جھوٹ پر سیر حاصل بحث (حصہ اول)

محترم قارئین کرام:
میں آپ اور ہم سب اگر اچھے ناموں سے ،اچھے کاموں سے پہچانے جائیں تو یقینا قابل ستائش امر ہے اور اگر ہمیں کوئی جھوٹا،بد عہد کہ کر پکارے توچہرے پر شکن پڑ جاتے ہیں ۔آخر ایساکیوں ؟۔وہ اس لیے کہ جھوٹا ہونا ،بدعہد کرنا برافعل اور جہاں اچھے فعل کے اچھے ثمرات ہوتے ہیں وہاں برے کاموں کا انجام بھی برا ہوتاہے ۔ جھوٹ بولنے سے مزاج ،اعتماد،کردار و گفتار پر آنچ آتی ہے ۔آ ج معاشرے میںپنپنے والی بہتیری برائیوں کا تعلق جھوٹ سے ہے ۔جس کی ابتدا ایک جھوٹ اور انجام تختہ دار بھی دیکھنے کو ملتاہے ۔اس گناہ کبیرہ کی قباحتوں کو بیان کرنے کے لیے صفحہ قرطاس پر کچھ اصلاحی نقوش پیش کرنے کا عزم لیے حاضر ہوں ۔جھوٹ کی مختلف جہتوں کو ادلہ کی روشنی میںپیش کررہاہوں اللہ کریم مجھے حق و صداقت کا پیرہن عطافرمائے ۔

محترم قارئین کرام :سیرحاصل بات کو بیان کرنے کے لیے اس عنوان کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیاہے مزید دو حصے عنقریب پیش خدمت ہوں گے۔انشاءاللہ عزوجل

٭جھوٹ کی ممانعت پرحدیث٭
عَن عَبدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ عَن النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ الصِّدقَ یَہدِی اِلَی البِرِّ وَاِنَّ البِرَّ یَہدِی اِلَی الجَنَّةِ وَاِنَّ الرَّجُلَ لَیَصدُقُ حَتّٰی یَکُونَ صِدِّیقًا وَاِنَّ الکِذبَ یَہدِی اِلَی الفُجُورِ وَاِنَّ الفُجُورَ یَہدِی اِلَی النَّارِ وَاِنَّ الرَّجُلَ لَیَکذِبُ حَتَّی یُکتُبَ عِندَ اللّٰہِ کَذَّابًا
(صحیح البخاری ،الحدیث 5629،الشاملہ)
ترجمہ :
عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔اوربے شک آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ (عزوجل) کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ فُجُور کی طرف لے جاتا ہے اور فُجُور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اوربے شک آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ (عزوجل) کے نزدیک کَذَّاب(یعنی زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھ دیا جاتا ہے۔“

٭حدیث کی شرح٭
علامہ ابن حجر العسقلانی رحمة اللہ تعالی علیہ نے فتح الباری میں ان کا معنی یوں بیان کیا ہے ” بِر“ اگر کسرہ کے ساتھ پڑھیں تو اس کا معنی اچھے کاموں میں وسعت کے ہیں اوریہ” بِر“ ایسا اسم ہے جو تمام اچھے کاموں کا جامع ہے یعنی اس میں تمام اچھے کام داخل ہو جائیں گے اور کبھی اس سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لئے کیا جانے والا عمل بھی مراد لیا جاتاہے۔ اور امام راغب نے فُجُور کا معنی یوں بیان کیا ہے ” فُجُور جمع ہے جسکا مفرد فَجر ہے جس کے معنی پھوٹنے کے ہیں ،نماز فجر کو بھی فجر اس لئے کہتے ہیں کہ روشنی اس میں پھوٹتی ہے اورفُجُور گناہوں پر اُبھارنے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ اسم تمام برائیوں کا جامع ہے ۔“

اِسی طرح حدیث پاک میں بیان ہوا کہ اسے صِدیقُوں یا کَذَّابوں میں لکھ دیا جاتا ہے اس کی شرح میں علامہ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں کہ اُس پر اِس طرح کا حکم لگا دیا جاتا ہے یا لوگوں کے دلوں میں اس کا اِلقا کر دیا جاتا ہے ۔(فتح الباری تحت الحدیث،الشاملہ)

اس سے ہمیں پتہ چلا کہ جھوٹ کتناناپسندیدہ ہے کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو یہ سخت ناپسندیدہ تھا اور ایک بار جب آپ کی بارگاہ میں ایک اَعرابی نے عرض کیا کہ میں فلاں فلاں گناہ کرتا ہوں مگر آپ کے کہنے سے ان میں سے ایک چھوڑ سکتا ہوں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو اور جب اس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو اس کی برکت سے وہ تمام گناہ چھوٹ گئے جنہیں وہ چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا

جھوٹ اس قدر خطرناک ہے کہ عرب کے باشندے اسے بیماری سے تعبیر کرتے تھے جبکہ سچ دوا کے نام سے معروف تھا الکِذبُ دَائ جھوٹ بیماری ہے وَ الصِّدقُ شِفَائ اور سچ بولنا شفا ہے
(مجمع الامثال،الشاملہ)

٭جھوٹ کی تعریف شروحات کی روشنی میں ٭
جھوٹ کی علماءکرام نے مختلف اَنداز میں تعریفات بیان کی ہیں ان میں سے چند ملاحظہ ہوں
(۱)طریقہ محمدیہ الکِذبُ ھُوَال اِخبَارُ عَن الشَّیئِِ عَلَی غَیرِ مَا ہُوَ عَلَیہِیعنی کسی شے کے متعلق اس طرح خبر دینا جس طرح وہ نہ ہو جھوٹ کہلاتا ہے ۔(طریقہ محمدیہ ،الشاملہ،ج۴،ص 370)
(۲)علامہ کمال الدین فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں الکِذبُ ہُوَ عَدَمُ مُطَابَقَةِ الحُکمِ لِلوَاقِعِ حکم کا واقع کے مطابق نہ ہونا جھوٹ کہلاتا ہے یعنی جو اس نے کہا حقیقت اس کے میں ایسا نہ ہونا (فتح القدیر،کتاب الدعوی ،باب مایدعیہ الرجلان ،الشاملہ)

محترم قارئین! ان دونوں تعریفوں کا نچوڑ یہ ہے کہ کسی شے کے متعلق اس طرح خبر دینا کہ جس طرح وہ نہ ہو جھوٹ کہلاتا ہے۔اس کے علاوہ بہتان بھی جھوٹ سے ملتاہے ان دونوں میں معمولی سا فرق ہے ۔

جھوٹ اوربہتان میں فرق
بہتان کسے کہتے ہیں تواسے مسلم شریف کی روایت سے سمجھئے جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَتَدرُونَ مَا الغِیبَةُ یعنی حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ توصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا اللّٰہُ وَرَسُولُہُ اَعلَمُ تو حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ذِکرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکرَہُ اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہوتو صحابہ کرام نے عرض کیااَفَرَاَیتَ ان کَانَ فِی اَخِی مَا اَقُولُ یا رسولَ اللّٰہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جو بات میں کہہ رہا ہوں اگر وہ بات اس میں پائی جائے تو ؟ارشاد فرمایا اِن کَانَ فِیہِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغتَبتَہُ وَاِنلَم یَکُن فِیہِ فَقَد بَہَتَّہُ یہی غیبت ہے اور اگر وہ بات اس میں موجود نہ ہو تو بہتان ہے
(صحیح مسلم 4690)

جھوٹ کی ممانعت قرآن وحدیث کی روشنی میں
اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا اِنَّمَا یَفتَرِی الکَذِبَ الَّذِینَ لاَ یُمِنُونَ بِاٰیٰتِ اللّّٰہِ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الکٰذِبُونَ (پارہ 14،النحل 105)
ترجمہ کنزالایمان:جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔
حضرت ِسَیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوَایت ہے کہ سرکارِ نامدار،مدینے کے تاجدار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا
مَن تَرَکَ الکَذِبَ وَہُوَ بَاطِل بُنِیَ لَہُ فِی رَبَضِ الجَنَّةِ جو باطل جھوٹ بولنا چھوڑدے، (یعنی جو جھوٹ بولنا جائز نہیں) اُس کے لئے جَنّت کے کنارے پر ایک گھر بنایا جائے گاوَمَن تَرَکَ المَرَاءَ وَہُوَ مُحِقّ بُنِیَ لَہُ فِی وَسَطِہَااور جو حقّ پر ہوتے ہوئے جھگڑنا چھوڑدے گا، اُس کے لئے جَنّت کے وَسط میں ایک گھر بنایا جائے گاوَمَن حَسَّنَ خُلُقَہُ بُنِیَ لَہُ فِی اَعلَاہَا اور جس کا اَخلاق اچھّا ہوگا ،اُس کے لئے جَنّت کے اعلی مقام میں ایک گھر بنایا جائے گا۔(سنن ترمذی ، کتا ب البروالصلة ، باب ماجاءفی المراء، حدیث 1916 ،الشاملہ)

جھوٹ سے نورانیت ختم ہو جاتی ہے
جیساکہ بیہقی نے ابوبرزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے قبر کا عذاب ہے۔“
(شعب الایمان“، باب ف ¸ حفظ اللسان، الحدیث: 4813، ج۴، ص208)

اس حدیث پاک کی شرح میں فیض القدیر اورطریقہ محمدیہ ہے ہے کہ جب بندہ زبان سے ایسی بات کرتا جو حقیقتاً نہیں ہوتی تو اللہ عزوجل اور اس شخص کا ایمان اس بات کو جھٹلا دیتے ہیں اسی وجہ سے اس کے چہرے پر اس کا اثر دکھائی دیتا ہے۔اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہیَومَ تَبیَضُّ وُجُوہ وَّتَسوَدُّ وُجُوہج فَاَمَّا الَّذِینَ اسوَدَّت وُجُوہُہُم اَکَفَرتُم بَعدَ آِیمَانِکُم فَذُوقُوا العَذَابَ بِمَا کُنتُم تَکفُرُونَوَاَمَّا الَّذِینَ ابیَضَّت وُجُوہُہُم فَفِی رَحمَةِ اللّٰہِ ہُم فِیہَا خَالِدُونَ ،
(ال عمران ،ایت 106تا107)
ترجمہ کنز الایمان: جس دن کچھ منہ اوجالے ہوں گے اور کچھ منہ کالے تو وہ جن کے منہ کالے ہوئے کیا تم ایمان لا کر کافر ہوئے تو اب عذاب چکھو اپنے کفر کا بدلہ اور وہ جن کے منہ اوجالے ہوئے وہ اللہ کی رحمت میں ہیں وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔
(فیض القدیر ،الحدیث 6456،الشاملہ،طریقہ محمدیہ،الشاملہ)

محترم قارئین :میرا اور آپ کا ساتھ رہے گا۔اسی موضوع پر مزید معلومات کے ساتھ نئے کالم کے ساتھ حاضر ہوں گا۔دعاگوہوں رحمن و رحیم ربّ علم نافع کی نعمت سے بہر مند فرمائے ۔آمین
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ آج تک نوازتا ہی چلاجارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس ایک بارکہا تھا میں نے یا اللہا مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 352029 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.