یومِ یکجہتی کشمیر ہر سال کی طرح اس سال بھی

پانچ فروری یومِ یکجہتی کشمیر بڑی باقاعدگی سے ہر سال منایا جا رہا ہے۔ اس دن عام تعطیل ہوتی ہے کہیں ایک آدھ تقریب یا سمینارہو جاتا ہے اور یہ دن گزر جاتا ہے اور اگلے دن دفاتر اور تعلیمی ادارے دوبارہ کھل جاتے ہیں، یومِ یکجہتی گزر جاتا ہے اور بس نہ حکومت میں کوئی جنبش پیدا ہوتی ہے نہ سیاسی پارٹیوں میں نہ میڈیا میں۔ یا تو اعلان کر دیا جائے کہ ہم کشمیر سے دستبردار ہوتے ہیں تاکہ قصہ ہی ختم ہو یا اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی کوشش کی جانی چاہیئے لیکن ایسا بھی نہیں کیا جارہا کیونکہ جہاں سیاست چمکانے کا موقع ہو وہاں اس مسئلے سے مدد لے لی جاتی ہے۔ جبکہ معاملہ موقع پرستی سے زیادہ سنجیدگی کا طلب گار ہے کیونکہ یہی پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کی جڑ ہے۔پانی کے مسئلے کو لیجیے اسی سے جڑا ہوا ہے کہ پاکستانی دریائو ں کے منبع ادھر ہیںاور یہی پانی پاکستان کے زرعی میدانوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔نہ صرف زراعت بلکہ صنعت بھی کئی کئی حوالوں سے انہی دریاوئں کی مرہو ن ِمنت ہے کہ بڑی آبادیاں اور صنعتیں یہی پر پھلتی پھولتی ہیں لیکن بھارت انہی دریائوں کا پانی روک کر ڈیم بنا رہا ہے۔

ہماری سرحدوں پر تنائو پیداہوتا ہے تو اسی مسئلے کی وجہ سے،اسلحے کی دوڑ ہے تو اسی کی بنا پر بلکہ اندرونی امن کا مسئلہ بھی اسی سے منسلک ہے کراچی میں تو یہ مسئلہ بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور کر سکتا ہے۔یہی حال قبائلی علاقوں کا ہے وہاں لوگوں میںشدت پسندانہ جذبات آخر خود رو جھاڑیوں کی طرح کیوں اُگ رہے ہیں کیا ہم سے کشمیر کے حالات کا بدلہ لیا جارہا ہے۔ اگر آج ہی یہ مسئلہ حل ہو جائے اور اہلِ کشمیر کو ان کے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے جو کہ انسانی بنیادوں پر اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق ان کو حاصل ہے تو دنیا کا یہ حساس ترین خطہ بھی بدامنی سے محفوظ ہو سکے گا۔لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے اور یہ سمجھنے سے کہ بین الاقوامی برادری خود اس مسئلے کو حل کر لے گی سب سے بڑی حماقت ہے کیونکہ غریب ممالک تو اپنے مسائل میں مبتلا ہیںاور بڑی طاقتیں اسلحے کی ایک بڑی منڈی کو کسی بھی طرح ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیں گی۔اور یہ بھی سمجھ لینا کہ صرف یومِ یکجہتی منا لینے سے اور چھٹی کر لینے اور دے دینے سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا بھی خوش فہمی ہو سکتی ہے حقیقت پسندی نہیں۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس مسئلے کو ہر بین الاقوامی فورم پر اُجاگر کیا جائے اور ایک زبردست سفارتی مہم چلائی جائے تاکہ دنیا کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس دلایا جاسکے کہ کس طرح ایک ایسے علاقے کو بھارت نے غلام بنا رکھا ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے جو نہ تاریخی طور پر نہ ثقافتی طور پر اور نہ ہی مذہبی طوربھارت سے کوئی مماثلت رکھتا ہے اور یہی وجوہات ہیںکہ کشمیری شہادتیں قبول کر رہے ہیں ،سختی برداشت کر رہے ہیں، یتیمی کا دکھ سہنے کو تیار ہیں اور بیوگی کی بے بسی بھی لیکن بھارت کے ساتھ رہنے پر آ مادہ نہیں ، اور اسی جرم میںروزانہ ریاستی تشدد کا سامنا کر رہے ہیں ہر روز شہادتیں ہو رہی ہیں صرف آزادی کی خواہش کے جرم میں ۔نہ ہی عورتیں محفوظ ہیںنہ بچے اور نہ ہی بوڑھے کون کہاں مرا کسی کو معلوم نہیں۔ ٓ انٹر نیشنل پیپل ٹریبیونلز کے اعداد و شمار کے مطابق 2011 میں صرف کپواڑہ میں 1453 بے نام قبریں ملیںجبکہ ان قبروں کی کل تعداد 2730 بتائی گئی ہے۔ پچھلے بائیس سال میں کشمیر میں پچاس سے ستر ہزار شہادتیں ہو چکیں ہیں اور ا سّی ہزار لوگوں کو غائب کیا گیا ہے جن میں سے ہزاروں کو ان بے نام قبروں میں چھپا دیا گیا ہے جن کی واپسی کا کوئی امکان نہیںاور ظاہر ہے ایسی اور بھی ہزاروں قبریں کشمیر میں موجود ہو گی۔ کشمیر میں موجود پانچ سے ساتھ لاکھ بھارتی فوج آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ سے جس طرح لطف اندوز ہورہی ہے ہمیں اُسے بھی دنیا کے سامنے لانا چاہیئے تو تب ہی ہم یومِ یکجہتی کشمیر کا حق ادا کر سکیں گے۔

بھارت کشمیر میں بدامنی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا کر پوری دنیا میں واویلا کرتا ہے تو ہمارے پاس تو حقائق ہیں، پھر ہم کیوں ان حقائق کو دنیا کے سامنے نہیں رکھ رہے ،ہم دنیا کو کیوں نہیں بتا دیتے ہیں اورکیوں نہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو جگا دیتے ہیںکہ وہ آکر ہزاروں نوجوان کشمیری بیوائوں اور معصوم یتیم بچوں کا دُکھ دیکھ لیں تاکہ اُن کے لیے آواز اٹھائی جا سکے۔بھارت استصوابِ رائے سے مسلسل انکاری ہے اور اقوام متحدہ بھی اپنے اس سب سے قدیمی مسئلے کے حل سے مسلسل غفلت برت رہا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستانی سیاستدان، دانشور اور صاحبانِ اختیار اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور بھارت کو سفارتی طور پر اتنا مجبور کریں کہ وہ کشمیریوں کا حقِ آزادی تسلیم کرلے۔اگر آزادی دنیا کے تمام انسانوں کا حق ہے تو کشمیریوں کا کیو ں نہیںاور اگر غلام بنا نے والا اور پھر قتل کرنے والا ظالم ہے تو بھارت کیوں نہیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 511976 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.