سمجھنے والے سمجھتے رہیں گے

کریم فیاض محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ ایک دن وہ مقامی زمیندار ملک نصیر کی فصلوں کو پانی لگا نے گیا ۔ صبح سات بجے سے شام آٹھ بجے تک وہ ٹیوب ویل سے زمیندار کی فصلوں کو سیراب کرتا رہا ۔ آٹھ بجے کے بعد گھر آیا ۔ بیگم سے کھانا مانگا۔ اس نے کھانا دیا ۔ دن بھر کام کرکے تھکا ہو اتھا کھانا کھانے کے بعد لیٹ گیا۔ اس کی بیوی کی بہن آئی ہو ئی تھی ۔ وہ کہہ رہی تھی کہ دیکھو میری بہن نے سارا دن گھر کا کام کیا ہے ۔ گھر کی صفائی کی ہے۔ مویشیوں کو چارہ ڈالا ہے۔ انہیں پانی پلایا ہے ۔ کھانا تیار کیا ہے۔ جب کھانا تیار ہو گیا تو صاحب جی کھانے آگئے۔ سارا دن گھر یاد نہیں تھا ۔ وہ یہ سب کچھ سن رہا تھا۔ خاموش رہا۔ دوسرے دن اس کی بیوی کی بہن چلی گئی۔ وہ بھی اسی طرح محنت مزدوری کرتا رہا۔ اس کی بستی میں ایک مکان تعمیر ہورہا تھا یہ کوئی تین ماہ کا کام تھا۔ وہ روزانہ کام کرنے جاتا ۔ شام کو واپس آتا۔ ایک دن وہ حسب معمول کام کرنے گیا ۔ پانچ بجے اسے وہاں سے چھٹی ملی۔ پھر وہ کھیت میں گیا وہاں سے مویشیوں کیلئے گھاس کاٹا۔ اسے سر پر رکھ گھر آیا ۔ تو اس کی سا س آئی ہوئی تھی۔ اس نے ٹوکہ مشین چلائی اس کی بیوی نے اس مشین میں گھاس دیا۔ اس کی بیگم نے یہ چارہ مویشیوں کو ڈالا۔ کریم فیاض سستانے کیلئے چار پائی پر بیٹھ گیا۔اس کی بیگم نے اسے کھانا دیا وہ کھانا بھی کھا رہا تھا اور اپنی ساس کی باتیں بھی سن رہا تھا ۔ کہ سارا دن صاحب جی فضول آوارہ گردی کرتے رہے شام ہوئی تو تھوڑا سا گھاس لے کر آگئے تاکہ یہ جتا یا جا سکے کہ وہ کام کرنے گئے تھے ۔ گھر کا کوئی خیال نہیں۔ میری بیٹی بیچاری سارا دن کام کرتی ہے اس کو سستانے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ وہ اپنی ساس کی یہ باتیں سنتا رہا۔ اور دل ہی دل میں کہتا رہا کہ اس کو کیا علم کہ میں آج کیا کرتا رہا ہوں۔ پھر چند دن کے بعد اس کی بیوی کی ایک اور بہن آگئی ۔ اس نے دن کے وقت اسی مکان میں مزدوری کی ۔ شام کے وقت کھیتوں سے مویشیوں کیلئے چارا کاٹا اس کو سائیکل پر لاد کر گھر لے آیا۔ اس کی بیگم اور اس نے مل کر ٹوکہ مشین سے اس کا چارہ بنایا اور پھر اس نے مویشیوں کو یہ چارا ڈالا اور اس کی بیگم نے کھانا تیار کیا۔ سب نے مل کر کھایا تو اس کی بیوی کی بہن کہنے لگی۔ بھائی جی ۔ یہ بھی تیری طرح انسان ہے سارا دن گھر کاکام کرتی ہے۔ اس کا ہاتھ بھی بٹا دیا کریں۔ کام تو آپ کو ہوتا نہیں۔ سارا دن دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانے سے بہتر ہے کہ اپنی بیوی کا ہاتھ ہی بٹا دیا جائے۔ وہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا اور اتنا کہا کہ میں محنت مزدور ی کرتا ہوں سارا دن گپ شپ نہیں لگا تا ۔ یہ سنتے ہی اس کا کہنا تھا دیکھو جی نصیحت کی بات کی ہے تو صاحب جی ناراض ہو گئے ہیں۔ دوسرے دن وہ چلی گئی ۔ کریم فیاض بھی اپنی محنت مزدوری کرتا رہا ۔ دو ماہ کے بعد پھر اس کی ساس آگئی۔ وہ مقامی زمیندار کی فصلوں کو ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کرنے گیا۔ صبح آٹھ بجے سے رات وہ فصلوں کو سیراب کرتا رہا۔ اس کی بیگم نے کھیتوں میں جاکر مویشیوں کیلئے گھاس کاٹی اور اپنے بھائی کے بیٹے کو بلا کر ٹوکہ مشین پر اس کا چارہ بنایا اور مویشیوں کو ڈال دیا۔ رات ہوئی تو کریم فیاض اپنے کام سے فارغ ہو کر آگیا ۔ کھانا تیار تھا تھوڑی سستانے بیٹھ گیا اور پھر کھانا کھایا ۔ وہ تھکا ہوا تھا بستر پر لیٹ گیا۔ اس کی ساس کہہ رہی تھی کہ مویشی فضول باندھے ہوئے ہیں۔ ان کو چارہ ڈالنے اور پانی پلانے والا تو کوئی ہے ہی نہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ یہ بیچ دیے جائیں۔ دوسرے دن کریم فیاض پھر ایک دوسرے زمیندار کی فصلوں کو سیراب کرنے گیا وہاں سے وہ فارغ ہوا تو حسب معمول مویشیوں کیلئے گھاس کاٹی اور اس کو سائیکل پر لاد کر گھر لے آیا۔ اس نے تنہا ہی ٹوکہ مشین پر اس کا چارہ بنایا اور خود ہی مویشیوں کو ڈال دیا ۔ اس کی بیوی بھی دیکھتی رہی اور ساس بھی۔ کسی نے اس کی مدد نہ کی۔ رات ہوئی تو سب نے کھانا کھایا ۔ اس کی ساس کہہ رہی تھی میری بیٹی سارا دن کام کرتی ہے کبھی وہ برتن صاف کررہی ہے کبھی وہ گھر میں جھاڑو دے رہی ہے۔ کام بہت زیادہ ہے یہ بیچاری تھک جاتی ہوگی۔ کوئی بھی اس کا ہاتھ نہیں بٹاتا اس کیلئے ایک نوکرانی ہونی چاہیے تاکہ اس پر کام کا بوجھ کم ہو جائے۔ چار دن کے بعد اس کی ساس چلی گئی۔ ایک ماہ بعد اس کا سسر آگیا ۔ اس نے دن بھر مزدوری کی۔ کریم فیاض سسر کے سامنے تنہا ٹوکہ مشین پر چارہ بنایا اور تنہا ہی مویشیوں کو ڈالا اور پھر جب کھانا کھانے لگے۔ تو وہ سسر صاحب کہنے لگے کہ یہ تمہاری منکوحہ ہے تم نے ہی اس کا خیال رکھنا ہے سارا دن کام کرتی ہے اس کو سستانے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ جو بھی یہاں سے ہو کر گیا ہے اس نے یہی بتا یا ہے کہ میری بیٹی کو بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اس نے کہا کہ چچا جان میں بھی تو سارا دن محنت مزدوری کرتا ہوں اور تھکا ہو اہوتا ہوں تو سسر صاحب کہنے لگے تم ہو بھی تو مرد نا وہ تو عورت ہے اس پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ وہ برداشت نہ کرسکے۔ اس نے اپنے رشتہ داروں کی باتوں سے تنگ آکر مویشی بیچ ڈالے۔ اس کے سسرال کو علم ہوا تو کوئی آکر کہتا کہ یہ تو نے جو مویشی بیچے ہیں ۔ جو پیسے ملے ہیں وہ خرچ ہو جائیں گے یوں کرو کہ اپنی بیگم کیلئے زیور بنوالو۔ کوئی کہتا کہ ایسا موقع پھر آئے نہ آئے ایک سوٹ اپنا خرید لو اور چار سوٹ اپنی بیوی کیلئے خرید لو۔ پھر ایک ماہ بعد پھر اس کی ساس آگئی۔ وہ سارا دن مقامی زمیندار کے کھیت سے جڑی بوٹیاں صاف کرتا رہا یہ اس کا ایک ہفتہ کاکام تھا ۔ شام کو آیا تو اس نے چولہے کی آگ درست کرنا شروع کردی ۔ اس کی بیوی نے روٹیاں پکائیں ۔ اس نے دوسرے چولہے پر سالن تیار کیا۔ سب نے مل کر رات کا کھانا کھایا۔ اس کی ساس کہنے لگی کہ میں نے کہا تھا کہ نوکرانی رکھ لو گھر کاکام بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کریم فیاض نے کہا کہ چچی جی میں محنت مزدوری کرتا ہوں میں نوکرانی کو تنخواہ نہیں دے سکتا۔ اس کا یہ کہنا تھا تو اس نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کو لے کر جارہی ہوں پھر خود ہی سارے کام کرنا ۔ پھر میں پوچھوں گی کہ نوکرانی کی ضرورت ہے یا نہیں دوسرے دن اس کی ساس اور بیگم چلی گئیں۔ تین ماہ بعد بڑی کوششوں سے بیگم صاحبہ واپس آئیں۔ اس کے ڈیڑھ ماہ بعد اس کا سسر آگیا ۔ کریم فیاض دن بھر ایک مکان میں مٹی سے بھرائی کرتا رہا۔ سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے گھر آیا ۔ تو اس نے گھر میں دیکھا کہ برتن صاف نہیں تھے۔ اس نے نلکا چلایا اس کی بیوی نے برتن دھوئے۔ پھر اس نے سالن پکایا اس کی بیگم نے روٹیاں پکائیں۔ سب نے مل کر کھانا کھایا ۔اس کا سسر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ رات کو اپنے داماد سے کہنے لگا کہ اپنی بیگم پر کام کا زیادہ بوجھ نہ ڈالا کرو ۔ یہ بیچاری تھک جاتی ہے۔ دن گزرتے رہے ۔ کریم فیاض بھی محنت مزدوری کرتا رہا ۔ ایک دن اس نے اپنے سب رشتہ داروں کی دعوت کی۔ اس میں اس کے سسرال بھی تھے اور دیگر رشتہ دار بھی۔ اس نے ان کی خاطر تواضع کیلئے کھانا پکانے کیلئے اپنی ہی بہن کو بلالیا۔ کھانا لگانے کا وقت آیا تو برتن پورے نہ تھے اس نے اپنی بیگم سے پوچھا کہ گھر میں اتنے برتن تھے۔ فلاں فلاں برتن میں نے تیرے جہیز کیلئے خریدے تھے۔ فلاں فلاں برتن میں بعد میں بازار سے لے آیا تھا ۔ اب ان میں سے آدھے بھی نہیں ہیں۔ اس کی بیوی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ۔ کریم فیاض نے کہا کہ تو جو سارا دن گھر میں رہتی ہے ۔ جواب ملا کہ میں کوئی چوکیدار نہیں ہوں تیرے گھر کی۔ اس نے ہمسائیوں سے برتن منگا کر مہمانوں کی خاطر تواضع کی۔ دعوت کے بعد سب چلے گئے۔ اس نے پھر بیگم سے پوچھا کہ تو یہاں کس لیے بیٹھی ہے لوگ برتن بھی لے گئے ہیں۔ یہ مفت میں نہیں آتے۔ ادھر سے جواب ملا کہ میں کوئی ذمہ دار نہیں ہوں۔ اس نے کہا کہ آئندہ اگر کوئی نقصان ہوا تو میں تجھ سے پوچھوں گا۔ وہ اپنی محنت مزدوری کرنے گیا۔ اس کی بیوی نے سامان باندھا اور میکے چلی گئی۔ کریم فیاض شام کو گھر آیا تو گھر کو تالے لگے ہوئے تھے۔ رات اس نے اپنے گھر میں گزاری دوسرے دن سسرال پہنچ گیا اور اپنی ساس سے کہا کہ یہ دوسری بار بغیر پوچھے ادھر آرہی ہے۔ میں کام پر جاتا ہوں یہ ادھر آجاتی ہے۔ تو جواب یہ ملا کہ تیرا رویہ اس کے ساتھ اچھا نہیں ہے۔ ایک اور آیا اس نے کہا کہ ہم نے اس کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ کوئی کریم فیاض کے سسر پر برس رہا تھا کہ تو نے ہی یہ رشتہ طے کیا تھا تو ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ کریم فیاض سے کہا گیا کہ تیرے سے بات نہیں ہو سکتی اپنے والد کو بھیجنا وہ اپنے والد کے پاس گیا ۔ اگلے دن اس کے والد اس کے سسرال پہنچ گیا۔ اس نے سب سے اس سلسلہ میں باتیں کیں۔ پھر اس سے کہا گیا کہ بات ایسے نہیں بنے گی تم باپ بیٹا دونوں آﺅ۔ اس سے اگلے دن باپ بیٹا دونوں گئے تو کہا گیا تم نہ اسے کھانے کو کچھ دیتے ہو ۔ سارا دن اس سے کام کراتے ہو۔ اس پر کریم فیاض نے کہا کہ یہ بتائے کہ کس دن اس کو کھانا نہیں ملا۔ جب کوئی بات نہ بنی تو پھر کہا گیا تم اب جاﺅ ہم پھر بتائیں گے جو بتانا ہوگا۔ اسی طرح تین ماہ گزر گئے۔ اس کی بیوی اور سسرال کسی بات پر آمادہ نہیں ہورہے تھے۔ وہ اپنی برادری کے اس شخص کے پاس گیا جو برادری کے تنازعات کے فیصلے کیا کرتا تھا اس کو اپنی روداد سنائی اور راضی نامہ کرانے کی درخواست کی۔ اس کا نام واحد بخش تھا ۔ واحد بخش نے سب کو اپنے گھر بلالیا۔ دونوں طرف سے باتیں ہونے لگیں۔ کریم فیاض جو بات کہتا اس کو اہمیت نہ دی جاتی۔ اس کی بیگم اور اس کے سسرال جو بات کرتے سب ہی اس پر اتفاق کر لیتے۔ برادری کے بڑے نے کریم فیاض کے سسر سے کہا کہ اب جو ہوچکا اس کوبھول جاﺅ اپنی بیٹی اپنے داماد کے ساتھ روانہ کردو۔ ادھر سے جواب ملا کہ ہم ایک شرط پر اس سے راضی نامہ کر تے ہیں کہ یہ شہر میں مکان کرائے پر لے اور وہاں جاکر رہے۔ وہ شہر گیا اس نے مکان تلاش کیا دو ہزار روپے ماہانہ کرایا پر اس کو ایک مکان مل گیا۔ وہ اپنی بیوی کو لینے اپنے سسرال آیا تو اس کی ساس نے کہا کہ آئندہ اس پرتشدد کیا توایسا سبق سکھاﺅں گی کہ زندگی بھر یاد رکھے گا تو۔ وہ اپنی بیوی کو لے کر اپنے گھر آیا سامان سمیٹا اور ڈالا پر لاد کر شہر آگیا۔ شہر میں وہ مزدوروں کے اڈے پر جا کر کھڑا ہو جاتا ۔یہاں مزدوروں کا ہجوم ہوتا ۔ کبھی اس کو مزدوری ملتی اور کبھی نہ ملتی۔ اس کو ایک پرائیویٹ دفتر میں چپڑاسی کسی نے لگوا دیا۔ وہ صبح آٹھ بجے سے دو بجے دوپہر تک دفتر میں ڈیوٹی دیتا۔ شام کو ایک ہوٹل میں جاکر ان کے برتن دھوتا چائے دے آتا وہاں سے اس کو پچاس روپے روزانہ ملتے۔ اس کی بیوی روز فرمائشیں کرتی۔ کبھی کہتی کہ اس نے آج گوشت کھانا ہے۔ کبھی کہتی آج ایک کلو اچھے والے سیب لے آنا ۔ وہ بیچارہ اس کی فرمائشیں پوری کرتا رہا۔ ایک دن اس نے کہا کہ اس کو دو سوٹ لے کر دو۔ وہ بازار گیا اور سوٹ لے کر آیا ۔ اس کی بیگم نے کہا یہ تو سوٹ لے آیا مجھے یہ پسند نہیں ہیں۔ اس سے مہنگے لے آ اس نے کہا کہ میں مزدوری کرتا ہوں کوئی افسر تو نہیں ہوں کہ اتنے مہنگے سوٹ لے آﺅں۔ میں یہی ہی خرید سکتا تھا۔ اس کی بیگم نے اس وقت یہ سوٹ لے کر رکھ لیے اس سے اگلے دن وہ اپنے دفتر ڈیوٹی کرنے گیا ۔ اس کی بیگم نے اپنا کچھ سامان اٹھایا اور میکے آگئی۔ دوسرے دن اس نے دفتر سے چھٹی لی اور سسرال آگیا۔ اپنی ساس سے کہا کہ تیری بیٹی نے یہ کیا اچھا کیا ہے کہ گھر اکیلا چھوڑ کر ادھر آگئی ہے۔ میں نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے کہ یہ پھر بھاگ آئی ہے۔ اس کا سسر آگیا اور کہا کہ ہم نے بہت برداشت کیا مگر تو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔ رشتہ دار ان کے گھر آتے رہے۔ اور ان کو سمجھاتے رہے کہ شادی کے بعد ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ ایک رشتہ دار نے دباﺅ ڈالا تو اس کو کہا کہ ہمارے داماد کو بھیج دو ہم اپنی بیٹی اس کے ساتھ روانہ کردیں گے۔ کریم فیاض اپنے سسرال گیا۔ اس نے کہا کہ مجھے فلاں نے بھیجا ہے۔ پوچھا گیا کہ کیوں بھیجا ہے ۔ اس نے کہا کہ تم نے ہی تو اس کو کہا تھا کہ مجھے وہ آپ کے پاس بھیج دے۔ پھر اس سے کہاگیا کہ تم نے اب تک جو کیا ہے اس کی معافی مانگو۔ اس کے بعد تم ہماری باتوں کو مانو گے تو تمہاری بیوی تمہارے ساتھ جائے گی ورنہ نہیں۔ وہ باتیں یہ ہیں کہ تم اس کو نہیں روکو گے کہ یہ جہاں چاہے جائے۔ جو چیز لانے کا کہے وہ تجھے لا کر دینی ہوگی۔ اس کو روزانہ تین سو روپے جیب خرچ دینا ہوگا یہ اس کو جہاں چاہے گی خرچ کرے گی ۔ تو اس سے نہیں پوچھے گا۔ اس نے کہا کہ تین سو روپے تو کماتا ہوں وہ میں اس کو دے دوں میں مکان کا کرایہ بھی دینا ہے۔ گھر کے اور اخراجات بھی ہیں۔ تین سو تو نہیں دے سکتا ۔ جتنا ہو سکا میں دیتا رہوں گا۔ اس کی ساس نے کہا پھر ہم بھی سوچیں گے پھر بتائیں گے۔ رشتہ دار آتے رہے اور صلح صفائی کی کوششیں کرتے رہے مگر کریم فیاض کے سسرالیوں نے کسی کی بات نہ مانی۔ کریم فیاض نے پھر پنچائت بلا لی ۔ پنچائت میں فریقین نے اپنی اپنی بات کی۔ پنچائت ان کے درمیان فیصلہ کرانے میں ناکام رہی۔ کسی نے کہا کہ ہم یہ معاملہ گھر میں بیٹھ کرطے کر لیں گے۔ کریم فیاض نے سب کو ایک کہانی سنائی۔ کہ دو میاں بیوی کسی گاﺅں میں رہتے تھے۔ اس کی بیوی کہتی کہ میں نے باہر جانا ہے چلو میرے ساتھ چلو مجھے ڈر لگتا ہے وہ اس کے ساتھ جاتا ۔ ایک رات دیر سے اس کی آنکھ کھلی تو اس کی بیگم نہیں تھی۔ اس وقت وہ سو گیا۔ رات کا آخری پہر تھا اس کی بیوی نے کہا کہ میں نے باہر جانا ہے چلو میرے ساتھ مجھے ڈرلگتا ہے۔ اس وقت وہ اس کے ساتھ چلا گیا۔ دوسری رات وہ جان بوجھ کر جلدی سو گیا وہ بھی جلدی چلی گئی یہ سمجھ کر کہ اس کا میاں آج جلدی سو گیا۔ وہ گئی اور میاں بھی اس کے پیچھے۔ چھپ کر سب کارروائی دیکھتا رہا۔ اس کے بعد کریم فیاض نے کہا کہ میں اگر یہ بتا دوں کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا تو اس سے بھونچال آجائے گا۔ اس کے بعد وہ پنچائت برخواست کر دی گئی۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد اس کو دھمکیاں دے کر اس سے طلاق لے لی گئی۔ وہ اپنے دفتر میں چھڑکاﺅ کر رہا تھا اس کو کسی نے کہا کہ ہم نے ایک پروگرام بنایا ہے وہاں کھانے کا انتظام بھی ہو گا اور غریبوں کی امداد بھی کی جائے گی۔ وہ وہاں گیا تو لکھا ہو ا تھا ہم خواتین کو ان کے حقوق دلوا کر رہیں گے۔ تقریریں کی گئیں سب نے یہی بات کی آج کی عورت بہت مظلوم ہے۔ ان پر گھروں میں تشدد کیا جاتا ہے۔ ان کو گھروں میں قید رکھا گیا ہے۔ وہ یہاں سے فارغ ہوا تو پھر اپنے کام کاج میں مصروف ہو گیا۔ اس سے جو کوئی بھی کہتا کہ ہم آپ کی اور شادی کروا دیتے ہیں تو وہ کہتا کیا تم اس بات کی گارنٹی دے سکتے ہو میرے ساتھ جو سلوک میری سابقہ بیوی اور سسرال نے کیا ہے وہ نئی بیوی اور نئے سسرال نہیں کریں گے۔ کریم فیاض کے سسرال میں سے ایک شخص گھر سے پانچ سو کلو میٹر کے فاصلے پر کام کرتا تھا اور وہ سال کے بعد گھر آتا۔ وہ دو ماہ کی چھٹی پر گھر آیا ۔ اس کو اس طلاق کے معاملہ کا پتہ چلا تو وہ کریم فیاض کے سسر کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اگر تو اور میری چچی چاہتے تو یہ گھر نہ اجڑتا وہ کہنے لگا وہ کیسے تمہیں تومعلوم ہی نہیں کہ اس کا کیا کردار تھا۔ اس نے کہا کہ میں آپ کو اپنے کانوں سے سنی ہوئی باتیں بتاتا ہوں پھر خود ہی فیصلہ کرنا یہ گھر اجڑنے سے تم بچا سکتے تھے یا نہیں۔ اس نے کہا کہ ہم ایک دن اپنا کام کر رہے تھے وہاں بھی ان ہی عورتوں کی بات ہو رہی تھی اس نے کہا کہ میری بیٹی ایک دن ناراض ہو کر میکے آئی۔ میں نے اس کو بیٹھنے نہ دیا اسی وقت اس کو اس کے گھر پہنچایا اور کہا آئندہ اگر اب کی طرح شوہر سے ناراض ہو کر یا اس کی غیر موجودگی میں میرے گھر آئی تو تیری ٹانگیں توڑ دوں گا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ بیس سال ہو گئے ہیں ایک دن بھی میری بیٹی اور داماد کے درمیاں تلخ کلامی بھی نہیں ہوئی۔ ایک اور شخص بتا رہا تھا کہ اس کی بہن روٹھ کر آئی تو ہم نے اپنے بہنوئی کو بھی بلا لیا اس سے صورتحال پوچھی تو اس نے سب کچھ بتا دیا پھر ہم نے کہا اس کو ابھی یہاں سے لے جاﺅ پھر اپنی بہن سے کہا کہ آئندہ اگر تو نے ایسا کیا تو ہم سے برا کوئی نہ ہوگا ۔ بارہ تیرہ سال ہو گئے ہیں ایک دن بھی گھر میں لڑائی نہیں ہوئی۔ ہم نے جو کہنا تھا وہ اس کہانی میں کہہ دیا ہے اب سمجھنے والے سمجھتے رہیں گے کہ ہم نے کیا کہہ دیا ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 304488 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.