دل کے ارما ں آنسوؤں میں بہہ گئے

جمعہ کا دن تھا ،لو گ نماز جمعہ ادا کر نے کیلئے مسجد گئے ،تو دیکھا کہ دروازہ ٹو ٹا ہو اہے ، بجلی کے تا ر اکھاڑ دیئے گئے ہیں ،کچھ پنکھے گرے پڑے ،قر آن کریم اور پلا سٹک کی جا ئے نما ز جلی ہوئی ہے ۔

مو نگیر ضلع کے دلہٹہ بازار میں ایک مسجد ہے ،جہا ں مسلما نوں کی تعداد بہت کم ہے ؛اس لئے پنج وقتہ نماز اہتمام سے باجما عت ادا نہیں پاتی ہے ؛البتہ جمعہ کی نماز لوگ اہتما م سے ادا کرتے ہیں ،معمول کے مطا بق جمعہ سے قبل لو گ آئے ،تو مسجد اور قر آن کی اس طرح بے حرمتی دیکھ کر مسلما ن ہکا بکا رہ گئے ، لیکن پھر وہی ہوا، مسلما نو ں سے کہا گیا :کہ آپ لو گ صبر وتحمل کا مظاہر کریں ؛پو لس اپنا کام کر رہی ہے ۔

اسی طرح ضلع سیتا مڑھی کے پر سہ قصبہ کی مسجد میں معمول کے مطابق مسلمان فجر کی نماز ادا کر نے کے لئے تشر یف لا ئے ،دیکھا کہ خنزیر کا سر کٹا ہوا ہے ، مسلما نو ں نے صبر وتحمل کا مظاہر ہ کر تے ہو ئے ،اس معاملہ کو بھی پو لس کا رروائی پر چھوڑ دیا ،مسجد کی صفائی کی اور خدا کے نیک بندوں نے فجر کی نماز اداکی ۔

یہ روز روز کی کہا نی ہے ،کوئی نئی بات نہیں ،ہر دن سنتے ہیں ،اور اخبارات کی سرخیو ں میں دیکھتے اور پڑھتے ہیں ،لیکن کریں کیا ؟ہم مجبور محض ہیں ،اور جو طاقت رکھتے ہیں، انہیں ان حادثات سے کوئی مطلب ہی نہیں ،انہیں تو صر ف اپنی دکان چمکا نا ہے ،اپنی عزت عزیز ہے ،اسلا م پر حرف آئے تو آئے ،ان کی ذات ، ان کاحسب ونسب ،ان کا مسلک انہیں زیادہ پیا را ہے ۔

پٹنہ سیٹی کی ایک مسجد میں مثالی اتحا د دیکھنے کو ملا ،مسجد کا سکریٹری تبلیغی ہے ،پنج وقتہ نماز کا امام سنی ہے ،اور جمعہ کا امام وخطیب دیو بندی اور قاسمی ،نما ز پڑھنے والے مقتدیا ن بھی مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ،کوئی جھگڑا نہیں ،کوئی اختلا ف نہیں ،سب ایک ہیں کلمہ واحدہ کی بنیا د پر ۔

لیکن اس مثالی اتحاد نے کچھ نام نہا د مولویوں کا گلا کھو نٹ دیا اور وہ مید ان میں آگئے ،اپنے مسلک کی تائید میں دوسرے مکتبہ فکر کے لو گو ں کی خو ب توہین کی ، اجلاس عام میں بھدی بھدی گالیاں دیں اور دوسر وں کی خو ب خوب تکفیر کی ،بس کیا تھا ،دوسرے دن دوسرے مسلک والے مو لانا صاحب میدان ِکا ر زار میں کو د پڑے ،اور انہو ں نے بھی نعرہ تکبیر بلند کر تے ہو ئے جو اب میں گالم گلو چ شر وع کردی ،اپنی حما یت میں دلا ئل کی گٹھری عوام کے سامنے پیش کردیا ، بے چارے دیو بندی فکر کے مولانا صاحب جمعہ میں تشریف لا ئے اوردونوں طرف برابر لگی ہو ئی آگ کوانہو ں نے بجھا نے کی تو کو شش کی ؛لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی ،نہ جا نے اب تک کتنے مکا نا ت نذر آ تش ہو چکے تھے ۔

ہمیں فکرہے کہ اپنے مسلک بچانے کی اور ہندوستان بھر میں ہمارے وجود کو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے ،ہم اپنوں سے اس لئے لڑ رہے ہیں،کہ فلاں مسجد پر میراقبضہ ہوجائے ،اور ادھر ہماری مسجدوں کو منہدم کرنے کی سازش چل رہی ہے ،ہماری پوری طاقت اس بات پر صرف ہورہی ہے کہ مسجدکے مقتدیان اور مصلیان ہمارانام لیوا ہو جا ئیں ،اور تمہیں نہیں پتہ ؛کہ مسجدکے مقتدیوں،نمازیوں،نوجوانوںکے کیریر کو تباہ وبرباد کرنے کی کوشش ہورہی ہے ،دہشت گردی کے نام پر چن چن کر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لینے والوں کو گرفتار کیا جارہاہے ،انہیں جیل کی سلاخوں میں یاتو سڑایاجاتاہے ،یا بے کار محض بنانے کے بعد دوروپئے دے کر رہا کر دیا جاتاہے ،اور اعلان کردیاجاتاہے کہ حکومت نے ایک مستحسن قدم اٹھاتے ہوئے بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہاکردیا،معاوضہ بھی دے دیا،اور بے قصوری کی سرٹیفیکٹ بھی دے دی۔

جب دنیا سورہی ہوتی ہے، تو لائبریری میں بیٹھ کر ہم اس کتاب کامطالعہ کرتے ہیں،جس سے صرف اور صرف ہمارے مسلک کی تائید ہواور منبر پر چڑھ کر تقریر شروع کردیتے ہیں،تقریر اتنی موثر ہوتی ہے کہ بے چارے مسلمان مسجدوں ہی میں میں لڑائی شروع کردےتے ہیں،غیروں کو موقع ملتاہے ، ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا،ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے، مسجدں میں خنزیر ذبح کرکے مسجدوں کو آلودہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے ،ذہنی طور پرہمیں ٹارچرکیاجارہاہے؛ تاکہ ہم احساس کمتری کاشکارہوجائیں،پست ہمت ہوجائیں اور ظلم وزیادتی کے خلاف ایک حرف بھی ہم نہ بولیں۔

مسلمانو!ہندوستان ہماراہے،ہم نے سات سوسال اس ملک کی آبیاری کی ہے ،ہم نے اسے اتنی ترقی دی کہ دنیااسے سونے کی چڑیاکہنے پر مجبورہوئی ؛ لیکن ایک سیاہ دوربھی آیاکہ انگریزاس ملک کے تخت وتاج،سیاہ وسفیدکامالک بن گیا،ملک غلامی کی زنجیرمیں جکڑگیا،ہم نے اس ملک کو آزادکرانے کیلئے لڑائیاں لڑیں،دوسوسال کی طویل جدوجہدمیں ہمارے املاک تباہ وبربادہوئے،ہماری جانیں گئیں،عزت وعصمت داغدارہوئیں،ہماری اولادنظروں کے سامنے شہیدہوگئی،صرف 1857ءکی جنگ آزادی میں دولاکھ مسلمانوں اور علماءکرام کی جانوں کا نذارانہ ہم نے پیش کیا،لیکن کامیابی نہیں ملی،اس کے نتیجہ میں چن چن کر ہم سے انگریزنے بدلہ لیا۔1861ءمیں تین لاکھ قرآن کریم کے نسخے جلادیئے۔1864ءسے1867 ءتک چودہ ہزارعلماءکرام کوتختہ دارپرچڑھادیا،تاریخ پڑھتے ہیں توکلیجہ منہ کو آنے لگتاہے ،دہلی کے چاندنی چوک سے لیکرخیبرتک کوئی ایسادرخت نہیں جس پر ہمارگردنیں لٹکی ہوئی نہ ہوتیں، سوروںکے کھالوںمیں بندکرکے جلتے ہوئے تنورمیں ہمیں پھینک دیاجاتا،کھولتے ہوئے پانی میں ہمیں ڈال دیاجاتا،لوہے کوگرم کرکے ہماری کمر کوداغاجاتا،مالٹاکے جیل کوہم نے آبادکیا،کالاپانی کی سزاہم نے پائی۔غرض ہمیں جوبھی سزاملی،ہم نے اس ملک کیلئے وہ سزاکاٹ لی،لیکن انگریزسے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا،بالآخرہماری قربانی رنگ لائی اور1947ءمیں یہ ملک آزادہوگیا۔

اس ملک کیلئے قربانی ہم نے تو اس لئے دی تھی کہ سراٹھاکر ہمیں جینے کاحق ملے ،ہمیں اپنے مذہب پر عمل کی پوری آزادی ہوگی،کسی کے ساتھ بھیدبھاؤنہیں ،لیکن افسوس:۔
دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے
ہم وفاکرکے بھی تنہارہ گئے

ہم وفا کرکے بھی باوفاہیں ،اس ملک کے غدارہیں،ملک کی سالمیت کو ہم سے خطرہ سمجھارہاہے ،اور جو اس ملک کے امن ومان کو پامال کررہاہے ،بے وفائی ان کی زندگی کا حصہ وہ اس ملک کی آنکھ کا تارہ بناہواہے ،آخرکیوں؟

قرآن کریم پرایمان رکھنے والومسلمانو!تمہاراقرآن تمہیں کہتاہے:اورمضبوطی سے پکڑوسب ملکراللہ کی رسی کو اورپھوٹ نہ ڈالو،اوریادکرواحسان اللہ کا اپنے اوپر،جب کہ تم اپنے آپس میں دشمن تھے،پھرالفت دی تمہارے دلوںمیں ،پھرہوگئے ان کے فضل سے تم سب بھائی۔(آل عمران ۳۰۱)

انسانیت ،فرقوں،پارٹیوں ،گروہوں ،میں بٹی ہوئی تھی،ہرفرقہ کے اندرفرقے،اورپارٹی کے اندرپارٹیوں کالامحدودسلسلہ تھا،صحیح معنی میں دوآدمیوں کااتحادوافسانہ بن کر رہ گیاتھا،اسلام آیا،تولوگ دھیرے دھیرے اسلام سے قریب ہوگئے،اورپھرنبی کریم ﷺ کی تعلیمات کواپنی زندگی میں پیش کرنا شروع کیا،توباہمی عداوتیں اورنفرتیں ختم ہوگئیں،سب بھائی بھائی بن گئے۔قرآن کریم نے اسی واقعہ کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا:پھرتم اسی طرح فرقوں میں مت بٹ جانا،بلکہ ایک ساتھ ملکراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔اس کے باوجوداگرتم بٹ گئے توسن لو!اورجھگڑونہیں،ورنہ پھسل جاؤگے اورتمہاری ہوااکھڑجائیگی۔(الآیة)

مسلمانو!اورخاص طورسے وقت کے قائدین حضرات!اختلافات ہوسکتے ہیں ،لیکن کلمہ تو ہمارا،ایک ہے،قرآن توہمارا،ایک ہے،کعبہ تو ہمارا،ایک ہے،خداتوہماراایک ہے،پھرکیوں ہراختلافی چیزکوہم منبراورمحراب میں پیش کرناشروع کردیتے ہیں؟کیاہم بھول جاتے ہیں کہ فتنہ پھیلاناقتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے ۔ پھرکیوں ہم اختلاف کابیچ بوتے ہیں،فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں۔کیاہم بھول جاتے ہیں کہ خداکے سامنے ہمیں جواب دہی ہوناہے،کیاہم یہ فراموش کرگئے کہ آج ہمارے ان ہی اختلاف کی وجہ سے ہماری رہی سہی طاقت ختم ہوگئی ہے۔

اس لئے ہزاراختلافات کے باوجودقرآن کے ماننے والوآؤ اللہ کی رسی کو مظبوظی کے ساتھ تھام لو!اس لئے کہ :
متحدہوتوبدل ڈالونظام گلشن
منتشرہوتومروشورمچاتے کیوں ہو؟
Khalid Anwar Purnawi
About the Author: Khalid Anwar Purnawi Read More Articles by Khalid Anwar Purnawi: 22 Articles with 26454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.