قائد کی تصویر والے کاغذ

ہماری عوام کے لئے الیکشن کوئی نیا تماشہ نہیں ....الیکشن دراصل عوام کے لئے سردردی کے سوا کچھ نہیں ، عوام الیکشن اور اس کے نام سے ہمیشہ کی طرح اب بھی چڑ کھاتی ہے، کیونکہ الیکشن کی سر دردی کے بعد انہیں ہمیشہ کے لئے درد کی سزا بگھتنا پڑتی ہے، ملک میں جب بھی معاشی یا معاشرتی بحران آتا ہے تو الیکشن کا ڈھنڈورہ بجنے لگتا ہے۔ حکومتی حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ چہرے بدلنے کی روایت خاصی پرانی ہو گئی ہے، کرسی اقتدار کی لڑائی بہت بھیانک کھیل بن چکا ہے۔ ایک حکومت نے ابھی سو دن پورے نہیں کئے ہوتے کہ دوسری پارٹیاں گٹھ جوڑ کرنے لگتی ہیں، اگرچہ صاحبِ اقتدار پارٹی احتجاج کا بہانہ نہیں دیتی لیکن شوروغل کرنے والوں کے پاس بہانوں کی کمی نہیں ہوتی۔سوچا جائے تو اس حکومت نے پانچ سال پورے کر لئے مگر عوام کو مہنگائی،مایوسی اور بے بسی کے کیا ملا؟

بہانے تو سب کو مل جاتے ہیں مثلاً برسراقتدار پارٹی کو اپنی جان چھڑانے کے لئے، ہر خامی ، ہر کوتاہی کو سابقہ حکومت کے سر تھوپنے کا موقع مل جاتا ہے،پھر وہ بڑے ہی بہانے سے اسے سابقہ حکومت کی کوتاہی یا برائی کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں اور تمام مسائل سے جان چھڑا لیتے ہیں۔عوام ان تمام مراحل میں گونگے بہرے اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے، صاحبِ اقتدار انہیں نت نئے خواب دکھا کر ان کی آنکھیں چکا چوند کر لیتے ہیں، انہیں روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ سنا کر مرعوب کیا جاتا ہے۔ بھوک کے ستائے ہوئے غریب لوگ دو وقت کی روٹی کے حصول کو زندگی کا اولین فرض سمجھ کر خاموشی سے ظلم کی چکی میں پستے ہیں۔ نام نہاد شرفاءاور اقرباءپرور طبقہ عوام کی خوشامد اس طرح کرتا ہے کہ عوام ان کو اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے۔

ایک شخص ایک پہلوان کو اپنے گھر کا دروازہ توڑنے کو کہتا ہے، پہلوان دروازہ توڑ دیتا ہے اور کہتا ہے ”ہے کوئی ہمارے جیسا؟“۔وہ شخص اسے تھپکی دیتا ہے اور کہتا ہے ”تمہارے جیسا شخص تو پورے علاقے میں نہیں ہے لیکن اگلا دروازہ باقی ہے“ پہلوان جوش میں آ کر اگلا دروازہ بھی توڑ دیتا ہے اور بڑ بڑاتا ہے ”کوئی ہے ہمارا جیسا“ وہ شخص اسے شاباش دے کر مزید دو کمروں کے دروازے توڑنے کو کہتا ہے، پہلوان انہیںتوڑکر ہلکی آواز سے کہتا ہے ” کوئی ہے ہمارا جیسا“، وہ شخص اس کی خوشامد کرتا ہے اور کہتا ہے ” آپ جیسا کوئی نہیں....بس ایک دروازہ باقی ہے“ پہلوان تھک کر چور ہو چکا تھا ۔ اس نے نفی میں جواب دیا اور کہا ” اور بھی ہوں گے ہمارے جیسے“۔ پہلوان کو اس شخص نے کہا ” اتنا ہی زور تھا کیا؟“ پہلوان نے غصے ہو کر کہا ” رہنے دو....پہلے ہی پندرہ مزدوروں کا کام کروا چکے ہو“۔

حصول اقتدار کے لئے نام نہاد سیاستدان وعدوں کی لمبی لسٹ عوام کے سامنے کر دیتے ہیں، عوام پہلوان کی طرح جوش میں آکر الیکشن اور سلیکشن کے مراحل سے بار بار گزرتی ہے، قیام پاکستان کے دن سے(یعنی 65سال سے) یہ بھولی بھالی عوام اسی طرح کہہ رہی ہے کہ ” کوئی ہے ہمارے جیسا“ اور سیاستدان انہیں تھپکی دے کر کہتے ہیں ” شاباش ابھی ایک دروازہ باقی ہے“، نئی صدی میں عوام کی سوچوں میں تھوڑی سی تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے ، لوگ باشعور ہوتے جا رہے ہیں انہیں پتہ چل گیا ہے کہ حصول اقتدار کی دوڑ میں انہیں خواہ مخواہ پاﺅں کے نیچے کچلا جاتا ہے، چند لوگ جو عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں انہیں بلیک میل اور پش بیک کرنے والے بہت ہیں۔ عوام کے نام پر عوام پر حکمرانی کرنے والے نام نہاد طبقہ نے کسی غریب غرباءیا غریب پرور کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا بلکہ عوام کی خوشامد کرکے انہیں بھر پور طریقے سے استعمال کیا ہے۔کبھی عمران خان جیسا کرکٹر عوام کو اپنی جذباتی گفتگو میں گھیرتا ہے تو کبھی زرداری جیسی پارٹی اپنے پارٹی کے شہدا کو کیش کرنے کا چکر چلا کر کرپشن کرتی ہے،کبھی مشرف جیسا ڈکٹیٹر جمہوریت پر عوامی حمایت کے نام پر شب خون مارتا ہے تو کبھی طاہر القادری جیسا سابقہ مولوی موجودہ دور میں شیخ الاسلام بن کر اپنے مدارس کے طلبا،اساتذہ اور ملازمین بمعہ فیملی پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے دھرنے کے نام پر سیاسی ڈیل کر کینڈا روانہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے پاکستان میں اب” دھرنا“ مطلب کچھ بھی نہیں ”کرنا“ کے نام سے مشہور ہے۔

جو لوگ کرپشن کرتے ہیں انہیں کھلی چھٹی مل جاتی ہے، کرپشن کے خاتمے کے لئے بہترین حکمتِ عملی کے بجا ئے کرپشن کی پیداورار کے لئے زیادہ حالات پید ا کئے جاتے ہیں۔جب بھی کرپٹ لوگوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو وہ کمزور لوگوں کو پھنسوا دیتے ہیں بلکہ انہیںکامران فیصل مرحوم کی طرح ڈپریشن میں رکھ کر مار دیا جاتا ہے یا مرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ لیکن جب موقع” تمغہ حوصلہ افزائی“ وصول کرنے کا آتا ہے تو کمزور لوگوں کو بے ایمان ثابت کرکے” بلیک لسٹ“ کر دیا جاتا ہے اور بااثر طبقہ” سر فہرست “ہو جاتا ہے ایک گاﺅں میں کسی کی شادی پر دعوت ولیمہ پر لوگ کھانے کے انتظار میں تھے اور کھانا کافی لیٹ تھا، بہت انتظار کے بعد لڑکے والے ہاتھ دھلانے کے لئے پانی لائے تو ایک میراثی جو گا گا کے تھک چکا تھا فوراً بولا ”پہلے ادھر سے شروع کرو“ میزبان بولے ”انہیں جوتے لگاﺅ“ میراثی جھٹ سے بول اٹھا ”تو پھر پہلے اپنی طرف سے شروع کرو“۔

جب الیکشن کی باری آتی ہے تو ہمدردیاں نیچے سے تقسیم کی جاتی ہیں، جب بندر بانٹ ہوتی ہے تو اوپر والے سر فہرست ہوتے ہیں، عوام کو تو سزا ہی سزا ملتی ہے، اپنے ناکردہ گناہوں پر، خدا جانے یہ الیکشن اور سلیکشن کی جنگ کب ختم ہو گی، ورنہ تو پاکستانی عوام یونہی ہاتھوں میں ووٹ لئے روٹی کا انتطار کریگی، بے روزگار گلے میںاصلی سندیں سجائے سڑکو ں پر پھریں گے، نام نہادجعلی سند یافتہ طبقہ اپنا پیٹ بڑھاتا رہے گا اور عوام کو اپنی جوتی کی نوک پر سجائے ”حکمران“ رہیں گے،الیکشن میںصرف چار چار کروڑ خرچ کرنے والے ہی مقابلہ کریں گے اور اپنی فتح پر اسلحہ لہرا کر جشن منائیںگے۔یہاں کسی کو روٹی،کپڑا،مکان اور انصاف ایمانداری سے نہیں ملے گا،نجانے کیوںبھٹو پھر بھی زندہ ہے حالانکہ یہاں عوام کی زندگیوں کی کوئی ضمانت نہیں۔یہ ہمیشہ داﺅ پرہوتی ہیں،بم دھماکہ ہو یا شہر کی فائرنگ نقصان ہمیشہ عوام کا ہی ہوگا۔جب شہر میں سوگ منایا جائے گا تو غریب مزدروں کے چولہے اس چھٹی کی وجہ سے سرد رہیںگے اورغریبوں کے بچے سکول کی تعلیم سے بھی محروم رہیں گے ۔جب شہر میں نام نہاد جلوس نکلیں گے تو دکانیں بھی غریبوں کی ہی بند رہیں گی یا جلیں گی ۔پاکستان میںغریب ہر جگہ غریب تر ہوگا اور امیر ہر جگہ امیر تر کیونکہ قائد کی تصویر والے کاغذ صرف امیر لوگوں کے پرس کی زینت بنتے ہیں ۔پاکستان میں غریب تونوٹ،فروٹ،گوشت،گیس،پانی،بجلی،پٹرول اور پروٹوکول کو محض دور سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 60143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.