گھوڑے کی ٹاپ اور ریل کی چھک چھک

 اپنے تنسیخ شدہ (Expired) کمپیوٹرائزڈشناختی کارڈ کی تجدید(Renue) کر وانے کیلئے جب ہم ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر سانگھڑ کی آفس کے احاطے میں قائم نادرا کی آفس سے فارغ ہوکر باہر نکلے تو دو تین تانگے باہر کھڑے تھے۔ساتھ ہی ایک چنک چی رکشہ بھی کھڑا تھا۔ تانگے کے کوچوان نے ہمیں دیکھ کر شہر شہر کی آوازیں لگانا شروع کر دیں۔ ہمیں شہر ہی جانا تھا ۔ایک طرف چنگ چی اور دوسری طرف تانگہ دیکھ کر ہم شش و پنج میں پڑ گئے۔ہم فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ چنگ میں شہر جائیں یا تانگہ میں۔آخر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ یہ مختصر سا سفر تانگے میں طے کیا جائے کیونکہ چنگ چی تو ہر جگہ مل جاتے ہیں لیکن تانگے میں سفر کرنے کا موقع اب شازو نادر ہی ملتا ہے اور ویسے بھی ہم پچھلے بارہ تیرہ سال سے تانگے میں نہیں بیٹھے تھے۔ کوچوان نے نہ کوئی کک ماری نہ گیر لگایا ،لگام کھینچی اور گھوڑا ٹاپ و ٹاپ چلتا بنا۔تانگے میں سفر کا پنا ہی ایک مزا ہے،دھنواں نہ شور ،ہارن نہ سائرن،کوچوان کے منہ سے نکلنے والی ٹک ٹک کی آواز،گھوڑے کے قدموں کی چاپ اور کوچوان کی طرف سے ہارن کی جگہ چابک ،تانگے کے پہیہ سے ٹکرا کر مخصوص آواز پیدا کر نا اور تانگے کی سیٹوں کا مخصوص انداز میں جھولنا، یہ سب رکشہ میں کہاں ہوتا۔دس روپئے میں اتنا شاندار سفر ،دل تو چاہ رہا تھا کہ اس دن بس کی بجائے سالم تانگہ کرا کرسنجھورو (اپنے آبائی شہر) جایا جائے لیکن ظالم وقت کہاں ایسی اجازت دیتا ہے۔

تانگے کی طرح ریل کے سفر کا بھی اپنا ہی ایک مزا ہے۔ جہاں ریل کا کرایہ نسبتا سستا ہے وہیں روڈ کے مقابلے میں محفوظ بھی ہے۔ریلوے غریب اور متوسط طبقہ کیلئے سفر کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ریلوے ہی کی وجہ سے ٹرانسپورٹ مافیا کی من مانی کم ہوتی ہے۔ پاکستان ریلوے 1976 ء تک ایک منافع بخش ادارہ تھا ۔وفاقی کابینہ نے پاکستان ریلوے کے بڑھتے ہوئے خسارے کے پیش نظر ریلوے کرایوں میں 25 فیصد تک اضافہ، 39 ٹرینوں کی بندش کا فیصلہ کیا ہے جبکہ 20 ہزار ملازمین کو اضافی قرار دے دیا گیا ہے۔جی ایم ریلوے کے مطابق پاکستان ریلوے کے پاس اس وقت تقریبا 500 انجن ہیں جن میں سے156 خراب پڑے ہیں۔پاکستان ریلوے کے ذمہ PSO کے کروڑوں روپئے واجب الادا ہیں جس کی وجہ سے چند روز قبل PSO نے ریلوے کو تیل کی سپلائی بند کردی تھی۔پاکستان ریلوے کا خسار ہ اس وقت پچاس ارب سے تجاوز کر گیا ہے اور ریلوے کو جب سے ٹرانسپورٹ مافیا کے حوالے کیا گیا ہے یہ ادارہ اب سفید ہاتھی ہاتھی بن چکا ہے۔ جب پاکستان قائم ہوا تو ہمیں دو بہترین نظام ایک ریلوے اوردوسرا اریگیشن سسٹم بنا بنا یا ملاتھا۔لیکن جس طرح پورے ملک میں نہری نظام کا جال بچھایا گیا تھا اسی طرح پورے ملک میں ریلوے کا ایک وسیع نظام تھا اور پورے ملک میں ریلوے لائنوں کا جال بچھا ہوا تھا۔آخر ریلوے کا یہ حال کیسے ہوا؟سابق وفاقی وزیر جناب شیخ رشید کے مطابق ریلوے تو اسی دن ختم ہوگیا تھا جس دن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مشتعل لوگوں نے پر تشدد رد رد عمل کیا تھا اور ریلوے انجنوں ،بوگیوں ریلوے اسٹیشنوں اور ریلوے کی املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ شیخ رشید کی بات اپنی جگہ درست لیکن اگر ریلوے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ریلوے کا نظام اس وقت اس وقت زیادہ تباہی کی جانب بڑھتا ہے جب کسی ٹرانسپورٹر کو ریلوے کا وزیر بنایا جاتا ہے۔جب دودھ کی بلی رکھوالی ہوگی(بلکہ باگڑ بلا) تو دودھ کا کیا بنے گا یہ سب ہی کو معلوم ہے۔گذشتہ دنوں نامور صحافی اور تجزیہ نگار جناب ہارون رشید نے ایک نجی چینل کے پروگرام میں وفاقی وزیر ریلوے جناب غلام احمد بلور پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔انہوں نے الزامات لگاتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ وزیر موصوف ریلوے کی زمینیں بیچ بیچ کر کھا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں۔وزیر ریلوے کے خلاف کرپشن کے ثبوت ہوں نہ ہوں لیکن اگر کوئی بھی محکمہ اس بری طرح سے تباہ ہوتا ہے جیسا کہ ریلوے تو اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری اس محکمہ کے وزیر پر عائد ہوتی ہے۔کسی بھی محکمہ میں کرپشن کو روکنا، اس میں بہتر مینیجمنٹ کرنا حتیٰ کہ اس محکمہ کیلئے فنڈز حاصل کر نا تک کی ذمہ داری متعلقہ محکمہ کے وزیر کی ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں جہاں اکثر سیاسی پارٹیاں الیکشن لڑنے کیلئے ٹکٹ جاگیر اور پیسہ کی بنیاد پر دیتی ہیں اسی طرح منتخب اراکین کو وزارتیں بھی میریٹ پر نہیں دی جاتیں حتیٰ کہ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ جس وزیر کو وزارت دی جارہی ہے وہ قابلیت کے طور پر نہ صحیح لیکن جسمانی صحت کے اعتبار سے وزارت کے معاملات چلانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ہمارے ہاں سرکاری ملازمین کو تو ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر کردیا جاتا ہے لیکن عمر رسیدہ سیاست دانوں کو وزیر بنادیا جاتا ہے حتیٰ کہ جسمانی اور ذہنی طور پر بیماریوں میں مبتلاء لوگوں کو بھی وزارت دے دی جاتی ہے۔

اس وقت پاکستان ریلوے کا جو حال ہے اس کو دیکھ کر یہ اندیشہ ہورہا ہے کہ جلدپاکستان میں ریلوے کا نظام بالکل ختم ہوجائے گا اور غریب مسافر ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم و کرم پر ہونگے۔ گھوڑوں کی ٹاپ بند ہوئی تو اس کی جگہ رکشوں اور چنگ چیوں کے شور نے لے لی لیکن اگر ریل کی چھک چھک بند ہوگئی تو پھر لگتا ہے کہ ہم غریبوں کیلئے لمبا سفر ایک خواب ہی بن جائے گا اور ہماری آئندہ نسلیں ریل کی کہانیاں ہی سنیں گی سفر نہیں کر سکیں گی۔
یوں تو آیا ہے تباہی میں یہ بیڑا سو بار
پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت
ختم شد
Rana waqar hussain
About the Author: Rana waqar hussain Read More Articles by Rana waqar hussain: 2 Articles with 2505 views I m a rana waqar hussain nd i m a jounlist.. View More