یورپ کا گھناﺅنا چہرہ بے نقاب ہوگیا

اسلام دشمن یورپین اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔اگر اسلامی ممالک میں کسی عورت اونچ نیچ ہوجائے تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔پوری دنیا میں یہ باور کراتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں عورت مظلوم ہے۔ عورت کی آزادی کے نام نہاد نعرے کی آڑ میں اسلامی قوانین کو تنقید کا نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ یورپ خود کو عورت کے حقوق کا سب سے بڑا داعی کہتاہے، لیکنآج کے مہذب معاشرے میں خواتین کے ساتھ روارکھا جانے والا گھناونا، ہیبت ناک شرمناک اور خوفزدہ کردینے والا والا جو سلوک یورپ میں ہورہا ہے شاید ہی کہیں اور ملک میں ہوتا ہو۔ گزشتہ دنوں عورت کے حوالے سےیورپین میڈیا نے خود ہی یورپ کے گھناﺅنے چہرے پر پڑا نقاب اٹھا کر اس کی بدنمائی سب پر عیاں کردی ہے۔

برطانیہ کے اخبار آبروز کے مطابق برطانیہ میں اسمگل شدہ خواتین کی نیلامی کی جاتی ہے۔ کیمبرج شائر میں پولیس نے 73 مشتبہ جسم فروشی کے اڈوں پر چھاپے مارے جن میں بہت سی زخمی خواتین برآمد ہوئیں، زخموں کے یہ نشانات قحبہ خانوں سے فراریت کا تحفہ تھے۔ اسمگل شدہ خواتین کا جبری استحصال اور جسم فروشی کا دھندا گاوں سے لے کر بڑے شہروں تک پھیلاہواہے۔ انہیں کمرے سے باہرجھانکنے کی آزادی تک نہیں ہوتی اور ایک دن میں تقریباً50 سے 60 افرادکی ہوس پوری کرتی ہیں جس سے اسمگلنگ میں ملوث افرادکو ہزاروں پاونڈ کی آمدنی ہوتی ہے۔ برطانیہ کے وزیرداخلہ نے پولیس فورسز اور سیریس وآرگنائزڈ کرائم برانچ(سوکا) کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس جرم کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپرلائیں کہ ہزاروں بچوں اور عورتوں کو غلام، کنیز بناکر فروخت کیاجارہاہے۔ برطانیہ میں جہاں یہ جرم اس قدر بڑے پیمانے پر ہے کہ پولیس اور ”سوکا“ اپنے ایک چوتھائی وسائل اسٹریٹ کرائمز اور عورتوں کی اسمگلنگ سے نمٹنے پر خرچ کررہے ہیں۔

گزشتہ برس بھی چارماہ پرمحیط ایسا ہی آپریشن شروع کیاگیا تھا جس میں 135 افراد پرانسانی اسمگلنگ سمیت دیگر الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ 500 قحبہ خانوں، مساج پارلروں، گھروں اور دیگر جگہوں سے بے شمار عورتوں اور لڑکیوں کو بازیاب کرایاگیا تھا ۔ جرائم کے تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ” وہ منظم جرائم کو اب اسلحہ اور منشیات فروشی سے جسم فروشی میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ان گروہوں کے چنگل میں پھنسی خواتین کا اس دلدل سے نکلنا بہت مشکل ہوتاہے۔“ نیلام ہونے والی عورت کے ساتھ ایک نگران ہوتاہے۔ مختلف گروہوں کے لوگ قربانی کے جانوروں کی طرح اس کاجائزہ لیتے ہیں پھر”بولی“ شروع ہوتی ہے اور بعض اوقات تو بولی کی رقم بے حد معمولی یعنی ایک ہزار یوروہوتی ہے۔مشرقی یورپ کی خواتین کو بہترزندگی اور روزگارکا جھانسا دیاجاتاہے لیکن مغربی یورپ پہنچنے کے بعد ان سے پاسپورٹ اور دوسری تمام دستاویزات لے لی جاتی ہیں اور پھر ان کو نہایت غلیظ مکانوں میں رکھاجاتاہے بعد میں ان کو نیلام گھروں میں منتقل کردیاجاتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق مشرقی یورپ افریقہ اور مشرقی بعید سے حالیہ اسمگل شدہ دس ہزار عورتوں کو برطانیہ میں فی کس ڈھائی ہزار پاونڈ کے عوض منظم گروہوں کو فروخت کیاگیاہے۔ اس وقت وہ جنسی غلامی میں بندھی ہوئی ہیں۔ جرائم پیشہ سنڈیکیٹ نے نامعلوم تعداد میں عورتوں اور بچوں کو پانچ سے دس ہزارپونڈکے عوض بانڈڈ لیبرمیں فروخت کردیاہے۔

یورپ میں عورت کو ملنے والے حقوق کی داستان مزید سنتے چلیے۔ 24فروری کو 2012ءکے لندن اولمپکس میں 400 میٹر کی دوڑ میں سیمی فائنل میں پہنچنے والے اور پیرالمپکس میں T44 200 میں چاندی کا تمغہ، 4x100 ریلے میں سونے کا تمغہ اور T44 400 میں سونے کا تمغہ جیت کر پیرالمپک ریکارڈ قائم کرنے والے معروف پیرالمپک ایتھلیٹ آسکر پسٹوریئس نے اپنی ہی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس سے کچھ ہی روز قبل شمالی برطانیہ کے شہر لین کاسٹر کے ایک مقامی کالج “چائلڈ کیر” کی طالبہ سولہ سالہ سیشا مارسڈن کو کچھ افراد نے اغوا کرنے کے بعد بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے سر اور چہرے پر چاقو کے کئی وار کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قاتلوں نے اس پر بھی بس نہ کی، انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طالبہ کی لاش کو ایک ہوٹل کے قریب سب کے سامنے ایک مصروف سڑک پر رکھ آگ لگا دی۔ ہوٹل میں کام کرنے والے ملازمین جو کہ واقعہ کے عینی شاہد بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب نامعلوم افراد طالبہ کی لاش کو جلارہے تھے توانہیں ایسا محسوس ہوا کہ کسی پتلے کو آگ لگائی جا رہی ہے، تاہم خون نکلنے سے معلوم ہوا کہ یہ کسی انسان کی لاش ہے۔

پورپ کے حالات وواقعات کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں پر بے انتہا ظلم کیا جاتا ہے لیکن اس کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ صرف 2006ءمیں امریکا میں 2 لاکھ 32 ہزار 9سو 60 خواتین کے ساتھ زیادتی کے مقدمات درج ہوئے، اب بھی روزانہ 600 سے زائد خواتین کے ساتھ جنسی درندگی ہوتی ہے۔ 2005ءمیں 1181 خواتین کو ان کے خاوندوں نے قتل کر ڈالا۔ امریکا میں ہمہ قسم کے جرائم کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ دس شہروں کو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ سٹاک ٹون، راک فورڈ، ہالٹ مور، لٹل راک، آک لینڈ، میمفس ٹن، نیو ہیون کون، ایس ٹی لوئیس میسوری، ڈیٹرائیٹ اور فلنٹ وہ شہر ہیں جو جنسی جرائم کے باعث سب سے زیادہ خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔

سویڈن کے اخبار” یوتے بوری پوستن“ نے سویڈن میں عورتوں پر تشدد کے بارے میں لکھا ہے:” سویڈن میں ہر سال تقریباً بارہ ہزار خواتین اپنے قریبی تعلق رکھنے والے یا واقف کار افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور یہ اعدادوشمار بڑھ رہے ہیں۔ تشدد کا شکار ہونے والی عورتیں اب پولیس کو اطلاع کرنے میں ہچکچاتی ہیں۔ 1992ءمیں10221 اور 1997ءکے پہلے نو ماہ میں یہ تعداد8888 تھی۔ ا ن اعدادوشمار میں وہ خواتین شامل نہیں ہیں جو تشدد کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں کیونکہ وہ مقدمات قتل کے زمرے میں آتے ہیں۔1991-94ءکی رپورٹ کے مطابق ہر سال 21 سے 42 خواتین اپنے ساتھی کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئیں۔

اس سے پہلے ابھی یورپ کو مذہب سے خودساختہ آزادی کا اعلان کیے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ 1888ءمیں لندن کی گلیاں ایک خونی شخص کے خوف سے کانپنے لگیں، یہ شخص ایسی عورتوں کو جو ذرا شوخ لباس پہنتیں اکیلے میں پکڑکر ایک تیز دھار آلے سے ان کی گردن کاٹ دیتا، جسم پر نشان بناتا، پیٹ پھاڑ دیتا اور انہیں عبرت کا نشان بنادیتا تھا۔ جیک دی رپر Jack the Ripperاس کی پہلی شکار خاتون این نکوبس تھی جو چار بچوں کی ماں تھی اور خاوند سے طلاق ہونے کے بعد ان بچوں کو پالنے کے لیے جسم فروشی کرتی تھی۔ 31اگست کی رات جیک دی رپر نے اسے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔ اس کی دوسری شکار خاتون اینی چیپ مین تھی جو کلبوں میں پھول بیچ کر زندگی گزارتی تھی لیکن اس کی آزاد خیالی اسے پسند نہ تھی اور ایک رات اس نے اسے بھی عبرتناک انجام تک پہنچا دیا اور یوں یہ سلسلہ چلنے لگا۔ سنسان جگہوں، دریا کے کنارے، لندن میں چلنے والے 62بازار حسن اس کی شکار لاشوں سے سجنے لگے۔ اسے دنیا کا پہلا سیریل کلر Sirial Killer کہاجاتا ہے۔

اس آغاز سے لے کر آج تک یعنی سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے تک ایسے کئی جیک دی رپر یورپ میں پیدا ہوئے جو عورتوں کے خون سے ہاتھ رنگتے رہے۔ جان آرسزانگ بھی ایک مشہور ومعروف یورپین تھا جو جہاز پر سفر کرتا اور جس شہر میں ایسی عورتیں ملتی اسے قتل کردیتا۔ کینتھ بیانجی جس کے خوف سے لاس اینجلس کی خواتین نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا تھا۔لارنس بٹکر اور رائے نورس جو وین لے کر گھومتے اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھاتے، زیادتی کرتے اور قتل کردیتے۔ مائک ڈیبرا ڈیلین جس کا خوف پورے امریکا پر چھایا رہا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے نام سے زیادہ لقب سے شہرت رکھتے تھے، فری وے کلر Freeway Killer جو بڑی سڑکوں پر نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو تشدد کا نشانہ بناتا اور ماردیتا ۔ بیوٹی کیوئن کلر جس نے فلوریڈا میں خوبصورت خواتین کو بے تحاشہ ذبح کرکے نام کمایا۔ ریورسائیڈ کل Riverside Killer دریا کے کنارے عورتوں کو مارپھینکتا ۔ ہزاروں کی تعداد میں ملنے والے ان سیریل قاتلوں میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ ان سب میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو کبھی بھی مذہب پر عملدارآمد کرنے والے نہ تھے، بلکہ پوری لسٹ میں ایسا کوئی بھی نہیں ملے گا۔ جبکہ سارے جنسی جنونی، بے راہ رو اوراس مہذب معاشرے کی اقدار میں رچے بسے لوگ تھے۔ دنیا میں امریکا کی آبادی صرف چھ فیصد ہے لیکن ساری دنیا کے قاتلوں میں 76فیصد یہاںپائے جاتے ہیں۔ باقی دنیا میں 24فیصد۔ مہذب یورپ میں ایسے 17فیصد قاتل رہتے ہیں۔ ان قاتلوں میں 84 فیصد سفید چمڑی والے یعنی مہذب گورے ہیں۔ ان میں سے 70فیصد ایسے ،جن کی عمریں 20سال سے کم تھیں۔ ہر سال یورپ میں ایسے متعدد نئے قاتلوں کا اضافہ ہورہا ہے اور کئی ہزار عورتیں ذبح ہوتی ہیں۔ ان میں ایسے قاتل بھی ہیںجنہوں نے تین سو سے زائد عورتوں کو قتل کیا تھا۔ پورے یورپ میں جرمنی، فرانس اور انگلینڈ ان قاتلوں کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ یورپ میں اسلحہ اسقدر عام ہوچکا ہے کہ آئے دن بلاوجہ کے قتل عام ہورہے ہیں۔

عورت کے حقوق کے کھوکھلے یورپین نعرے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہکچھ سال قبل تک پورے یورپ میں عورت کا وجود کسی مرد کے زیر تسلط ہی ممکن تھا۔ عورت کو ایسا کوئی حق حاصل نہیں تھا جو ایک مہذب معاشرے میں عورتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اسے حق انتخاب، مالکانہ حقوق اور داد و ستد کا اختیار نہیں تھا۔ بعد میں عورت کو تجارتی میدان اور سماجی امور میں شامل کیا گیا۔ یورپ میں جو عورت کو مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ کیا گیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ کارخانوں نے نئی نئی صنعت اور ٹیکنالوجی کی بساط بچھائی تھی اور ان کو محنت کش مزدوروں اور کام کرنے والوں کی ضرورت تھی لیکن مزدوروں کی قلت تھی۔ عورتوں کو کارخانوں میں لانے اور اس افرادی قوت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا، ان لوگوں نے اعلان کیا کہ عورت کو بھی مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔

اس کے باوجود اہل یورپ اسلامی دنیا کے خلاف اپنا زہر اگلتے نہیں تھکتے، یورپ میں آئے روز اس قسم کے گھناﺅنے واقعات ہوتے ہیں ان پر کوئی شورشرابا نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ چپ سادھ لی جاتی ہے۔ لیکن اسی قسم کا کوئی واقعہ اگراسلامی دنیا میں پیش آجائے تو اس پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے، ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ اسلامی ممالک میں عورت پر بے انتہا ظلم ہورہا ہے۔ خود یورپ میں ہر روز کتنا ظلم ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا؟۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 634555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.