قرآن اور تعارف انسان

()فلسفہ اسلام اور مقام انسانیت ()
اسلام دین فطرت ہے ۔ اس کا ہر قانون ،ہر ضابطہ فطرت کا عظیم نمونہ ہے ۔جب ،جہاں اور جیسے انسان کی فلاح مقصود تھی اسی ترتب کے ساتھ قوانین کی وضاحت گئی ۔اسی اعتبار سے زندگی گزارنے کاسلیقہ سیکھایاگیا۔اسلام کی نظر میںایک انسان فقط راست قامت چلنے ،پھرنے اور بولنے والا انسان ہی نہیںبلکہ اس کی رفعت و معراج کو قران اپنی شان و عظمت کے مطابق بیان فرمایا۔اس نہایت حساس ،اہم اور قابل فکر عنوان پر چند جملے یا سطریں کفایت نہ کریں گیں ۔اسلام افراط و تفریط سے پاک دین ہے۔ جس میں نہ تو شدت ہے اور نہ ہی انسان کومکمل چھوٹ ہے بلکہ معاملہ بین بین ہے ۔یعنی اعتدال کی عظیم نظیر ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنی لاریب کتاب میں جہاں اپنی مخلوق جس کے سر اس نے اشرف المخلوقات کا تاج سجایا ،جہاںاس کی تعریف و توصیف کو ذکر کیاوہاں اس کی مذمت پر بھی اپنی صفت قہاری کا اظہار فرمایا۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے ۔وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔آئیے تعارف انسانی قران کی زبانی جانتے ہیں ۔

()کائنات عالم میں انسان کا مقام ()
قرآن کی عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں ہیں اور سخت ترین مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے یعنی انسان کا کرداراس کی بقاء اور اس کی منزل کے حصول میں ایک اہم محرک ہے۔

() انسانی اقدار()
اللہ عزوجل نے انسان کو اپنی تخلیق کا شاہکار بنایا۔جسے دیکھ کر اس کی عظمت و شان کاپتاچلتاہے۔جب خالق ارض و سمٰوٰت نے انسان کو پیدافرمایامنصب و مسند سے نواز تو پھر اس کی جانچ پڑتال ،اس کے احتساب اور اس کی فکری ،شعوری ،مذہبی وملی تربیت کے لیے ایک منظم نظام عطافرمایا۔اپنے پیغام ،اپنے احکام کی بجاآوری کے لیے انسان کو اعلٰی مقام عطافرمایا اس شان و عظمت سے نوازا۔بلندمرتبہ ،بلند شان انسان کے حصّہ میں آئی۔

()ربّ تعالیٰ کا خلیفہ ()
مومنین پر کرم فرمانے والے خدائے احکم الحاکمین نے انسان کو اپنا خلیفہ بناکر مبعوث فرمایا۔جس کا ذکر اس نے اپنی ذیشان کتاب میں فرمایا:
()وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰۤئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآء َ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ()( سورہ بقرہ، آیت ٣٠)۔ترجمہئ کنزالایمان :اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ۔

تفسیرخزائن العرفان:خلیفہئ احکام واوامرکے اجراء و دیگر تصرفات میں اصل کا نائب ہوتا ہے ۔یہاں خلیفہ سے حضرت آدمعَلَیہِ السَّلام مراد ہیں۔ اگرچہ اور تمام انبیاء بھی اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں ۔حضرت داؤدعَلَیہِ السَّلامکے حق میں فرمایا '' یَادَاو،دُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ'' فرشتوں کو خلافت آدم کی خبر اس لئے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت دریافت کرکے معلوم کرلیں اور ان پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ اُن کو پیدائش سے قبل ہی خلیفہ کا لقب عطا ہوا اور آسمان والوں کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی ۔

()مرتبہ کا احساس()
مراتب و درجات سے نوازا تو ربّ تعالیٰ نے احساس ذمہ داری کا بھی احساس دلایا:()وَ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰۤئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰیکُمْ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَ اِنَّہ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ()(سورہ انعام ،آیت ١٦٥)۔ترجمہ کنزالایمان :اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی بے شک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بے شک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیرخزائن العرفان:کیونکہ سیدِ عالَم صَلَّی اللّٰہ علیہ وَسَلَّم خاتَم النبّیِین ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہ علیہ وَسَلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ کی اُمّت آخرُ الاُمَم ہے اس لئے ان کو زمین میں پہلوں کا خلیفہ کیا کہ اس کے مالک ہوں اور اس میں تصرُّف کریں ۔شکل و صورت میں ، حسن و جمال میں ، رزق و مال میں ، علم و عقل میں ، قوّت و کمال میں ۔یعنی آزمائش میں ڈالے کہ تم نعمت و جاہ و مال پا کر کیسے شکر گزار رہتے ہو اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کے سلوک کرتے ہو ۔

()انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات کی ممکنہ استعداد سے زیادہ ہے۔()
ربّ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں انسان کو دیگر مخلوق پر صاحب شرف رکھا۔علم ایک نعمت اوربے نظیر دولت ہے ۔اس معاملہ میں بھی ربّ نے انسان کو دیگر مخلوق سے بلند مرتبہ فرمایا:چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآء َ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلٰۤئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِـُوْنِیْ بِاَسْمَآء ِ ہٰۤؤُلَآء ِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ()( پ ١،سورہ بقرہ ِآیت٣١)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اور اللّٰہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ()( پ١،سورہ بقرہ، ِآیت ٣٢ )۔ترجمہ ئ کنزالایمان :بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔

()اعلٰی مراتب کے لیے سخت امتحانات سے واسطہ()
روایتی زندگی پر غور کریں تو ہم اگر کسی کی اہمیت کو بیان ،کسی کی علمی استعداد کسی کی اہلیت کی تعریف بیاں کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں تو پہلے۔قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْبِئْہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّآ اَنْبَاَہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ قَالَ اَ لَمْ اَ قُلْ لَّکُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ()(پ١،سورہ بقرہ، ِآیت ٣٣)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :فرمایا اے آدم بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔

تفسیرخزائن العرفان:اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر تمام اشیاء و جملہ مسمیات پیش فرما کر آپ کو ان کے اسماء و صفات و افعال و خواص و اصول علوم و صناعات سب کا علم بطریق الہام عطا فرمایا ۔یعنی اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ میں کوئی مخلوق تم سے زیادہ عالم پیدا نہ کروں گا اور خلافت کے تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام تصرف و تدبیراور عدل و انصاف ہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اس کو متصرف فرمایا گیا اور جن کا اس کو فیصلہ کرنا ہے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کے ملائکہ پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ علمِ اسماء خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے ۔اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ملائکہ سے افضل ہیں ۔

()انسان فطرت خداکی آشنائی ہے ()
انسان کی فطرت خدا کی آشنائی ہے اور وہ اپنی فطرت کی گہرائی میں خدا کو پہچانتا ہے اور اس کے وجود سے آگاہ ہے :وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰۤی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ()( سورہ اعراف آیت ١٧٢)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔

تفسیرخزائن العرفان:حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذُرِّیَّت نکالی ا ور ان سے عہد لیا ۔ آیات و حدیث دونوں پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذُرِّیَّت نکالنا اس سلسلہ کے ساتھ تھا جس طرح کہ دنیا میں ایک دوسرے سے پیدا ہوں گے اور انکے لئے ربوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم فرما کر اور عقل دے کر ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت طلب فرمائی ۔ارشاد باری تعالیٰ :فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ الْقَیِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہ مِنَ اللہِ یَوْمَئِذٍ یَّصَّدَّعُوْن()( سورہ روم آیت٤٣)۔ترجمہئ کنزالایمان :تو اپنا منھ سیدھا کر عبادت کے لئے قبل اس کہ وہ دن آئے جسے اللّٰہ کی طرف سے ٹلنا نہیں اس دن الگ پھٹ جائیں گے ۔

تفسیرخزائن العرفان :یعنی دینِ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو، روزِ قیامت ۔یعنی حساب کے بعد متفرق ہو جائیں گے جنّتی جنّت کی طرف جائیں گے اور دوزخی دوزخ کی طرف ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ انسان کی پیدائش اتفاقی نہیں بلکہ ایک مقررہ طریقے پر ہوئی ہے اور وہ خدا کا برگزیدہ اور منتخب کیا ہوا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:ثُمَّ اجْتَبٰیہُ رَبُّہ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدٰی( سورہ طہٰ، آیت١٢٢)۔ترجمہ ئ کنزلایمان :پھر اسے اس کے رب نے چُن لیا تو اس پر اپنی رحمت سے رجوع فرمائی اور اپنے قرب خاص کی راہ دکھائی۔

ٍ انسان آزاد اور مستقل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ خدا کا امانت دار اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔اس سے یہ بھی چاہا گیا ہے کہ وہ اپنے کام اور کوششوں سے زمین کو آباد کرے اور سعادت و شقاوت کے راستوں میں سے ایک کو اپنی مرضی سے اختیار کرے۔

ارشاد باری تعالیٰ :اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا ()( پ٢٢،سورہ احزاب، آیت ٧٢)۔ترجمہ کنز الایمان :بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسٰنَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَا() نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ()( پ٢٩،سورہ دہر آیت ٢،٣)۔بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے کہ وہ اسے جا نچیں تو اسے سنتا دیکھتا کردیا ۔

() انسان ذاتی شرافت اور کرامت کا مالک ہے()
خدا نے انسان کو دیگر بہت سی مخلوقات پر برتری بخشی ہے لیکن وہ اپنی حقیقت کو خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا (پ١٥ سورہ بنی اسرائیل آیت٧٠)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اوران کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیںاور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا ۔

تفسیرخزائن العرفان:عقل و علم و گویائی ، پاکیزہ صورت ، معتدل قامت اور معاش و معاد کی تدابیر اور تمام چیزوں پر استیلا و تسخیر عطا فرما کر اور اس کے علاوہ اور بہت سی فضیلتیں دے کر ۔جانوروں اور دوسری سواریوں اور کشتیوں اور جہازوں وغیرہ میں ۔لطیف خوش ذائقہ حیوانی اور نباتی ہر طرح کی غذائیں خوب اچھی طرح پکی ہوئی کیونکہ انسان کے سوا حیوانات میں پکی ہوئی غذا اور کسی کی خوراک نہیں ۔حسن کا قول ہے کہ اکثر سے کل مراد ہے اور اکثر کا لفظ کل کے معنٰی میں بولا جاتا ہے قرآنِ کریم میں بھی ارشاد ہوا :وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ اور مَایَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنّا ۔میں اکثر بہ معنٰی کل ہے لہذا ملائکہ بھی اس میں داخل ہیں اور خواص بشر یعنی انبیاء علیہم السلام خواص ملائکہ سے افضل ہیں اور صلحائے بشر عوام ملائکہ سے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ مومن اللہ کے نزدیک ملائکہ سے زیادہ کرامت رکھتا ہے وجہ یہ ہے کہ فرشتے طاعت پر مجبول ہیں یہی ان کی سرشت ہے ، ان میں عقل ہے شہوت نہیں اور بہائم میں شہوت ہے عقل نہیں اور آدمی شہوت و عقل دونوں کا جامع ہے تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ ملائکہ سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ بہائم سے بدتر ہے ۔

انسان اپنی فطری قوت سے ہر نیک و بد کو پہچان لیتا ہے۔

وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰیہَا ()فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوٰیہَا()قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰیہَا ( سورہ شمس آیات ٧،٩)۔ترجمہ ئکنزالایمان :اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایاپھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی۔بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا۔

()قلبی اطمینان ()
انسان کے لئے اطمینان قلب کے حصول کا واحد ذریعہ یاد خدا ہے اس کی خواہشات لامتناہی ہیں لیکن خواہشوں کے پورا ہو جانے کے بعد وہ ان چیزوں سے بے زار ہو جاتا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کی لامتناہی ذات سے مل جائے۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ( سورہ رعد آیت٢٨)۔ترجمہ ئکنزالایمان :وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللّٰہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللّٰہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔

()اللّٰہ ہی کی طرف رجوع کرناہے ()
یٰۤاَیُّہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ()ترجمہ ئ کنزالایمان :اے آدمی بے شک تجھے اپنے رب کی طرف یقینی دوڑنا ہے پھر اس سے ملنا (پ٣٠،سورہ انشقاق آیت٦)

() زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے ہیں()
ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ()ثُمَّ اسْتَوٰۤی اِلَی السَّمَآء ِ فَسَوّٰیہُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیْمٌ()(پ١،سورہ بقرہ آیت ٢٩)۔ترجمہئ کنزالایمان :وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف استواء (قصد)فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے ۔

تفسیرخزائن العرفان::یعنی کانیں سبزے جانور دریا پہاڑ جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ تعالٰی نے تمہارے دینی و دنیوی نفع کے لئے بنائے دینی نفع اس طرح کہ زمین کے عجائبات دیکھ کر تمہیں اللہ تعالٰی کی حکمت و قدرت کی معرفت ہو اور دنیوی منافع یہ کہ کھاؤ پیوآرام کرو اپنے کاموں میں لاؤ تو ان نعمتوں کے باوجود تم کس طرح کفر کرو گے مسئلہ کرخی و ابوبکر رازی وغیرہ نے خلق لکم کو قابل انتفاع اشیاء کے مباح الاصل ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔یعنی یہ خلقت و ایجاد اللہ تعالٰی کے عالم جمیع اشیاء ہونے کی دلیل ہے کیونکہ ایسی پر حکمت مخلوق کا پیدا کرنا بغیر علم محیط کے ممکن و متصور نہیں مرنے کے بعد زندہ ہونا کافر محال جانتے تھے ان آیتوں میں ان کے بطلان پر قوی برہان قائم فرمادی کہ جب اللہ تعالٰی قادر ہے علیم ہے اور ابدان کے مادے جمع و حیات کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں تو موت کے بعد حیات کیسے محال ہوسکتی ہے پیدائش آسمان و زمین کے بعد اللہ تعالٰی نے آسمان میں فرشتوں کو اور زمین میں جنات کو سکونت دی جنات نے فساد انگیزی کی تو ملائکہ کی ایک جماعت بھیجی جس نے انہیں پہاڑوں اور جزیروں میں نکال بھگایا ۔

وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ()( پ٢٥،سورہ جاثیہ، آیت ١٣)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اور تمہارے لئے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میںاپنے حکم سے بے شک اس میں نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لئے ۔

()بندے کا کام بندگی ہے ()
خدا نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ دنیا میں صرف اپنے خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی پابندی کرے پس اس کی ذمہ داری امر خدا کی اطاعت ہے۔
وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰیہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُولٰۤئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ()( سورہ حشر آیت١٩)۔
ترجمہ کنزالایمان :اور ان جیسے نہ ہو جو اللّٰہ کو بھول بیٹھے تو اللّٰہ نے انہیں بَلا میں ڈالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں وہی فاسق ہیں ۔

انسان خدا کی عبادت اور اس کی یاد کے بغیر اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اگر وہ خدا کو بھول جائے تو اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور کس لئے ہے؟ اور یہ کہ وہ کیا کرے؟ اسے کیا کرنا چاہئے؟ اور کہاں جانا چاہئے؟

انسان جونہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کی روح کے چہرے سے جسم کا پردہ جو کہ روح کے چہرے کا حجاب ہے اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اس پر ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اس سے پوشیدہ رہتے ہیں:لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآء َکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ()( پ٢٦،سورہ ق ،آیت ٢٢)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :بیشک تو اس سے غفلت میں تھاتو ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھایا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

انسان دنیا میں ہمیشہ مادی مسائل کے حل کے لئے ہی کوششیں نہیں کرتا اور اس کو صرف مادی ضرورتیں ہی متحرک نہیں کرتیں بلکہ وہ بعض اوقات کسی بلند مقصد کے حصول کے لئے بھی اٹھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل سے اس کے ذہن میں سوائے رضائے خداوندی کے حصول کے اور کوئی مقصد نہ ہو۔ارشاد باری تعالیٰ:یٰۤاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ () ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ()( پ ٣٠،سورہ فجر آیات ٢٧،٢٨)۔ترجمہئ کنزالایمان :اے اطمینان والی جان ۔اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔

(انسانیت کی اصلاح )
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جٰہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَمَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (پ١٠،سور ۃ التوبۃ ،آیت:٧٣)۔ترجمہ ئ کنزالاایمان :اے غیب کی خبریں دینے والے (نبی)جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں پراور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی ۔

()فکر انگیز بات()
انسان خداوند تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ ہستی ہے۔ وہ زمین پر اس کا خلیفہ اور جانشین ہے وہ روحانی اور مادی عناصر کا مرکب خدا آشنا فطرت کا مالک آزاد اور مختار پیغام خداوندی کا امین دنیا کا اور اپنا ذمہ داراور نیکی اور بدی کو سمجھنے والا ہے۔ اس کی زندگی کا آغاز کمزوری سے ہوتا ہے اور قوت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے لیکن جب وہ حالت رشد وہدایت کی تمیز کو پہنچتا ہے تو اسے صرف اسی صورت میں سکون قلب ملتا ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر اس کی یاد میں مشغول ہو جائے اس کی علمی اور عملی استعداد لامحدود ہے۔ وہ ذاتی شرافت اور کرامت کا حامل ہے اس کی خواہشات پر کسی طرح کا مادی اور طبیعی رنگ نہیں چڑھتا اس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے جائز فائدہ اٹھائے لیکن وہ اپنے خدا کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا ذمہ دار بھی ہے۔

()نادان انسان()
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا ()(پ ٢٢،سورہ احزاب آیت ٧٢)۔ترجمہ ئکنزالایمان :بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔

تفسیرخزائن العرفان:حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہ تعالٰی عنہمانے فرمایا کہ امانت سے مراد طاعت و فرائض ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پیش کیا ، انہیں کو آسمانوں ، زمینوں ، پہاڑوں پر پیش کیا تھا کہ اگر وہ انہیں ادا کریں گے تو ثواب دیئے جائیں گے نہ ادا کریں گے تو عذاب کئے جائیں گے ۔ حضرت ابنِ مسعود رَضِیَ اللّٰہ تعالٰی عنہنے فرمایا کہ امانت نمازیں ادا کرنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا ، خانہ کعبہ کا حج ، سچ بولنا ، ناپ اور تول میں اور لوگوں کی ودیعتوں میں عدل کرنا ہے ۔ بعضوں نے کہا کہ امانت سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کا حکم دیا گیا اور جن کی ممانعت کی گئی ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص نے فرمایا کہ تمام اعضاء کان ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ سب امانت ہیں اس کا ایمان ہی کیا جو امانت دار نہ ہو ۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہَمانے فرمایا :کہ امانت سے مراد لوگوں کی ودیعتیں اور عہدوں کا پورا کرنا ہے۔ تو ہر مومن پر فرض ہے کہ نہ کسی مومن کی خیانت کرے نہ کافِر معاہد کی ، نہ قلیل میں نہ کثیر میں ، اللہ تعالیٰ نے یہ امانت اعیانِ سمٰوٰت و ارض و جبالپر پیش فرمائی پھر ان سے فرمایا کیا تم ان امانتوں کو مع اس کی ذمّہ داری کے اٹھاؤ گے ؟ انہوں نے عرض کیا ذمّہ داری کیا ہے ؟ فرمایا: یہ کہ اگر تم انہیں اچھی طرح ادا کرو تو تمہیں جزا دی جائے گی اور اگر نافرمانی کرو تو تمہیں عذاب کیا جائے گا ، انہوں نے عرض کیا نہیں اے ربّ ہم تیرے حکم کے مطیع ہیں نہ ثواب چاہیں نہ عذاب اور ان کا یہ عرض کرنا براہِ خوف و خشیت تھا اور امانت بطورِ تخییر پیش کی گئی تھی یعنی انہیں اختیار دیا گیا تھا کہ اپنے میں قوّت و ہمّت پائیں تو اٹھائیں ورنہ معذرت کر دیں ، اس کا اٹھانا لازم نہیں کیا گیا تھا اور اگر لازم کیا جاتا تو وہ انکار نہ کرتے ۔کہ اگر ادا نہ کر سکے تو عذاب کئے جائیں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّنے وہ امانت آدم عَلَیْہِ السَّلام کے سامنے پیش کی اور فرمایا کہ میں نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کی تھی وہ نہ اٹھا سکے کیا تو مع اس کی ذمّہ داری کے اٹھا سکے گا ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے اقرار کیا ۔

()رب چھوٹ دیتاہے موقع دیتاہے ()
وَّ اَصْحٰبُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوْسٰی فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ ()(پ١٧،سورۃ الحج ،آیت٤٤)
ترجمہ ئ کنزالایمان :اور مدین والے اور موسٰی کی تکذیب ہوئی تو میں نے کافرو ں کو ڈھیل دی پھر انہیں پکڑا تو کیسا ہوا میرا عذاب۔

تفسییرخزائن العرفان:یعنی حضرت شعیب کی قوم ۔یہاں موسٰی کی قوم نہ فرمایا کیونکہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی قوم بنی اسرائیل نے آپ کی تکذیب نہ کی تھی بلکہ فرعون کی قوم قبطیوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی تکذیب کی تھی ، ان قوموں کا تذکرہ اور ہر ایک کے اپنے رسول کی تکذیب کرنے کا بیان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تسکینِ خاطر کے لئے ہے کہ کُفّار کا یہ قدیمی طریقہ ہے پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی دستور رہا ہے ۔اور ان کے عذاب میں تاخیر کی اور انہیں مہلت دی ۔اور ان کے کفر و سرکشی کی سزا دی ۔آپ کی تکذیب کرنے والوں کو چاہیئے کہ اپنے انجام کو سوچیں اور عبرت حاصل کر
() جلد بازی انسان کی فطرت ہے()

انسان جب انسان سے معاملہ کرتاہے ،کوئی کام سرانجام دیتاہے تو ان کے جلد سے جلد ثمرات کا متقاضی ہوتاہے ۔یہی معاملہ وہ بارگاہ الہی میں بھی برتا ہے کہ ادھر دعامانگی ادھر قبول ہوجائے ،اد ھر عرض کیا ادھر تعبیر ہوجائے اسی جلدباز فطرت کا تذکرہ ربّ تعالیٰ نے بھی پیش کیا۔وَیَدْعُ الْاِنْسٰنُ بِالشَّرِّ دُعَآء َہ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْاِنْسٰنُ عَجُوْلًا () ۔( پ١٥،سورہ اسرائیل، آیت ١١)۔ترجمہ ئکنزالایمان :اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی مانگتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے ۔

جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پہلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو دور کرنے کے لئے اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔(سورہ یونس آیت ١٢)

()مرض کی تشخیص اور علاج()
اللہ کریم نے انسان کی شان بیان فرمائی اس کے ساتھ ساتھ میں پائے جانے والے امراض سے بھی مطلع فرمایا اور اپنے کرم سے رہتی دنیا تک کے لیے اس کا علاج بھی ارشادفرمادیاجیساکہ انسان کی کنجوسی اور راہ خداعزوجل میں خرچ کرنے سے ہاتھ روکنے پر ارشاد باری تعالیٰ :وَکَانَ الْاِنْسٰنُ قَتُوْرًا()( سورہ اسراء آیت ١٠٠)۔ترجمہ کنزالایمان : آدمی بڑا کنجوس ہے ۔

اِلَّا اَنْ یَّشَآء َ اللّٰہُ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَقُلْ عَسٰۤی اَنْ یَّہْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا()(پ ١٥،سورء کہف ،آیت٢٤)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے اور اپنے رب کی یاد کر جب تو بھول جائے اور یوں کہہ کہ قریب ہے کہ میرا رب مجھے اس سے نزدیک تر راستی کی راہ دکھائے۔

یعنی ان شاء اللہ تعالٰی کہنا یاد نہ رہے تو جب یاد آئے کہہ لے ۔ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا جب تک اس مجلس میں رہے ۔ اس آیت کی تفسیروں میں کئی قول ہیں بعض مفسِّرین نے فرمایا معنٰی یہ ہیں کہ اگر کسی نماز کو بھول گیا تو یاد آتے ہی ادا کرے ۔ (بخاری و مسلم) بعض عارفین نے فرمایا معنٰی یہ ہیں کہ اپنے ربّ کو یاد کر جب تو اپنے آپ کو بھول جائے کیونکہ ذکر کا کمال یہی ہے کہ ذاکر مذکور میں فنا ہو جائے ۔
اِنَّ الْاِنْسٰنَ خُلِقَ ہَلُوْعًا()اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا ())وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا ()ترجمہ کنزالایمان :بے شک آدمی بنایا گیا ہے بڑا بے صبراحریص۔جب اسے برائی پہنچے تو سخت گھبرانے والااور جب بھلائی پہنچے تو روک رکھنے وال ۔ وہ کم ہمت پیدا کیا گیا ہے۔( سورہ معارج آیات ١٩،٢١)۔ جب اس کو برائی پہنچے تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پہنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے۔( پ ٢٩،سورہ معارج آیات ۔١٩تا٢١)
()حسین یا بدصورت()

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا انسان قرآن حکیم کی نظر میں بدصورت مخلوق بھی اور حسین مخلوق بھی ہے وہ بھی بہت حسین اور بہت بدصورت؟ کیا وہ دو طرح کی فطرتوں کا حامل ہے یعنی اس کی آدھی فطرت نور ہے اور آدھی ظلمت؟ اور ایسا کیوں ہے کہ قرآن حکیم اس کی بہت زیادہ تعریف بھی کرتا ہے اور بے انتہا مذمت بھی۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت اس سبب سے نہیں کہ وہ دو فطرتوں کا حامل ہے گویا اس کی ایک فطرت قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت۔ قرآن حکیم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اپنی استعدادی قوت کی بناء پر تمام کمالات کا حامل ہے اور اس کا لازم ہے کہ وہ ان کمالات کو قوت سے فعل میں لائے اور یہ خود انسان ہی ہے جو اپنی ذات کا معمار ہے۔انسان کے ان کمالات تک پہنچنے کی اصل شرط ایمان ہے۔ ایمان ہی سے اس میں تقویٰ نیک عمل اور راہ خدا میں کوشش کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ایمان ہی کے ذریعے سے علم نفس امارہ کے ہاتھ میں ناجائز ہتھیار کی صورت سے نکل کر مفید ہتھیار کی صورت اختیار کرتا ہے۔پس حقیقی انسان جو کہ خلیفۃ اللہ ہے مسجود ملائک ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے لئے ہے اور وہ تمام انسانی کمالات کا حامل ہے وہ انسان باایمان ہے نہ کہ انسان بے ایمان اور ناقص ہے۔ ایسا انسان حریص اور خونریز ہے وہ بخیل اور خسیس ہے وہ کافر ہے اور حیوان سے پست تر۔قرآن حکیم میں ایسی بھی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کون سا انسان ہے جس کی تعریف کی گئی ہے؟ اور وہ کون سا انسان ہے جس کی مذمت کی گئی ہے؟ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا انسان حقیقی نہیں ہے اگر انسان اس حقیقت یگانہ سے تعلق قائم کر لے جس کی یاد سے دل آرام پاتا ہے تو وہ کمالات کا حامل ہے اور اگر وہ اس حقیقت یگانہ یعنی خدا سے جدا ہو جاتا ہے تو وہ ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو اپنی جڑوں سے جدا ہو چکا ہے۔اس موضوع پر ہم ذیل میں آیات بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:وَالْعَصْرِ ()اِنَّ الْاِنْسٰنَ لَفِیْ خُسْرٍ ()اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ()۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اس زمانہِ محبوب کی قسم ۔بے شک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔(پ ٣٠،سورۃ العصر)

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰۤئِکَ کَالْاَنْعٰمِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰۤئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ()ترجمہ ئکنزالایمان :اور بے شک ہم نے جہنّم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں۔( پ ٩،سورہ اعراف ،آیت١٧٩ )

محترم قارئین کرام :یہ اس کتاب میں احقر نے حتی الوسع یہ کوشش کی کہ اللہ عزوجل کا عطاکردہ انسانی تعارف پیش کیاجائے تاکہ اس ظلم و ستم ڈھانے والے ،اس نفرتوں و عداوتوں کو رواج دینے والے،قوم پرستی ،تعصب کی بھینٹ چڑھنے والے ،انا و خود پسندی میں رچ بس جانے والے ،اللہ اور اللہ کے رسول کی رسی کو چھوڑنے والے ،ذاتی مفاد ،ابن الوقت مزاج کو اپنانے والے ،اپنوں و بیگانوں کی تمیز کو پس پشت ڈالنے والے ،علم کو جہالت کی کمان بنانے والے ،معاش و معاشرت کی دھجیاں بکھیرنے والے ،مذہب کو ثانوی حیثیت دینے والے ،وحشیوں کی سی زندگی گزانے والے انسان کو بتاسکوں کہ تیرا منصب ،تیرا تعارف ،تیرا وقار،تیری عظمت ،تیری شان ،تیری ذمہ داری اور تیری پہچان کیا تھی اور تونے کدھر کی راہ لی۔تو اس شاہراہ پر چل پڑا جس کا انجام حماقت ،ضلالت و نقصان ہی نقصان ہے ۔آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ،کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔تعصب ،انانیت کی عینک اتار کرقران کا مطالعہ کیجیے ۔ترجمہ و تفسیر دنیا کی کئی زبانوں میں موجود ہیں مفاہم تک رسائی آسان ہے جہاں دقت ،مشکل محسوس کریں علماء ،اہل علم و دانش سے رجوع کرکے فراخ دلی سے حق و صداقت کو جاننے کی کوشش کریں تو ان شاء اللہ عزوجل مجھے اپنے کریم رحمٰن و ربّ سے کامل یقین ہے کہ جس جس کے حق میں رشد و ہدایت مقرر ہوگی اسے مل ہی کر رہے گی۔اللہ کریم ہمیں علم نافع کی دولت سے بہر مند فرمائے ۔آمین
()فلسفہ اسلام اور مقام انسانیت ()
اسلام دین فطرت ہے ۔ اس کا ہر قانون ،ہر ضابطہ فطرت کا عظیم نمونہ ہے ۔جب ،جہاں اور جیسے انسان کی فلاح مقصود تھی اسی ترتب کے ساتھ قوانین کی وضاحت گئی ۔اسی اعتبار سے زندگی گزارنے کاسلیقہ سیکھایاگیا۔اسلام کی نظر میںایک انسان فقط راست قامت چلنے ،پھرنے اور بولنے والا انسان ہی نہیںبلکہ اس کی رفعت و معراج کو قران اپنی شان و عظمت کے مطابق بیان فرمایا۔اس نہایت حساس ،اہم اور قابل فکر عنوان پر چند جملے یا سطریں کفایت نہ کریں گیں ۔اسلام افراط و تفریط سے پاک دین ہے۔ جس میں نہ تو شدت ہے اور نہ ہی انسان کومکمل چھوٹ ہے بلکہ معاملہ بین بین ہے ۔یعنی اعتدال کی عظیم نظیر ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنی لاریب کتاب میں جہاں اپنی مخلوق جس کے سر اس نے اشرف المخلوقات کا تاج سجایا ،جہاںاس کی تعریف و توصیف کو ذکر کیاوہاں اس کی مذمت پر بھی اپنی صفت قہاری کا اظہار فرمایا۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے ۔وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔آئیے تعارف انسانی قران کی زبانی جانتے ہیں ۔

()کائنات عالم میں انسان کا مقام ()
قرآن کی عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں ہیں اور سخت ترین مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے یعنی انسان کا کرداراس کی بقاء اور اس کی منزل کے حصول میں ایک اہم محرک ہے۔

() انسانی اقدار()
اللہ عزوجل نے انسان کو اپنی تخلیق کا شاہکار بنایا۔جسے دیکھ کر اس کی عظمت و شان کاپتاچلتاہے۔جب خالق ارض و سمٰوٰت نے انسان کو پیدافرمایامنصب و مسند سے نواز تو پھر اس کی جانچ پڑتال ،اس کے احتساب اور اس کی فکری ،شعوری ،مذہبی وملی تربیت کے لیے ایک منظم نظام عطافرمایا۔اپنے پیغام ،اپنے احکام کی بجاآوری کے لیے انسان کو اعلٰی مقام عطافرمایا اس شان و عظمت سے نوازا۔بلندمرتبہ ،بلند شان انسان کے حصّہ میں آئی۔

()ربّ تعالیٰ کا خلیفہ ()
مومنین پر کرم فرمانے والے خدائے احکم الحاکمین نے انسان کو اپنا خلیفہ بناکر مبعوث فرمایا۔جس کا ذکر اس نے اپنی ذیشان کتاب میں فرمایا:
()وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰۤئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآء َ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ()( سورہ بقرہ، آیت ٣٠)۔ترجمہئ کنزالایمان :اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ۔

تفسیرخزائن العرفان:خلیفہئ احکام واوامرکے اجراء و دیگر تصرفات میں اصل کا نائب ہوتا ہے ۔یہاں خلیفہ سے حضرت آدمعَلَیہِ السَّلام مراد ہیں۔ اگرچہ اور تمام انبیاء بھی اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں ۔حضرت داؤدعَلَیہِ السَّلامکے حق میں فرمایا '' یَادَاو،دُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ'' فرشتوں کو خلافت آدم کی خبر اس لئے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت دریافت کرکے معلوم کرلیں اور ان پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ اُن کو پیدائش سے قبل ہی خلیفہ کا لقب عطا ہوا اور آسمان والوں کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی ۔

()مرتبہ کا احساس()
مراتب و درجات سے نوازا تو ربّ تعالیٰ نے احساس ذمہ داری کا بھی احساس دلایا:()وَ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰۤئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰیکُمْ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَ اِنَّہ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ()(سورہ انعام ،آیت ١٦٥)۔ترجمہ کنزالایمان :اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی بے شک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بے شک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیرخزائن العرفان:کیونکہ سیدِ عالَم صَلَّی اللّٰہ علیہ وَسَلَّم خاتَم النبّیِین ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہ علیہ وَسَلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ کی اُمّت آخرُ الاُمَم ہے اس لئے ان کو زمین میں پہلوں کا خلیفہ کیا کہ اس کے مالک ہوں اور اس میں تصرُّف کریں ۔شکل و صورت میں ، حسن و جمال میں ، رزق و مال میں ، علم و عقل میں ، قوّت و کمال میں ۔یعنی آزمائش میں ڈالے کہ تم نعمت و جاہ و مال پا کر کیسے شکر گزار رہتے ہو اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کے سلوک کرتے ہو ۔

()انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات کی ممکنہ استعداد سے زیادہ ہے۔()
ربّ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں انسان کو دیگر مخلوق پر صاحب شرف رکھا۔علم ایک نعمت اوربے نظیر دولت ہے ۔اس معاملہ میں بھی ربّ نے انسان کو دیگر مخلوق سے بلند مرتبہ فرمایا:چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآء َ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلٰۤئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِـُوْنِیْ بِاَسْمَآء ِ ہٰۤؤُلَآء ِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ()( پ ١،سورہ بقرہ ِآیت٣١)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اور اللّٰہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ()( پ١،سورہ بقرہ، ِآیت ٣٢ )۔ترجمہ ئ کنزالایمان :بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔

()اعلٰی مراتب کے لیے سخت امتحانات سے واسطہ()
روایتی زندگی پر غور کریں تو ہم اگر کسی کی اہمیت کو بیان ،کسی کی علمی استعداد کسی کی اہلیت کی تعریف بیاں کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں تو پہلے۔قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْبِئْہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّآ اَنْبَاَہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ قَالَ اَ لَمْ اَ قُلْ لَّکُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ()(پ١،سورہ بقرہ، ِآیت ٣٣)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :فرمایا اے آدم بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔

تفسیرخزائن العرفان:اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر تمام اشیاء و جملہ مسمیات پیش فرما کر آپ کو ان کے اسماء و صفات و افعال و خواص و اصول علوم و صناعات سب کا علم بطریق الہام عطا فرمایا ۔یعنی اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ میں کوئی مخلوق تم سے زیادہ عالم پیدا نہ کروں گا اور خلافت کے تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام تصرف و تدبیراور عدل و انصاف ہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اس کو متصرف فرمایا گیا اور جن کا اس کو فیصلہ کرنا ہے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کے ملائکہ پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ علمِ اسماء خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے ۔اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ملائکہ سے افضل ہیں ۔

()انسان فطرت خداکی آشنائی ہے ()
انسان کی فطرت خدا کی آشنائی ہے اور وہ اپنی فطرت کی گہرائی میں خدا کو پہچانتا ہے اور اس کے وجود سے آگاہ ہے :وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰۤی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ()( سورہ اعراف آیت ١٧٢)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔

تفسیرخزائن العرفان:حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذُرِّیَّت نکالی ا ور ان سے عہد لیا ۔ آیات و حدیث دونوں پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذُرِّیَّت نکالنا اس سلسلہ کے ساتھ تھا جس طرح کہ دنیا میں ایک دوسرے سے پیدا ہوں گے اور انکے لئے ربوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم فرما کر اور عقل دے کر ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت طلب فرمائی ۔ارشاد باری تعالیٰ :فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ الْقَیِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہ مِنَ اللہِ یَوْمَئِذٍ یَّصَّدَّعُوْن()( سورہ روم آیت٤٣)۔ترجمہئ کنزالایمان :تو اپنا منھ سیدھا کر عبادت کے لئے قبل اس کہ وہ دن آئے جسے اللّٰہ کی طرف سے ٹلنا نہیں اس دن الگ پھٹ جائیں گے ۔

تفسیرخزائن العرفان :یعنی دینِ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو، روزِ قیامت ۔یعنی حساب کے بعد متفرق ہو جائیں گے جنّتی جنّت کی طرف جائیں گے اور دوزخی دوزخ کی طرف ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ انسان کی پیدائش اتفاقی نہیں بلکہ ایک مقررہ طریقے پر ہوئی ہے اور وہ خدا کا برگزیدہ اور منتخب کیا ہوا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:ثُمَّ اجْتَبٰیہُ رَبُّہ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدٰی( سورہ طہٰ، آیت١٢٢)۔ترجمہ ئ کنزلایمان :پھر اسے اس کے رب نے چُن لیا تو اس پر اپنی رحمت سے رجوع فرمائی اور اپنے قرب خاص کی راہ دکھائی۔

ٍ انسان آزاد اور مستقل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ خدا کا امانت دار اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔اس سے یہ بھی چاہا گیا ہے کہ وہ اپنے کام اور کوششوں سے زمین کو آباد کرے اور سعادت و شقاوت کے راستوں میں سے ایک کو اپنی مرضی سے اختیار کرے۔

ارشاد باری تعالیٰ :اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا ()( پ٢٢،سورہ احزاب، آیت ٧٢)۔ترجمہ کنز الایمان :بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسٰنَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَا() نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ()( پ٢٩،سورہ دہر آیت ٢،٣)۔بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے کہ وہ اسے جا نچیں تو اسے سنتا دیکھتا کردیا ۔

() انسان ذاتی شرافت اور کرامت کا مالک ہے()
خدا نے انسان کو دیگر بہت سی مخلوقات پر برتری بخشی ہے لیکن وہ اپنی حقیقت کو خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا (پ١٥ سورہ بنی اسرائیل آیت٧٠)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اوران کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیںاور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا ۔

تفسیرخزائن العرفان:عقل و علم و گویائی ، پاکیزہ صورت ، معتدل قامت اور معاش و معاد کی تدابیر اور تمام چیزوں پر استیلا و تسخیر عطا فرما کر اور اس کے علاوہ اور بہت سی فضیلتیں دے کر ۔جانوروں اور دوسری سواریوں اور کشتیوں اور جہازوں وغیرہ میں ۔لطیف خوش ذائقہ حیوانی اور نباتی ہر طرح کی غذائیں خوب اچھی طرح پکی ہوئی کیونکہ انسان کے سوا حیوانات میں پکی ہوئی غذا اور کسی کی خوراک نہیں ۔حسن کا قول ہے کہ اکثر سے کل مراد ہے اور اکثر کا لفظ کل کے معنٰی میں بولا جاتا ہے قرآنِ کریم میں بھی ارشاد ہوا :وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ اور مَایَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنّا ۔میں اکثر بہ معنٰی کل ہے لہذا ملائکہ بھی اس میں داخل ہیں اور خواص بشر یعنی انبیاء علیہم السلام خواص ملائکہ سے افضل ہیں اور صلحائے بشر عوام ملائکہ سے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ مومن اللہ کے نزدیک ملائکہ سے زیادہ کرامت رکھتا ہے وجہ یہ ہے کہ فرشتے طاعت پر مجبول ہیں یہی ان کی سرشت ہے ، ان میں عقل ہے شہوت نہیں اور بہائم میں شہوت ہے عقل نہیں اور آدمی شہوت و عقل دونوں کا جامع ہے تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ ملائکہ سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ بہائم سے بدتر ہے ۔

انسان اپنی فطری قوت سے ہر نیک و بد کو پہچان لیتا ہے۔

وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰیہَا ()فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوٰیہَا()قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰیہَا ( سورہ شمس آیات ٧،٩)۔ترجمہ ئکنزالایمان :اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایاپھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی۔بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا۔

()قلبی اطمینان ()
انسان کے لئے اطمینان قلب کے حصول کا واحد ذریعہ یاد خدا ہے اس کی خواہشات لامتناہی ہیں لیکن خواہشوں کے پورا ہو جانے کے بعد وہ ان چیزوں سے بے زار ہو جاتا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کی لامتناہی ذات سے مل جائے۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ( سورہ رعد آیت٢٨)۔ترجمہ ئکنزالایمان :وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللّٰہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللّٰہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔

()اللّٰہ ہی کی طرف رجوع کرناہے ()
یٰۤاَیُّہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ()ترجمہ ئ کنزالایمان :اے آدمی بے شک تجھے اپنے رب کی طرف یقینی دوڑنا ہے پھر اس سے ملنا (پ٣٠،سورہ انشقاق آیت٦)

() زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے ہیں()
ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ()ثُمَّ اسْتَوٰۤی اِلَی السَّمَآء ِ فَسَوّٰیہُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیْمٌ()(پ١،سورہ بقرہ آیت ٢٩)۔ترجمہئ کنزالایمان :وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف استواء (قصد)فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے ۔

تفسیرخزائن العرفان::یعنی کانیں سبزے جانور دریا پہاڑ جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ تعالٰی نے تمہارے دینی و دنیوی نفع کے لئے بنائے دینی نفع اس طرح کہ زمین کے عجائبات دیکھ کر تمہیں اللہ تعالٰی کی حکمت و قدرت کی معرفت ہو اور دنیوی منافع یہ کہ کھاؤ پیوآرام کرو اپنے کاموں میں لاؤ تو ان نعمتوں کے باوجود تم کس طرح کفر کرو گے مسئلہ کرخی و ابوبکر رازی وغیرہ نے خلق لکم کو قابل انتفاع اشیاء کے مباح الاصل ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔یعنی یہ خلقت و ایجاد اللہ تعالٰی کے عالم جمیع اشیاء ہونے کی دلیل ہے کیونکہ ایسی پر حکمت مخلوق کا پیدا کرنا بغیر علم محیط کے ممکن و متصور نہیں مرنے کے بعد زندہ ہونا کافر محال جانتے تھے ان آیتوں میں ان کے بطلان پر قوی برہان قائم فرمادی کہ جب اللہ تعالٰی قادر ہے علیم ہے اور ابدان کے مادے جمع و حیات کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں تو موت کے بعد حیات کیسے محال ہوسکتی ہے پیدائش آسمان و زمین کے بعد اللہ تعالٰی نے آسمان میں فرشتوں کو اور زمین میں جنات کو سکونت دی جنات نے فساد انگیزی کی تو ملائکہ کی ایک جماعت بھیجی جس نے انہیں پہاڑوں اور جزیروں میں نکال بھگایا ۔

وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ()( پ٢٥،سورہ جاثیہ، آیت ١٣)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اور تمہارے لئے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میںاپنے حکم سے بے شک اس میں نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لئے ۔

()بندے کا کام بندگی ہے ()
خدا نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ دنیا میں صرف اپنے خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی پابندی کرے پس اس کی ذمہ داری امر خدا کی اطاعت ہے۔
وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰیہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُولٰۤئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ()( سورہ حشر آیت١٩)۔
ترجمہ کنزالایمان :اور ان جیسے نہ ہو جو اللّٰہ کو بھول بیٹھے تو اللّٰہ نے انہیں بَلا میں ڈالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں وہی فاسق ہیں ۔

انسان خدا کی عبادت اور اس کی یاد کے بغیر اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اگر وہ خدا کو بھول جائے تو اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور کس لئے ہے؟ اور یہ کہ وہ کیا کرے؟ اسے کیا کرنا چاہئے؟ اور کہاں جانا چاہئے؟

انسان جونہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کی روح کے چہرے سے جسم کا پردہ جو کہ روح کے چہرے کا حجاب ہے اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اس پر ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اس سے پوشیدہ رہتے ہیں:لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآء َکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ()( پ٢٦،سورہ ق ،آیت ٢٢)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :بیشک تو اس سے غفلت میں تھاتو ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھایا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

انسان دنیا میں ہمیشہ مادی مسائل کے حل کے لئے ہی کوششیں نہیں کرتا اور اس کو صرف مادی ضرورتیں ہی متحرک نہیں کرتیں بلکہ وہ بعض اوقات کسی بلند مقصد کے حصول کے لئے بھی اٹھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل سے اس کے ذہن میں سوائے رضائے خداوندی کے حصول کے اور کوئی مقصد نہ ہو۔ارشاد باری تعالیٰ:یٰۤاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ () ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ()( پ ٣٠،سورہ فجر آیات ٢٧،٢٨)۔ترجمہئ کنزالایمان :اے اطمینان والی جان ۔اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔

(انسانیت کی اصلاح )
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جٰہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَمَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (پ١٠،سور ۃ التوبۃ ،آیت:٧٣)۔ترجمہ ئ کنزالاایمان :اے غیب کی خبریں دینے والے (نبی)جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں پراور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی ۔

()فکر انگیز بات()
انسان خداوند تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ ہستی ہے۔ وہ زمین پر اس کا خلیفہ اور جانشین ہے وہ روحانی اور مادی عناصر کا مرکب خدا آشنا فطرت کا مالک آزاد اور مختار پیغام خداوندی کا امین دنیا کا اور اپنا ذمہ داراور نیکی اور بدی کو سمجھنے والا ہے۔ اس کی زندگی کا آغاز کمزوری سے ہوتا ہے اور قوت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے لیکن جب وہ حالت رشد وہدایت کی تمیز کو پہنچتا ہے تو اسے صرف اسی صورت میں سکون قلب ملتا ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر اس کی یاد میں مشغول ہو جائے اس کی علمی اور عملی استعداد لامحدود ہے۔ وہ ذاتی شرافت اور کرامت کا حامل ہے اس کی خواہشات پر کسی طرح کا مادی اور طبیعی رنگ نہیں چڑھتا اس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے جائز فائدہ اٹھائے لیکن وہ اپنے خدا کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا ذمہ دار بھی ہے۔

()نادان انسان()
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا ()(پ ٢٢،سورہ احزاب آیت ٧٢)۔ترجمہ ئکنزالایمان :بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔

تفسیرخزائن العرفان:حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہ تعالٰی عنہمانے فرمایا کہ امانت سے مراد طاعت و فرائض ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پیش کیا ، انہیں کو آسمانوں ، زمینوں ، پہاڑوں پر پیش کیا تھا کہ اگر وہ انہیں ادا کریں گے تو ثواب دیئے جائیں گے نہ ادا کریں گے تو عذاب کئے جائیں گے ۔ حضرت ابنِ مسعود رَضِیَ اللّٰہ تعالٰی عنہنے فرمایا کہ امانت نمازیں ادا کرنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا ، خانہ کعبہ کا حج ، سچ بولنا ، ناپ اور تول میں اور لوگوں کی ودیعتوں میں عدل کرنا ہے ۔ بعضوں نے کہا کہ امانت سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کا حکم دیا گیا اور جن کی ممانعت کی گئی ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص نے فرمایا کہ تمام اعضاء کان ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ سب امانت ہیں اس کا ایمان ہی کیا جو امانت دار نہ ہو ۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہَمانے فرمایا :کہ امانت سے مراد لوگوں کی ودیعتیں اور عہدوں کا پورا کرنا ہے۔ تو ہر مومن پر فرض ہے کہ نہ کسی مومن کی خیانت کرے نہ کافِر معاہد کی ، نہ قلیل میں نہ کثیر میں ، اللہ تعالیٰ نے یہ امانت اعیانِ سمٰوٰت و ارض و جبالپر پیش فرمائی پھر ان سے فرمایا کیا تم ان امانتوں کو مع اس کی ذمّہ داری کے اٹھاؤ گے ؟ انہوں نے عرض کیا ذمّہ داری کیا ہے ؟ فرمایا: یہ کہ اگر تم انہیں اچھی طرح ادا کرو تو تمہیں جزا دی جائے گی اور اگر نافرمانی کرو تو تمہیں عذاب کیا جائے گا ، انہوں نے عرض کیا نہیں اے ربّ ہم تیرے حکم کے مطیع ہیں نہ ثواب چاہیں نہ عذاب اور ان کا یہ عرض کرنا براہِ خوف و خشیت تھا اور امانت بطورِ تخییر پیش کی گئی تھی یعنی انہیں اختیار دیا گیا تھا کہ اپنے میں قوّت و ہمّت پائیں تو اٹھائیں ورنہ معذرت کر دیں ، اس کا اٹھانا لازم نہیں کیا گیا تھا اور اگر لازم کیا جاتا تو وہ انکار نہ کرتے ۔کہ اگر ادا نہ کر سکے تو عذاب کئے جائیں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّنے وہ امانت آدم عَلَیْہِ السَّلام کے سامنے پیش کی اور فرمایا کہ میں نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کی تھی وہ نہ اٹھا سکے کیا تو مع اس کی ذمّہ داری کے اٹھا سکے گا ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے اقرار کیا ۔

()رب چھوٹ دیتاہے موقع دیتاہے ()
وَّ اَصْحٰبُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوْسٰی فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ ()(پ١٧،سورۃ الحج ،آیت٤٤)
ترجمہ ئ کنزالایمان :اور مدین والے اور موسٰی کی تکذیب ہوئی تو میں نے کافرو ں کو ڈھیل دی پھر انہیں پکڑا تو کیسا ہوا میرا عذاب۔

تفسییرخزائن العرفان:یعنی حضرت شعیب کی قوم ۔یہاں موسٰی کی قوم نہ فرمایا کیونکہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی قوم بنی اسرائیل نے آپ کی تکذیب نہ کی تھی بلکہ فرعون کی قوم قبطیوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی تکذیب کی تھی ، ان قوموں کا تذکرہ اور ہر ایک کے اپنے رسول کی تکذیب کرنے کا بیان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تسکینِ خاطر کے لئے ہے کہ کُفّار کا یہ قدیمی طریقہ ہے پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی دستور رہا ہے ۔اور ان کے عذاب میں تاخیر کی اور انہیں مہلت دی ۔اور ان کے کفر و سرکشی کی سزا دی ۔آپ کی تکذیب کرنے والوں کو چاہیئے کہ اپنے انجام کو سوچیں اور عبرت حاصل کر
() جلد بازی انسان کی فطرت ہے()

انسان جب انسان سے معاملہ کرتاہے ،کوئی کام سرانجام دیتاہے تو ان کے جلد سے جلد ثمرات کا متقاضی ہوتاہے ۔یہی معاملہ وہ بارگاہ الہی میں بھی برتا ہے کہ ادھر دعامانگی ادھر قبول ہوجائے ،اد ھر عرض کیا ادھر تعبیر ہوجائے اسی جلدباز فطرت کا تذکرہ ربّ تعالیٰ نے بھی پیش کیا۔وَیَدْعُ الْاِنْسٰنُ بِالشَّرِّ دُعَآء َہ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْاِنْسٰنُ عَجُوْلًا () ۔( پ١٥،سورہ اسرائیل، آیت ١١)۔ترجمہ ئکنزالایمان :اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی مانگتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے ۔

جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پہلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو دور کرنے کے لئے اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔(سورہ یونس آیت ١٢)

()مرض کی تشخیص اور علاج()
اللہ کریم نے انسان کی شان بیان فرمائی اس کے ساتھ ساتھ میں پائے جانے والے امراض سے بھی مطلع فرمایا اور اپنے کرم سے رہتی دنیا تک کے لیے اس کا علاج بھی ارشادفرمادیاجیساکہ انسان کی کنجوسی اور راہ خداعزوجل میں خرچ کرنے سے ہاتھ روکنے پر ارشاد باری تعالیٰ :وَکَانَ الْاِنْسٰنُ قَتُوْرًا()( سورہ اسراء آیت ١٠٠)۔ترجمہ کنزالایمان : آدمی بڑا کنجوس ہے ۔

اِلَّا اَنْ یَّشَآء َ اللّٰہُ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَقُلْ عَسٰۤی اَنْ یَّہْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا()(پ ١٥،سورء کہف ،آیت٢٤)۔ترجمہ ئ کنزالایمان :مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے اور اپنے رب کی یاد کر جب تو بھول جائے اور یوں کہہ کہ قریب ہے کہ میرا رب مجھے اس سے نزدیک تر راستی کی راہ دکھائے۔

یعنی ان شاء اللہ تعالٰی کہنا یاد نہ رہے تو جب یاد آئے کہہ لے ۔ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا جب تک اس مجلس میں رہے ۔ اس آیت کی تفسیروں میں کئی قول ہیں بعض مفسِّرین نے فرمایا معنٰی یہ ہیں کہ اگر کسی نماز کو بھول گیا تو یاد آتے ہی ادا کرے ۔ (بخاری و مسلم) بعض عارفین نے فرمایا معنٰی یہ ہیں کہ اپنے ربّ کو یاد کر جب تو اپنے آپ کو بھول جائے کیونکہ ذکر کا کمال یہی ہے کہ ذاکر مذکور میں فنا ہو جائے ۔
اِنَّ الْاِنْسٰنَ خُلِقَ ہَلُوْعًا()اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا ())وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا ()ترجمہ کنزالایمان :بے شک آدمی بنایا گیا ہے بڑا بے صبراحریص۔جب اسے برائی پہنچے تو سخت گھبرانے والااور جب بھلائی پہنچے تو روک رکھنے وال ۔ وہ کم ہمت پیدا کیا گیا ہے۔( سورہ معارج آیات ١٩،٢١)۔ جب اس کو برائی پہنچے تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پہنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے۔( پ ٢٩،سورہ معارج آیات ۔١٩تا٢١)
()حسین یا بدصورت()

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا انسان قرآن حکیم کی نظر میں بدصورت مخلوق بھی اور حسین مخلوق بھی ہے وہ بھی بہت حسین اور بہت بدصورت؟ کیا وہ دو طرح کی فطرتوں کا حامل ہے یعنی اس کی آدھی فطرت نور ہے اور آدھی ظلمت؟ اور ایسا کیوں ہے کہ قرآن حکیم اس کی بہت زیادہ تعریف بھی کرتا ہے اور بے انتہا مذمت بھی۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت اس سبب سے نہیں کہ وہ دو فطرتوں کا حامل ہے گویا اس کی ایک فطرت قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت۔ قرآن حکیم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اپنی استعدادی قوت کی بناء پر تمام کمالات کا حامل ہے اور اس کا لازم ہے کہ وہ ان کمالات کو قوت سے فعل میں لائے اور یہ خود انسان ہی ہے جو اپنی ذات کا معمار ہے۔انسان کے ان کمالات تک پہنچنے کی اصل شرط ایمان ہے۔ ایمان ہی سے اس میں تقویٰ نیک عمل اور راہ خدا میں کوشش کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ایمان ہی کے ذریعے سے علم نفس امارہ کے ہاتھ میں ناجائز ہتھیار کی صورت سے نکل کر مفید ہتھیار کی صورت اختیار کرتا ہے۔پس حقیقی انسان جو کہ خلیفۃ اللہ ہے مسجود ملائک ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے لئے ہے اور وہ تمام انسانی کمالات کا حامل ہے وہ انسان باایمان ہے نہ کہ انسان بے ایمان اور ناقص ہے۔ ایسا انسان حریص اور خونریز ہے وہ بخیل اور خسیس ہے وہ کافر ہے اور حیوان سے پست تر۔قرآن حکیم میں ایسی بھی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کون سا انسان ہے جس کی تعریف کی گئی ہے؟ اور وہ کون سا انسان ہے جس کی مذمت کی گئی ہے؟ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا انسان حقیقی نہیں ہے اگر انسان اس حقیقت یگانہ سے تعلق قائم کر لے جس کی یاد سے دل آرام پاتا ہے تو وہ کمالات کا حامل ہے اور اگر وہ اس حقیقت یگانہ یعنی خدا سے جدا ہو جاتا ہے تو وہ ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو اپنی جڑوں سے جدا ہو چکا ہے۔اس موضوع پر ہم ذیل میں آیات بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:وَالْعَصْرِ ()اِنَّ الْاِنْسٰنَ لَفِیْ خُسْرٍ ()اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ()۔ترجمہ ئ کنزالایمان :اس زمانہِ محبوب کی قسم ۔بے شک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔(پ ٣٠،سورۃ العصر)

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰۤئِکَ کَالْاَنْعٰمِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰۤئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ()ترجمہ ئکنزالایمان :اور بے شک ہم نے جہنّم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں۔( پ ٩،سورہ اعراف ،آیت١٧٩ )

محترم قارئین کرام :یہ اس کتاب میں احقر نے حتی الوسع یہ کوشش کی کہ اللہ عزوجل کا عطاکردہ انسانی تعارف پیش کیاجائے تاکہ اس ظلم و ستم ڈھانے والے ،اس نفرتوں و عداوتوں کو رواج دینے والے،قوم پرستی ،تعصب کی بھینٹ چڑھنے والے ،انا و خود پسندی میں رچ بس جانے والے ،اللہ اور اللہ کے رسول کی رسی کو چھوڑنے والے ،ذاتی مفاد ،ابن الوقت مزاج کو اپنانے والے ،اپنوں و بیگانوں کی تمیز کو پس پشت ڈالنے والے ،علم کو جہالت کی کمان بنانے والے ،معاش و معاشرت کی دھجیاں بکھیرنے والے ،مذہب کو ثانوی حیثیت دینے والے ،وحشیوں کی سی زندگی گزانے والے انسان کو بتاسکوں کہ تیرا منصب ،تیرا تعارف ،تیرا وقار،تیری عظمت ،تیری شان ،تیری ذمہ داری اور تیری پہچان کیا تھی اور تونے کدھر کی راہ لی۔تو اس شاہراہ پر چل پڑا جس کا انجام حماقت ،ضلالت و نقصان ہی نقصان ہے ۔آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ،کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔تعصب ،انانیت کی عینک اتار کرقران کا مطالعہ کیجیے ۔ترجمہ و تفسیر دنیا کی کئی زبانوں میں موجود ہیں مفاہم تک رسائی آسان ہے جہاں دقت ،مشکل محسوس کریں علماء ،اہل علم و دانش سے رجوع کرکے فراخ دلی سے حق و صداقت کو جاننے کی کوشش کریں تو ان شاء اللہ عزوجل مجھے اپنے کریم رحمٰن و ربّ سے کامل یقین ہے کہ جس جس کے حق میں رشد و ہدایت مقرر ہوگی اسے مل ہی کر رہے گی۔اللہ کریم ہمیں علم نافع کی دولت سے بہر مند فرمائے ۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 545058 views i am scholar.serve the humainbeing... View More