صبح کی تابانیاں

آج ہم اور آپ جس نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں ،شاید اس سے زیادہ نازک ترین دور مسلمانوں پر کبھی نہیں آیا ،آج ساری باطل طاقتیں اسلام کے خلاف ایکا کر چکی ہیں اور ساری شیطانی قوتیں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کیلئے بے قرار ہیں ۔راج ناتھ سے لیکر توگڑیا جیسے افراد مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہو چکے ہیں حد یہ تو یہ ہے کہ ہمارے صبر کا امتحان وہ للکار سے لے رہیں ۔آج یہ سب صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ سارے عالم میں مسلمان بے آبرو اور سرنگوں ہیں ،زمین اپنی ساری وسعتوں کے با وجود ان پر تنگ ہو چکی ہے ۔آج پیروں کی ٹھوکریں کھانے کیلئے اینٹ پتھر کم ملیں گے ،مگر غریب مسلمان کا سر آپ ہر جگہ موجود پائیں گے ۔اسلام کی دردناک چیخیں آج فضا میں لرز رہی ہیں ،لیکن اس کی چیخوں کو سننے والا آج کوئی نہیں ۔آج کوئی نہیں جو اس کی کس مپرسی پر دو آنسو بہانے کا بھی روادار ہو،آج ہمارے مذہب کی لاش ہمارے سامنے ہے اور ہم پوری فارغ البالی اور مستی کے ساتھ دادا عیش دے رہے ہیں ۔آہ ! کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ آپ ہیں کون ،اور کن غیور باپوں کی یادگار ہیں آپ ۔ہم انہیں باپوں کی یادگار ہیں جنہوں نے روما کی سلطنت الٹ دی تھی ،صحرانشینوں کی کایا پلٹ دی تھی ،جنہوں نے فقیری میں بادشاہی کی ۔آج بھی ہماری رگوں میں انہیں کا خون دوڑ رہا ہے ۔کیا کسی نے یہ سنا ہے کہ شیر کا بچہ کبھی کتا ہو گیا ہو ،یا کبھی یہ دیکھا ہے کہ شکرے نے چمگادڑ کو جنا ہو،یا ہما کے پیٹ سے الو پیدا ہوا ہو ۔

اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے کہ ان خدا کے شیروں کی اولاد ہوتے ہوئے ہم کتوں کی طرح ذلت پر راضی ہو گئے ۔

یہ کیسا انقلاب حال ہے کہ ان شکروں کی نسل سے ہوتے ہوئے ،ہم نے اپنے اندر چمگادڑوں کی خصلت پیدا کرلی اور اب ہم روشنی سے بھاگتے اور تاریکیوں سے پیار کرتے ہیں ۔یہ کیسا عجیب سانحہ ہے کہ ہما کی طرح با سعادت ہونے کے بعد اب ہم الو وں کی طرح منحوس ہو گئے ۔

یاد رہے کہ قومیں گرتی ہیں تاکہ دوبارہ ابھریں سوتی ہیں تاکہ پھر جاگیں ،پیچھے ہٹتی ہیں تاکہ اور آگے بڑھیں ۔

انسان کی ہر ناکامی اپنے اندر کامیابی کا ایک نیا امکان رکھتی ہے ،ہر شکست کے اندر ایک نئی فتح کی بجلیاں پوشیدہ ہوتی ہیں ،ہر گرنا اس لئے ہوتا ہے تاکہ وہ دوبارہ ابھرنے کی تمہید بن سکے ،آفتاب غروب اس لئے ہوتا ہے تاکہ وہ دوبارہ صبح کی تابانیوں کے ساتھ چکے ،ستارے ڈوبتے اس لئے ہیں تاکہ اگلی شب کو وہ پھر طلوع ہوں ، میرا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ ہم بھی شیر کی طرح دیوانے ہو جائیں دیوانے نہیں بلکہ سانپ کی طرح چوکنے رہنے کی ضرورت ہے ۔اب تک جس دیوانگی کے شکار تھے ،اس سے نکل کر ہوش میں آئیں ،ذلت کی جن پستیوں پر صدیوں سے نازاں ہیں ان سے گھن کھا کر عزت کی بلندیاں ڈھونڈھئے دیکھئے کہ کن کوتاہیوں نے ہم سے حسرت و ذلت کے کانٹے چنوائے ہیں تاکہ پھر انہیں دوبارہ نہ آزمائیں ۔
فلاح الدین فلاحی
موبائل نمبر 9211382663
آرام پارک شاستری نگر دہلی
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102712 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.