منکرین حدیث گروہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

منکرین حدیث گروہ کی طرف سے احادیث پر حملوں میں پچھلے کچھ عرصے سے شدت آ گئی ہے۔ اسلام کے دشمنوں میں یہ گروہ سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے اس مختصر سے آرٹیکل میں منکرین حدیث کے مکھی کے بارے میں حدیث پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

منکرین حدیث صحیح بخاری کی ایک حدیث پر اعتراض کرتے ہیں۔ حدیث یہ ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مکھی کسی کے پینے (یا کھانے کی چیز) میں پڑ جائے تو اسے ڈبو دے اور پھر نکال کر پھینک دے۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفا ہے۔

منکرین حدیث کا اعتراض یہ ہے کہ یہ حدیث روز مرہ کے مشاہدہ کے خلاف ہونے کے ساتھ سائنسی تحقیقات کے بھی خلاف ہے کیونکہ آج ایک عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ مکھی بیماری کے جراثیم کو پھیلاتی ہے۔

سب سے پہلے تو عرض ہے کہ ہم سب ہی مکھی سے کراہت کرتے ہیں کیونکہ وہ غلاظت پر بیٹھتی ہے، پھر جراثیم کے نظریہ کی وجہ سے مکھی اور بھی بدنام ہے۔ لہٰذا اگر مکھی چائے کی پیالی یا پانی اور شربت کے گلاس میں گر جائے تو ہم فوراً اسے پھینک دیتے ہیں۔ لیکن اگر دودھ کی بھری بالٹی میں یا پگھلے ہوئے گھی یا خالص شہد کے بھرے برتن میں گر جائے تو نہ تو اسے گراتے ہیں نہ ضائع کرتے ہیں۔ اس وقت ہمیں مکھی میں جراثیم یا غلاظت سے کراہت کا اتنا احساس نہیں ہوتا۔کیوں؟ درست رویہ کیا ہونا چاہئے؟

اب دوسری طرف سائنسی تحقیق کی طرف آئیے۔ تو ایک بات تو یہ پتہ چلی کہ حدیث میں بھی مکھی کے ایک پر میں بیماری کا ذکر ہے اور سائنس بھی آج یہی بتا رہی ہے کہ مکھی بیماری پھیلاتی ہے۔ لہٰذا پہلا سوال تو یہی ہوا کہ چودہ سو سال پہلے مکھی سے بیماری پھیلنے کے بارے میں کون سی تحقیقات ہوئی تھیں کہ ان کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔

اب حدیث کے جس حصے پر اصل اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ مکھی کے ایک پر میں شفا ہوتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ میڈیکل سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے۔

 انگلینڈ کے مشہور طبی رسالہ Doctorian Experiences  

رسالہ نمبر ۱۰۵۷۔ اس میں مکھی کے متعلق نئی تحقیق یوں بیان کی گئی ہے۔

"مکھی جب کھیتوں اور سبزیوں پر بیٹھتی ہے تو اپنے ساتھ مختلف بیماریوں کے جراثیم اٹھا لیتی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد یہ جراثیم مر جاتے ہیں اور ان کی جگہ مکھی کے پیٹ میں بکتر فالوج نامی ایک مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو زہریلے جراثیم کو ختم کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ اگر تم کسی نمکین پانی میں مکھی کے پیٹ کا مادہ ڈالو تو تمہیں وہ بکتر فالوج مل سکتا ہے۔ جو مختلف بیماریاں پھیلانے والے چار قسم کے جراثیم کو ہلاک کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مکھی کے پیٹ کا یہ مادہ بدل کر بکتر فالوج کے بعد ایک ایسا مادہ بن جائے گا جو چار مزید قسم کے جراثیم کوفنا کرنے کے لیے مفید ہوگا۔ "۔


اب عرب کے ایک اسلامی ادارے جمعیۃ الھدایۃ الاسلامیۃ کی تحقیقات ملاحظہ ہوں ۔ انہوں نے مکھی پر ایک طویل مضمون شائع کیا ۔ جس کا قابل ذکر حصہ یہ ہے۔

"مکھی کے جسم میں جو زہریلا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے مبعد البکتیریا کہتے ہیں۔ مکھی کے ایک پر کا خاصہ یہ ہے کہ وہ البکتیریا کو اس کے پیٹ سے ایک پہلو کی طرف منتقل کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا مکھی جب کسی کھانے یا پینے کی چیز پر بیٹھتی ہے تو پہلو سے چمٹے ہوئے جراثیم اس میں ڈال دیتی ہے۔ ان جراثیم سے بچانے والی پہلی چیز وہ مبعد البکتیریا ہے۔ جسے مکھی اپنے پیٹ میں ایک پر کے پاس اٹھائے ہوتی ہے۔ لہٰذا چمٹے ہوئے زہریلے جراثیم اور ان کے عمل کو ہلاک کرنے کیلئے یہ چیز کافی ہے کہ پوری مکھی کو کھانے میں ڈبو کر باہر پھینک دیا جائے۔

دیکھئے، تفہیم الاسلام صفحہ ۴۵۵

اب فرمائیے کیا یہ تحقیقات حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کر کے اسے ایک علمی معجزہ ثابت نہیں کرتیں؟

پھر اگر سائنسی اعتراضات کی بات ہے تو عرض ہے کہ بہت سے اسلام دشمنوں نے قرآن کو بھی سائنس کے مخالف قرار دیا ہے۔ آج تک مسلمانوں کو طعنہ دیا جاتا تھا کہ قرآن سورج کو متحرک بتاتا ہے جبکہ سائنس سورج کو ساکن مانتی ہے۔ گزشتہ تیس سالوں کے دوران ہی دریافت ہو سکا ہے کہ سورج بھی حرکت کرتا ہے۔ اگر سائنس نے یہ دریافت نہ کیا ہوتا تو کیا یہ منکرین حدیث گروہ قرآن کو سائنس کے خلاف مان کر اس کا انکار کر دیتا؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو یہی رویہ یہ حضرات حدیث کے بارے میں کیوں نہیں اپنا لیتے۔۔۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھیں اور دین کا صحیح فہم عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین
محمد شاکر
About the Author: محمد شاکر Read More Articles by محمد شاکر: 2 Articles with 3437 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.