یکجہتی کی اصل روح

5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے خصوصی تحریر

5 فروری کو کشمیریوں سے اظہار محبت کرنے اور ان کے دکھ کو بانٹنے کے لیے ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کو منانے سے قبل اس کی تاریخ کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے۔ 1946ءکو مسلم کانفرنس کی دعوت پر بانی پاکستان محمد علی جناح نے سری نگر کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران جہاںبہت سے اہم موضوع زیر بحث آئے۔ وہیں کشمیر کی آزادی اور اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ بانی پاکستان نے جغرافیائی، دماغی اور اقتصادی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی ” شہہ رگ “ قرار دیا گیا۔

ایک طرف پاکستان تھا کہ کشمیر کے بغیر خود کو نامکمل سمجھ رہا تھا جبکہ محبتیں ادھر بھی ویسی تھیں۔ مسلم کانفرنس نے بھی 19 جولائی 1947ءکو سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر ”قرار داد الحاق کشمیر“ منظور کر ڈالی۔ آزادی پاکستان کے بعد کشمیریوں نے مولانا فضل الٰہی وزیر آباد کی قیادت میں 23 اگست 1947ءکو نیلام بٹ کے مقام سے پر امن جدوجہد کے بعد پہلی مرتبہ مسلح جدوجہد آزاد کا آغاز کیا گیا۔ جس نے ہندو بنیے کے منہ پر 15 مہینوں تک ایسی جہادی تھپڑیں ماریں کہ وہ بلبلا اٹھا اور آخر اس کا نتیجہ آزاد کشمیر کی صورت میں سامنے آیا۔

کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر ہندوﺅں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو فریاد لے کر اقوام متحدہ کی دہلیز پر جا پہنچا اور بین الاقوامی برادری سے ایک وعدہ کر ڈالا کہ وہ ریاست میں رائے شماری کے ذریعے مستقبل کا فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق کریں گے۔ اس سے قبل 23 جولائی 1931ءکو جب سری نگر جیل میں کشمیریوں پر وحشیانہ فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 22 افراد شہید اور47شدید زخمی ہوگئے تھے تو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے ”کشمیر کمیٹی “ قائم کی گئی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ نومبر 1931ءمیں ”تحریک لاحرار “ نے غیر مسلح جدوجہد اور سول نافرمانی کے ذریعے جموں و کشمیر کو آزاد کرانے کا مطالبہ کیا اور پھر پہلی مرتبہ اس وقت 1943ءمیں ہندوستان بھر میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ 25 فروری 1975ءکو ہندوستان نے پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدہ خلافی کرتے ہوئے رائے شماری کیے بغیر (غدارکشمیر) عبداللہ کو سری نگر کے تخت پر مسلط کردیا۔ جس کے بعد یہ دوسری مرتبہ پاکستان اور آزاد و مقبوضہ کشمیر میں بھی مکمل ہڑتال کی کال دے دی گئی۔

یہ زبردست اور تاریخی ہڑتال تھی، سری نگر کے لال چوک میں پاکستان سے محبت سے سرشار کشمیری عوام نے ایک مرتبہ پھر سبز ہلال پرچم لہرا دیا۔ پھر 1981ءمیں جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوا تو کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعے اس میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ حرمیت کانفرنس کے سید علی گیلانی اور جہاد کونسل کے صدر سید صلاح الدین سمیت تمام رہنماﺅں نے الیکشن جیتنے کی صورت میں الحاق ہندوستان کی قرارداد کو نا منظور قرار دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم متحد محاذ کی واضح اور فیصلہ کن فتح کو ہندوستان نے دھونس اور دھاندلی کے ذریعے شکست میں بدل ڈالا اور پرامن ذریعے سے تبدیلی کی خوہاں کشمیریوں اور ان کے قائدین کو مسلح جدوجہد شروع کرنے پر مجبور کردیا۔ ہندوستان کی کشمیری عوام سے باانصافی اور اقوام متحدہ کی بے حسی سے مجبور ہوکر جب مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والے برسوں میں کشمیری اس طرح کھڑے ہوجائیں گے کہ ہندونواز قوتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

5 جنوری 1989ءکو قاضی حسین احمد نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے ایک ماہ کا وقفہ دے کر 5 فروری کو ہڑتال کی اپیل کر کے یوم ”یکجہتی کشمیر“ منانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے بھی ان کے اس فیصلے کی بھرپور تائید کی۔ یوں 1989ءکو پہلی مرتبہ اور 1990ءکو تمام سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر یوم یکجہتی کشمیر کو منایا جانے لگا۔ یوم یکجہتی کشمیر تو ہر سال منایا جاتا ہے مگر شاید تحریک آزادی کشمیر کی اہمیت کے پس منظر اگر چند اقدامات پر عمل پیرا نہ ہوا جائے تو اظہار یکجہتی کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔

ایسے حالات میں پاکستان کو چاہئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے علاوہ کشمیر کی آزادی کیلئے کوئی دوسرا حل پاکستان کو ہر گز قبول نہ کرے۔ حکومت مسئلہ کشمیر میں اپنا ٹھوس اور مثبت کردار اداکرتے ہوئے کشمیر کے حوالے سے چین کے موقف کی تائید کی اور بھرپور سفارتی مہم چلائی جائے۔ کشمیر کی آزادی، ہندوستان کی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت متنازع ڈیموں کی تعمیر روکنے تک کسی بھی سطح پر معاملات استوار نہ کیے جائیں۔ یوم یکجہتی کشمیر اور لاکھوں شہداءکا خون ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے کہ ہم اپنے حقیقی دشمن کو سمجھیں۔ آستین کے سانپ کو نکال پھینکیں نہ کہ انہیں پسندیدہ ترین ملک قرار دے کر تجارتی سرگرمیاں شروع کریں اگر ان تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا تو پھر ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم یوم یکجہتی کشمیر منانے کا ڈھنگ کرکے کشمیریوں کو دھوکا دیں....!
Arif Ramzan
About the Author: Arif Ramzan Read More Articles by Arif Ramzan: 81 Articles with 69829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.