کیا پاکستان" شام "بننے کو ہے ؟

شام ، بشار الاسد کے ساتھ یا بشار الاسد کے بغیر ؟ بحران سے نمٹنے کےلئے یہ دونوں راستے اپنائے جاسکتے ہیں ، روسی ہائر اسکول آف اکانومس کے اہلکارLeonid lasaevنے کہا کونسا راستہ اپنائے جانے کاا مکان زیادہ ہے؟۔موصوف نے اس سوال کے جواب میں کہا "اگر سن دو ہزار چودہ تک شام کا شیرازہ نہ بکھرے اور بشار الاسد اقتدار میں رہیں تو قوی امکان ہے کہ شامی عوام اس مسئلہ کو خود حل کرلیں گے"۔2014ءمیں شام میں صدارتی انتخابات متوقع ہیں جن کے ذریعے عوام یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ بشارا لاسد اقتدار میں رہیں یا نہ رہیں ۔تاہم شام میں جس طرح خانہ جنگی جاری ہے اس بنا ءپر اگر بشار الاسد ابھی اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کریں تو ایسے بحران سے نمٹنے کا اہم قدم قرار دیا جاسکتاہے۔لیکن اس کےلئے یہ ضروری خیال جائے گا کہ بشارالاسد کی جگہ ایسی شخصیت لے جس پر حزب اختلاف سمیت تمام فریق مطمئن ہوں۔مسئلہ شام کو حل نہ کئے جانے کا سبب خدشات یہی ہیں کہ مشرقی وسطی میں افراتفری کا دور دورہ شروع ہوگا اور وسیع پیمانے پرعدم استحکام پیدا ہوگا اور شام کا شیرازہ بکھرنے پر تین حصوں میں منقسم ہوسکتا ہے۔جبکہ مصر چار حصوں میں، عراق میں بغداد انتظامیہ اور عراقی کردستان کے درمیان محاذ آرائی شدت اختیار کرنے پر شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔شام کے مسئلے کے حل کےلئے سنجیدہ کوششوں میں "تھری بی گروپ" کے اراکین اقوام متحدہ اورعرب لیگ کے خصوصی ایلچی برائے شام ،روس کے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوو اور امریکی ہم منصب ولیم پرنس نے جمعے کے دن جنیوا میں ملاقات کی جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے شام میں جاری پر تشدد واقعات کا موازنہ دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام سے کیا ہے۔نیو پارک کے علاقے ہبٹن میں ایک یہودی عبادتگاہ میں نازیوں کے نظر بند کیمپوں میں ہلاک ہونےوالے افراد کی یاد میں منعقد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بان کی مون نے زور دیکر کہا کہ اکیسویںصدی میںیہود مخالف اور اسلام مخالف خیالات اور دیگر قسم کے تعصبات کا خاتمہ کیا جانا ہوگا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان میں ہونے والے دہماکوں کی بھی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حملوں کی کسی بھی دلیل سے صفائی پیش نہیں کی جاسکتی۔حالیہ 10جنوری کے دن کوئٹہ سمیت سوات میں بم دہماکوں میں 116افراد جاں بحق ہوئے۔ہزارہ برادری نے83 لاشوں کےساتھ دھرنا دیکر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور بلوچستان حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کرادیا۔لیکن اس بات کی ضمانت کون دےگا کہ اب بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ،دہشتگردی کے واقعات تھم جائیں گے اور فرقہ وارےت کا خاتمہ ہوجائے گا۔وفاقی حکومت کے کمزور فیصلے نے پاکستان میں فرقہ واریت کی حوصلہ افزائی کی ہے کیونکہ دہشت گردی کے مذموم مقاصد یہی ہیں کہ عوام کا اعتماد حکومت سے ختم ہوجائے اور فرقہ وارانہ واقعات میں عوامی مزاج سخت سے سخت تر ہوجائے۔مجلس وحدت المسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے پورے ملک میں دھرنے دئےے گئے اور حکومت کےخلاف نعرے بازی کی۔یقینی طور پر جب بات فرقہ واریت کی ہو تو شیعہ مخالف لابی کیجانب سے بھی ان دھرنوں کے جواب میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرلیا گیا ہوگا۔ کیونکہ بدقسمتی سے 83افراد کی لاشوں کےساتھ جو سوات میں 21افراد دہشت گردی کے بھینٹ چڑھے اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ، حالاں کہ اس بات کو نظر انداز کیا جارہا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے سوات میں فوج تعینات ہے اور لاکھوں افراد کو ہجرت پر مجبور کرکے یہاں آپریشن بھی کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود دہشتگرد اپنی کاروائیوں میں متحرک پائے جاتے ہیں اور پاک فوج کی موجودگی کو نظرانداز کرتے ہوئے ، ملالہ یوسف زئی اور حالیہ بم دہماکے جیسے واقعات کرکے حکومت کی ناکامی کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔شام ،عراق میں فرقہ وارنہ خانہ جنگی میں مخالف گروپوں کے درمیان تصادم میں اقوام متحدہ کا کردار صرف زبانی بیانات کی حد تک ہے۔اسی طرح افغانستان میں بھی فرقہ وارنہ بنیادوں پر شمالی اتحاد اور تحریک طالبان کے درمیان خانہ جنگیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔پاکستان میں مسلک کے نام پر قتل وغارت ، مذہبی عبادت گاہوں اور رہنماﺅں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ اپنے عروج پر اور کراچی میں فرقہ وارنہ کلنگ میں نہایت اضافہ ہوا ہے۔شہر کراچی لسانی بنیادوں پر پہلے ہی جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں لسانی بنیادوں پر منقسم ہوچکا ہے اور علانیہ مختلف علاقے ، سیکورٹی فورسزکےلئے نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں۔کوہاٹ ، بنوں سمیت گلگت میں فرقہ وارنہ دہشتگردی بھی آئے روز ہوتی رہتی ہے۔خاص طور پرگلگت کے بس مسافروں کو جس طرح شناخت کے بعد ہلاک کیا گیا وہ بھی حکومت کی ناکامی کے اہم واقعات ہیں۔شام کی طرح پاکستان کو بھی خانہ جنگی کی جانب دکھیلا جا رہا ہے۔لسانی بنیادوں پر سندھ میں بہت بڑی تقسیم پیدا کردی گئی ہے اور حقوق کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے شہری و دیہی تفریق نے سندھ قوم پرست جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان شدیدکھینچاﺅ پیدا کردیا ہے۔بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے سیکورٹی اداروں اور دیگر قومیتوں کے افراد کو نشانہ بنائے جانے کے بعد حالیہ صوبائی حکومت کی برطرفی کے بعد سیاسی اور غیر سیاسی ماحول میں ہیجان میں اضافہ ہوگا۔خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں جس طرح بےگناہ افراد کے ساتھ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو اغوا کرکے سر قلم کئے جا رہے ہیں یہ بھی سیکورٹی اداروں کےلئے اہم چیلنج بنے ہوئے ہیں۔پنجاب میں مختلف مذہبی شدت پسندوں کے گروپوں کے ہیڈ کواٹرز اورجہادی تنظیموں پر امریکہ سمیت افغانستان اور بھارت کی جانب سے شدید تحفظات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔2014ءمیں شام کے علاوہ افغانستان کے صدارتی انتخابات بھی متوقع ہیں۔امریکہ نے افغانستان میں اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے 2014ءمیں افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کی منصوبہ بندی بھی کی ہوئی ہے۔مجموعی طور پر مشرق وسطی اور افغانستان کے حالات پر دفاعی نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ تیسری قوت پاکستان میں کسی توانا حکومت کی 2014ءسے قبل تشکیل کے حق میں نہیں ہے۔اسی لئے موجودہ صورتحال میں بادی النظر یہی گٹھ جوڑ نظر آتاہے کہ کسی بھی طرح حکومت کو ایک سال کی مزید آئینی مدت مل سکے ۔چونکہ دو اداروں کے سربراہ بھی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے جارہے ہیں اگرنئی حکومت حالیہ انتخابات میں برسراقتدار آتی ہے تو ان اہم اداروں (فوج،عدلیہ) کے سربراہوں کی تقرری بھی اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق کرےگی جس پر امریکہ کو تحفظات ہوسکتے ہیں ۔ موجودہ دھرنے ،ملک گیرپرتشدد واقعات ،بدامنی ، پر تشویش سے زیادہ افغانستان اور شام میں صدارتی انتخابات کےساتھ ساتھ ایران کی بڑھتی قوت امریکہ و اسرائیل کےلئے پریشان کن ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جو حالات و واقعات رونما ہورہے ہیں ایسے طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق بتایا جاتا ہے ۔ جس پر چار و ناچار عمل درآمد ہورہا ہے۔پاکستان میں ہونےوالے واقعات بین الاقوامی ایجنڈے کے طے رونما ہو رہے ہیں اور بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ 2014ءتک پاکستان کو" شام"جیسی صورتحال کے دوچار یا قریب کردیا جائے تاکہ بین الاقوامی منصوبہ باآسانی تکمیل تک پہنچ سکے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 265362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.