ورما کمیشن کی رپورٹ

مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی

کہتے ہیں نا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ، بالکل یہی صورتحال ہے آج ملک میں جنسی تشدد کی ، جو کہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ ورما کمیشن کی رپورٹ کے بعدجنسی تشدد مخالف آرڈیننس پر چہ می گوئیاں جاری تھیں ، ان کو نظر انداز کرتے ہوئے حتی کہ صدر جمہوریہ نے اس کو منظوری بھی دے دی ، ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید ان کی منظوری کے بعد جنسی تشدد مخالف فضا قائم ہوگی، درندوں میں خوف پیدا ہوگا ،جنسی جرائم کے گراف میں کمی آئے گی ، مگر اسی اثنا دارالحکومت دہلی میں ایک اور درندگی کا واقعہ پیش آیا ۔ واقعہ کی تفصیل کچھ یو ں ہے کہ لاج پت نگر علاقہ میں ملک الیکٹرونک کانٹریکٹر نے 9ویں درجہ کی طالبہ کے ساتھ بہیمانہ حرکت کی اور بالآخر اس معصوم کے منہ میں آئرن لارڈ ڈال دیا ، اس واقعہ کے بعد مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے وزیر اعلی شیلادکشت نے لیکن سچ بات کہہ دی کہ دہلی میں عورتیں خوف وہراس کے سایہ زندگی گزاررہی ہےں ، واقعی ان کا یہ بیان حکومت و انتظامیہ کے منہ پر جھناٹے دارطمانچہ سے کم نہیں ۔

آئے دن رونما ہونے والے درناک واقعات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید جنسی زیادتی معاشرہ کا لاعلاج مرض ہوگیا ہے ، ملک کے طول وعرض میں روزانہ سیکڑوں کے حساب سے اس کے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ اس تناظر میں منظر عام پر آئی ایک حالیہ رپورٹ کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔ سال 2009-11 کے دوران عصمت دری کے 68ہزار مقدمات درج کئے گئے ہیں ، لیکن افسوس کی بات کہ صرف 16ہزار اوباشوں کو ہی قید کی سزا ملی ، نیشنل کرائم بیورو کے مطابق سال 2011میں 24ہزار 206مقدمات درج ہوئے ، لیکن صرف 5ہزار 724افراد کو قصوروار ٹھہرایا گیا ، 2010میں 22ہزار 172مقدمات درج ہوئے ، تاہم صرف 5ہزار 632لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ، وہیں 2009میں 21ہزار 397مقدمات درج ہوئے ، جن میں سے فقط 5ہزار 316افراد کو سزا دی گئی ۔ ان تین سالہ مدت میں9ہزار 539واقعات کے ساتھ ریاست مدھیہ پردیش سرفہرست ہے ، ان میں سے صرف 2ہزار 968لوگوں کے خلاف کارروائیاں ہوئیں ، اس کے بعد مغربی بنگال ہے جہاں کوئی 7ہزار مقدمات درج ہوئے تاہم صرف 381افراد کو سزا دی گئی ، اترپردیش میں درج ہوئے 5ہزار 364مقدمات میں سے صرف3ہزار 816لوگوں پر الزامات ثابت ہوئے ، آسام میں پانچ ہزار 52مقدمات درج ہوئے ، لیکن 517افراد کو ہی سزا دی گئی ۔

اس طرح 2009-11میں چھیڑ خوانی کے 1لاکھ 22ہزار 292مقدمات درج ہوئے ، لیکن صرف 27ہزار 408لوگوں کا الزام ثابت ہوا اورانہیں سزا دی گئی ۔مدھیہ پردیش میں 19ہزار 618مقدمات میں سے صرف 6ہزار 91َ، مہاراشٹر میں 10ہزار 651میں سے 595، اتر پردیش میں 9ہزار 30مقدمات میں سے 7ہزار 958، وہیں کیرل میں 9ہزار 232میں سے صرف 718لوگوں کو سزا دی گئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی عالمی تنظیم کی یہ رپورٹ بھی اپنے آپ میں ایک چونکا دینے والی رپورٹ ہے کہ ہندوستان میں سالانہ 7ہزار بچیوں کو درندے اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں اور مزے سے ٹہلتے رہتے ہیں ، کا ش ہمارے حکام ہوش کے ناخن لیں ۔

اس رپورٹ پر گہرائی سے غور کرنے سے بے شمار باتیں سامنے آتی ہیں ، کسی ایک معاملہ میں تین سالہ مختصر عرصہ میں 68ہزار مقدما ت کا درج ہونا اپنے آپ میں ایک اہم واقعہ ہے ،ا س سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عصمت دری کرنے والوں میں نہ تو معاشرہ کا خوف رہ گیا ہے اور نہ ہی قانون کا ، یہی وجہ ہے کہ درنگی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ، اوباشوں نے یہ تصور کرلیا کہ عصمت دری کرنا کوئی بڑا جرم نہیں ہے ۔ حیرتناک افسو س اس پر بھی ہوتا ہے کہ آخر 68ہزار میں سے صرف 16ہزار افراد کو ہی مجرم کیسے ٹھہرایا گیا ، ذرا سوچنے کی بات ہے کہ اتنے مقدمات میں سے صرف 16ہزار افراد ہی مجرم ہوں گے ؟اگر واقعی 16ہزار افراد ہی قصوروار تھے تو 68ہزارمقدمات کیسے درج ہوگئے ؟ کیا خواہ مخواہ ایسے خبیث عمل کا مقدمہ درج کروانے میں معاشرہ کو مزہ آتا ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ گاوں دیہات کے بیشتر واقعات درج ہی نہیں ہوپاتے ہیں، باوجود اس کے اتنے مقدمات ؟اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ اگر سارے واقعات درج ہوجائیں تو لاکھوں کی تعداد ہوسکتی ہے ۔ عصمت دری تو ایسا معاملہ ہے جس کے راز فاش ہونے سے عورتوں کی بھی شرمساری ہوتی ہے ،سب کچھ ہوجا نے کے بعد بھی بے شما رخواتین یہ نہیں چاہتی ہےں کہ یہ معاملہ اجاگر ہو ،چنانچہ لاتعداد عصمت دری متاثرہ اپنے معاملہ کو دبا کررکھتی ہے اور درندوں کے ٹارچر کرنے پر باربا اس کی شکار ہوتی رہتی ہیں ۔ ظاہر ہے اگر ایسی خواتین کے معاملات بھی سامنے آئیں گے تو معاشرہ کا سر شرم سے جھک جائے گا ۔ ایک بات اور بھی زیادہ توجہ طلب ہے کہ 68ہزار مقدمات تو وہ ہیں ، جن میں خواتین کی رضامندی نہیں تھی ، مگر نہ جانے بہ رضا و رغبت کتنی عفتیں تار تار ہوتی ہوں گی ، کیا یہ نہیں ہے عصمت دری ؟ کیا یہ نہیں ہے برائی ؟ افسو س قانون دانوں پر کہ انہیں جنسی تشدد کے زمرہ میں شامل نہیں کرتے ۔

اپنے آپ میں یہ ایک بڑا سوال ہے کہ کیا کمیشن کی شفارشات سے قبل جنسی تشدد کی روک تھام کے لئے کوئی قانون نہیں تھا ؟ یقینا تھا تو کیا صرف ورما کمیشن کی آرڈیننس کو صد رکی منظوری ملنے کے بعد جنسی جرائم میں کمی آئے گی؟ماقبل میں بھی قانون کی موجودگی میں اوباشوں کے اتنے ڈھیر سارے مقدمات درج ہوئے تو اب کاہے کو انہیں عصمت دری تارتار کرنے میں کوئی خوف ہوگا ، کوئی تامل ہوگی بھی کیوں ؟قانون کل بھی تھا اور آج بھی ہے ،یہ الگ بات ہے کہ آج ذراسخت ہے ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کی شفارشات میں بھی جنسی مخالف تشدد کے لئے کارگر کوئی مشورہ نہیں ہے ، بلکہ ان کے تما م نکات تو بس دل بہلانے والے ہیں ۔ صدر کی منظوری ملنے کے بعد(پارلیمنٹ سے منظور کروانا ابھی باقی ہے)اس رپورٹ میں سب سے اہم نکتہ (جو اب قانون بن گیا ہے)یہ ہے ’آبروریزی اورقتل یامتاثرہ کے کوما میں جانے پر کم ازکم 20برس کی قید یا تاحیات جیل یا موت کی سزا ‘ ہوسکتی ہے ۔ اس پوائنٹ پر سب سے بڑا سوال یہ ہوسکتا ہے کہ متاثرہ کی بگڑتی حالت کے لئے سزا متعین کی گئی ہے ،نہ کہ عصمت دری کے لئے! یہ بات ظاہر ہی ہے کہ ہزاد دوہزار عصمت دری کے واقعات میں سے شاید ہی کسی لڑکی کی اتنی حالت بگڑتی ہوگی کہ وہ کوما کی حالت میں پہونچ جائے یا موت واقع ہوجائے ، اس کا مطلب تو بالکل واضح ہے کہ کوئی آبروریزی کرے اور لڑکی حالت نہ بگڑے تو کوئی بڑا جرم نہیں ، اسے اتنی بڑی سز ا نہیں ہوگی ، اس کا مطلب تو یہی ہے نا ! تین سالہ عرصہ میں درج 68ہزار مقدمات میں سے شاید ہی کوئی سو لڑکیاں ہوںگی جو کوماکی حالت میں گئی ہوںگی یا ان کی موت واقعہ ہوئی ہوگی ۔ اگر واقعی عصمت دری کی روک تھام مقصود ہے تو ایسا قانو ن بنایا جائے کہ دونوں (خواہ راضی بہ رضا ہو یا غیر مرضی ) کو عصمت دری کے جرم میں گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے ۔

پھر ایک اور مسئلہ کہ عورت کو برہنہ کرنے پر 3سے 7برس تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے ، ذرا غور کیا جاسکتا ہے کہ کیاکوئی کسی عورت کو سرعام برہنہ کردیتا ہے ، ظاہر ہے جواب نفی میں ہی ہوگا ، چھپ چھپا کر ایسی نوبت آتی ہے ، راضی بہ رضا یہ حرکت ہوتی ہے ، جب راضی بہ رضا یہ عمل ہوگا تو ( بلحاظ ہندوستانی قانون)کوئی جرم نہیں ، جب جرم نہیں تو کوئی مقدمہ نہیں ہے،چنانچہ ایسے پوائنٹ کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔

اس کے بعد ایک بات اور بھی توجہ طلب ہے کہ جان بوجھ کر چھونے کو بھی جنسی تشدد میں شمار کیا گیا ہے ،لڑکیا ں اس قانون کے مدنظر لڑکے کے کس کس’ لمس ‘کو جنسی تشدد کے زمرہ میں رکھ سکتی ہیں ؟ کیا بھیڑ بھار کی جگہ کی لمس کو بھی اس زمرہ میںشمار کرسکتی ہےں ؟ذرا سوچئے نا!!

حقیقت تو یہ ہے کہ ورما کمیشن کی آرڈیننس پر صدر کی جانب سے منظوری کی مہر لگ جانا بھی جنسی زیادتی کے روک تھام میں معاون نہیں ہے ۔ کیوں کہ پوری رپورٹ سے کہیں بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے پیش رفت کی گئی ہے ، ہاں اتنا ضرور لگتا ہے کہ صرف اورصرف مدتِ سزا میں اضافہ پر پوری توجہ مبذول کی گئی ہے ، جوکہ کسی بھی حدتک مفید اوربارآور نہیں ، اس لئے کہ سزاآج بھی ہے اور کل بھی تھی ، مگر ڈھیر سارے واقعات رونما ہوئے ، مگر اہل ثروت کی زور، سیاسی بازی گروں کی پکڑ اوردولت کی نمائش سے ڈھیر سارے معاملات میں سے معدودے چند افرادہی کیفر کردار تک پہونچاپائے ، پہلے کی طرح عصمت دری کے ڈھیر سارے معاملات اب سامنے آئیں گے ، مگر سخت سزا کی وجہ سے دولت کی نمائش بڑھے گی ، سیاسی بازی گر گیدر بھبھکی سے اور بھی معاملات کو چھپانے کی کوشش کریں گے ، اس طرح معاشرہ کی لڑکیوںں کی عفتیں تارتار ہوتی رہےں گی ، بہ رضا و رغبت بھی اور غیر رضامندی کے ساتھ بھی ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92484 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More