میڈیا اور اسلام “ کے موضوع پر سالانہ کانفرنس نوجوانوں کی اہم کوشش

ان پرائیوٹ اداروں کا ماحول ایسا ہوتا ہے۔ یہاں آنے والوں کا مقصد اچھے نمبروں کے ساتھ ڈگری حاصل کرکے اچھی نوکری کرنا اور پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ یہاں دو اور دو چار تو سکھایا جاتا ہے مگر اسلام کی تعلیم اور قرآن فہمی کے ساتھ کسی کا دور کا رشتہ نہیں ہوتا۔ اعلیٰ سوسائٹی اور امیر طبقے کے لئے بنائے گئے ان اداروں سے نکلنے والی تمام راہیں فحاشی و عریانی، جدت پسندی اور مغربی نقالی اور ان کی ذہنی غلامی کی طرف ہی جاتی ہوں گی۔ یہ میری سوچ تھی ،جو اب بدلتی جا رہی ہے۔ میری پہلی اور منفی سوچ کو چند روز قبل ہونے والی ایک کانفرنس نے مثبت انداز فکر میں تبدیل کیا۔

یہ انسی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے مین کیمپس میں منعقد ہونے والی سالانہ اسلا می کانفرنس تھی جس کا انعقاد آئی بی اے میں زیر تعلیم نوجوانوں کی ادبی و تعلیمی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے والی اقراء سوسائٹی نے کیا تھا۔ اس بار سالانہ اسلامی کانفرنس کا موضوع ”میڈیا اور اسلام “ رکھا گیا تھا۔ میڈیا سے تعلق ہونے کے باعث یہ کانفرنس میر ے لئے دلچسپی کا باعث تھی۔ کانفرنس کا انعقاد آڈیٹوریم میں کیا گیا جہاں بیرون ملک سے آن لائن شرکت کرنے والوں کے لئے جدید سمعی و بصری آلات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں دونوں کی شرکت کے باوجود احترام اور پردے کو ملحوض خاطر رکھتے ہوئے مردوں کے لئے اگلی نشستیں جبکہ خواتین کے لئے پچھلی نشستیں مختص کی گئی تھیں۔ ڈائنگ ہال میں بھی مرد و خواتین کے لئے الگ الگ انتظام کیا گیا تھا۔کانفرنس میں آئی بی اے کے طلبا و طالبات کے علاوہ صحافت سے دلچسپی رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس میں اسلام اور میڈیا کے باہمی تعلق اور اس سے متعلقہ امور پر دو روز میں ملکی و بین الاقوامی دانشوروں، مذہبی اسکالز اور صحافیوں نے گفتگو کی۔

ان میں شکاگو امریکہ سے تعلق رکھنے والے نومسلم مبلغ دین ایڈی ریڈزووِک، معروف ٹی وی اینکر اور ڈاکو منٹری فلم ساز اویس منگل والا، سابق پاکستانی اداکارہ سارہ چوہدری، معروف بلاگر علی بلاگم والا، مذہبی اسکالر شیخ ماجد محمود، سینئر صحافی مختار عالم، سابق امریکی موسیقار و مبلغ اسلام شیخ ہاشم، امریکی مذہبی اسکالر ڈاکٹر صالح، KSBL شنگھائی چین کے پروفیسر ڈاکٹر فرزاد، معروف کالم نگار و تجزیہ نگار اوریا مقبول جان اور معروف سعودی اسکالر شیخ ابو عبدالسلام نے خطاب کیا۔

مقررین نے اسلام اور میڈیا کے باہمی تعلق اور موجودہ دور میں میڈیا کی اہمیت کے تمام پہلوﺅں پر گفتگو کی، ان تمام موضوعات کا تذکرہ اس تحریر میں تو ممکن نہیں تاہم کانفرنس میں ”موجودہ میڈیا وار کے دوران اسلامی اداروں کی حکمت عملی، دنیا میں پھیلے ہوئے اسلام فوبیا اور مسلمانوں کے منفی تشخص کو ختم کرنے کے عملی اقدامات، میڈیا اور خواتین اسلام، ہالی وڈ اور بالی وڈ کا پولٹیکل ایجنڈا، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دور میں دعوت دین طریقے، الیکٹرونک پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ضابطہ اخلاق کی پابندی اور اسلامی اقدار کا لحاظ رکھنا، تہذیبوں کے تصادم میں میڈیا کا کردار، اسلامی نقطہ نظر سے مختلف میڈیا ذرائع کا استعمال، غیر شرعی وغیرہ اخلاقی مواد و امور سے بچنے کے لئے مسلمانوں کے احتیاطیں ، پاکستانی میڈیا گروپس کے قیام کے اغراض و مقاصد اور ان کو ہونے والی فنڈنگ کا بین الاقوامی سیاست سے تعلق “ جیسے اہم موضوعات کو زیر بحث لایا گیا۔

اس کانفرنس میں جو بات اچھی لگی وہ یہ کہ مقررین نے صرف میڈیا پر طعن و تشنیع کرکے اپنی بھڑاس نہیں نکالی، بلکہ تمام پہلوﺅں کواحسن انداز میں بیان کرتے ہوئے ہر خرابی کو اچھائی میں بدلنے کا حل بھی بتایا۔ کانفرنس میں نوجوان طلبہ و طالبات نے بڑی دلچسپی کے ساتھ شرکت کی اورسوالات و جوابات کے ذریعے تقاریرمیں بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا۔

تعلیمی اداروں سے نکل کر دنیا کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والے ان نوجوانوں میں بہت سے اتباع سنت اور شریعت کی پیروی کے خواہش مند چہرے نظر آئے جن کے دلوں میں اسلام کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ موجود تھی، جو ایک خوش آئندہ بات ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے نوجوانوں نے اس بات کو ثابت کردیا کہ اسلام محض چند عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ دنیا کا ایک جامع اورمکمل نظام حیات ہے۔ مسلم طلبہ کوزندگی کے ہر معاملے اور معاشرے میں کسی بھی حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھنا چاہئے اور اگر انہوں نے صحیح طرح اسلام کا مطالعہ کیا ہوگا تو اس بات کو وہ جانیں گے کہ دنیاکے کسی بھی جائز کام میں اسلام ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ ان کو بہترین رہنمائی کرتا ہے۔

میڈیا اور اسلام کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس اور دیگر معاشی و معاشرتی موضات پر مذاکرے اور کانفرنسوں کا اہتمام کر کے نوجوان نسل اپنی ملی اور معاشرتی ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نوجوانوں کی طرح معاشرے کے تمام طبقات اور شعبہ جات پاکستان اور عالم اسلام کو درپیش مسائل پر مل بیٹھ کر گفتگو کریں اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ ان کو حل کرنے کی لیے عملی جدوجہد کریں۔ یہی عمل ہمارے قومی وقار اور عالمی تشخص کو برقرار رکھ سکتا ہے-
Muhammad Naeem
About the Author: Muhammad Naeem Read More Articles by Muhammad Naeem : 20 Articles with 15563 views Member of KUJ | Sub-Editor/Reporter at Weekly Jarrar & KARACHIUPDATES |Columnist | http://www.facebook.com/Tabssumnaeem
.. View More