لانگ مارچ کا نوحہ

پروفیسر مظہر

قدیم یونانی لوک کہانی ہے کہ یونان کا ایک انتہائی خوبصورت شہزادہ ایک دن اپنے محل سے نکلا اور چہل قدمی کرتے ہوئے ایک تالاب کے کنارے جا پہنچا۔تالاب کے شفاف پانی میں اسے اپنا عکس نظر آیا تو وہ اپنی ہی بے پناہ خوبصورتی پر عاشق ہو کر تالاب کے کنارے بیٹھ گیا اور اپنے عکس کو تکتے تکتے مر گیا ۔اس انتہائے خود پسندی کا دوسرا نام نرگسیت ہے جس کا عملی نمونہ اور چلتا پھرتا شاہکار مولوی طاہر القادری صاحب ہیں جو جب سے وارد ہوئے ہیں اپنے ہر خطبے اور ہر انٹر ویو میں اپنے کارنامے اور اپنی خوبیاں گنواتے رہتے ہیں ۔”لمبی لمبی“ ہانکتے ہوئے وہ وقت کا عنصر ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک ہزار ضخیم کُتب کے مصنف ہیں اوراُنہوں نے دُنیا کے نوّے ممالک میں ہزاروںلیکچر ز اور خطبات دیئے ہیں۔اُن کی بے پناہ دیگر سرگرمیاں اس کے علاوہ ہیں ۔اگر انتہائی دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو اس وقت اُن کی عمر کم از کم ڈیڑھ سو سال ہونی چاہیے۔جب کہ اُن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ 2004 ءسے 2012ءتک سرانجام دیا۔وہ خوب جانتے ہیں کہ اس نفسا نفسی کے دَور میں کسی کے پاس اتنی فرصت کہاں کہ وہ تصدیق کرتا پھرے۔رہی قارد الکلامی اور جوشِ خطابت کی بات ، تو برِصغیر کی تاریخ میں عطاءاللہ شاہ بخاری اور ابو الکلام آزاد کے پائے کا کوئی مقرر پیدا ہوا اور نہ ہی شاید ہو گا ۔لیکن عطاءاللہ شاہ بخاری کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ لوگ سُنتے اُنہیں لیکن ووٹ جناحؒ کو دے آتے جو خود کہا کرتے تھے کہ ”میری اُردو تانگے والے کی اردو ہے“ ۔

مولوی قادری صاحب نے ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپنے اندھے عقیدتمندوں، اپنے تعلیمی اداروں کے طلباء، اساتذہ اور اُن کے خاندانوں کے علاوہ دہاڑی دار مزدوروں کو اسلام آباد میں اکٹھا کیا ، آتے ہی تمام اسمبلیاں توڑیں ، صدر اور وزیرِ اعظم کو گھر بھیجا ، چیف جسٹس صاحب کو اپناعقیدتمند ظاہر کرکے مبارک بادیں وصول کیں ، بار بار الٹی میٹم دیئے اور پیپلز پارٹی کے ایم این اے نبیل گبول کے مطابق با لآخرمنتیں کرکے ”یزیدی لشکر“ کو معاہدے کے لیے بلایا اور ان سے بغلگیر ہو کر گھر سدھارے ۔پیپلز پارٹی کی ہی رُکنِ اسمبلی انوشہ رحمان کہتی ہیں کہ اس معاہدے کی ٹکے کی ویلیو نہیں ۔وزیرِ اطلاعات قمر الزماں کائرہ نے بھی ایک ٹاک شو میں بہ اندازِ حکیمانہ ثابت کر دیا کہ اِس معاہدے کی کوئی آئینی حیثیت ہے نہ قانونی۔عقیدت کے اندھوں کو تو رکھیے ایک طرف ،یہاں تو وہ صاحبِ علم بھی تلملاہٹ کا شکار ہیں جو مولوی صاحب سے انقلاب کی آس لگائے بیٹھے تھے۔بوستانِ صحافت کے گلِ تابندہ ، معروف دانشور اور رکنِ پارلیمنٹ نے اپنے کالم میں لانگ مارچ کا نثری نوحہ رقم کیا ہے ۔وہ فرماتے ہیں ”جب روایتی سیاست کے قلعے کو لرزہ بر اندام کرنے والوں نے تبدیلی کا مارچ شروع کیا تو ہم نے نہایت بے اعتنائی سے آنکھیں پھیر لیں۔اب ایسا موقع شاید ہماری زندگی میں کبھی نہ آئے گا۔کم از کم میری عمر کے لوگوں کی زندگی میںتونہیں “۔آگے چل کر موصوف فرماتے ہیں ”لاہور میں ہونے والی (جمہوریت بچاؤ) کانفرنس جس میں کئی علماءاور قوم کے نجات دہندہ موجود تھے ، کی تصاویر دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا۔اگر یہی افراد جمہوریت کے چیمپین ہیں تو پھر میرے جذبات کے لئے صحافتی زبان نا کافی ہے“۔

بجا ارشاد ، سوال مگر یہ ہے کہ جب موصوف خوب جانتے تھے کہ ان اسمبلیوں اور سیاستدانوں سے قوم کا بھلا نہیں ہونے والا اور بقول مولوی قادری اسمبلیوں اور حکومتوں میں یزید، فرعون ، شداد ، نمرود ، قارون ، ڈاکو ، چور ، لٹیرے ، جھوٹے ، بد دیانت ، بے شرم ، بے حیا ، بے غیرت ، لعنتی ، گماشتے اور دہشت گردوں کے سر پرست بیٹھے ہیں تو پھر وہ پانچ سال تک اسی پارلیمنٹ کا حصّہ بن کر تنخواہ لیتے اور ٹی اے۔ ڈی اے کے مزے کیوں لوٹتے رہے؟۔ انہیں تو ابتدا ہی میں ایسی جمہوریت پر لعنت بھیج کر پرچمِ انقلاب تھام کر باہر نکل آنا چاہیے تھا کہ مولوی قادری سے زیادہ صاحبِ علم و مطالعہ تو وہ خود ہیں ۔شاید ہماری سیاست کا یہی دوغلا پن ملک و قوم کو پنپنے دیتا ہے نہ جمہوریت کو ۔موصوف فرماتے ہیں”کیا ہم نے اسے کوئی تاریخی حقیقت سمجھ لیا ہے کہ جمہوریت میں ہی ہماری بقا ہے“؟ ۔جی نہیں ، ہم تو اُس مکمل ضابطہ ¿ حیات ہی میں قوم کی بقا سمجھتے ہیں جسے خود ربّ ِ لازوال نے مرتب کیا اور قیامت تک رہنمائی کے لیے کافی قرار دیا ۔جس کے بارے میں آقا نے فرمایا کہ اگر اس کو مضبوطی سے تھام لو گے تو تحقیق کہ کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔لیکن ہمارے سیکولر اور لبرل دانشوروں کو تو ایسی باتیں کرنے والوں سے بھی چڑ ہے ۔موصوف فرماتے ہیں ”وہ لبرل اسلام ، خواتین کی آزادی ، اقلیتوں کے حقوق ، عوامی جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور لفظ ”مولانا“ سے چڑتے ہیں ۔افسوس ہے اُن پر ، ہماری جمہوریت پسندی ان باتوں کو کیسے برداشت کر سکتی ہے“؟۔جب سے بھٹو مرحوم نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا ہے تب سے ہی ہمارے دانشوروں کو لفظ اسلام کے ساتھ سابقے لاحقے لگانے کی عادت سی ہو گئی ہے ۔ہمارے نزدیک اسلام صرف اسلام ہے لبرل ، سیکولر یا رجعت پسند اسلام نہیں۔اگر موصوف کے خیال میں لبرل اسلام کا مطلب خواتین کی شتر بے مہار آزادی اور بغیر کسی محرم کے کھلے آسمان تلے نا محرموںکے ساتھ ڈیرے ڈالنا ہے تو اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دیتا ۔مولوی قادری اور اس کے پیروکاروں کو چاہیے کہ وہ کسی ایسے دین کی پناہ میں چلے جائیں جو ایسی آزادی بخشتا ہو ۔ہمیں تو بہرحال قادری صاحب اور ان کے حواریوں کی کوئی ایسی دینی تشریح ہر گز قبول نہیں جو امریکہ اور یورپ کو مرغوب ہو ۔حکمت کی کتاب میں یہودیوں اور نصرانیوں کو مخاطب کرکے ربّ ِ کردگار نے کہا کہ اے نبی انہیں کہو کہ تمہارا دین نہ میرا دین ۔ آو ¿ ہم دینِ ابراہیمی پر اکٹھے ہو جائیں ۔ہم بھی بصد ادب کہتے ہیں کہ لبرل ، سیکولر اور رجعت پسندانہ کو چھوڑیں اورآئیں اُس اسلام پر اکٹھے ہو جائیں جس کا حرف حرف کتاب میں درج ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ خود ربّ ، کردگار نے اٹھایا ہے اور تحقیق کہ مولوی قادری دینِ مبیں کی روسے شیخ الاسلام تو کجا ایک عامی مسلمان کے معیار پر بھی پورے نہیں اترتے۔جو شخص بات تو خلفہ راشدین کی کرتا ہو ، اپنے قافلے کو حسینی قافلہ قرار دیتا ہو ، اللہ قُرآن اور رسول کی سینکڑوں قسمیں اُٹھا کر اپنے عقیدتمندوں کو جذباتی کرنے کی کوشش کرتا ہو ، ہزاروں کے مجمعے کے سامنے جھوٹ بولتے ہوئے ذرا شرم محسوس نہ کرتا ہو ،جس کا پاکستانی سیاست میں حصّہ ہو نہ رفاہی کاموں میں ، جو خود پُر تعیش بنکر میں محفوظ اور پیروکاروں کو شدید سردی اور بارش میں کھڑا کرنے میں ذرا جھجک محسوس نہ کرتا ہو ، جس کا ماضی آمروں کے تلوے چاٹتے گزرا ہو اور جو اتنا احسان نا سپاس ہو کہ انہی لوگوں کو یزید کہے جنہوں نے دَورِ ابتلاءمیں قدم قدم پر اُس کا ساتھ دیا ہو اور اُس کی شناخت کا باعث ہوں ، ایسے شخص کی باتیں کیسے لائقِ اعتبار قرار دی جاسکتی ہیں ؟۔

لانگ مارچ میں بری طرح ناکامی کے باوجود بھی مولوی صاحب کامیاب ہیں کیونکہ امریکہ سیکولر دانشوروں اور این جی اوز پر کروڑوں ڈالر صرف کرنے کے باوجود بھی وہ مقصد حاصل نہ کر سکا جومولوی قادری نے کر دکھایا ۔اب امریکہ اور اقوامِ یورپ کو یہ کہنے کا حق ہے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جس کی حکومت دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی ہے اور حکومتی رِٹ کا یہ عالم ہے کہ ایک ”امپورٹڈ مُلا“ بھی دارالحکومت پر قبضہ کرکے حکومتی ایوانوں میں زلزلہ بپا کر سکتا ہے۔امریکہ نے متعدد بار کہا کہ خطرہ ہے کہ کہیں دہشت گرد اسلام آباد پر قبضہ نہ کر لیں اور ہم اس کا مذاق اُڑاتے رہے لیکن آج مولوی قادری نے امریکہ کے کہے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 867 Articles with 563788 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More