پاکستانی دینی مدارس اور ترکی اسکولز ....ایک موازنہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ترجمان وفاق المدارس العربیہ پاکستان

ملک کے موقر قومی روزنامہ جنگ میں ڈاکٹر فرقان حمید ( انقرہ) کا کالم ”پاکستانی مدرسے ترک مدرسوں کا روپ اختیار کر سکتے ہیں؟“کے عنوان سے چھپا ۔اس مضمون میں بہت سے مغالطے ،معلومات کا فقدان ،پس منظر سے ناواقفیت اور حقائق سے بے خبری واضح طورپر جھلک رہی ہے ۔محترم ڈاکٹر فرقان حمید پاکستانی مدارس دینیہ کے نظام ونصاب ،ان کے کردار وخدمات سے قطعی طور پر نابلد ہیں ہی لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ مدتِ دراز سے ترکی میں مقیم ہونے کے باوجود ترکی کے نظام تعلیم اور اس کے پسِ منظر سے بھی ناآشنا ہیں ۔ڈاکٹر فرقان حمید کی تحریر کی وجہ سے قارئین کے ذہنوں میں جوخلجان پید اہو اا س کا ازالہ ضروری ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ترکی سیکولرازم کے جس طوفان بلاخیز کی زدسے گزرا وہ محتاج بیان نہیں۔ ایک ایسے دور میں جب ترکی کے بچے بچے کے دل ودماغ سے اسلام کا نام تک مٹاڈالنے کی سعی کی جارہی تھی ،اذان کے عربی کلمات پر پابندی لگا دی گئی تھی ،حجاب اور پردہ جرم ٹھہرا تھا ،دینی اقدار وروایات کو بری طرح سے پامال کیا جا رہا تھا ،اللہ و رسول کا نام لینا جرم ٹھہرا تھا ،ترک قوم پرستی کے نام پر قرآن وسنت کی تعلیم کو شجرِ ممنوعہ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے میں ترکی میں برائے نام دینی تعلیم کا تڑکا لگا کر امام خطیب اسکولز کا جو ماڈل پیش کیا گیا اس کا نام تو بڑاپر کشش تھا لیکن اسے کسی طور پر دینی مدرسہ نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک اسکولز سسٹم تھا جسے ترکی میں حالات کے جبر کی وجہ سے غنیمت جانا گیا جس میں بعد ازاں ایک فلاحی اسلامی جماعت نے اپنے نظریہ وفکر کی بنیاد پر بہتری لائی یوں اسے ترکی کی فلاحی جماعتوں کے اس نظام تعلیم کا ماڈل قراردیا جاسکتا ہے جو پاکستان جیسی اسلامی اور فلاحی ریاست میں روزِ اول سے ہی رائج ہو نا چاہیے تھا ۔ترکی کی موجودہ حکومت کے اہم مناصب پر فائز لوگوں کو اور ان کے فکری ونظریاتی پیشواؤں کو اس بات پر داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے کمال اتاترک کے سیکولرازم کے اثراتِ بد کو جس حکمت ،بصیرت ،منصوبہ بندی اور تدریجی عمل سے کھرچ کھرچ کر مٹا یا وہ لائق تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی ۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس تعلیمی سسٹم کا مقصود ہی دنیوی تعلیم ،مثالی حکمرانوں کی تیاری اور زندگی کے مختلف شعبوں کے ماہرین معاشرے کو فراہم کر نا تھا اور اس کا کریڈٹ ان لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے عصری تعلیم پر دینی تعلیم وتربیت کا بقدر ضرورت عطر اس خوبصورتی سے چھڑکا کہ اس کے نتیجے میں رجب طیب اردگان جیسے حکمران ترکی کو نصیب ہوئے ۔لیکن یاد رہے کہ امام خطیب سکولز کو کو مدرسہ قطعاً نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ وہ ایسے اسکولز ہیں جن میں دینی تعلیم پاکستانی اسکولز کی دینیات اور عربی سے نسبتاً زیادہ دی جاتی ہے اور تربیت پر زور دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے ۔یہ وطن اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا ۔اس کے پسِ منظر میں کہیں کمال اتاترک ،کہیں سیکولرازم کی کوئی طغیانی اور کہیں بے دینی اوربے حیائی کا وہ سیلاب بلاخیز نہیں آیا اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے دن سے ہی اس ملک میں ایسے نظامِ تعلیم کی بنیاد ڈالی جاتی کہ ہمیں زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایسے ماہرین مل جاتے جو دین دار بھی ہوتے اور دیانت دار بھی ،وہ اپنے اپنے شعبوں میں ماہر بھی ہوتے اور ملک وملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار بھی لیکن وائے افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ہم تو آزاد ہو گئے لیکن ہمارا نظامِ تعلیم آزاد نہ ہو سکااور پرویز مشرف جیسے کسی طالع آزماءنے اگر نظامِ تعلیم کی آزادی کا بیڑہ اٹھایا بھی تو کمال اتاتر ک کی طرح اس کو مادرپدر آزاد کرنے کی مہم جوئی کی۔

ایسے میں ہمارے مجموعی نظام ِتعلیم کی اصلاح اور بہتری کی فکر مندی کے بجائے وقفے وقفے سے مدارس دینیہ میں اصلاحات کا آوازہ بلند ہوتا ہے حالانکہ مدارس نہ سرکار سے کسی قسم کی امداد لیتے ہیں ،نہ ان پر بجٹ کی ایک پائی تک صرف ہوتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ وہ ادارے جن پر بھاری بھرکم بجٹ صرف ہوتے ہیں ،جہاں عالیشان عمارتیں اور بے پناہ وسائل ہیں انہوں نے آج تک ترکی کے امام خطیب سکول جیسی مثال کیوں پیش نہیں کی اور طیب اردگان جیسے حکمران معاشرے کو کیوں عطا نہیں کیے ؟اگر ان تعلیمی اداروں میں امام خطیب سکولز جتنی دینی تعلیم وتربیت کا ہی بندوبست کردیا جاتا تو شاید آج پاکستان کے مدارس کی طرف عوام الناس کا اتنا رجوع نہ ہوتا لیکن یہاں کا تو المیہ یہ ہے کہ زندگی کے دیگر شعبوں کے ماہرین تو کجا ایک نظریاتی ریاست ، کلمہ طیبہ اور اسلام کے نعرے کی بنیاد پر معرض ِوجود میں آنے والی مملکت میں معاشرے کی دینی اور مذہبی ضروریات پوری کرنے والے افراد مہیا کرنے کا جس قدر اہتمام ہو نا چاہیے تھا وہ بھی نہیں ہو پایا ۔جس ملک میں لوگ اپنی عام اور بنیادی ضروریات زندگی کے لیے ترستے ہوں ،جس ملک میں عصری تعلیم کو بازیچہ اطفال بنایا گیا ہو ،جس ملک میں آج تک کوئی تعلیمی پالیسی تشکیل نہ پاسکی ہو ،جہاں گھوسٹ اسکولز ہوں ،جہاں بیک وقت کئی کئی قسم کے نظام ہائے تعلیم رائج ہیں،جہاں تعلیم کاروبار بن چکی ہو ،جس ملک کی اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیوں پر اربوں روپے کا بجٹ صرف ہونے کے باوجود دنیا بھر کے لیے طلباءوطالبات کے لیے ان میں کشش اور دلچسپی کا سامان تو کہاں اپنے ملک کے باصلاحیت طلباءوطالبات باہر بھاگ رہے ہوںایسے میں دینی مدارس پاکستا ن کا وہ واحد سسٹم ہے جہاں سے کسبِ فیض کے لیے دنیا بھر کے طلباءوطالبات ترستے ہیں،جہاں تعلیم کاروبار نہیں،جہاں تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے،جہاںکے فیض یافتگان کے دامن پر کرپشن کا کوئی چھینٹا تک نہیں،جہاں فیس کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم نہیں ،جہاں عصبیت کا گزر تک نہیں ، جہاں بوٹی مافیا کا تصور تک نہیں ،جہاں گولیاں نہیں چلتیں ،جہاں بکتر بند گاڑیوں کے پہرے نہیں ،جہاں سنگینوں کے سائے میں امتحانات نہیں لیے جاتے ان مثالی درسگاہوں کا حلیہ بدلنے کے مشورے نجانے کیوں دئیے جاتے ہیں؟۔

رہ گئی فرقہ واریت تو اس کے عوامل دوسرے ہیں۔ یہ دینی مدارس تو مدتوں سے ہیں پھر فرقہ واریت کا عفریت پڑوسی ممالک میں آنے والے انقلابات وتغیرات کے نتیجے میں ہی کیوں بے قابو ہو؟ا اس سے پہلے یہاں فرقہ واریت کیوں نہ تھی؟دینی مدارس تو کب سے اس خطے میں موجود تھے پھر دہشت گردی ،بم دھماکوں اور قتل وغارتگری کا سلسلہ نائن الیون اور امریکی آمد کے بعد ہی کیوں زور پکڑ گیا ؟ یا درہے کہ صرف الزامات اور پروپیگنڈہ حرف آخر نہیں ہوتا۔ اس طرح کے الزامات تو پاکستان کے سر بھی تھونپے جاتے ہیں،اس طرح کی پروپیگنڈہ مہم تو آئی ایس آئی کے خلاف بھی چلائی جاتی ہے ،اس قسم کے چھینٹے تو پاک فوج کے دامن پر بھی اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کیا صر ف الزامات ہی کافی ہیں؟ کسی تحقیق کی کوئی حاجت نہیں کیا؟کسی چھان پھٹک کی کوئی ضرورت نہیں کیا؟

ڈاکٹر فرقان حمید لکھتے ہیں کہ” چند ایک مدارس کو چھوڑ کر مدارس میں نصاب ہی وضع نہیں کیا جاتا“ کوئی ان کو بتائے کہ قبلہ !وہ زمانے عشرے ہو گئے لَد گئے اب تو اس ملک کے ساڑھے تیرہ ہزار مدارس صرف وفا ق المدارس کی چھتری تلے ایک نصاب اور ایک نظام کے تحت چل رہے ہیں جن میں بیس لاکھ سے زائد طلباءوطالبات زیر تعلیم ہیں ۔ پاکستان کے سرکاری تعلیمی ادارے اور امتحانی بورڈ سرکاری وسائل اور عملے کی فوج ظفر موج کے باوجود بھی یہ مثال پیش کرنے سے قاصر ہیںجبکہ دینی مدارس میں بیک وقت پشاور سے لے کر کراچی ،گلگت سے لے کر کوئٹہ اور مظفر آباد سے لے کر ملتان تک ایک ہی پرچہ لیا جاتاہے ۔اس لیے ڈاکٹر فرقان جب کبھی اپنے دیس آنے کی زحمت فرمائیں تو وہ دوچار مدارس کا مشاہدہ اور معاینہ بھی فرما لیں تاکہ انہیں خبر ہو سکے کہ وہ قیامِ پاکستان سے قبل کے جن مدارس کا نقش اپنے دل ودماغ میں بٹھائے ہوئے ہیں اب کا منظر نامہ اس سے یکسر ہی مختلف ہے ۔اب اسلام آباد کے ایک دینی مدرسہ کے طالبعلم گزشتہ کئی برسوں سے فیڈرل بورڈ کی پہلی دس پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں ،اب مدارس میں ایم بی اے بھی کروایاجاتا ہے اور مدارس کے طلباءجوق درجوق اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ملکی اور غیر ملکی یونیوسٹیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں،اب مدارس میں بینکنگ سے لے کر معاشیات تک اور انگریزی سے لے کر فلکیات تک تمام علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ملحقہ جامعات میں سے صرف ایک جامعہ اشرفیہ اپنے ادارے کے ان فضلاءکو اعزازات سے نوازنے کی تقریب کے انعقاد کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جنہوں نے جامعہ سے سند فراغت پانے کے بعد پی ایچ ڈی ایم فل اور ماسٹر ڈگری حاصل کی تو صرف ایک جامعہ کے ایسے فضلاءکی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔

ڈاکٹر فرقان حمید نے علامہ طاہر القادری کی آڑ میں مدارس دینیہ کے لتے لیے انہیں خبر ہو کہ علامہ خود کو مولانا کہے جانے پر برہم ہو جاتے ہیں اور ان کے مدارس ہیں ہی نہیں ان کے تو اسکولز ہیں اور یہاں چونکہ ساری حکومتی مشنری دینی مدارس کی مشکیں کسنے اور ان کی نگرانی کرنے پر لگی ہوئی ہے کسی کو یہ فرصت کہاں کہ وہ یہ جان سکے کہ یہاں نظام تعلیم کے نام پر کیا کیا ہو رہا ہے ؟رہ گیا یہ مخلصانہ مشورہ کہ مدار س کو سرکاری سرپرستی میں دے دیا جائے تو اس قسم کے تجربات بھٹو دور میں پرائیویٹ اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کی شکل میں کر لیے گئے ہیں اور ان تجربات کے جو بھیانک نتائج سامنے آئے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ماضی قریب میں ماڈل دینی مدارس کے نام سے ایک کوشش کی گئی لیکن تمام تر حکومتی وسائل بلکہ غیر ملکی” عنایات“ کے باوجود ملک بھر میں صرف تین عدد ماڈل مدارس کو بھی کامیابی سے نہیں چلایا جا سکا اور اب خود حکومت پاکستان کی طرف سے وفاق المدارس کو ان ماڈل مدارس کو اپنی تحویل میں لینے کی بارہا پیشکش کی جاچکی ہے اور ڈاکٹر فرقان حمید کو یہ بھی نوید ہو کہ پاکستانی مدرسے تو شاید ترکی امام خطیب اسکولز کا روپ نہ دھار پائیں البتہ ترکی کے تمام سنجید ہ ،علمی اور فکری حلقے اور مستندعلماءکرام اس بات کے ضرور خواہشمند ہیں کہ وہ اپنے نوجوانوں کو علمی رسوخ ،ٹھوس استعداد ،نظر کی گہرائی اورفکر کی وسعت دینے کے لیے اپنے اداروں کا وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے الحاق کروا لیں یا اگر الحاق نہ ہو سکے تو وہاں وفاق المدارس کی طرز پر درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا جاسکے اس مقصد کے حصول کے لیے ترکی کے ایسے حلقے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد حنیف جالندھری کو ترکی کا دورہ کروا چکے ہیں ،تبلیغی جماعت کے محترم جاوید ہزاروی سے ترکی کے احباب بارہا یہ تقاضہ کر چکے اور ترکی کے اہل علم کے متعدد وفود پاکستانی مدارس کے مطالعاتی دورے کر چکے ہیں ....اس لیے محترم ڈاکٹر فرقان حمید سے درخواست ہے کہ وہ ایک تو پاکستان کے دینی مدارس کا غیر جانبدرانہ اور منصفانہ جائزہ لیں اور ساتھ ساتھ پاکستان کے عصری تعلیمی اداروں کو ترکی کی تقلید کا درس دیں تاکہ یہاں بھی کوئی اردگان،کوئی عبداللہ گل پید اہو سکے اور دین اور اپنی اقدارکی طرف بتدریج لوٹنے والے ترکی کے سامنے پاکستان کے دینی مدارس کا ماڈل پیش کریں تاکہ وہ اپنے اسلاف کی کھوئی ہوئی میراث واپس حاصل کر پائیں اور ترکی میں بھی پھر سے حقیقی شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی جیسی کوئی ہستی سامنے آسکے ۔
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 129840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.