جنسی بے راہ روی بیمار سوچ کے لئے تریاق ہے اسلام

مولانا اسرارالحق قاسمی

گزشتہ دنوں جس طرح دلی میں ایک انتہائی قابل افسو س واقعہ نے ملک کے ضمیر کو جنجھوڑا ، اسی طرح ایڈس سے متعلق کچھ نئی رپورٹیں منظر عام پر آنے سے باشعور لوگوں کی نیندیں اڑ گئیں ۔ان رپورٹوں سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں ایڈس کے مریضوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ بعض ممالک میں تو یہ مرض تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔اگرچہ اس مرض پر قابوپانے کے لئے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مرض بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اسباب جو ایڈس کی وجہ بنتے ہیں ان کے سد باب کے لئے خاطر خواہ کوششیں نہیں کی جارہی ہیں۔مثال کے طورپر ایڈس پھیلنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب جنسی بے راہ روی کو قرار دیاجاتاہے بلکہ ایڈس پھیلنے کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ہرجہت سے جنسی بے راوی کو ختم کرنے کی جدوجہد کی جاتی۔یعنی ایسے تمام راستوں کو جو عوام الناس کو زناتک پہنچاتے ہیں بند کیاجاتالیکن معاملہ اس کے برعکس دکھائی دے رہا ہے کہ ایسے ماحول کی زیادہ ہمت افزائی کی جارہی ہے جس کے ذریعہ سے فحاشی اور زناکاری کو مزید بڑھاوامل رہاہے۔

بے حیائی ایک ایسی برائی ہے جو انسان کو زناکاری تک لے جاتی ہے۔جس معاشرے میں جس قدر بے حیائی ہوگی ، اتنی ہی زیادہ اس معاشرے میں زناکاری بھی ہوگی اور قسم قسم کے خطرناک جرائم بھی پائے جائیں گے۔بے پردگی و جنسی بے راہ روی کے سبب معاشرتی زندگی میں جو فساد برپاہوا ہے ، اس کے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں ۔اب یہاں اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس تعلق سے موثر کن کوششیں کی گئی ہیں؟کیا بے حیائی کو مٹانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی ہوئی ہے؟

اسلام نے جنسی بے راہ روی کو روکنے کے لئے بے حیائی پر لگام لگائی ہے ۔اسلام نے صنف نازک کی عصمت و عفت کو بڑی اہمیت دی ہے تاکہ خواتین بھی اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور مردبھی ان کے ناموس کے تحفظ کی جدوجہد میں پیچھے نہ رہیں۔اس طرح جہاں خواتین محفوظ ہوں گی وہیں معاشرہ بھی طرح طرح کی برائیوں سے بچا رہے گا۔ صنف نازک کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لئے اسلام نے پورا ایک نظام تشکیل دیا ہے ۔اس کے لئے خواتین کو ہدایت کی گئی کہ وہ پردے کا لحاظ کریں ۔ اللہ تعا لٰی ارشاد فرماتا ہے ’’ اے نبیؐ اپنی بیویوں ،بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں کو بتادیجئے کہ (باہر نکلیں تو اپنے (چہروں ) پر پلو لٹکاکر گھونگھٹ نکال لیا کریں ۔اس طرح وہ آسانی کے ساتھ پہچان لی جایا کریں گی اور ستائی نہ جائیں گی اور اللہ بڑا ہی پردہ پوش اور مہربان ہے ‘‘(الاحزاب : ۵۹)اس آیت کے ذریعہ خواتین کو پردے کی تاکید کی گئی ہے اور اس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اس طرح لوگوں کے ستائے جانے سے بچ جائیں گی ۔ خواتین کو ایسے ملبوسات اور زیورات پہن کر باہر نکلنے یا ان کو لوگوں کو دکھانے سے بھی منع کیا گیا ہے جو ہیجان انگیز ہوں ۔ ارشاد باری ہے ’’ اور بناؤسنگار نہ دکھاتی پھرو،جس طرح پہلے جاہلیت کے دور میں اپنے حسن و سنگار کی نمائش کرتی تھیں‘‘(الاحزاب ۳۲)حسن وسنگارکی نمائش خواتین کے لئے ممنوع ہے کیونکہ حسن ونگار سے متعلق چیزیں مردوں کے دلوں کو لبھانے والی اور ان کی ہیجانی خواہش کو بھڑکانے والی ہیں۔ اگر بنائو سنگھار اپنے شوہروں کے لئے کیا جائے تو درست ہے ،مگر اس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کا اظہار کسی اجنبی مرد کے سامنے نہ ہوپائے ۔ باری تعالی ارشاد فرماتاہے ’’اور اپنے پائوں زمین پر اس طرح مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت (زیوروںکی جھنکار ) لوگوں کو معلوم ہوجائے‘‘ (النور : ۳۱)

قرآن مجید کی مذکورہ آیات اس بات کی متقاضی ہیں کہ خو اتین ا سلام پردے کا پورا اہتمام کریں اور دنیا دار عورتوں کی طرح بنائو سنگھار اور فیشن پر توجہ نہ دیں کیونکہ ان کے نتائج بڑے بھیانک ہوتے ہیں ۔ عہد حاضر میں بے پردگی کے نتائج نہ صرف مغربی ممالک میں پائے جا تے ہیں، بلکہ اب بے پردگی کے خطرناک افریقی و ایشیائی ممالک میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں کہ جہاں عورتیں شرم و حیاکا پیکر ہوا کرتی تھیں، اب وہاں عورتیں بے حجاب ہوکر سڑکوں پر آگئیں، آفسوں میں ، ہوٹلوں میںاور دیگر شعبوں میں اپنے حسن کی نمائش کرنے لگیں۔پہننے کے لئے ایسے فیشن پر مبنی ملبوسات کا استعمال کیا جا نے لگا جو خواہشات نفسانی کو بھڑکانے والے ہوتے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ بد کاری و فحاشی کھلے چھپے خوب ہونے لگی ۔ فیشن کی نمائش کے شوق نے فضول خرچی کو بھی بڑھاوادیاہے ۔چنانچہ وہ ستر جو بہت کم رقم کے کپڑوں میں ڈھانپا جا سکتا تھا ،اب اس کے لئے ہزاروں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ۔ اس پر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہزاروں روپے خرچ کر نے کے باوجود ستر پوشی کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔

’’ ستر پوشی ‘‘ خواتین کی عصمت و عفت کے لئے انتہائی ضروری ہے ، اس لئے اسلام نے ستر پوشی کے بارے میں سخت تاکیدکی ہے ۔ ارشاد باری ہے ’’ اور اپنے ستر کی حفاظت کرو‘‘ (النور ۳۱)ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی حضرت اسماء ؓ باریک کپڑے پہنے آپ ؐ کے سامنے آئیں تو آپ ؐنے فوراً منہ پھیر لیا اور فرمایا کہ ’’ اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے علاوہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے ‘‘ جو عورتیں سترپوشی کی رعایت نہیں کرتیں اور ہیجان انگیز لباس پہنتی ہیں ، ان کے متعلق آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ’’ وہ عورتیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں ، دوسروں کو رجھاتی پھرتی ہیں اور خود بھی دوسروں پر ریجھتی ہیں ، ناز سے لچکے کھاتیں اور گردن کو بل دیتی ہوئی چلتی ہیں ، وہ نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی ، سر اور سینہ کو خاص طور سے چھپانے کا حکم کیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے ’’ اور اپنے سینوں پر دوپٹوں کے آنچل ڈالیں رہیں، (النور : ۳۱) در اصل جسم کے یہ حصے صنف مخالف کے لئے انتہائی کشش رکھتے ہیں ، پھر سینہ سے اوڑھنی کے سر کنے کا بھی خدشہ لگا رہتا ہے ، اس لئے سر اور سینہ کے ڈھانپنے میں زیادہ احتیاط برتی جائے اور کسی طرح کی لاپرواہی نہ ہوجائے ۔

عورتو ں کے لئے پردہ کو لازم کر دینے ، انہیں عمومی بنائو سنگھار سے روکنے اور ستر پوشی کا اہتمام کرنے سے متعلقہ احکام کے پیچھے خواتین کی عزت وآبرو کے تحفظ کا مقصد کا رفرما ہے اور انہیں بھیانک نتائج سے محفوظ رکھنا ہے ۔ موجودہ زمانے میں اگرچہ یہ بات چاہے کتنی ہی عجیب کیوں نہ لگے کہ جس فیشن اور بے پردگی کو معیار ِزندگی تصور کیا جا تا ہے اور سادہ لباس ، پردہ اور عورتوں کے گھروں میں رہنے کو پسماندگی کہا جا تا ہے ، اسے اسلام عورت کی عزت بتا تا ہے کیونکہ حقیقت یہی کہ صنف نازک کی عزت و آبرو کا تحفظ پردہ اور ستر پوشی میں ہے ۔ بے پردگی کا نتیجہ زنا کاری و بد کاری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جو انتہائی فحش کام ہے اور انسان کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دینے والا ہے ۔ اس لئے فرمایا گیا ’’ زنا کے قریب بھی مت جائو ،بلاشبہ وہ بے حیائی کا کام ہے ‘‘۔اخلاقی تعلیم اور آخرت کا خوف دلانے کے باوجود بھی اگر کوئی نہ مانے اور زنا جیسا فحش عمل کر بیٹھے تو اس کے لئے سخت سزا متعین کی گئی ہے ۔ اگر زانی یا زانیہ شادی شدہ ہیں تو انہیں سنگسار کیے جانے کا حکم ہے اور اگر غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے مارے جائیں گے ۔ بعض ملکوں وتہذیبوں میں زنا کاری اگر رضامندی کے ساتھ ہے تو معیوب نہیں ، لیکن اسلام کے نزدیک چاہے زنا بالجبر ہو یا بالرضا ہو ،دونوں صورتوں میں زناجائزنہیں ہے ۔

یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ مسلم خواتین کی بڑی تعداد بھی آج کل دوسری اقوام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فیشن کو اختیارکررہی ہے اور گھر سے باہر آکر اپنے جسموں کی نمائش میں فخر محسوس کررہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ مسلم معاشرے میں اسی طرح کی برائیاں اوروارداتیں سامنے آرہے ہیں جس طرح غیر مسلم معاشروںمیں آتی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ زناکاری ایڈس تک پہنچاسکتی ہے، اس کے ذریعہ زندگی کا سکون بھی ختم ہوسکتا ہے۔ زناکاری کا نقصان صرف دنیا کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی زناکارشخص کو سخت سزاکا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلمان زناکاری وفحاشی سے کامل طورپربچیں ۔اگر دیگر اقوام بھی بے حیائی سے پرہیز کریں اورجنسی بے راہ روی کو چھوڑدیں تودنیا کو ایڈس جیسے خطرناک مرض سے نجات مل سکتی ہے۔
Anjan Bilal
About the Author: Anjan Bilal Read More Articles by Anjan Bilal: 15 Articles with 11498 views To Live In The Faith That The Whole World Is On My Side, So Long As I Am True To The Best This Is In Me... View More