عشرت اقبال وارثی رح (یادوں کے دریچوں سے)

کچھ لُوگ دُنیا میں آنے کے بعد اپنے حقیقی مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ پھر اُنکے سامنے جو مسائل درپیش ہُوتے ہیں۔ وُہ فقط اُنہی میں اُلجھ کر رِہ جاتے ہیں۔ جب کہ،، کچھ لوگوں کو شہرت کی بھوک اگرچہ لوگوں میں ممتاز کردیتی ہے۔ لیکن اِس بھوک کا بھی کوئی تعلق اُنکے دُنیا میں بھیجے جانے کے حقیقی مقصد سے نہیں ہُوتا۔ اُور ایسا بھی نہیں ہُوتا کہ،، اُن لوگوں کو یہ خبر نہ ہُوتی ہُو کہ اُنکا حقیقی مقصد دُنیا میں آنے کا یا بھیجے جانے کا کیا ہے۔ لیکن انسان بعض اُوقات خود پر جان بُوجھ کر ایک بے خبری طاری کرلیتا ہے۔ اُور شیطان اُس انسان کو یہ آس دِلاتا رہتا ہے۔ کہ ابھی وقت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لِہذا فی الحال دُنیا کے معملات کو سُلجھا لو۔ جب وقت آئے گا۔ تب اُس مقصد کو بھی پالیں گے۔چُنانچہ وُہ اسی خبط میں مبتلا رہنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ وقت کی ڈُور تھم جاتی ہے۔ اُور انسان مجرم بن جاتا ہے۔

جبکہ بعض لوگ اُس مقصد کی کھوج میں ایسے کھو جاتے ہیں۔ کہ اُنہیں نہ راستہ مِلتا ہے۔ اُور نہ ہی سُراغِ منزل۔۔۔۔ لیکن آج میں جِس شخص کا تذکرہ کرنے جارہا ہُوں۔ اُس شخص کا تعلق اِن دونوں ہی متذکرہ بالا قبائل سے نہیں ہے۔ بلکہ وُہ شخص اُن لوگوں میں سے تھا۔ جسے میں نے نہ کبھی شہرت کا حریص دیکھا ۔ اُور نہ ہی منزل کی تلاش میں سرگرداں۔۔۔ کیونکہ وُہ شخص اُن لوگوں میں سے تھا۔ جو راستوں سے بھی با خبر تھا۔ اُورمنزلِ کے نِشان بھی جانتا تھا۔ وُہ ایک شہسوار بھی تھا۔ اُور وقت کا قدرداں بھی۔ وُہ ایک بہترین ادیب بھی تھا۔ تو بے مِثال شاعر بھی۔ وُہ بیک وقت رُوحانی معالج بھی تھا۔ تو نبض شناس طبیب بھی۔ وُہ ایک اچھاباپ ہی نہیں تھا۔ بلکہ ایک شفیق اُستاد بھی تھا۔ اُور اُسے خلق خُدا سے بے انتہا پیار بھی تھا۔ وُہ لوگوں کے دُکھوں میں ہمہ وقت گھلنے والا ایک ایسا انسان تھا۔ جسکی وجہ سے انسانیت کی آبرو بڑھتی ہے۔

مگر کتنی حیرت کی بات ہے کہ،، عشرت اقبال وارثی مرحوم ،، میں اتنی خُوبیاں جمع ہُونے کے باوجود کوئی غرور نام کی شئے نہیں تھی۔ بے شُمار کتابوں کا مصنف ہُونے کے باوجود اُسے کبھی یہ چاہ نہ ہُوئی کہ،، وہ اعلی معیار کی ادبی کتابیں پبلش ہُوجائیں۔ اُور اُسکی پہچان کا ذریعہ بن جائیں۔ وُہ عجیب فلسفہ کے مالک تھے۔ دُنیا بھر کے لوگوں کو صحت مند رہنے کے نسخے بتاتے۔ یہاں تک کہ خُود بیمار پڑ جاتے۔ لیکن اُنکے گھر آنے والوں نے اُنکی پیشانی پر کبھی بیماری کے باعث کوئی بل نہیں دیکھا۔

میری اُن سے پہلی مُلاقات کوئی بارہ برس قبل حادثاتی طُور پر ہوئی تھی۔ پھر یہ پہلی مُلاقات ہی ایسی اثر انگیز ثابت ہُوئی کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وُہ میرپورخاص میں موجود ہُوں۔ اُور میں اُن سے مُلاقات کیلئے حاضر نہ ہُوا ہُوں۔۔۔۔ عجیب بات یہ بھی تھی۔ کہ وُہ میرے مکمل ہم نام تھے۔(حالانکہ اُن سے پہلے اُور اُنکے بعد مجھے کوئی اپنا ہم نام نہیں مِلا) پھر مجھ پر ایکدن یہ بھی انکشاف ہُوا۔ کہ وُہ صرف میری تربیت کی خاطر کراچی سے میرپورخاص شفٹ ہُوگئے تھے۔ وُہ مجھے اپنا عکس قرار دیتے تھے۔ ہم میں بُہت سی باتیں بھی مشترک تھیں۔ لیکن اُنکی گفتگو کا انداز اتنا مُتاثر کُن ہُوتا تھا۔ کہ مجھے بعض اُوقات یُوٰں محسوس ہُوتا۔ جیسے میں کوئی عجمی ہُوں۔ اُور وُہ فصاحتِ عرب کا چشمہ ہُوں۔ اُنکی باتیں معمہ کی صورت ہُوتیں۔ اُور کبھی کبھار وُہ ایسی باتیں بھی حالت جذب میں کہہ جاتے۔ کہ،، میں اُنکا مُنہ تکتا ہی رِہ جاتا۔

جیسے ایک مرتبہ میں نے عرض کیا۔ حضور منزل کیسے مِلی۔ کہنے لگے۔ میاں یہ بخیلوں کی دُنیا ہے۔ جِس کسی کے پاس کُچھ علم ہے۔ وُہ اُسے بانٹنے کو تیار نہیں مرنے کے بعد اپنے ساتھ قبر میں لیجانے کا خواہشمند ہے۔ میں نے عرض کیا۔۔ شائد آپ بتانا نہیں چاہتے! فرمانے لگے سچ کہوں۔۔۔؟ میں نے عرض کیا حضور آپ سے جھوٹ کا تعلق ہُو۔ میں یہ سُوچ بھی نہیں سکتا۔
فرمانے لگے : میاں تو سچ یہ ہے کہ منزل مجھے ڈھونگ کی بدولت نصیب ہُوئی۔۔۔
ڈھونگ! میں نے تعجب سے عرض کیا اِس راہ میں ڈھونگ کس لئے۔۔۔؟
فرمانے لگے سیدھے طریقے سے کوئی پاس بٹھانے کو تیار نہیں تھا۔ پھر میں نے عاجز آکر ڈھونگ کا چوغہ پہن لیا۔۔۔
کچھ عرصہ ڈھونگ کرنے کے باعث بلاآخر ڈھنگ آہی گیا۔
پھر ڈھنگ نے راہ دِکھائی تو رنگ آگیا۔ اُور اسی رنگ کے باعث ایکدم ایک سچے کی نِگاہ میں آگیا۔ پھر کیا تھا۔۔۔! اُسی ایک مُلاقات میں اُور ایک ہی مست نظر میں وُہ مسافت طے ہُوگئی۔ جو گذشتہ چالیس برس میں حاصل نہیں کرپایا تھا۔ اُور اُسی نگاہ مست الست کے بعد مجھے خبر ہُوئی کے کرنٹ کیا ہُوتا ہے۔۔۔۔ کرنٹ تو سمجھتے ہُو نا میاں۔۔۔ْ؟ میں نے نہ سمجھتے ہُوئے بھی اُس وقت اپنا سر اثبات میں ہِلانا ہی مُناسب سمجھا سُو ہِلا دیا۔۔۔۔بات کرتے کرتے وُہ نجانے کس دُنیا میں جا پہنچے تھے۔ جسکی وجہ سے اُنکی نظریں مخمور دِکھائی دینے لگی تھیں

میں نے عرض کیا حضور اسقدر آپ کی لکھی کتابیں موجود ہیں۔ اِنہیں کسی پبلشر کو کیوں نہیں دیتے۔۔۔؟
فرمانے لگے ۔ یہ سب کچھ میں نے اپنے لئے لکھا ہے۔ دوسروں کو سمجھ نہیں آئے گا۔۔۔ تُم اگر چاہو تو پڑھ سکتے ہُو۔۔۔ مگر پبلشر کو دینے کا مشورہ کیوں دے رہے تھے۔۔۔؟

میں نے عرض کیا۔۔۔ حضور لوگ جب یہ کتابیں پڑھیں گے۔ تو آپ کو جان جائیں گے۔ اُور آپ ذیادہ مشہور ہُوجائیں گے۔۔۔
وُہ مُسکرا کر کہنے لگے کوئی فائدہ نہیں۔ ایک مرتبہ ایک دُوست کتاب چھپوانے کیلئے پبلشر کے پاس گئے تھے۔ بعد میں بتایا کہ پبلشر نے چھاپنے سے انکار کردِیا ہے۔ اُور کتاب بھی واپس نہیں دی۔ پھر ایک دِن وہی کتاب میں نے مارکیٹ میں دیکھی ۔ البتہ کتاب کے سرورق پر مصنف کا نام میرا نہیں بلکہ میرے اُنہی دوست کا نام لکھا تھا۔۔۔ویسے بھی میری مشہوری کسی کو سخت ناپسند ہے۔ اُور مجھے اُسی کی پسند عزیز ہے۔ لہذا مشہور تُم ہُوجانا۔۔۔ مجھے اپنی گمنامی سے بُہت پیار ہے۔۔۔ جب لوگ تمہارا نام لیں گے۔ یا تُم کو تلاش کریں گے۔ تو دراصل وُہ مجھے بھی تلاش کررہے ہُونگے۔۔۔۔

اللہ کریم سے دُعا ہے کہ اللہ کریم اُنہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ اُور مجھے ہمیشہ اُنہیں ایصال ثواب کرنے کی توفیق۔ (آمین۔آمین۔آمین
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1059433 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More