خونِ مسلم کی ارزانی اور عالمِ اسلام کی بے بسی!

مسلم ممالک میں مسلمانوں کا خون بہت ارزاں ہوگیا ہے گزشتہ صدی کے اختتام تک مسلمانوں کا خون صرف فلسطین، کشمیر اور فلپائن کے جزیرہ منڈاناؤ میں بہا کرتا تھا لیکن اس میں شدت بہر حال نہیں تھی یوں 1980ء کی دہائی میں ایران و عراق کی جنگ میں بے شک مسلمانوں کا خون بڑی کثرت سے بہا تھا لیکن موجودہ صدی کے آغاز سے ہی مغربی ممالک نے امریکہ کی زیر قیادت اور اسرائیلی و صیہونی سازشوں کے نتیجہ میں مختلف مسلم ملکوں میں گزشتہ دس گیارہ سال سے پانی کی طرح بہہ رہا ہے افغانستان عراق میں و پاکستان کے بعد لیبیاء اور شام میں اس کے بعد مالی میں امریکہ و ناٹو کی افوان خون سے ہولی کھیل رہی ہیں۔

افغانستان، عراق اور پاکستان میں امریکہ کی کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنے اپنے ملکوں امریکہ کو قتل و غارت گری اور دھماکو ں والی دہشت گردی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کیونکہ نور مالکی حامد کرزائی اور آصف علی زرداری کا اقتدار صرف اور صرف امریکہ کی مہربانی کا مرہون منت ہے ان حکومتوں میں امریکی فوجی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کی ہمت نہیں ہے۔ امریکہ گوکہ عراق سے نکل چکا ہے۔ (بظاہر بلکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے) لیکن عراقی شہروں وآبادیوں سے باہر امریکی موجود ہیں اور ان ہی کی سازش و تعاون سے شیعہ و سنتی فرقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کے لیے دونوں فرقوں کی آبادیوں اور عبادت گاہوں میں دھماکوں کے ذریعہ دہشت گردی کروائی کی جارہی ہے۔ دونوں ہی فرقوں کے معصوم افراد ہلاک ہورہے ہیں اور ایک دوسرے کو مطعون کرتے ہوئے موردِ الزام ٹھہرارہے ہیں۔ افغانستان میں طالبانی مجاہدین کو تو امریکہ و ناٹو کی افواج پسپا کرنے اور ہلاک کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے القاعدہ کے بہانے ڈرون حملوں اور دھماکوں کے بہانے معصوم افراد کا قتل عام جاری ہے۔ القاعدہ ہی کے بہانے موت کایہ خونیں کھیل پاکستان میں بھی امریکہ جب چاہتا ہے (کبھی ڈراؤن حملوں کے ذریعہ، کبھی دہشت گردی کے بہانے دھماکوں یا فائرنگ کے ذریعہ) قتل و غارت گری مچادیتا ہے۔ نورمالکی، حامد کرزئی اور زرداری بظاہر خود کو اس قدر مجبور و بے کس ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے دم تک مارنے کی سکت نہ رکھتے ہوں لیکن ان سازشوں میں وہ نہ صرف شامل ہیں بلکہ اپنے ملک کے عوام کی جان و مال کے بدلے میں انہوں نے اقتدار حاصل کیا ہے۔

یمن کا تو ذکر ہی بے کار ہے کیونکہ یمن کے طاقتور پڑوسی مملکت سعودی عرب کے شاہ عبداﷲ امریکہ کے اس قدر تابعدار ہیں کہ مذہبی پولیس یا اقامتِ دین کے لیے کام کرنے والے محکمہ کے کارکنوں کے اختیارات امریکہ کی خوشنودی کے لیے کم کردئیے ہیں۔

لیبیاء میں جو کچھ ہوا یا شام میں جو بھی ہورہا ہے اس میں بھی مغربی طاقتوں کا خفیہ ہاتھ شامل ہے لیبیاء میں مغربی ممالک کی بمباری سے لیبیاء کو ہر طرح کا نقصان ہوا اور یہ بمباری اقوا م متحدہ کی سلامتی کونسل کے دئیے ہوئے اختیار سے تجاوز تھا۔ لیبیاء کے مرحوم صدر معمر قذافی سے امریکہ یا مغربی ممالک کو کوئی خطرہ نہ تھا لیکن مداخلت کے بہانے لیبیاء کی معیشت ، تعمیرات کو تباہ، نہتے اور معصوم افراد کو ہوائی حملوں سے قتل کرنا اصل مقصد تھا، جو ان کو حاصل ہوا۔ شام میں روس کے حق تنسیخ کی بدولت امریکہ اور مغربی ممالک کو شام میں تباہی مچانے اور قتل و غارت گری کرنے کا موقعہ نہیں ملا لیکن شام میں صدر بشارالاسد وہی کام کررہے ہیں جو مغرب اور امریکہ کرنا چاہتے تھے۔ عالم اسلام میں خون مسلم اس وقت سب سے زیادہ شام میں ارزاں ہوگیا ہے شام میں خون ریزی کی سب سے بڑی ذمہ داری ایران پر ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بشارالاسد کا سارا دم خم صرف ایران کی حمایت کے بل بوتے پر ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ بشارالاسد لاکھ ایران کے دوست سہی لیکن جو شخص کھلم کھلا ظلم کررہا ہے قتل عام کررہا اس کی حمایت و تائید اسلام کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے جو ایک ایسی حکومت کو زیب نہیں دیتا جس کو عالم اسلام میں عام طور پر ’’اسلامی حکومت‘‘ مانا جاتا ہے! شام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ آج ختم ہوسکتا ہے اگر ایران بشارالاسد کی حمایت ختم کردے۔ بشارالاسد کی تائید کی وجہ سے ایران خود بھی بدنام ہورہا ہے۔

اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی کثیر تعداد میں ہلاکت وتباہی کے ذکر کے ساتھ ایک غیر اسلامی ملک میانمار(یابرما) کا ذکر بھی ضروری ہے جہاں بودھ مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں اور لوٹ مار ، عصمت دری کررہے ہیں (جو بدھ مت کی تعلیمات کے برعکس ہے) اس عظیم سانحے پر نہ صرف انسانیت اور امن و سلامتی کے علمبردار مغربی ممالک اور اقوام متحدہ ہی نہیں بلکہ عالم اسلام خاموش ہیں۔ اپنی جان بچاکر بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے لیے کوشاں مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی حسینہ واجدکی حکومت روک رہی ہے ۔ بنگلہ دیش کی اس غیر اسلامی اور غیر انسانی حرکت پر اسلامی ممالک بھی خاموش ہیں۔

اسلام کی ترقی و سربلندی کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے تحفظ اور کلمہ گو مسلمانوں کو اچھا یا راسخ العقیدہ مسلمان بنانے کے لیے تمام عالم اسلام میں کوئی نہ کوئی چھوٹی بڑی تحریک کسی نہ کسی حدتک سرگرم یا متحرک ہے۔ ایسی تمام تحریکوں کو ناکام بنانا، ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا اسلام دشمنوں کا اولین مقصد ہے۔ انہیں مطعون و بدنام کرنے کے لیے پہلے ان کو بنیاد پرست یا ’’فنڈامنٹلسٹ‘‘ کہا جاتا تھا لیکن اس کا فائدہ نہ دیکھ کر انہیں ’’دہشت گرد‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا اور بش نے عالم اسلام کے خلا ف اپنی مہم ’’9/11‘‘ کے بعد شروع کی 9/11 کا یہ ڈرامہ رچا یا ہی اسی مقصد سے گیا تھا۔ (اس ڈرامہ) کو عالمی صیہونی تحریک نے لکھا تھا اور اسرائیل نے ہدایت کی تھی۔ شروع میں بش نے اسے ’’صلیبی جنگ‘‘ کا نام دیا تھا لیکن میں مصلحتاً یہ بات واپس لے لی گئی لیکن عملاً جنگ عالم اسلام کے خلاف تھی ۔ بہانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ افغانستان ، عراق، پاکستان لیبیاء کے بعد مالی میں باغیوں کو کچلنے کے بہانے اسلام پسندوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔

مالی میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر عالمی ذرائع ابلاغ نے جھوٹ فریب کا پردہ ڈال رکھا ہے اور ساری دنیا کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مالی کے قدیم اسلامی کتب خانے کو تک فرانسیسی فوج کے درندوں نے نذرآتش کردیا۔ طالبان پر تو ان جرائم کا الزام لگایا جاتا ہے جو وہ کرتے ہی نہیں ہیں لیکن مالی میں خود فرانس کی فوج جرائم کرکے مالی کے اسلام پسندوں (جن کو وہ باغی کہتے ہیں) بدنام کررہی ہے۔ مالی میں فرانس کی فوجی کارروائی کا جواز تک دریافت کرنے کی کسی ملک میں جرأت نہیں ہے۔

مصر میں صدر مرسی کے خلاف امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹوں نے حسنی مبارک کی باقیات کے ساتھ ہنگامہ برپا کررکھا ہے کیونکہ مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت اسلام کے دشمنوں کے لیے خطرہ ہے۔ صدر مرسی کی مخالفت میں مچائے جانے والے ہنگاموں کو زبردست مبالغہ کے ساتھ بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے تاکہ اسلام پسندوں کو بددل کیا جائے۔

اسلام کے خلاف ہتھیاروں کی جنگ کے ساتھ ساتھ پروپگنڈہ کی بھی جنگ زور و شور سے جاری ہے اور عالم اسلام کی بے بسی، بے خبری اور بزدلی بھی اس کی سے بڑی واہم وجہ ہے!
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166344 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.