پبلسٹی حاصل کرنے کا آسان نسخہ ۔

اُس دِن بابا احمد وقاص بُہت اچھے مُوڈ میں تھے۔ وُہ کئی گھنٹوں سے مجھے اپنی جوانی کے عجیب و غریب واقعات سُنا کر حیران کئے جارہے تھے۔۔۔۔ اگرچہ بابا صاحب نے کئی مرتبہ میرا دھیان اسطرف دِلانے کی کوشش کی ۔کہ،، مجھے فیکٹری جانا ہے اُور سورج کافی بُلند ہُوچکا ہے۔۔۔۔۔ مگر مجھے بابا صاحب کی باتوں میں آج صبح سے ہی ایسا لُطف آرہا تھا۔ کہ دِل وہاں سے اُٹھنے کو قطعی رضامند نہ تھا۔ حالانکہ مُلاقات کیلئے آتے وقت میرا یہی خیال تھا۔ کہ،، میں سلام عرض کرتا ہُوا گُزر جاؤں گا۔۔۔ پھر اچانک بابا صاحب کو نجانے کیا سُوجھی۔۔۔ کہ مجھ سے مخاطب ہُوکر کہنے لگے۔ عین،، ایک بات تو بتاؤ ۔ آخر تم سترہ برس کی عمر سے ہی اِن وظائف و عملیات کے چکر میں کیسے پھنس گئے۔۔۔۔۔؟ حالانکہ ایسی عُمر میں تو بچوں کو کھیل کُود ذیادہ پسند ہُوتے ہیں۔

میں اِس سوال کیلئے ذہنی طور پر قطعی تیار نہیں تھا۔۔۔۔ کچھ لمحے سُوچنے کے بعد میں نے لفظوں کو معنیٰ پہناتے ہُوئے عرض کی۔۔ حضرت میں ایک زبردست عامل بننا چاہتا ہُوں۔۔۔۔ وُہ کس لئے ۔۔۔؟ انہوں نے تعجب سے استفسار کیا۔۔۔۔حرںت جہاں دیکھو جعلی عامل کامل ڈیرا ڈالے بیٹھے ہیں۔ میں لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہُوں۔ اِسلئے میری خواہش ہے کہ ایک دِن میں اِس مُلک کا بُہت بڑا عامل بن جاؤں۔ جو پلک جھپکنے میں ہر مسئلہ حل کردے۔ جسکا مقابلہ دُنیا کا کوئی جادوگر نہ کرسکے۔ اُور جسکا نام سُن کر شریر جنات بھی تھر تھر کانپنے لگیں۔ میرا معصوم سا جواب سُن کر اُنہوں نے ایک قہقہہ بُلند کرتے ہُوئے کہا۔ مطلب تمہیں اپنی زندگی میں سکون نہیں چاہیئے۔

میں اُنکا یہ جواب سُن کر اُنکا مُنہ حیرت سے تکتے ہُوئے سُوچنے لگا۔۔۔ بھلا میں کیوں اپنی زندگی میں سکون نہیں چاہوں گا۔۔۔؟ بلکہ میرا تو خیال یہی تھا کہ اسطرح میری زندگی میں سکون ہی سکون قائم ہُوجائے گا۔۔۔۔۔ انہوں نے حیرت سے کھلی میری آنکھوں میں جھانکتے ہُوئے کہا۔ عین،، جانتے بھی ہُو۔۔۔۔؟ کہ،، تم کس شئے کی تمناٗ کررہے ہُو۔۔۔؟ مگر تُم بھلا کیسے جانو گے۔ کیونکہ یہ عُمر ہی ایسی ہُوتی ہے۔ اُور مجھے خُود اِتنی عُمر میں کوئی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ انہوں نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہُوئے فقرہ مکمل کیا۔

تُمہاری عُمر میں میں مجھے بھی ایسی ہی خواہش ہُوا کرتی تھی۔ لیکن عین میرا مشورہ ہے۔ کہ اِن چکروں میں نہ پڑو۔ حالانکہ میں جانتا ہُوں کہ ابھی تُم پر میری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہُونے والا۔ لیکن میرا فرض ہے۔ کہ تُم کو ابھی سے باخبر کردوں۔ آگے تمہاری مرضی ہے۔ کل کو کم از کم کسی سے شکایت تو نہیں کروگے۔ کہ،، استادوں نے کچھ سمجھایا نہیں تھا۔۔۔۔انہوں نے دھیمے سےمسکرا کر میری جانب دیکھتے ہُوئے گفتگو جاری رکھی۔۔۔ میاں ان چکروں میں پڑنے کے بعد نہ یہ صحت رہے گی۔ اُور نہ ہی زندگی کو آج کی طرح انجوائے کرسکو گے۔ اُور بیٹھے بِٹھائے دِل کو رُوگ الگ لگ جائے گا۔ بابا وقاص نے اتنا کہنے کے بعد ایک پان کی گلوری مُنہ میں ڈال لی۔ جسکا مطلب صاف تھا کہ وُہ اب پانچ منٹ تک گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ یا شائد وُہ مجھے ایکبار مزید سوچنے کی مہلت دے رہے تھے۔

میں نے موقع غیمت جان کر اتنی دیر میں اپنے ذہن میں کلبلاتے سوالات کو مجتمع کرکے ایکساتھ بابا صاحب کے سامنے پیش کردیا۔ بابا صاحب کیا آپ نہیں چاہتے۔ کہ لُوگ ڈھونگی اُور فراڈیئے لُوگوں سے بچ جائیں۔۔۔۔؟ اُور انکی مجبوریوں سے کوئی بد مذہب فائدہ نہ اُٹھا سکے۔۔۔؟ پھر جب میں لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرونگا۔ تو میری زندگی مشکل کیوں ہُوجائے گی۔ اُور عملیات سے بھلا میری صحت پر کیا اثر پڑے گا۔ اُور کیوں میرے دِل کو بھلا رُوگ لگ جائے گا۔۔۔۔۔؟

اُنہوں نے اچھی طرح پان کا لُطف اُٹھانے کے بعد ایک بڑی سی پچکاری قریب رکھے پیکدان کو رسید کرتے ہُوئے اپنی گفتگو شروع کرتے ہُوئے کہا۔ دیکھو ! عین،، میرے اُور تمہارے چاہنے سے کارخانہ ٗ قدرت نہیں بدلنے والا۔ اس کائنات میں اگر ایسے لاکھ عامل کامل بھی پیدا ہُوجائیں جسکا ابھی تُم نے نقشہ کھینچا ہے۔ تب بھی یہ سسٹم جوُں کا تُوں ہی رہے گا۔۔۔۔ حالانکہ چاہتا تو میں بھی ہمیشہ سے یہی تھا۔ کہ لُوگ جعلی عاملوں اُور بد مذہبوں کے چکروں میں نہ آئیں۔ لیکن اب ایک بات مجھ پر واضح ہُوچکی ہے۔ کہ یہ آزمائش کی جاہ ہے۔ اُور ہر ایک کو اختیار کیساتھ منزل چننے کی آزادی ہے۔ ورنہ وُہ قادر مطلق اِس بات پر قُدرت رکھتا ہے۔ کہ شیطان لعین کو پنپنے کا موقع ہی نہ دیتا۔

دوسری بات کا جواب یہ ہے میاں کہ،، تُم بظاہر لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کا سُوچ رہے ہُو۔ لیکن اسکی جزا کی جاہ یہ نہیں ہے ۔۔۔ ورنہ انبیا کرام علیہ السلام کی زندگیاں ظاہری آسانیوں سے بھری نظر آتی۔ لیکن ہر ایک پیغمبر علیہ السلام کی ظاہری زندگی کے مبارک ایام کا مشاہدہ کرلو۔ تب ایک بات اچھی طرح سمجھ آجائے گی۔ کہ جسکا مقام و مرتبہ دُنیا میں جتنا بڑا ہے۔ اُسکی ذمہ داری اُور آزمائش بھی اُسی قدر ذیادہ ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے ۔ انعام الہی کے سبب اُن کے قلوب پر سکینہ نازل ہُوتا ہے۔ اُور صبر کی قوت بھی ذیادہ ہُوتی ہے۔

پھر جب کوئی دنیا کے جسمانی ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے۔ تب وُہ زمین سے حاصِل کی گئی ادویات اُس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ لیکن یہاں جب لوگ آتے ہیں۔ تب آتے ہُوئے اُنکی کمر روحانی امراض کے سبب جھکی جارہی ہُوتی ہے۔۔۔۔ لیکن واپس جاتے ہُوئے یہ لُوگ اُن امراض کو ہماری پیٹھ پر لاد جاتے ہیں۔ جسکی وجہ سے روحانی ڈاکٹر کی کمر دُہری ہُوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن وُہ ہنس ہنس کر ہر ایک تکلیف کو خوشی خوشی خود پر سوار کرلیتا ہے۔ جسکے سبب صحت گرتی چلی جاتی ہے۔ اُور کمر ہر نئے دِن کیساتھ مزید جھکتی چلی جاتی ہے۔

اُور ایک روحانی معالج کا دِل میں اتنی وسعت بھی ہُونی چاہیئے ۔ کہ جب کوئی دُکھی انسان اپنی زندگی کے رازوں سے ہراساں ہُوکر کسی مخلص کو تلاش کرتا ہُوا۔ اُس کے پاس آجائے۔ تب وُہ ہر آنے والے کی درد بھری کہانی کو اپنے سینے کے قبرستان میں بخوبی دفن کرتا چلا جائے۔۔۔ لیکن اسکے لئے بڑا جگر چاہیئے ہُوتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ یہ کہانیاں ایک نہ ایکدِن دِل کو غمزدگی کے نمک سے بُوڑھا کردیتی ہیں۔

پھر بڑا عامل بننے کیلئے پبلسٹی بھی تو چاہیئے ۔ تاکہ مخلوق کو خبر ہُوجائے۔ اُسکا کیا کرو گے۔۔۔۔؟ بابا وقاص صاحب نے میری جانب بغور دیکھتے ہُوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں استفسار کیا۔۔۔ لیکن میری زُبان کی مسلسل خاموشی کو دیکھ کر اُنہوں نے کہا۔ چلو پبلسٹی کا آسان طریقہ ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں۔ جسکی وجہ سے پبلسٹی میں رقم بھی خرچ نہیں کرنی پڑے گی۔۔۔۔ یعنی کے مفت ہی سمجھ لُو۔۔۔۔ اُور ہم تو ویسے بھی تُم سے کوئی فیس نہیں لیتے۔۔۔۔ انہوں نے ایکبار پھر اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہُوئے کہا۔

دیکھو بیٹا ! عین،، جب کوئی اخلاص سے اللہ کریم کے بندوں کی خدمت میں تن من دھن سے لگ جاتا ہے۔۔۔۔۔ تب اللہ کریم رُوح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام کو طلب فرما کر اِرشاد فرماتا ہے کہ،، جبرائیل میں فلاں بن فلاں سے راضی ہُوگیا ہُوں۔ اُور اب یہ بندہ میرا دوست ہے۔ اُور میں اس بندے سے محبت رکھتا ہُوں۔ لہذا تم پر بھی لازم ہے کہ اب تُم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آسمانی فرشتوں کو جمع فرما کر بتاتے ہیں کہ،، فلاں بن فُلاں کو اللہ کریم کی محبت کا اعزاز حاصِل ہُوگیا ہے۔ اُور میں بھی اِس سے محبت کرتا ہُوں۔ اسلئے تم پر لازم ہے کہ تم بھی اس بندے سے محبت کرو۔ یہاں تک کہ زمین پر موجود فرشتوں تک بھی یہ پیغام پُہنچ جاتا ہے۔ پھر دُنیا ئے زمین کے فرشتے ہر مومن و صالح کے دِل میں یہی پیغام پہنچاتے چلے جاتے ہیں۔ جسکی وجہ سے مخلوق کے دِل میں بھی اس بندے کی محبت پیدا ہُوتی چلی جاتی ہے۔

بیٹا اس سے آسان ، دیرپا ، وسیع ، اُور مفت کی پبلسٹی اُور بھلا کہاں میسر آسکتی ہے۔۔۔۔۔۔ اُس وقت بابا صاحب کی کچھ باتیں سمجھ میں آئیں تھی۔ اُور کچھ نہیں۔ لیکن آج جب باتیں سمجھ آنے لگی ہیں۔ تب بابا صاحب ہم میں موجود نہیں ہیں۔ لیکن اب مجھے انکی یاد بُہت ستاتی ہے۔ کیونکہ اب مزید بوجھ کمر پر نہیں اُٹھایا جاتا۔ شائد کہ میں نے امراض کیساتھ ساتھ گناہوں کا اضافی بار بھی اپنی ناتواں کمر پر ڈال لیا ہے۔ اُور تحریر کی رفتار دیکھ کر مجھے بچپن میں جلتی ہُوئی وُہ شمع بُہت یاد آتی ہے۔ جو محدود سہی مگر روشنی پھیلانے کا سبب تو بنتی ہے۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1059440 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More