توجہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید صاحب۔تعلیمی بورڈ میرپور

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت اسلم ؒ کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایااپنی اپنی تمنا کا اظہار کرو ایک صاحب نے کہامیری دلی تمنا یہ ہے کہ یہ گھر درہموں سے بھر جائے اور میں ان سب کو اللہ کے راستہ میں خرچ کردوں۔ حضرت عمر ؓ نے پھر فرمایا اپنی اپنی تمنا کا اظہار کرو تو دوسرے صاحب نے کہا میری دلی تمنا یہ ہے کہ یہ گھر سونے سے بھرا ہوا مجھے مل جائے اور میں اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کردوں۔ حضرت عمر ؓ نے پھر فرمایا اپنی اپنی تمنا کا اظہار کرو۔ اس پر تیسرے صاحب نے کہا میری دلی تمنا یہ ہے کہ یہ گھر جواہرات سے بھرا ہوا ہو اور میں ان سب کو سب کو اللہ کے راستہ میں خرچ کردوں، حضرت عمر ؓ نے پھر فرمایا اپنی اپنی تمنا کا اظہار کرو۔ لوگوں نے کہا اتنی بڑی تمناﺅں کے بعد اور تمنا کیا ہو سکتی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میری دلی تمنا یہ ہے کہ یہ گھر حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ ،حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت حذیفہ بن یمان ؓ جیسے آدمیوں سے بھرا ہوا ہو اور میں انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مختلف کاموں میں استعمال کروں(کام کے آدمیوں کی زیادہ ضرورت ہے) پھر حضرت عمرؓ نے (ان سب لوگوں کی موجودگی میں) کچھ مال حضرت حذیفہ ؓ کے پاس بھیجا اور (لے جانے والے سے ) فرمایا دیکھنا وہ اس مال کا کیا کرتے ہیں۔ جب حضرت حذیفہ ؓ کے پاس وہ مال پہنچا تو انہوں نے سارا تقسیم کر دیا۔ پھر حضرت معاز بن جبل ؓ کے پاس کچھ مال بھیجا انہوں نے بھی اسے تقسیم کر دیا۔پھر حضرت ابو عبیدہ ؓ کے پاس کچھ مال بھیجا اور (لے جانے والے سے ) فرمایا دیکھنا وہ مال کا کیا کرتے ہیں (انہوں نے بھی سارا تقسیم کر دیا) پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا میں نے تم سے پہلے کہہ دیا تھا( کہ یہ تینوں کام کے آدمی ہیں اور)ا ن کی ایک خوبی یہ ہے کہ مال دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔

قارئین آج ہم آزاد کشمیر کے وزیراعظم سے ایک ذاتی درخواست کرنے لگے ہیں اس ذاتی درخواست کا تعلق نہ تو کسی قسم کی مالی منفعت کے ساتھ ہے اور نہ ہی راقم عزت مآب وزیراعظم آزاد کشمیر سے کوآرڈینیٹر یا مشیر بننے کی گزارش کرنا چاہتا ہے ماشا ءاللہ اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت پہلے ہی خود کفیل ہے بلکہ کوآرڈینیٹرز اور مشیروں کی ایک فوج ظفر موج پہلے ہی دستیاب ہے اور سننے میں آیا ہے کہ کئی مشیرتو ایکسپورٹ کوالٹی کے بھی ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ مشیر اور کوآرڈینیٹر مقرر کرتے ہوئے عوامی اور خود مختار حکومت نے ”آزاد “فیصلے کرتے ہوئے نظریاتی وابستگیاں بھی فراموش کر دیں اور جیالوں کی قربانیاں بھی ان فیصلوں کی نذر ہو گئیں اور عوامی و شہری مخبریوں اور افواہوں کے مطابق ”پاﺅنڈ پالیٹکس اور لکشمی “ جیت گئے جس کی وجہ سے آزاد کشمیر میں ایک نئی ٹیم سیاست میں متعارف ہوئی۔

قارئین ہم چوہدری عبدالمجید سے جو درخواست کرنا چاہتے ہیں اس کا تعلق ان کے اپنے ماضی کے ساتھ ہے۔ 26جون 2011کے انتخابات سے پہلے جب مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان وزیراعظم تھے تو اس وقت چوہدری عبدالمجید اپوزیشن میں بیٹھ کر وہی کام کیا کرتے تھے جو ہر دور میں مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان کیا کرتے تھے ان دنوں سردار عتیق احمد خان اپنے کسی انتہائی ذہین اور عقل مند ”مشیر “ کی ”ٹپ“پر آزاد کشمیر کے تعلیمی نظام کے حوالے سے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے آزاد کشمیر بھر کے پڑھے لکھے طبقے اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہر فرد کو انگشت بد انداں کر دیا۔ سردار عتیق احمد خان نے آزاد کشمیر کے واحد تعلیمی بورڈ جو میرپور کے مقام پر واقع ہے اسے تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا سردار عتیق احمد خان کے متعلق ہماری دیانتدارانہ رائے ہے کہ وہ ایک انتہائی سمجھ دار، انتہائی ذہین اور مستقبل کا ویژن رکھنے والے سیاست دان ہیں اور ان کا تعلق اس خانوادے کے ساتھ ہے کہ جس نے موجودہ اور گزشتہ صدی کی کشمیر کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلم کانفرنس کی ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کی پالیسی سٹیٹ منٹ کے حوالے سے نیشنلسٹ حضرات اور دیگر بہت سے سٹیک ہولڈرز مختلف رائے رکھتے ہیں لیکن مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کا زہد ، تقویٰ اور انتہائی مضبوط گرفت پر مبنی طرز حکومت اتنا بامعنی اور اثر انگیز رہا ہے کہ ان کی شخصیت اور اثرات کا احاطہ مستقبل کا مورخ کرے گا۔

تو جناب ہوا یوں کہ سردار عتیق احمد خان کو ”قبیلائی عصبیت“رکھنے والے راولاکوٹ کی دھرتی کے ایک عظیم ماہر تعلیم نے یہ تجویز دی کہ تعلیمی بورڈ میرپور کو تقسیم کرنے سے معیار تعلیم بھی بلند ہو گا، پونچھ ڈویژن اور مظفرآباد ڈویژن کے لوگوں کو سہولت بھی میسر آئے گی اور دو نئی جگہوں پر دو نئے بورڈز یا ڈویژنل سطح کے آفس کھلنے سے ”سیاسی بھرتیاں “کرنے سے سیاسی فوائدحاصل ہوں گے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔سردار عتیق احمد خان انتہائی زیرک اور دانشمندہونے کے باوجود اس مشیر پر اعتماد کر بیٹھے اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ تعلیمی بورڈ میرپور کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اس پر موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید جو اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے سراپا احتجاج بن گئے میرپور سے تحریک کاآغاز ہوا میڈیکل کالج میرپور کی تحریک کی طرح ”تعلیمی بورڈ میرپور بچاﺅ تحریک “ کی قیادت چوہدری عبدالمجید کر رہے تھے اور ہزاروں بے لوث اور بے مایہ کارکنوں کی طرح راقم بھی اپنا قلم اور مائک تھامے تحریر اور آواز کا اسلحہ لے کر ان کے پیچھے پیچھے تھا۔ بہت لے دے کے بعد اس فیصلے پر عملدرآمد رکوادیا گیا۔ اس دوران یہ معاملہ عدالت میں بھی زیر سماعت تھا گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے صرف یہ فیصلہ دیا ہے کہ جس فرد نے عدالت میں کیس کیا ہوا تھا وہ اس معاملے کے ساتھ براہ راست کسی بھی قسم کا تعلق نہیں رکھتا اس لیے رٹ خارج کر دی گئی اب یہ خطرہ ایک مرتبہ پھر پیدا ہو چلا ہے کہ ”بقراط صفت ذہین مشیر “دوبارہ حکومت آزاد کشمیر کو گمراہ کرتے ہوئے میرپور تعلیمی بورڈ کے تین حصے کرنے کے معاملے کو اٹھانے والے ہیں۔ یہاں کچھ باتیں آپ کو سمجھانے کے لیے عرض کرتے چلیں۔ پاکستان میں آبادی کی بنیاد پر مختلف تعلیمی بورڈز کام کر رہے ہیں لاہور تعلیمی بورڈ ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی کے بچوں کو تعلیمی قابلیت کا امتحان لینے کی سہولیت دے رہا ہے ، کراچی بورڈ ، فیصل آباد بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، راولپنڈی بورڈ، فیڈرل بورڈ اسلام آباد اور پشاور بورڈسمیت پاکستان کے جتنے بھی تعلیمی بورڈز کام کر رہے ہیں میرپور تعلیمی بورڈ ان میں آبادی کے حساب سے سب سے چھوٹا بورڈ ہے جو تیس لاکھ کے قریب آبادی کو سہولت مہیا کرتا ہے حیران کن ترین امر یہ ہے کہ میرپور تعلیمی بورڈ پاکستان میں کارکردگی کے اعتبار سے سرفہرست ہے اور اس ادارے کی کریڈیبلٹی پر پورا پاکستان اندھا اعتماد کرتا ہے نقل اور کرپشن سے پاک تعلیمی بورڈ میرپور آزاد کشمیر کا سرمایہ افتخار ہے اور بجا طور پر کشمیری قوم اس پر فخر کر سکتی ہے۔ یہ ادارہ چار کروڑ سالانہ بجٹ رکھتا ہے اور تمام اخراجات خود پورے کرتا ہے اور اسے تکنیکی زبان میں ”Autonomos“ یا اپنے اخراجات اپنے وسائل سے پورا کرنے والا ادارہ کہا جاتا ہے اس ادارے میں چند ملازمین سننے میں آیا ہے جو پونچھ اور مظفرآباد ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے ماضی کے دو سربراہان تعلیمی بورڈ سے ساز باز کر کے اس ادارے کے حصے بخرے کرنے کی سازش تیار کی تھی اور باقاعدہ درخواست کاروائی کے لیے وزیراعظم کو بھیجی تھی۔ ہم یہاں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ خدارا ان سازشوں کو روکیے اور جو لوگ انتہائی مذموم مقاصد رکھتے ہوئے آزاد کشمیر کے اس قومی ادارے کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں انہیں بروقت اور سخت ترین ”شٹ اپ کال “دی جائے۔ ہماری ملاقات آج ہی موجودہ چیئرمین تعلیمی بورڈ میرپور پروفیسر مرزا افضل سے ہوئی۔ وہ انتہائی فکر مندی کے عالم میں تمام نشست کے دوران راقم سے اسی معاملے پر گفتگو کرتے رہے پروفیسر مرزا افضل پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ہیں اور موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے قریبی دوست ہونے کے ساتھ ساتھ شاید ان کے استاد بھی ہیں ان کی فکر مندی سے ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ معاملہ اب کچھ سنگین رخ اختیار کر چکاہے اور یوں دکھائی دے رہا ہے کہ عدالت کے فیصلے کو اپنی مرضی کا رنگ پہنا کر کوئی اور رخ دے کر سازشی عناصر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ”قوم کے وسیع تر مفاد میں “ ان سے انہی کے موقف کے مخالف کوئی اور کاروائی کروانے کے موڈ میں ہیں ورنہ پروفیسر مرزا افضل خود اتنے بااثر ہیں کہ وہ چوہدری عبدالمجید سے اس حوالے سے خود بات کر سکتے تھے۔ شاید وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اب پروفیسر مرزا افضل کے دوست ہونے سے بڑھ کر ریاست کے چیف ایگزیٹو ہیں اور مرتبے کا فاصلہ دلوں کی قربتوں کے درمیان حائل ہو چکا ہے۔ ہم وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے اپیل کرتے ہیں کہ ان سازشوں کا راستہ روکا جائے اور ”ایگزیٹو آرڈر“جاری کرتے ہوئے تمام پروسیس کو ریورس کر دیا جائے یہ اختیار ایک امانت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے رکھا ہے۔ ویسے یار لوگ قومی مفادات قربان کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے فوائد کے لیے اس طرح اداروں کو تباہ کر رہے ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے اس وقت تعلیمی بورڈ سوفیصد کارکردگی کا مظاہر ہ کر رہا ہے میرپور جیسے شہر سے لے کر تاﺅ بٹ جیسے دور افتادہ علاقے تک تمام سٹوڈنٹس کو امتحانات سے متعلقہ ہر چیز بروقت ملتی ہے ، امتحانی مراکزنقل سے پاک ہیں، پرچوں کی چیکنگ میں کسی بھی قسم کی کرپشن موجود نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر اخراجات کنٹرول میں ہیں جو کام تعلیمی بور ڈمیرپور چار کروڑ روپے کے بجٹ کے ساتھ کر رہا ہے، آخر یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ وہی کام آٹھ یا بارہ کروڑ میں کروایا جائے اور اس میں کرپشن جیسی لعنت کے متعارف ہونے کا قوی خطرہ بھی موجود ہو بقول چچا غالب یہی کہیں گے۔

بازیچئہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اور نگِ سلیمان مرے نزدیک
اک باد ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جزو ہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گردمیں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گوہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے۔
رہنے وہ ابھی ساغرو مینا مرے آگے
ہم پیشہ وہم مشرب وہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو، اچھا مرے آگے

قارئین چوہدری عبدالمجید کے متعلق ہم نے نوٹ کیا ہے کہ وزیراعظم بننے کے باوجود ان کی طبیعت سے عوامی رنگ عہدے کی گرمی نے دور نہیں کیا ورنہ کرسی پر متمکن ہونے کے بعد بڑے بڑے نیاز مندوں اورعاجزوں کو ہم نے ”گردن میں سریا“آنے والی کیفیت سے دو چار ہوتے ہوئے دیکھا۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید آزاد کشمیر کے واحد وزیراعظم ہیں کہ اسلام آباد کشمیر ہاﺅس، مظفرآباد پرائم منسٹرسیکرٹریٹ اور میرپور میں پرائم منسٹر ہاﺅس میں ان کا نشست خانہ سائلوں، غریبوں اور فریادیوں سے بھرا ہوتا ہے اور ماضی کے برعکس کسی بھی جانب سے ”پرے ہٹ“ کی آواز نہیں سنائی دیتی۔ ہمیں پروفیسر مرزا افضل نے یہ بھی بتایا کہ عدالت کا فیصلہ صرف یہ ہے کہ جس سائل نے رٹ دائر کی تھی وہ اس معاملے سے چونکہ کوئی تعلق نہیں رکھتا اس بنا پر اس کی درخواست خارج کی گئی ہے۔ اب اس معاملے پر کوئی بھی ایکشن لینے کا آخری اختیار بظاہر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے پاس ہے۔ ہماری ان سے مودبانہ گزارش ہے کہ آزاد کشمیر کے بچوں کے تعلیمی مستقبل کو بچانے کے لیے تعلیمی بورڈ میرپور کو بچایا جائے۔ ویسے بھی وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپنے آپ کو نوڈیرو گڑھی خدا بخش کے شہداءکا وارث اور مجاور کہتے ہیں اور ان کے متعلق مشہور ہے کہ آزاد کشمیر میں تعلیمی انقلاب کے بانی وہی ہیں۔ حتیٰ کہ چند اخبارات میں ہم نے کچھ لوگوں کے یہ تاثرات بھی پڑھے کہ ان کے خیال میں چوہدری عبدالمجید آزاد کشمیر کے سرسید احمد خان ہیں۔ یقینا سرسید احمد خان اگر زندہ ہوتے اور وزیراعظم آزاد کشمیر ہوتے تو وہ کبھی بھی تعلیمی خود کشی پر مبنی یہ اقدام ریورس کر دیتے۔ دیکھتے ہیں آزاد کشمیر کے سرسید ثانی وزیراعظم چوہدری عبدالمجید مشیروں کی بات مانتے ہیں یا اس بے مایہ قلم کار کی ۔ البتہ یہ ضرور کہتے چلیں کہ کرسیاں اور عہدے بڑے بے وفا ہوتے ہیں۔ آج اس کے پاس ہیں کل اور کسی کے پاس چلے جاتے ہیں۔ لیکن طاقت ہوتے ہوئے صاحبان اقتدارجو فیصلے کرتے ہیں مورخ اور وقت کی کسوٹی ان کی درستگی یا غلطی کا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
استاد نے شاگرد سے کہا کہ ”بھائی چارہ کو جملے میں استعمال کرو“ شاگرد نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر جواب دیا
میں نے جب دودھ والے سے پوچھا کہ بھائی دودھ اتنا مہنگا کیوں کر دیا ہے تو وہ کہنے لگا ”بھائی ، چارہ “جو مہنگا ہو گیا ہے

قارئین میں امید ہے کہ اس طرح کے طالب علم پیدا کرنے والے اقدامات سے گریز کرتے ہوئے تعلیمی بورڈ میرپور کا تحفظ کیا جائے گا۔ یہی وقت کی آوااورز وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے استاد ، دوست ، کارکن پروفیسر مرزا افضل اور نیاز مند کی درخواست ہے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336838 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More