مسئلہ نہیں ہے۔۔۔گلگت بلتستان۔۔۔ بننے نہ دیں

گلگت بلتستان ملک کے شمال میں واقع انتہائی خوبصورت علاقہ ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے بھی گلگت اور سکردو یقینا اہم ہیں لیکن اپنے بچپن کے کچھ خوبصورت سال یہاں گزارنے کے بعد گلگت سے میں نے ہمیشہ جذباتی سی وابستگی محسوس کی ہے۔ میرے ذہن اور یادوں میں جس گلگت کا نقشہ ثبت ہے وہاں مجھے کبھی فائرنگ کی آواز سنائی نہیں دی، چوری کی خبر مجھے یاد نہیں اور سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ کبھی کبھار محرم میں یایومِ عاشور پر کشیدگی ہو جاتی تھی جو بخیریت ختم ہو جاتی تھی، دو ایک بار تو میرے والدِ محترم کو عین عاشورے کے دن انتظامی امور اور جلوس کی ذمہ داری سونپی گئی اور دن بخیریت گزر گیا۔ یہ سب کچھ ان علاقوں میں عرصہ تک ایسا ہی رہالیکن کچھ سالوں سے ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی حالات خراب کیے جانے لگے ،شیعہ اور سنی تصادم عام ہوا بلکہ ایسا کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہاں بھی وہی ہاتھ سرگرمِ عمل ہے جو پورے پاکستان میں بد امنی پھیلانے میں مصروف ہے اور ان عناصر کا یہ واحد حربہ نہیں ہے بلکہ یہ ہر طرح سے پاکستان کی سا لمیت پر ضرب لگانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ گلگت بلتستان جیسے محب وطن لوگوں میں سے بھی اس نے اپنے مطلب کے لوگ ڈھونڈ لیے ہیں اور انہیں حیلے بہانے سے ملک مخالف جذبات پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کے دلوں میں پاکستان مخالف جذبات پیدا کرنے کے لیے مختلف حربے آزمائے جارہے ہیں اور ایسے نفسیاتی طریقے اپنائے جا رہے ہیں کہ ان علاقوں کے لوگوں میں احساس کمتری پیدا کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے گلگت بلتستان نیشنل کانگریس بنوائی گئی جس کا صدر امتیاز حسین نامی ایک سیٹلائٹ انجینئر ہے جو ورجینیا امریکہ میں رہتا ہے جبکہ سینگی ایچ سارنگ نامی شخص ان کا دوسرا کارندہ ہے جس نے واشنگٹن میں انسٹیٹیوٹ آف گلگت بلتستان اسٹڈیز قائم کیا ہے اور اس کا صدر ہے یہ دونوں اشخاص پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کر کے پاکستان مخالف جذبات پیدا کر رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں میں نہ صرف رکاوٹ پیدا کی جا رہی ہے بلکہ ان کے خلاف مہم چلانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے اور ایسا ماحولیات کے نام پر کیا جا رہا ہے کہ یہ ترقیاتی اور تعمیراتی کام گلگت بلتستان کی جنگلی حیات کو نقصان پہچانے کا باعث بنیں گے۔ دوسری طرف امتیاز حسین جیسے لوگ خود کو گلگت کے پسماندہ اقوام کا ہمدرد ظاہر کرتے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ ترقی کے بغیر پسماندگی کیسے دور کی جائے لیکن پاکستان مخالف قوتیں ایسے لوگوں کے ساتھ مسلسل تعاون کر رہی ہیں جس کا ثبوت سینگی ایچ سارنگ اور امتیاز حسین کے مضامین اور مختلف سیمینار ز میں تقاریر ہیں ۔ سارنگ تو انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انیلسیز دہلی کا ممبر ہے اور اس ادارے کا ایک بہت بڑا کام لگتا ہی گلگت بلتستان میں بد دلی پھیلانا ہے اور اس کام کے لیے اسے’’ را‘‘ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جو انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انیلسیز دہلی کے لیے کوئی مشکل کام نہیں اور نہ ہی اس کے ممبر سارنگ کے لیے جو بڑی تسلی سے اپنا کام کیے جا رہاہے ہیں اور اس شخص کو اپنے انہی مدد گاروں کی مدد سے یو این ایچ سی آر کے اجلاس میں شرکت کرنے کا موقع ملا جہاں اس نے گلگت اور ملحقہ علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا رونا رویا اور یہاں کے لوگوں کے لیے ثقافتی ، معاشی اور ماحولیاتی حقوق کا مطالبہ کیا جبکہ اس وقت پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں یہ سب کچھ کسی ایک شہر صوبے اور علاقے تک محدود نہیں اور ان حالات کا یہ پھیلائو بھی ان ہی بیرونی کارندوں کی وجہ سے ہے جو پاکستانیوں کی محبت میں نہیں بلکہ پاکستان کی مخالفت میں ان کی حمایت کر رہا ہوتا ہے تا کہ ان کو مزید برا فروختہ اور پریشان کیا جا سکے اور ان کا مقصد بھی پورا ہوتا رہے اور کام بھی چلتا رہے۔میں ہمیشہ یہ کہتی ہوں کہ دشمن کا کام دشمنی ہے جو وہ بڑی تندہی سے کر رہا ہے سوال تو یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم اس طرح کے لوگوں کو پہلے کھل کر کام کرنے دیتے ہیں اور جب وہ اپنی جڑیں خوب مضبوط کر لیتے ہیں تو پھر بھی ان کی بیخ کنی کرنے کی بجائے شاخ تراشی میں مصروف ہو جاتے ہیں سارنگ اور امتیاز حسین جیسے لوگ شروع میں ہی کیوں نہ نظروں میں آئے اور انہیں پنپنے کا موقع کیوں دیا گیا اور دیا جا رہا ہے۔ کیا ہماری حکومت، ایجنسیاں اور ادارے کسی سد باب کی کوشش کر رہے ہیں ان عناصر اور ان کے ارادوں کی راہ میں کیا کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان مسائل کا حل صرف تب ہی ممکن ہے جب حکومت نہ صرف ان ملک دشمن عناصر پر نظر رکھے بلکہ ان حالات کو پیدا ہی نہ ہونے دے جن کی وجہ سے انہیں سازش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر حکومت امن و امان کے مسئلے کو حل کر لے ،عوام کو روزگار اور با عزت روزی مہیا کر سکے، انہیں سر چھپانے کو چھت اور پہننے کو کپڑا دے سکے تو عام لوگ رزق روزی کمانے کے لیے ان ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں نہ جا سکیں نہ ہی فرقہ واریت کے نام پر اور نہ ہی علاقیت کی آڑ میں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 514839 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.