سال 2013 قبائلی علاقوں کیلئے مزید خطرناک

سال 2013 ء قبائلی علاقوں کیلئے مزید خطرناک ثابت ہوگا جس کی وجہ پاکستان میں انتخابی سال ہونا قرار دیا جارہا ہے حکمران طبقہ وفاداری دکھانے کیلئے بہت کچھ کرینگے دوسری اسی سال کے آغاز میں ڈرون حملوں میں طالبان کے متعدد اہم لیڈر نشانہ بنائے گئے اور ان حملوں میں مزید شدت آنے کا امکان ہے اسی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں اہم لیڈروںکو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اضافہ بھی قرار دیا جارہا ہے -خیبر پختونخواہ کے ایک لیڈر نے گذشتہ دنوں عدالت عالیہ پشاور کے سامنے قبائلی جوانوں سے اپنے خطاب میں مزید تین سال قبائلی علاقوں کیلئے سخت ترین قرار دئیے ہیں- سال 2013 ء میں کے گآغاز میں تحریک طالبان پاکستان کے مولوی نذیر 3جنوری 2013 ء اپنے دس ساتھیوں سمیت امریکی ڈرون کا نشانہ بنے مولوی نذیر اپنے قافلے کے ہمراہ واناجارہے تھے ان کا قافلہ بیرمل سے سرکنڈی کی طرف جاتے ہوئے ڈرون میزائل کا نشانہ بن گیا مولوی نذیر تحریک طالبان پاکستان کے اہم دوسرے کمانڈر تھے جو بیت اللہ محسود کے بعد ڈرون حملے کا نشانہ بنے بیت اللہ محسود 2009ء میں ڈرون حملے کا نشانہ بن گئے تھے مولوی نذیر کے امریکی جاسوس طیارے کے میزائل حملے میں جاں بحق ہونے کے بعد بہاول خان عرف صلاح الدین ایوبی کو ان کی جگہ تحریک طالبان پاکستان کا نیا کمانڈر تعینات کردیا گیا-2007 ء میں مولوی نذیر نے اس وقت شہرت حاصل کی جب اس نے احمد زئی قبائل کے علاقے میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف آواز اٹھائی اس وقت اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے سربراہ طاہر یلدوف تھے جس کے بعد مولوی نذیر نے حکومت پاکستان سے امن معاہدہ بھی کیا جس کے نتیجے میں فورس پر حملے نہ کرنے کا عندیہ دیا گیامولوی نذیر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ نہ صرف القائدہ سے ان کے نزدیکی تعلقات تھے بلکہ حقانی گروپ سے بھی منسلک رہ چکے تھے اور حزب اسلامی کے ممبر بھی تھے مولوی نذیر کو 29نومبر 2012 اور 4دسمبر 2012ء خودکش حملے کانشانہ بنایا گیا تھا تاہم وہ ان حملوں میں بچ نکلے تھے جس کے بعد 5دسمبر کو مولوی نذیر نے محسود قبائل کو علاقے سے نکلنے کی ہدایت کی تھی اوراسی پر حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ان خودکش حملوں سے بریت کا اعلان کیا تھا اور کہا کہ ان کا گروپ ان حملوں میںملوث نہیں رہا ابھی یہ مسئلہ جاری تھا کہ کمانڈر مولوی عباس کو تین ساتھیوں سمیت نشانہ بنایا گیا جس کے بعد مولوی نذیر بھی ڈرون حملے کا نشانہ بن گئے-
جنوبی وزیرستان میں ایک رپورٹ کے مطابق 2012 ء میں 261 ء جبکہ سال 2011 ء میں 281 ء واقعات دہشت گردی کے ریکارڈ کئے گئے تھے دہشت گردی کے حوالے سے کام کرنے والے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2009 ء میں 636 سویلین 350 فوجی اور 4252عسکریت پسند دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہوئے اسی طرح 2010 ء میں 540 سویلین 262 فوجی اور 4519 عسکریت پسند جاں بحق ہوئے سال 2011 ء میں 488 سویلین 233 فوجی اور 2046 عسکریت پسند دہشت گردی کے واقعات کی نذر ہوگئے سال 2012 ء میں 549 سویلین 306 فوجی اور 2046 عسکریت پسند مختلف واقعات میں جاں بحق ہوگئے جبکہ سال 2013 ء میں ابھی تک اس علاقے میں 12سویلین اور 72 عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی اطلاع ہے جو تقریبا84 بتائی جاتی ہیں ان میں کسی فوجی کی ہلاکت کی اطلاع نہیں-سال 2011 ء میں 185 بم دھماکوں میں 203 افراد کی ہلاکتیں ہوئی جبکہ 2012 ء میں 297بم دھماکوں میں 441 افراد کی ہلاکتیں ریکارڈ کھی گئی اسی طرح 2011 ء میں آٹھ خودکش حملے ریکارڈ کئے گئے جن میں 77 افراد جاں بحق ہوگئے اس کے مقابلے میں سال 2012 ء میں 10 خودکش حملوں میں 151 افراد کی جاں بحق ہونے کی اطلاعات تھی-

سال 2012 ء میں سات قبائلی ایجنسیوں میں خیبر ایجنسی میں تشدد کے زیادہ واقعات ریکارڈ ہوئے جنوری تک اکتوبر 2012 ء کے دوران 96 بم دھماکے صرف خیبر ایجنسی کے مختلف علاقوں میں ہوئے اسی طرح لشکر اسلام انصار اسلام حاجی نامدار گروپ اور عبدالعزام بریگیڈ کے آپسی تصادم کے واقعات بھی سال 2012 ء میں ریکارڈ کئے گئے اسی علاقے میں اغواء برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ بھی ہوا جبکہ کرم ایجنسی خیبر ایجنسی کے بعد دوسر ی ایجنسی رہی جہاں پر اہل تشیع کو بھی نشانہ بنایا گیا سال 2012 ء میں سیکورٹی فورسز کے خلاف عسکریت پسندوں کی بڑی کارروائی 26 دسمبر کو منظر عام پر آئی جب 400کے قریب عسکریت پسندوں نے ایف آرپشاور کے علاقے میں حملہ کرکے 22 سیکورٹی اہلکاروں کو اغواء کیا اور بعد ازاں 29 دسمبر کو ان کی لاشیں مل گئیں-

وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے سال 2012 ء میں متعدد مرتبہ حکومت کی جانب سے اعلا ن کیا گیا تاہم اس کے جواب میں امریکی عہدیداروں کے آپریشن کی حمایت میں بیانات سے نہ صرف حکومت بلکہ سیکورٹی فورسز کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور مذہبی جماعتوں سمیت سیاسی جماعتوں نے بھی اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا جس کی وجہ سے حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا لیکن اس کے بعد ڈرون حملوں کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا حالانکہ اس کے خلاف سال 2012 ء میں نہ صرف ملکی سطحی پر بلکہ بین الاقوامی سطح پربھی تنقید کی گئی لیکن ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رہا اور تحریک طالبان پاکستان کی ٹاپ لیڈر شپ کو نشانہ بنایا گیا سال 2012 ء میں 46ڈرون حملوں میں 344عسکریت پسند جن میں القائدہ کے اہم ارکان بھی شامل ہیں ڈرون حملوں کی زد میں آئے اس کے مقابلے میں سال 2011 ء میں 59ڈرون حملوں میں 548عسکریت پسند نشانہ بنے تھے دہشت گردی سے متعلق کام کرنے والے مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق سال 2013 ء قبائلی علاقوں کے لوگوں کیلئے مزید مشکلات لائے گا اور لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی بھی متوقع ہے -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 427748 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More