چالیس سال پر محیط ایک لمحہ

وہ جانتا تھا دفتر میں معذرت کی ایک درخواست جمع کروانے اور مینیجر سے بالمشافہ مل کر اپنے گذشتہ غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجوہات پیش کر دینے کے بعد وہ اپنی نوکری بچانے میں کامیاب ہو جائے گا اور پچھلے بہت دنوں سے التوا میں پڑا کام ‘ اگر وہ ذرا سخت محنت کرے تو آئندہ چند دنوں یا ہفتوں میں بھگتا لے گا۔اور یہ کہ اگر محنت سے کام کرنا جاری رکھے تو ایک عرصے سے رکی ہوئی اس کی ترقی بھی جلد ممکن ہوسکتی تھی۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ آئندہ مہینے اوورٹائم لگا کر وہ اتنے اضافی پیسے اکٹھے کر سکتا تھا جس سے وہ اپنی بیوی کو گرمیوں کے لیے لان کا سوٹ اور بچے کو سائیکل خرید دے جس کے لیے وہ دونوں ایک عرصے سے اصرار کر رہے تھے۔ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے گھر کے سمت ہو لیا۔
لیکن اس خاص دن کے آغاز پر ہر شے اتنی آسان نہیں تھی۔

اس خاص دن کواپنی مرضی سے بتانے کا تہیہ کرنے کے بعد وہ دفتر نہیں گیاتھا۔ سارا دن لارنس گارڈن میں بیٹھا رہا۔ صبح پہاڑی پر موجود بنچ پر جا بیٹھا۔ دوپہر ہوئی تو نیچے کرکٹ گراؤنڈ کے برابر والے پلاٹ میں گھاس پر لیٹ گیا۔ پھر لائبریری سے ملحق کنٹین پر آیا۔ ایک برگر کھایا۔ پیپسی پی۔ دو سگریٹ ریڈ اینڈ وہائٹ کے خریدے۔ ایک سلگا کر کش لگایا۔ دوسرا قمیض کی جیب میںڈال لیا۔ پانچ بجے کے قریب فوارے والے پلاٹ میں آکر پیپل کے پھیلے ہوئے درخت کے نیچے بنچ پر بیٹھ گیا۔

اب سائے گہرے اور روشنی کم ہو رہی تھی۔ اسے پھرسے بھوک محسوس ہو ئی۔وہ گھر جانے کے بارے میں سوچ رہا تھا جب اس نے ایک بچے کو دیکھا جو جانے کب سے بنچ پر اس کے برابر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ بچے کو اپنی جانب دیکھتے ہوئے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔ اس نے چہرے کو موڑا اور دور درختوں کی پھیلی ہوئی شاخوں سے پرے آسمان پر پھیکے سے چاند کو تکنے لگا جو ابھی رات نہیں ہوئی تھی کہ ذرا عجلت میں نمودار ہو گیا تھا۔جوں جوں رات گہری ہو گی یہ بھی گاڑھا ہو گااور اپنے جوبن پر آجائے گا۔ اس نے سوچا اور گردن پھیر کر بائیں جانب دیکھا۔ لڑکا بدستور اسے دیکھ رہا تھا۔

سر کے اشارے سے اس نے لڑکے سے کچھ خاموش سا سوال کیا کہ وہ کون ہے، کیا چاہتا ہے، اسے کیوں اتنے غور سے تک رہا ہے اور کب سے یہاں ہے؟ سوال اتنے زیادہ تھے کہ لڑکے نے محض بے نیازی کی ادا سے مسکرا کرجواب دینے پر اکتفا کیا اور اسے دیکھنا جاری رکھا۔

”تم کہاں رہتے ہو؟“ آخراس نے پوچھا۔ لڑکے نے ہاتھ پھیلا کر پرے درختوں کے جھنڈ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ یہی کوئی تیرہ چودہ برس کا تھا۔ کھلتی ہوئی گندمی رنگت، کتابی چہرہ جیسا خود اس کا تھا۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں، خود اس کی آنکھوں کی طرح۔ منہ کا تنگ دہانہ اور بال پیچھے کو گرائے ہوئے ۔ معلوم نہیں کیوں اسے لگا اتنی عمر میں وہ خود بھی ایسا ہی رہا ہو گا۔

کچھ دیر وہ درختوں کے جھنڈ سے پرے دیکھتا رہا جہاں دور تک پھیلا ہوا باغ تھا اور اس سے آگے سڑک۔ اس کی پرلی جانب دفاتر تھے اور ان کے عقب میں اقامتی علاقہ جو دو دو تین تین کنال کی پر شکوہ کوٹھیوں پر مشتمل تھا۔ لڑکا اپنے حلیے سے متوسط گھرانے کا لگتا تھا جو ظاہر ہے اس دولت مند علاقے میں رہنے سے رہا۔
”پڑھتے ہو؟“ اس نے لڑکے میں دلچسپی محسوس کی۔
”نہیں۔“ لڑکے نے پہلی بار زبان کھولی۔

پھر دونوں خاموش ہو کر اپنے سامنے تکنے لگے۔ لڑکے کو سامنے جنگلے کے وسط میں اوپر تک اٹھتے ہوئے فوارے نے اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا سو اس نے اسے تکنا موقوف کر دیا۔
ایک چنے بیچنے والا ان کے قریب سے گزرا ”مرغ چنے۔ بارہ مسالے۔“
”چنے“ اس نے اسے بلایا۔ ”ایک۔“

چار روپے دے کر اس نے کپی کی شکل میں موڑ کر تکونے بنے ہوئے کاغذ میں بھرے ہوئے چنے خریدے۔ پھر کپی کو کھولا ۔کچھ چنے اپنی ہتھیلی پر گرائے اور پھر اسے لڑکے کی طرف بڑھایا، ”کھا ؤ گے۔“ لڑکے نے کپی لے لی اور منہ کے پاس لا کر یوں ٹیڑھی کی کہ بہت سے چنے اس کے منہ کے اندر لڑھک گئے۔ کپی آدھی سے زیادہ خالی ہو گئی تو لڑکے نے اسے واپس لوٹادی۔
”پڑھتے ہو یا فارغ پھرتے ہو۔“ اس نے پوچھا۔ شکل سے وہ طالبعلم لگتا تھا۔
”نہیں“ لڑکے نے چنوں سے بھرے منہ میں سے گھٹی گھٹی آواز نکالی۔
”کیا کرتے ہو؟“
”کھیلتا ہوں۔“ لڑنے نے پھر سے اس کی طرف دیکھے بغیر کمال بے نیازی سے کہا اور کسی بات پر ہنس دیا۔ سامنے فوارے والے جنگلے کے پاس گیس والا غبارا چھوٹے بچے کے ہاتھ سے چھوٹ کر فضا میں بلند ہو گیا تھا۔ بچہ زاروقطار رو رہا تھااور گھاس پر بیٹھا پیر مار مار کر احتجاج کر رہا تھا۔اس کی نگاہ اوپر بلند ہوتے غبارے سے چمٹی ہوئی تھی۔

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے اپنا بچپن یاد آرہا تھا۔اس نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ چالیس سال کے بعد انسان میں دانش کا ورود ہوتا ہے۔وہ دانا بن جاتا ہے۔ اس نے سوچا کیا دانش اور بچپن کا آپس میں کوئی تعلق ہے؟ دانش کی عمر میں بچپن یاد آنے کے کیا معنی؟ وہ چل دیا۔ پھنکی مار کر چنے اس نے منہ میں ڈالے۔ بچے کھچے چنے ہتھیلی پر ڈالے اور خالی کاغذ پرے پھینک دیا۔ تب ایک عجیب بات ہوئی جس سے اُسے پھر سے بچپن اور دانش کے باہمی تعلق پر سوچنے کی ترغیب ملی۔ لڑکے نے تیزی سے اٹھتے ہوئے گھاس پر سے کاغذ کی کپی اٹھائی اور پاس ہی پیپل کے درخت کے برابر پڑے ہوئے کوڑا کرکٹ کے رنگین پیپے میں پھینک دی۔
”باغ کی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے۔“ لڑکے نے کچھ متانت سے کہا جیسے کسی دوسرے بچے کو کوئی اہم معلومات دے رہا ہو۔ لیکن اس نے لڑکے کی بات کو فہمائش کے طور پر لیا۔ ایک بچہ اسے مہذب دنیا کے اصول بتا رہا تھا۔ مہذب دنیا جس میں رہتے ہوئے اسے چالیس برس مکمل ہونے کو آئے تھے۔

وہ سامنے قائد اعظم لائبریری کی طرف چل دیا جس کے پہلو میں نوتعمیر شدہ چھوٹا سا پارک واقع تھا۔ لڑکا فوارے والے جنگلے کے گرد جہاں جہاں فوارے کی پھوار گر رہی تھی، بھاگتے ہوئے چکر کاٹ رہا تھا۔ وہ چلتے چلتے رک گیا اور لڑکے کو دیکھنے لگا۔ پھوار نے جیسے بچے کو سرشار کر دیا تھا۔اس سے ذرا آگے ایک جگہ‘ جہاںمختلف رنگوں کے پھولوں کی کیاری بنی تھی‘ لڑکا پھر سے ٹھٹھک گیا۔ پھولوں پر تتلیاں رقصاں تھیں جنہیں دیکھ کر لڑکے کے چہرے پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ ان تتلیوں کو مٹھی میں لینے کے لئے وہ بھی لڑکے کے ساتھ یوں لپکا کہ خود بھی محو رقص معلوم ہوا۔ بس تبھی اسے تمام فطرت رقصاں دکھائی دی ۔ فطرت کایہ رنگ اس سے پہلے کبھی اس پر عیاں نہیں ہوا تھا۔ تو کیا یہ دانش ہے، اس نے سوچا۔ تو کیا یہ دانش ہے کہ فطرت اور زندگی کو ویسے دیکھا جائے جیسے ایک نو عمر لڑکا دیکھتا ہے؟
ہوا رکی ہوئی تھی جیسے سانس روکے ہوئے کسی انکشاف کی منتظر ہو۔ اس کے سانس کا زیرو بم بھی سست ہو گیا۔ معلوم نہیں کیا ہو جاتا۔یہ زیرو بم تھم ہی جاتا کہ لڑکا اس کے برابرآن کھڑا ہوا۔
”کھیلو گے۔“
”کیا؟“ اس نے جیسے کسی خواب سے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”درختوں کا کھیل۔“
”درختوں کا کھیل“۔
”میں درختوں کے پیچھے چھپوں گا۔ تم مجھے دھونڈنا۔“

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ درختوں کی طرف دیکھنے لگا۔ لڑکا بھاگتا ہوا ایک چوڑے تنے والے درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ اس نے وہاں جا کر دیکھا۔لڑکا موجود نہیں تھا۔ بس یہی درختوں کا کھیل تھا۔ وہ ایک کے بعد دوسرے درخت کی طرف بھاگنے لگا۔ کبھی اسے لڑکے کی جھلک دکھائی دیتی۔ کسی درخت کے پیچھے لڑکے کی کہنی نظر آتی۔ کہیں اس کا پیر، کہیں اس کا ہاتھ۔ لیکن وہاں پہنچنے پر اسے لڑکا کہیں دکھائی نہ دیتا۔ آخر وہ اسے باباترت کے مزار کے برابر جامن کے بلند درخت کے پیچھے ملا۔
”اب تم چھپو۔“ لڑکا بولا۔ لیکن وہ تھک چکا تھا۔

یوں وہ روزانہ ملتے۔ شام کو دفتر سے چھٹی کر کے وہ لارنس چلا آتا۔ بیٹھتا وہیں اپنی مخصوص جگہ پر قائد اعظم لائبریری کے سامنے فوارے والے پارک میں‘ پھیلی ہوئی شاخوں والے عمر رسیدہ درخت کے نیچے لکڑی کے بنچ پر۔ وہ لڑکا پہلے سے وہاں بیٹھا ہوتا‘ یا اس کے آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد پہنچ جاتا۔ پھر وہ کبھی درختوں والا کھیل کھیلتے۔ کبھی وہ لڑکے کو اپنے بچپن کے قصے سناتا اور کبھی لڑکا اسے مختلف درختوں کے نام، ان پر آنے والے پھلوں اور پھولوں کے بارے میں بتاتا۔ درختوں کے بارے میں لڑکے کی غیر معمولی معلومات اسے حیران کرتیں۔ہر بار جب وہ جدا ہونے سے پیشتر گالف روڈ والے گیٹ پر آتے، تو وہ لڑکے کو دیکھتا جو اسے گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ سیانا، اور کچھ زیادہ عمر کا لگتا۔
پھر ایک روز صبح شیو کرتے ہوئے اس نے اپنی مونچھوں اور کنپٹی کے بالوں میں برف جیسے سفید بال دیکھے۔ اس سے اگلے دن اور پھر اس سے بھی اگلے دن، اسے ان بالوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ محسوس ہوا۔ اس نے اپنی بیوی کو بتایا تو اس ہمیشہ کی بے زار عورت نے جھلا کر اسے دفتر سے سیدھا گھر آنے کو کہا اور تاکید کی کہ دفتر سے کچھ ادھار یا ایڈوانس لے لے، چھوٹے بچے عمران کو سکول میں داخل کرنے کی فیس جمع کرنی ہے۔ پھر وہ اسے بتانے لگی کہ گرمیاں شروع ہو رہی ہیں‘اس کے پاس پہننے کو کوئی ڈھنگ کا سوٹ نہیں ہے۔کبھی وہ اسے گھی، دالوں اور مصالحوں کے ختم ہونے کی خبر سناتی۔ کبھی شکایت کرتی کہ ہمارا بجلی کا بل پچھلے کتنے ہی مہینوں سے محلے کے دوسرے گھروں کی نسبت زیادہ آ رہا تھا اور وہ اس بارے میں کچھ کرتا کیوں نہیں۔

اس باعث کہ بیوی اسے اپنی بات کہنے کی مہلت ہی نہیں دیتی تھی، اس نے ایک مدت سے بیوی کو دل کی بات بتانا چھوڑدیا تھا۔لڑکے سے ہی وہ ساری باتیں کرتا، اور یوں بات کرنے میں وہ اتنا محو ہوجاتا کہ کبھی اسے خیال ہی نہ آتا کہ وہ لڑکے سے بھی اس کی بابت پوچھے۔ وہ کون تھا‘ کہاں رہتا تھا‘ کیا کرتا تھا؟

لڑکا پارک سے نکلنے کے لئے لوہے کا جنگلا پھلانگ جاتا۔ وہ بھی جنگلے کی نوک دار سلاخوں کو مٹھیوں میں لے کر ٹانگ پھیلا کر اوپر چڑھ جاتا اور اس پر سے کود جاتا۔ لڑکا آئس کریم کا کپ ہاتھ میں لے کر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ کے سرے پر بیٹھ جاتا۔ وہ بھی اس کے برابر پھسکڑا مار لیتا۔ لڑکا سڑک پار کرتے ہوئے بھاگتا۔ وہ بھی بھاگتا۔ لڑکا اونچی آواز میں ہندوستانی فلموں کے گانے گاتا۔ وہ بھی اپنی بھدی آواز میں اونچی تانیں اڑاتا۔ لڑکا ہاں کہتا تو وہ بھی ہاں کہتا۔ لڑکا ناں کہتا تو وہ بھی ناں کہتا۔لڑکا اس کا ہم راز ہی نہیں تھا۔ سایہ تھا۔ ایک پرتو تھا۔ ایسے فرد کا جو وہ نہیں تھا، لیکن جیسا بننے کی خواہش‘اور یہ بات اسے بس اب ہی معلوم ہوئی تھی‘اس میں ہمیشہ سے موجود تھی۔

اور پھر یوں ہونے لگا کہ وہ دفتر سے جلدی چھٹی کر لیتا‘ سینما میں فلم دیکھنے کے لئے کہ لڑکا فلموں کا دلدادہ تھا۔ وہ اس کے ساتھ ہر کامیڈی سین پر خوب کھلکھلا کر ہنستا۔ تالیاں پیٹتا۔ منہ میں دو انگلیاں رکھ کر سیٹی مارتا۔ ہر چند دن بعد دفتر والے اسے نوٹس جاری کرتے کہ کام میں بے توجہی کا مظاہرہ کرنے، بغیر اطلاع غیر حاضر ہونے اور دفتر سے اکثر جلدی چھٹی کر جانے پر سزا کے مستوجب ٹھہرائے جاؤ گے۔لیکن وہ ہر نوٹس پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا۔

وہ ہر صبح اپنے سر، داڑھی اور مونچھوں کے بالوں میں سفید تاروں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کو حیرت سے تکتا۔ اپنی طرف بہت تیزی سے بڑھتے بڑھاپے کا سوچ کر اسے اپنی گزری ہوئی زندگی، اور خاص طور پر بچپن شدت سے یاد آتا اور پھر یہ خیال اس کی آنکھیںپرنم کر دیتا کہ اس کی عمر کا پیمانہ بس اب لبریز ہونے کو تھا۔ آگے مختصر مستقبل تھا اور پیچھے طویل ماضی، جو بہت سی میٹھی یادوں کے دیوں سے جھلملا رہا تھا۔

ایک دن لڑکا صبح سویرے اس کے گھر پہنچ گیا۔ اس کی بیوی باورچی خانے میں اپنے بچے اور خاوند کے لئے ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ باہر کا دروازہ کھلا تھا۔ لڑکا سیدھا باتھ روم میں چلا آیا جہاں وہ شیو بنا رہا تھا۔ آئینے میں اسے اپنے پیچھے کھڑا دیکھ کروہ اسے کچھ دیر کے لئے بالکل ہی نہ پہچان سکا۔اب تو وہ اس کے قد سے اونچا معلوم ہوتا تھا۔ گالوں پر بالوں کی اولین فصل نمایاں تھی۔

”تم۔ یہاں کیسے۔“ وہ مڑتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ پایا۔ پھر وہ دونوں باہر نکل آئے۔ اس روز وہ دفتر نہیں گیا۔ لڑکا اسے میوزیم دکھانے لے گیا جہاں پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب کی باقیات مٹی کے برتنوں، اور بتوں کی صورت میں موجود تھی۔

’شاید یہ ہمارے آباؤ اجداد نے بنائے تھے۔“ لڑکے نے کچھ نوادرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے بتایا۔ دوپہر کو انہوں نے بھاٹی چوک سے پٹھورے کھائے۔ شام کو داتا دربار قوالیاں سننے چلے گئے۔ جمعرات کی محفل تھی جس میں دور دور سے قوال ٹولیاں آئی ہوئی تھیں۔محفل گرم تھی۔ ایساسماں بندھا ہوا تھا کہ اسے لگا جیسے ’ہال‘ آ رہا ہو۔ اس کا سر مستی میں گھومنے لگا اور اس کا جی چاہا کہ اٹھ کر دھمال ڈالے یا اپنا سر کسی دیوار سے دے مارے یا اسے اتنی زور زور جھٹکے دے کہ اس کا بھیجا اچک کر باہرجاگرے۔ یہی موقع تھا جب وہ اٹھ کھڑا ہوا تو لڑکے نے اسے کلاوے میں لیا اور اس کے نحیف اور بوڑھے جسم کو بازوؤں میں اٹھائے دربار سے باہر لے آیا۔

سنگ مر مر کے کشادہ زینے پر بیٹھے ہوئے، جہاں زائرین جوق درجوق آ جا رہے تھے، اور ایک طرف اوپر والی سیڑھیوں پر بائیں جانب جوتیاں سنبھالنے والے بیٹھے تھے، وہ دونوں ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ اس نے اپنی نیم وا آنکھوں سے بازار میں لوگوں کے ہجوم کو دیکھا۔ ہر طرف دکانوں میں قمقموں کی چمک تھی۔ انسانی سروں کا ریلا تھا جو ہر طرف بہے جارہا تھا۔ اس بھیڑ میں اس نے اچانک خود کو بہت اکیلا محسوس کیا۔ اس نے اپنے دفتر کے بارے میں سوچا جہاں ضرور آج کی بلا اطلاع غیر حاضری پر اسے فارغ کر دینے کا نوٹس تیار ہو چکا ہو گا۔ وہ ان کی آخری وارننگ بھی نظرانداز کر چکا تھا۔ اسے بڑی خفت کا احسا س ہوا کہ وہ اپنے گھر والوں کے لئے کچھ نہ کر سکا۔ الٹا لگی بندھی نوکری بھی جاتی رہی۔

لڑکا گویا اس کے دل کے ورق پڑھ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں خیالات کی آندھیوں کی دھمک محسوس کر رہا تھا۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسہ دینے والی نظروں سے تکتے ہوئے بولا ”میں ہوں نا، سب سنبھال لوں گا۔ تم فکر مت کرو۔“

اس کا دل یوں تیزی سے دھڑکا کہ لگا گلے میں آن پھنسا ہو ۔کچھ بھی کہے بغیر اس نے لڑکے کو رقت کے زور تلے لڑکے کو گلے سے لگایا۔ بس یہی لمحہ تھا، جب اندر مزار کے احاطے سے‘ سارے میں کسی احساس کی طرح پھیلتا ہوا ایک نعرہ مستانہ ’حق ہو۔ حق ہو’ بلند ہوا اور وہ تحلیل ہو کر لڑکے کے وجود کا حصہ بن گیا۔ کچھ دیر بعد سنگ مرمر کی سیڑھیوں پر صرف وہ لڑکا تھا، جو لڑکا نہ رہا تھا‘ چالیس برس کا پختہ عمر آدمی بن چکا تھا۔
muhammad asim butt
About the Author: muhammad asim butt Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.