21 شہدا بے حس لوگ اور حکمران

سنگلاخ چٹانوں میں مسلسل اٹھارہ گھنٹے تک ڈیوٹی انجام دینا کتنا مشکل کام ہے یہ کوئی ان سے پوچھے جو وطن کی حفاظت کیلئے دن اور رات کی تمیز کئے بغیر ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں گھروں سے اپنے پیاروں سے دور وطن کے یہ بیٹے کتنی مشکل سے زندگی کے دن گزارتے ہیں کبھی عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا نہ ہی محلوں میں رہنے والے حکمرانوں کو اس بات کا اندازہ ہے اور یہ انہی لوگوں کی خاصیت ہے کہ جب بھی خون کا قطرہ بہا تو سب سے پہلے انہی جوانوں نے وطن کیلئے اپنی جانیں نچھائور کردی -سرحدوں کی حفاظت سے لیکر ملک کے اندر دہشت گردی کے نام پر ہونیوالے خوفناک جنگ میں سیکورٹی فورسز نے جوانوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں اور یہ انہی کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ ہم سب اپنے گھروں میں آرام سے سوتے ہیں آرام سے دفتروں بازاروں میں بیٹھ کر سیکورٹی فورسز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اس عمل میں چند نام نہاد این جی اوز کے ڈالرزادہ مرد و خواتین اور کچھ مخصوص صحافی بھی شامل ہیں جن کے بقول فورسز کا کام ملک کی حفاظت کرنا ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے کہ فورسز کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے لیکن اس کے بدلے میں انہیں کیا مل رہا ہے کوئی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے کوئی عمر بھر کی معذوری کا شکار ہو جاتا ہے لیکن ہمارا معاشرے نہ تو ان معذورہونیوالوں کو سپورٹ کرتا ہے اور نہ ہی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے جنازوں میں شریک ہوتا ہے حکمرانوں سے اس بات کا گلہ تو نہیں ہوسکتا لیکن ہم اپنے آپ اس معاشرے میں رہنے والوں سے شکوہ تو کرسکتے ہیں - یہ ہماری اجتماعی بے حسی کی زندہ مثال ہے اورحکمرانوں لی ڈروںکیلئے شرم کا مقام بھی ہے جن کے دعوے تو آسمان سے تارے توڑنے والے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس ملک کیلئے کون اپنی جان کی قربانی دے گیاانہیں صرف اس بات سے غرض ہے کہ ان کی زندگیاں محفوظ ہو گئی ہیں -

29دسمبر کوایف آر پشاورکے علاقے میں شہید کئے جانے والے 21لیویز اہلکاروں کے پیاروں کی دادرسی کے لئے ابھی تک کوئی نہیں پہنچا۔ایف آر پشاور میں ہونیوالے اس بھیانک واقعے میں منڈئی جنا کوڑ کے علاقے کا عبداللہ بھی تھا شہید اہلکار عبداللہ شاہ فرنٹئیر کور بلوچستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملک و قوم کے دفاع کی خدمات انجام دیتے ہوئے شہید ہوگئے بہادر سپاہی عبد اللہ کو دہشت گردوں نے 27اور28دسمبر کی درمیانی شب اغوا کے بعد 29دسمبر2012کو ان کے دیگر 20ساتھیوں سمیت شب خون مار کر شہید کردیا۔شہید عبداللہ نے 16سال تک بلوچستان ایف سی میں بطور لانس نائیک فرائض انجام دئیے ۔وہاںسرخرو ہونے کے بعد ملک و قوم کی خدمت اور شہادت کا جذبہ انہیں لیویز میں لے آیاجہاں ان کی شہادت کی تمنا پوری ہوگئی بے حس انتظامیہ اور حکمرانوں نے عبداللہ شاہ سمیت 21 شہید اہلکاروں کے جنازوں کو کندھا دینے کی زحمت تک گوارا نہیںکی۔اور نہ ہی ان بے سہارا معصوموں کے لئے کسی امدادی پیکج کا اعلان کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ یتیم کے بہتے آنسو جہنم کی آگ کو بھی ٹھنڈا کردیتے ہیں،لیکن ملک و قوم پر قربان ہونے والے ایک شہید کا بے آسرا بچہ دست شفقت سے بھی محروم ہوگیا عبداللہ کے معصوم بیٹے شاہد شاہ کا کہنا ہے کہ اس کے عظیم باباکی تمنا تھی کہ وہ اسے بڑاافسربنائے گا، بے رحم ہاتھوںسے یتیم ہونے والے شاہد کی پرنم آنکھوں میں اپنے بابا کا خواب اور زیادہ روشن ہو گیاتاہم اسے غم بھی کھائے جارہا ہے کہ زندگی کی تھپیڑوں کا وہ کیسے مقابلہ کرینگے - بڑا افسر بنانے کی خواہش لیویز اہلکار عبداللہ کے اپنے چھ بیٹوں کیلئے بھی تھی جس میں سب سے بڑا بیٹا سترہ سال کا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ 21 لیویز اہلکاروں کا اغواء اور پھر بے دردی سے قتل خبریں بریکنگ نیوز پر چلنے کے بعد جس طرح میڈیا ان لوگوں کو بھول گیا اسی طرح حکمران بھی بھول گئے اور یہی عمل سوسائٹی کے ہر فرد نے کیا جن کی حفاظت کیلئے عبداللہ جیسے21 جوانوں نے اپنی زندگی ہار دی -ہم پر مسلط حکمرانوں کیلئے شرم کا مقام ہے کہ عبداللہ سمیت 21 جوانوں نے اس ملک کیلئے قربانی دی لیکن اس علاقے میں ابھی تک صرف اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ کے علاوہ جن کا دورہ بھی صرف اس ہاسٹل تک محدودتھا جہاں پر30 سے زائد جوان موجود تھے جن میں کچھ نے باتھ روم میں گھس کر اپنی جان بچائی تاہم 21 جوان شہید ہوگئے صرف اسی ہاسٹل کا دورہ کرنے اور جگہ دیکھنے تک ہی تھا اس کے بعدوہاں سے سیکورٹی اہلکاروں کو نکال دیا گیا لیویز کی جلی ہوئی گاڑی بم دھماکوں سے تباہ ہونیوالے ہاسٹل کی دیوار شہید ہونیوالے جوانوں کی ٹوپیاں وردی اور دیگر سامان ابھی تک زمین پر پڑا ہے اور علاقے کے لوگوں کو خود سیکورٹی کا کہتے ہوئے انتظامیہ نے آنکھیں بند کرلی- ان 21 جوانوں کے گھر والوں پر کیا گزرہی ہیں ان کے معصوم بچے مائیں بہنیں بیٹیاں اور خاندان کس دکھ درد کا شکار ہیں کوئی ان کیلئے آواز بھی نہیں اٹھاتا چند روز قبل پریس کلب کے باہر این جی او کی ایک نام نہاد نیٹ ورک نے این جی اوز کے اہلکاروں کے تحفظ اور انہیں حکومتی اہلکاروں کی طرح مراعات دینے کیلئے ریلی بھی نکالی مظاہرہ بھی کیا جسے میڈیا نے بھی خوب اچھالا لیکن شہید ہونیوالے افراد کے متاثرہ خاندانوں کیلئے آج تک کوئی آواز نہ اٹھ سکی نہ تو میڈیا نے اپنی ذمہ داری پوری کی نہ ہی کسی این جی او نے اور نہ ہی کسی لی ڈر اور حکمران نے شہید ہونیوالے 21 خاندانوں سے رابطہ کیا-

ان حالات میں ملک و قوم کیلئے ڈیوٹی انجام دینا جہاں پر ستائش کیلئے لکھتے ہوئے بھی صحافیوں کے قلم رک جاتے ہیں امداد کے نام پر شہیدوں کو ان کا اپنا حق دیتے ہوئے حکمرانوں کا بیڑہ غرق ہوتا ہے وہاں پر اس طرح کی خدمات سرانجام دینا کتنا عذاب دہ کام ہے لیکن پھر بھی سلام ہے کہ ان جوانوں کو جو آج بھی ہم بے جیسے بے حس قوم اور بے غیرت حکمرانوں کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422387 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More