شکار بیتی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
شکار بیتی

(ڈائری:1991ء ملتان)
ڈیرہ غازی خان ہمارے ملک کی تقریبا وسطی کمشنری ہے۔اسکی حدود صوبہ سرحد میں ڈیرہ اسمائیل خان سے ،صوبہ سندھ میں کشمور سے اور صوبہ بلوچستان میں لورالائی سے ملتی ہیں جبکہ یہ ضلع ڈیرہ غازی خان انتظامی طورپرصوبہ پنجاب کا حصہ ہے۔ڈیرہ غازی خان کی اس وسطی حیثیت سے ایک حکمران اسے دارالخلافہ بھی بنانا چاہتا تھا۔اس شہر کی روایات میں مشرقیت کافی حد تک غالب ہے اور مغربی تہذیب یہاں ابھی تک اپنے پنجے نہیں گاڑھ سکی۔پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان واقع یہ شہرگویاپاکستانی تہذیب کا خوبصورت سنگم ہے جہاں چاروں صوبائی تہذیبوں کے اثرات بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔

ماہ نومبر میں جب گرمی رخصت ہوا چاہتی تھی اور جنوبی پنجاب والوں کے لیے یہ موسم خوشگواراحساسات کا حامل تھاہم بہاؤالدین زکریایونیورسٹی ملتان کے تین پروفیسرصاحبان کے ساتھ جن میں سے ایک پی ایچ ڈی( ڈاکٹر) بھی تھے ،مچھلی کے شکار لیے ڈیرہ غازی خان کی ایک معروف تحصیل تونسہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔تونسہ کوتونسہ شریف بھی کہا جاتا ہے،جوملتان سے کم و بیش تین گھنٹے کی مسافت پرواقع ہے۔ان دونوں شہروں کے درمیان دریائے چناب اور پھر دریائے سندھ اپنی رروانی کے ساتھ رو بہ بحر ہیں۔ملتان سے نکلتے ہی ہم شیرشاہ روڈ پر پہنچ گئے۔یہ شاہراہ ہندوستان کے معروف حکمران شیرشاہ سوری کی طرف منسوب ہے جس نے پشاور سے دہلی تک ڈاک کی ترسیل اور تجارت کے لیے یہ راستہ بنایا تھاجو آج تک قائم ہے۔اسی سڑک پر تیل کا وہ ڈپو بھی ہے جسے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی فضائیہ نے اپنا نشانہ بنایا۔

کچھ ہی دیر میں ہماری گاڑی خاموشی اورگہرائی کے مرکب دریائے چناب کی پرسکون لہروں کے اوپر بنے پل پر سے گزررہی تھی،بدیسی آقاؤں کا تیارکردہ یہ پل پہلے ریل اور روڈ کی یک طرفہ ٹریفک کے لیے مشترک تھا چند برس قبل اسی پل کے اوپر دورویہ سڑک بنا دی گئی ۔چناب کا مغربی کنارہ اہل ملتان کے لیے سکون کی آغوش ہے ۔یہاں یوم تعطیل بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔شوردھواں اور مصروفیت کی زندگی سے چند لمحوں کے فرار کے لیے اہل ملتان چناب کے اس مغربی کنارے کے ممنون احسان ہیں۔ہمیں یاد پڑتا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں ہمارے اسکول کا یک روزہ مطالعاتی دورہ ایک بار یہاں بھی آیا تھا۔

دریائے چناب اپنے قدرتی محل و وقوع کے سبب ضلع مظفرگڑھ اور ضلع ملتان کے درمیان انتظامی حدود کا تعین بھی کرتا ہے،چنانچہ اب ہم دوسرے ضلع کی حدودمیں داخل ہوچکے تھے۔چندہی لمحوں میں مظفرگڑھ شہر کا آغاز ہوا اور چند ہی لمحوں میں اختتام بھی ہو گیا۔یہاں کے لوگ سست اور کام چور مشہور ہیں،اپنا وطن چھوڑنا ان کے لیے کسی ناگہانی آفت سے کم نہیں ہوتا ۔پل چناب کی وجہ سے اس شہر کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔شہر ختم ہوتے ہی بے آب و گیاہ علاقہ شروع ہوگیا،کہیں کہیں آبادی کے نشانات نظر آتے تھے۔جاگیرداری نظام کی مضبوط گرفت کی وجہ سے یہ علاقہ بے توجہی کا شکار ہے اور ملک اس علاقے کی کارآمد پیداوار سے محروم ہے۔

ہماری گاڑی اب کوٹ ادو کی طرف بڑھ رہی تھی،یہ چھوٹاساشہر اور علاقے کا تجارتی مرکز بھی ہے۔دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد اس شہر میں تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان آئے ہوئے لوگوں کے گھرانے کثرت سے آباد ہیں۔کوٹ ادو گزرتے ہی ہم اونگھنے لگے تو ساتھ بیٹھے ساتھی نے جگایاکہ دیکھو ہیڈ تونسہ بیراج گزررہاہے۔کم و بیش ایک میل لمباپل دریائے سندھ پر بنایاگیاتھااور پل سے پہلے ایک جھیل کی صورت میں پانی کو روک کرتوشرقی و غربی سمتوں میں دو بڑی بڑی نہریں نکالی گئی تھیں۔یہ نہریں جنوبی پنجاب کے بیشتر حصے کو سیراب کرتی تھیں۔پل کے نیچے سے پانی بہت تیزرفتاری کے ساتھ گزر رہاتھااور دوسری طرف شور مچاتاہوا نکل رہا تھا۔دریامیں ماہی گیروں کی کشتیاں بھی نظر آئیں۔

ہیڈ تونسہ بیراج سے نکلنے والی مغربی نہر کے کنارے کنارے چلتے ہوئے ہماری گاڑی مینگورہ کراچی شاہراہ پر پہنچی،اسے انڈس ہائی وے بھی کہتے ہیں،یہاں کراچی آنے جانے والی بسیں بہت تیزی سے گزرتی ہیں اور مقامی ٹریفک دور سے دیکھ کر انکے لیے راستہ چھوڑ دیتی ہے۔تونسہ کے راستے میں آخری پل ایک رودکوہی کاتھا۔گرمیوں میں تیزی سے گزرنے والے پانی نے اس پل کو متعددبار توڑ دیاتھااوراب کی بار نئی بنیادوں پر اس پل کی تعمیر کی گئی تھی۔خواجہ سلیمان تونسوی ؒکے مزار کے گنبد نے تونسہ پہنچنے کی خوشخبری سنائی۔یہ دوردرازعلاقوں میں ایک پسماندہ شہرہے۔یہاں خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔یہاں کے لوگ ذہین ،محنتی اور علم دوست ہیں ،تونسہ کو اگر پاکستان کا یونان کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔کم وبیش دولاکھ کی آبادی کے اس شہر میں اکثریت کا پیشہ تجارت ہے۔خواجہ سلیمان تونسوی ؒکے ہاتھ پر مسلمان ہونے والے قبائل کی نسلیں اس شہر میں اور گردونواح میں آباد ہیں۔

ناڑی جنوبی ہماری پہلی منزل تھی جو تونسہ سے نصف ساعت کے فاصلے پر واقع ہے۔ہم پہنچے تو شکارپرروانگی کے لیے یارلوگوں کو اپنا منتظر پایا۔رخت شکارایک اونٹنی پرلادااور پیدل ہی ساحل سندھ کی طرف چل کھڑے ہوئے،تقریباََپانچ میل کی مسافت کے بعد’’ڈونہ‘‘نامی ایک بستی میں نماز مغرب اداکی،دیہاتی طرز کی اس مسجد میں لوٹوں سے وضوبنایا۔یہ بستی دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے،ہمیں بتایاگیا کہ یہ ایک مثالی گاؤں ہے یعنی یہاں بنیادی مرکزصحت اور لڑکے لڑکیوں کے تعلیمی ادارے ہیں۔تقریباََپندرہ افراداور ایک اونٹنی پر مشتمل یہ مختصرشکاری قافلہ مشرق کی طرف چلتارہا،کافی دیرکے بعد دریائے سندھ کی ایک شاخ راستے میں آئی ،اس کے اس پارایک ڈیرے میں ہمارے قیام کاانتظام تھا۔اندھیرے اور روشنی کی ملی جلی کیفیت میں دریاکے اس حصے کو پارکیا۔پانی سے نکل کر تھکاوٹ کاشدیداحساس ہوا۔صبح سے کھائے پئے اور آرام کے بغیر مسلسل سفر نے تھکاماراتھا۔

کافی راستہ طے کر چکنے کے بعد احساس ہوا کہ راہ گم کر بیٹھے ہیں۔رات کا ابتدائی پہرشروع ہوچکاتھا،دریاکا علاقہ نیم جنگل کی صورت میں چاروں طرف پھیلاہواتھا۔دورکہیں تونسہ شہر کی بتیاں نظرآ رہی تھیں اور کتوں اور گیدڑوں کی آوازیں قریب قریب سے آرہی تھیں اور کبھی کبھی گھاس میں ہل جل ہوتی تو ڈر سا لگتاتھااور اس پر مستزاد یہ راستہ بھٹک چکے تھے۔مقامی لوگ باہمی مشورے سے سمت کا تعین کرتے لیکن تھوڑی دور چل کر پھر تبدیلی واقع ہوجاتی تب ایک ماہر مقامی نے ستاروں کو دیکھ کر صحیح رخ کی نشاندہی کی توتھوڑی ہی دیر میں ایک لالٹین کی روشنی نظر پڑی،یہ ایک دیہاتی گھروندہ تھاوہاں سے مزکورہ ڈیرے کا پتہ ملااوریوں ہم صحیح مقام پر پہنچے۔تھوڑی دیر میں کھانا چناگیااورجلدہی نیند کی دیوی ہم پرمہربان ہو گئی۔

علی الصبح مرغے کی آذان پر نیند سے بیدارہوئے اور اسی مرغے کو تہ تیغ کرکے تو چاولوں کے ساتھ آگ پر چڑھادیا،کھانے سے فراغت پاتے ہی اونٹنی کی معیت میں شکار گاہ کی طرف کشاں کشاں چل دیے۔راستے میں دریا کی دوسری شاخ آئی اور یہ نسبتاََ گہراپانی تھا۔مقامی لوگوں نے سلواریں اتاریں اور داخل دریاہوئے،ہم انہیں حیرانی سے دیکھ ہی رہے تھے کہ سامنے سے ایک نیم ننگا شخص اپنے خچر سمیت ہماری طرف آرہاتھا۔کنارے پہنچنے پر ہم نے اسے بتایا کہ وہ ننگاہورہاتھااس نے مسکراکرجواب دیاکہ اس دریاسے بڑے بڑے مولوی ننگے ہوکر ہی گزرتے ہیں۔ہمارے ساتھ ایک مولوی صاحب بھی تھے ہمارا خیال تھا کہ وہ چادرباندھ کر ہی دریاپارکریں گے لیکن یہ خیال خام ثابت ہوا اور وہ مولوی صاحب بھی سلوار اتارکر اس دریامیں داخل ہوگئے اور جہاں پانی ذراگہراہوا وہاں قمیص بھی اونچی کرلی۔دریاکے پار اسی مولوی صاحب نے ظہرکی امامت کرائی تب یہ مسئلہ دریافت کیاگیا کہ جس امام کو ننگا دیکھاجاچکاہو توکیااسکی امامت میں نماز جائز ہے؟جواب ’’ہاں‘‘میں تھا۔

ایک جھیل نما پانی کے ذخیرے میں شکار کھیلاجانا تھاچنانچہ ایک گھنٹہ کی طویل محنت شاقہ کے بعد جال کو جھیل کے دونوں کناروں کے درمیان پھیلادیاگیااور یہ کام چند ماہر شکاریوں نے کیا۔انہوں نے جال کے اوپر گھاس پھونس اور نیچے پتھرباندھے تب دوسرے لوگوں نے جال کے دونوں سروں کو پکڑ کرتوکھینچناشروع کیا۔ہم بھی اس مشق شوق کا حصہ بنے۔پانی گہراہونے کے باعث تیرتے ہوئے ہی جال کو کھینچنا پڑتا تھاچنانچہ جال کو کھینچتے ہوئے صرف پاؤں سے تیراکی ممکن تھی تھکنے پر دوسراساتھی جال تھامتا اور پہلا ہاتھوں سے تیراکی کر کے تو تھوڑاساآرام حاصل کر لیتا۔نصف میل طویل پانی کے اس ذخیرے میں جال کھینچنا ایک عجیب تجربہ تھا۔دریاکے رمیان جنگل،جنگل کے درمیان جھیل اور جھیل میں مچھلی کاشکار ایک ایسا شغل ہے جس کا مزا قلم و قرطاس سے لینا ممکن نہیں۔جال کھینچتے ہوئے مقامی زبان کے نعرے،دوسرے کی تعریف یا تنقیص ،باہر کھڑے لوگوں کی پھبتیاں اور باہمی جگتیں اور مشقت کے دوران ہنسی کا ایسا دورہ کہ زور لگنا محال ہوجائے ،وہ مشاہدات ہیں جنہیں تجربہ ہی مستندبناسکتاہے۔

جال کھینچتے ہوئے اچانک ایک پرندہ نمودار ہوا اور چندثانیے پانی کے اوپر اڑتے رہنے کے بعد اور پانی کا بغور مشاہدہ کرتے رہنے کے بعدپانی میں جاگرا۔ہم ہکابکا کہ شاید فوت ہوگیا ہے یا کسی غم کے مارے اس عاشق نامرادنے خودکشی کرلی ہے لیکن ابھی ہم اسی فکر میں غوطہ زن تھے کہ وہ پرندہ غوطہ سے نمودار ہوااوراپنی چونچ میں ایک مچھلی دبائے آسمان کی طرف پرواز کر گیا۔یہ قدرت کا فطری شکاری تھا اور ہمیں احساس دلانے آیا تھا کہ تم بہترین ذہنی،فکری اور جسمانی صلاحیتوں کے باوجود چند مچھلیوں کے حصول کے لیے جو تگ و دواور زورآوری کر رہے ہووہ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔اسی فکر میں غلطاں تھے کہ جھیل کا اگلا کنارہ آ گیا اور جال باہر نکالنے پر من بھر مچھلی شکار ہو چکی تھی ۔یہی عمل پھر دہرایاتواس سے نصف مچھلی مزید ہاتھ لگی۔

مچھلی اور بھاری بھرکم جال اونٹنی پر لادے ہم ایک ملک صاحب کے ڈیرے پر پہنچے۔ابھی مچھلی چھیلنے اور پکانے کا مرحلہ باقی تھالیکن بھوک اور تھکاوٹ کے باعث ہم نے معذرت کر لی اور یار مہربان لوگوں نے یہ کام بخوبی سرانجام دیا۔ملک صاحب سابقہ پولیس افسر تھے اور یک چشم گل تھے،لحیم شہیم جسم کے مالک تھے،آمناسامناہوا آنکھیں تین ہوئیں تعارف کا مرحلہ ختم ہوااورگپ شپ کاآغازہوا ۔ابھی چندثانیے ہی گزرے تھے کہ ایک طرف لگے ریڈیوکی آواز بلندہوئی غورکیاتو پتہ چلا کہ یہ بی بی سی کی اردو نشریات تھیں۔یہ امر ہمارے لیے حیرانی باعث تھا کہ دوردرازعلاقوں میں برلب دریاجنگل و بیابان لیکن سیاسی شعور اس قدر قدآور کہ بی بی سی سننے کا اجتماعی اہتمام۔اس گاؤں کے سب لوگ موجود تھے اور شاید گاؤں میں یہ واحد ریڈیوتھا۔

مچھلی تیارہوکر دسترخوان پر چنی گئی ،کھائی گئی اور خوب کھائی گئی۔ایک حدیث نبویﷺ میں بیان کیا گیاہے کہ جنت میں جنتیوں کو سب سے پہلے مچھلی کے کباب پیش کیے جائیں گے۔تازہ مچھلی کھاکر جو لذت کام و دہن حاصل ہوئی اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔کھانے کے بعد مقامی زبان کے اشعاروروایات اور قصص و کہانتوں کی محفل جمی ،کافی دیرتک ہم بھی لظف اندوز ہوئے لیکن وائے قسمت کہ نیند کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔اگلے روزپانچ گھنٹے کے پیدل سفر کے بعدسڑک پر پہنچے اورگاڑی پر سوار ہوکر تونسہ شہر میں آئے کیونکہ تونسہ کا دورہ اس وقت تک مکمل نہ ہوتا جب تک کہ خواجہ تونسوی کے مزار پر فاتحہ نہ پڑھی جاتی۔اور ملتان پہنچتے پہنچتے مچھلی ہضم بھی ہوچکی تھی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 523481 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.