڑا پندرہ سو روپے فی سوٹ کے حساب سے عام ملتا ہے۔ میری دکان پر وہی چار ہزار روپے فی سوٹ کے نرخ پر بکتا ہے اور ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے خریداروں میں میری دکان کی ایک ساکھ ہے۔ ایک نام ہے۔ اٹلی اور انگلینڈ کی مہر کا اثر اس کے علاوہ ہے۔

ظہر کی نماز میں نے جماعت کے ساتھ ادا کی ٹوپی میرے سر پر تھی۔ تسبیح سامنے رکھی تھی۔ شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر تھے۔ نماز کے بعد میں نے مولانا کی خدمت میں چیک پیش کیا تاکہ مسجد میں نئے پنکھے لگوائیں اور قالین صفیں خریدیں۔

پھر میں نے مقامی باڑے کا رخ کیا یہاں میری کئی دکانیں ہیں۔ ایک دکان صرف سویٹروں کی ہے یہ سارے سویٹر میں نے گوجرانوالہ سے بنوائے ہیں لیکن میرے کارندے اور سیلز مین انہیں ایرانی بتا کر مہنگے داموں بیچتے ہیں شروع شروع میں ایران سے سویٹر کوئٹہ پہنچے اور مقبول ہوئے بس پھر کیا تھا۔ پاکستانیوں نے اتنے زیادہ ایرانی سویٹر بنائے کہ منڈیاں چھلکنے لگیں ۔

کچھ وقت میں نے الیکٹرانک کی دکانوں پر گزارا مقامی بنائی ہوئی استریاں فارن کی بتا کر بکوا رہا ہوں۔ عورتوں کی کریمیں شیمپو اور بناؤ سنگار کا سارا سامان لالہ موسیٰ میں بن رہا ہے لیکن بکتا امپورٹڈ کی طرح ہے اور میں اس کاروبار میں پیش پیش ہوں۔ عصر کی نماز کیلئے تیار ہورہا تھا کہ انکم ٹیکس کا انسپکٹر آگیا۔ اس کے ساتھ دو لاکھ پر بات طے ہوئی۔ یہ دو لاکھ اسکی جیب میں نہ ڈالتا تو قومی خزانے میں لاکھوں روپے جمع کرانے پڑتے۔ انسپکٹر کی مہربانی سے مجھے بہت فائدہ ہوا اور اس کا کام بھی بن گیا۔

ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

آج مسجد میں مدرسہ کے طالب علموں کے لئے افطاری بھجوانی تھی خوب اہتمام کیا۔ نماز تراویح میں میں سب سے اگلی صف میں امام صاحب کے بالکل پیچھے کھڑا تھا۔ ٹوپی میرے سر پر تھی اور تسبیح سامنے دھری تھی۔

Courtsey: The Daily Jinnah

H/Dr. Shahzad Shameem
About the Author: H/Dr. Shahzad Shameem Read More Articles by H/Dr. Shahzad Shameem: 242 Articles with 345697 views H/DOCTOR, HERBALIST, NUTRITIONIST, AN EDUCATIONISTS, MOTIVATIONAL TRAINER, SOCIAL WORKER AND WELL WISHER OF PAKISTAN AND MUSLIM UMMAH.

NOW-A-DAYS A
.. View More