مزے ہیں تو مولویوں کے ہیں

مولوی خلیل کے پاس چند افراد آئے اور کہاکہ ہمارے محلہ کی مسجد کے اما م مسجد و خطیب چلے گئے ہیں ۔ اب ہمارے پاس کوئی امام و خطیب نہیں ہے آپ ہمارے محلہ کی مسجد میں آجائیں ۔ آپ کے ساتھ معقول تعاون بھی کریں گے ۔ مولوی خلیل ان کے ساتھ چلا گیا۔ اپنی ڈیوٹی شروع کردی۔ محلہ داروں سے ملا قاتیں شروع ہو گئیں ۔ کوئی کہتا کہ جو پہلے مولوی صاحب تھے ان کو یہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ محلہ دار مالی تعاون بھی کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی بھی فراہم کر دیا کرتے تھے۔ پھر بھی وہ مسجد چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔ کوئی کہتا کہ یہاں تو جو بھی مولوی آیا ہے اس نے خوب آرام و سکون کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ کوئی کہتا کہ یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں آپ کو کسی قسم کی شکایت نہیں ملے گی۔ اس مسجد کے ساتھ امام مسجد کی رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا۔ مولوی صاحب نصف گھنٹہ کی مسافت پر ایک مدرسہ میں رہائش پذیر تھے اور کھانا ایک ہوٹل سے کھایا کرتے تھے کیونکہ وہ مدرسہ پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے کہ مدرسہ والوں نے رہائش تو دی ہوئی ہے اب ان سے کھانا بھی لیا جائے یہ مناسب نہیں ۔ ایک دن مولوی صاحب نے مسجد کے مہتمم سے کہا کہ مجھے یہاں آئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو ہے مجھ سے یہ کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کھانا کہاں سے کھاتے ہیں ۔ اس پر مہتمم نے کہا کہ میں محلہ داروں سے بات کرتا ہوں ۔ چار سے پانچ دن بعد مولوی صاحب نے پھر پوچھا تو اس نے جواب دیا میں نے بات کی تھی کوئی بھی کھانا دینے کو تیا ر نہیں ۔ پھر ایک نمازکے وقت جب اکثر محلہ دار موجود تھے۔ مولوی خلیل نے اپنا مدعا بیان کیا تو ایک نے کہا میں دوپہر کا کھانا دوں گا ۔ دوسرے نے کہا میں ناشتہ کرایا کروں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں رات کا کھانا دیا کروں گا۔ دن گزرتے گئے ۔تین ماہ ہوگئے تنخواہ نہ ملی تو مولوی خلیل نے ایک بار پھر مہتمم سے کہا کہ کیا یہاں تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اس نے کہا کہ دی جاتی ہے کیوں نہیں دی جاتی ۔ آپ سے پہلے جو مولوی صاحب تھے ان کو ہم چھ ہزار ماہانہ دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے دو سے تین ہزار اور بھی بن جایا کرتے تھے۔ ان کے گھر کی سبزی، کریانہ کا سامان، دودھ وغیرہ بھی ہم دیا کرتے تھے۔ مولوی خلیل نے کہا کہ مجھے تو تین ماہ ہو گئے ہیں ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔ مہتمم نے کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ سب محلہ دار کاروباری افراد ہیں یہ اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ آپ کیلئے آپ کی تنخواہ اکٹھی کر سکے۔ آپ سے پہلے جو مولوی صاحب تھے وہ اپنی تنخواہ خود اکٹھی کیا کرتے تھے۔ ہم آپ کو بتا دیتے ہیں کہ کون کہاں کام کرتا ہے کس کی کہاں دکان ہے آپ خود جاکر ان سے اپنی تنخواہ لے آیا کریں ۔ پھر اس نے مولوی صاحب کو سب کی فہرست بنا کر دی کہ کون کہاں کام کرتا ہے اور کس کی کہاں دکان ہے ۔ اس کے پاس جو کرنسی تھی وہ ختم ہو گئی وہ اب اپنی آمدنی شروع کرنے کی کو شش میں تھا ۔ وہ سب سے پہلے لنک روڈ پر محلہ دار کی دکان پر گیا وہ سینٹری کی دکان تھی۔ اس سے کہا کہ مجھے آپ کی محلہ کی مسجد میں آئے ہوئے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ابھی تک میرے ساتھ کسی نے مالی تعاون نہیں کیا۔ آپ کے پاس آیا ہوں آپ خوشی سے جتنا چاہیں ہر ماہ میرے ساتھ تعاون کریں ۔ سینٹری والے نے جواب دیا مسجد کاکام ہے ۔ کرتے رہو یہ تو ثواب کا کام ہے اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے کسی انسان سے نہیں۔ مولوی خلیل اس کی یہ بات سن کر واپس مسجد میں آگیا ۔ اور سوچنے لگا کہ کیسے اچھے لوگ ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اچھے اور نیک کاموں کا اجر اللہ پاک سے ہی مانگنا چاہیے۔ دوسرے دن وہ بازار میں ایک بان سٹور پر گیا۔ اس سے بھی کہا کہ مجھے آپ کے محلہ کی مسجد میں آئے ہوئے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے ۔ ابھی تک میرے ساتھ کسی نے تعاون نہیں کیا ۔ آپ کے پاس آیا ہوں آپ ماہانہ جتنا چاہیں میرے ساتھ تعاون کیا کریں اس نے جواب دیا ۔ مسجد میں کام کرتے ہو بڑی اچھی بات ہے۔ نیک کاموں کی اجرت لینا اچھی بات نہیں ہوتی ۔ یہ تو ویسے ہی اللہ پاک کا گھر ہے ۔ اس میں کام کرنے کی اجرت تو بالکل نہیں لینی چاہیے۔ مولوی خلیل وہاں سے بھی خالی ہاتھ واپس آگیا۔ دو دن کے بعد ایک اور دکان میں گیا ۔ وہ بجلی کی دکان تھی۔ اس دکاندار سے بھی وہی بات کی جو اس سے پہلے دو دکانداروں سے وہ کر چکا تھا ۔ اس نے کہا کہ تم کیسے مولوی ہو نیکی کو بیچتے پھرتے ہو۔ مسجد میں کام کرنے کی بھی کوئی اجرت ہوتی ہے۔ اللہ پاک کے گھر کاکام کرتے ہو اللہ تعالیٰ ہی تمہیں اس کا اجر دے گا۔ ایک دن بعد وہ فرنیچر کی دکان میں گیا ۔ اس دکاندار کو اپنی روداد سنائی ۔ اس نے کہا مولویوں کا تو کام ہی یہی ہے کہ خود تو کوئی کام نہیں کرنا سارا دن آرام سے رہتے ہیں اور دوسروں کی کمائی سے کھانے کا ان کو بڑا شوق ہے۔ مولوی صاحب کی یہ باتیں سن کر دل ہی دل میں رنجیدہ ہوا ۔ اور واپس مسجد میں آگیا۔ تین دن کے بعد وہ ایک آئرن سٹور میں گیا اس کے مالک سے ملا اور اپنی داستان سنائی اس نے کہا کیسا زمانہ آگیا ہے کہ اب مولوی نمازوں کو بیچنے پر آگئے ہیں۔ نماز پڑھانے کے بھی کوئی پیسے ہوتے ہیں۔ یہ تو ثواب کا کام ہے۔ اس سے دوسرے دن وہ بلڈنگ میٹریل کی دکان میں گیا اس سے کہا کہ ہر انسان کی ضروریات ہو تی ہیں۔ مجھے آپ کے محلہ کی مسجد میں آئے ہوئے چار ماہ ہونے کو ہیں ۔ میرے ساتھ مالی تعاون کیا کرو ہر ماہ جتنا آپ سے ہو سکے ۔ اس نے کہا کہ ہم بھی کام کر رہے ہیں ۔ مسجد میں نماز پڑھانے کا مطلب یہ تو نہیں کہ عوام سے اس کی قیمت وصول کی جائے۔ یہ کوئی اچھا کام نہیں ہے ۔ مسجد کاکام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے ہی کرنا چاہیے۔ اس سے دو دن کے بعد وہ ایک بھٹہ مالک کے پاس گیا ۔ جو کہ اس کا محلہ دار تھا اس سے کہا کہ ماشاءاللہ آپ کا بزنس اچھا ہے ۔ اس میں سے اپنی مسجد کے امام و خطیب کے ساتھ تعاون بھی کر دیا کریں ۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ ہم اس لیے یہاں محنت نہیں کر رہے کہ مولویوں کو دے دیں ۔ نماز ہم بھی پڑھتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ آپ پڑھا دیتے ہیں۔ آپ نے خود بھی تو پڑھنی ہوتی ہے ۔دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے عزت نفس مجروح ہو تی ہے۔ مولوی خلیل وہاں سے بھی واپس آگیا۔ اب اس نے ایک ہوٹل میں کام کرنا شروع کردیا۔ ڈیوٹی کی وجہ سے کبھی کبھی اس کو دیر ہو جاتی تھی تو محلہ دار کہتے کہ آپ کی یہ بھی ڈیوٹی ہے ۔ کوئی کہتا کہ مولانا صاحب آپ کی شان کے یہ خلاف ہے کہ آپ ہوٹلوں پر کام کریں وہاں کا ماحول آپ کے سامنے ہے۔ محلہ داروں کی نصیحتوں کی وجہ سے اس نے ہوٹل چھوڑ دی ۔ پھر وہ ایک ٹھیکیدار کے پا س گیا جو مکانات وغیرہ تعمیر کیا کرتا تھا ۔ اس سے کہا کہ وہ فلاں محلہ کی مسجد میں امامت کے فرائض ادا کرتا ہے ۔ پیٹ بھی اس کے ساتھ ہے ۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کی پرورش بھی کرنی ہے اس لیے وہ اس کے ساتھ مزدوری کرنا چاہتا ہے ۔ اس نے کہا کہ یہاں تو فل ڈیوٹی دینی پڑتی ہے ۔ آپ تو نماز پڑھانے بھی جائیں گے۔ آپ تو پورا وقت نہیں دے سکتے ہم نے بھی مالکان کو جواب دینا ہوتا ہے۔ مسجد میں بجلی کا ایک بورڈ خراب تھا۔ اس کے کچھ بٹن ٹوٹے ہوئے تھے اور کچھ کام نہیں کر رہے تھے۔ وہ ایک بجلی کی دکان میں گیا جو کہ اسی محلہ دار کی تھی جس کے پاس وہ اپنے لیے مالی تعاون کا تقاضا کرنے گیا تھا۔ اس سے کہا کہ مسجد کا اس سائیڈ پر جو بجلی کا بورڈ لگا ہوا ہے وہ خراب ہو چکا ہے اس کے کچھ بٹن ٹوٹے ہوئے ہیں ۔ کچھ کام نہیں کررہے ہیں ۔ اپنا ایک شاگرد بھیج دیں وہ جا کر اس کو ٹھیک کردے اس نے کہا ضرور ضرور ۔ پھر اس نے شاگرد کو بھیج دیا اور اشاروں ہی اشاروں میں اس کو کچھ ہدایات بھی دیں ۔ اس کا شاگرد مسجد میں آیا اس نے بجلی کے بورڈ میں نئے بٹن لگا دیے۔ بورڈ کو صاف کیا۔ اس کی وائرنگ درست کی ۔ پھر مولوی خلیل سے کہا کہ ڈیڑھ سو روپے بٹنوں کے ہیں اور سو روپیہ مزدوری ہے ۔ مولوی صاحب نے کہا یہ تو مسجد کا کام ہے ۔ دکاندار کے شاگرد نے کہا کہ مسجد کا ہے تو ہم نے بھی رعایت کردی ہے ۔ اگر یہی کام کسی گھر کا ہوتا تو اس سے ہم دو سو روپے مزدوری لیتے آپ کو ایک سو روپیہ مسجد کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔ مولوی خلیل دکاندار کے پاس گیا اس سے کہا کہ تیرے شاگرد نے مسجد کا کام کیا ہے اب پیسے بھی مانگ رہا ہے اس نے کہا اس نے کام بھی تو کیا ہے۔ مولوی نے کہا کہ یہ تو مسجد کا کام ہے۔ دکاندار نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مسجد کا کام ہے ۔ مگر اس کی اجرت تو دینی پڑے گی۔ لڑکے نے آپ کو رعایت کردی ہے۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ مولوی صاحب نے اس سے بل بنوایا ۔ ایک مارکیٹ میں اس کا جاننے والا ایک دکاندار تھا ۔ اس کے پاس گیا اس کو بل دکھایا کہ اس نے مسجد کا کام کرایا ہے ۔ اب یہ بل ادا کرنا ہے اس نے مطلوبہ رقم دے دی تو مولوی خلیل نے اس دکاندار کو دے دیے۔اس کے بعد دن گزرتے رہے۔ ایک دن اس نے ایک محلہ دار سے کہا کہ مجھے گھر کیلئے سودا سلف کی ضرورت پڑتی ہے۔ تین محلہ داروں کے کریانہ سٹور ہیں ۔ اور کچھ نہیں ہوتا اتنا انتظام تو کر دو۔ اس نے کہا کہ ضرور ابھی میرے ساتھ چلیں۔ دونوں ایک کریانہ سٹور پر پہنچ گئے۔ بات چیت ہوئی۔ دکاندار نے کہا مولانا صاحب یہ آپ کی اپنی دکان ہے ۔ آپ جب چاہیں جو چاہیں آکر لے سکتے ہیں۔ مولوی صاحب اس کریانہ سٹور سے سامان خریدتا رہا۔ ایک دن وہی دکاندار مولوی خلیل کے پاس آگیا اس سے کہا کہ آپ نے ابھی تک سامان کی پیمنٹ ادانہیں کی ۔ تین ماہ ہو چکے ہیں ۔ آپ کے ذمہ چار ہزار روپے ہیں ۔ وہ جلد سے جلد جمع کرادیں۔ مولوی صاحب نے کہا وہ تو میں نے اس سے کہا تھا جو اس دن میرے ساتھ گیا تھا ۔ اس پر دکاندار نے کہا کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ مولوی خلیل دو دن کی چھٹی لے کر گھر گیا اس نے ایک بکری فروخت کی اور اپنا یہ قرض ادا کیا۔ مسجد میں بجلی کی موٹر کے ساتھ ایک ہینڈپمپ بھی لگا ہوا تھا۔ اس سے ریت آرہی تھی۔ مولوی نے محلہ میں رہنے والے ایک پلمبر سے بات کی اس نے کہا کہ سامان خود لے آئیں ۔ مرمت میں کردوں گا۔ مولوی خلیل محلہ دار سینٹری سٹور والے کے پاس گیا۔ اس سے سامان خریدا۔ اٹھا کر چلنے لگا تو اس نے کہا اس کی قیمت تو دیتے جائیں۔ اس نے کہا یہ تو مسجد کے ہیں۔ دکاندار نے کہا کہ ہم بھی بچوں کی روزی روٹی کیلئے بیٹھے ہیں۔ ہم رعایت کر دیں گے۔ مولوی سامان لے کر مسجد میں آگیا۔ پلمبر نے اپنا کام کیا۔ تین گھنٹے اس نے کام کیا۔ پھر مولوی صاحب سے کہنے لگا کہ کوئی اور ہوتا تو اس سے سات سو روپے لیتا یہ مسجد کاکام ہے اس کے آپ پانچ سو روپے دے دیں۔ مولوی خلیل نے اس کو پانچ سو روپے دے دیے۔ مسجد کی ایک دیوار پر پلستر نہیں تھا ۔ مولوی صاحب محلہ دار بلڈنگ سٹور والے کے پاس چلا گیا اس سے کہا کہ مجھے مسجد کیلئے چار عدد سیمنٹ کی بوریاں ضرورت ہیں۔ اس نے کہا ایک میں اپنی طرف سے دے دیتا ہوں تین بوریوں کے پیسے چندہ کرکے دے دینا۔ مولوی صاحب سیمنٹ کی یہ بوریاں لے آیا ۔ دوسرے دن صبح کی نماز کے بعد اس نے کہا کہ میں چار بوری سیمنٹ لے آیا ہوں ایک اس نے اپنی طرف سے دی ہے تین کی قیمت ادا کرنی ہے۔ سب نمازی اپنا اپنا حصہ ملا ئیں ۔ چندہ ہوا تو دو بوریوں کے پیسے اکٹھے ہوئے ایک بوری کے بارے میں دو افراد نے کہا کہ وہ جلد ہی اس کے پیسے بھی دے دیں گے۔ پھر مولوی صاحب ان کو بار بار یاد دہانی بھی کراتا رہا ۔ ایک دن مسجد میں کہہ دیا کہ ایک بوری سیمنٹ کے پیسے ابھی تک مجھے نہیں ملے۔ اس پر وہ دونوں ناراض ہو گئے جن دونوں نے اس بوری کی قیمت ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ انہوں نے مسجد میں آنا ہی چھوڑ دیا۔ مولوی خلیل ایک دن ہوٹل میں چائے پینے گیا تو اس کی ساتھ والی میز پر کچھ لوگ بیٹھے تھے اور آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ مزے کررہے ہیں تو مولوی کر رہے ہیں۔ آرام سے نمازپڑھائی پھر موج ہی موج۔ نہ کام نہ کاج ۔ چندے بھی ان کو ملتے ہیں اور یہ خود ہی کھا جاتے ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ مفت میں سب کچھ مل جاتا ہے۔ ایک دن مولوی خلیل نے چند محلہ داروں سے کہا کہ یوں کرتے ہیں کہ تم میرے ساتھ رہا کرو جہاں میں جاﺅں گا تم بھی وہاں جاﺅگے۔ تمہارا جو خرچہ ہو گا وہ میں کروں گا۔ جو میں کھاﺅں گا پہنوں گا تم بھی وہی کھاﺅ گے ۔ وعدہ ہو گیا تم سے کوئی کام نہیں لوں گا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ۔ ہم نے کاروبار کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے بچے ہیں۔ گھر بار ہے۔ ان کے اخراجات ہیں۔ ہم کام پر نہیں جائیں گے تو گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔اس پر مولوی نے کہا کہ پھر میرے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ کوئی بھی ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ دن گزرتے رہے۔ ایک دن مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے ایک ہفتہ کیلئے گھر جانا ہے میرے قریبی رشتہ داروں کی شادی ہے۔ انتظامات میں ان کا ساتھ دینا ہے۔ محلہ دار میں سے کوئی ایک فرد یہ ذمہ داری لے لے کہ وہ روزانہ ہر نماز کے وقت مسجد کھولے اذان دے صفائی کرے ۔ سب نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو بھی آپ سے مسجد کی چابیاں لے گا وہ وقت کی پابندی نہیں کر سکے گا۔ آپ رشتہ داروں سے معذرت کر لیں شادی کے دن ہی چلے جانا ۔ مولوی خلیل ایک مدرسہ میں گیا وہاں سے ایک طالب علم لے آیا اور محلہ داروں سے کہا کہ جب تک میں چھٹی پر ہوں یہ طالب علم آپ کو نمازیں پڑھائے گا۔ میرا کھانا اس کو دیتے رہنا۔ یہ سب کام کرے گا۔ مولوی خلیل گھر گیا اس نے اپنے رشتہ داروں کی شادی کے انتظامات کیے ۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ واپس مسجد میں گیا تو اسے پتہ چلا کہ اسی طالب علم کے ساتھ ہی انہوں نے معاملات طے کر لیے ہیں ۔ اب وہی اس مسجد کا امام اور خطیب ہو گا۔ مولوی خلیل کو انہوں نے مکمل چھٹی دے دی ہے۔ اس نے محلہ داروں سے کہا کہ یہ تم نے کیا کیا انہوں نے کہا کہ تو نے ہمیں بلا وجہ تنگ کیا ہوا تھا۔ تو سب کے پاس پہنچ گیا سب کو شرمسار کیا۔ یہ ہمارے محلہ کی مسجد ہے ہم اس کا کوئی کام کرائیں یا نہ کرائیں ۔ ہم تو ایسے مولوی کو یہاں رہنے دیتے ہیں جو ہماری ہر بات مانے جیسا ہم کہیں وہ ویسا ہی کرے۔ اپنی رائے ہم پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔ مولوی خلیل وہاں سے کسی اور مسجد کی تلاش میں چلا گیا۔ یہ داستان یہاں ختم ہوئی ۔ مولوی خلیل صر ف استعارہ تھا ۔ مولویوں کے خلاف پبلک میں بھی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ اور اخبارات میں بھی خبریں شائع ہو تی رہتی ہیں ۔ مولویوں کے ساتھ لوگ کیا کرتے ہیں اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہ ایک مولوی خلیل نہیں بہت سے مولویوں کی کہانی ہے۔ اچھے لوگ بھی ہر محلہ ، بستی اور شہر میں پائے جاتے ہیں ۔ جو مسجد اور امام مسجد کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں ۔ ایک مسجد کے بارے میں معلوم ہو اہے کہ اس کی انتظامیہ جب دیکھتی ہے کہ اس کے امام مسجد کو کھانسی لگی ہوئی ہے تو وہ چپکے سے کھانسی کا شربت لے کر اس کو دے دیتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں وہ امام مسجد کی ضرورتوں پر نظر رکھتے ہیں اور پوری کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بہت سی مساجد میں معقول وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ رہائش کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ جس طرح سب مولوی ایک جیسے نہیں ہوتے اسی طرح سب نمازی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 304468 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.