نیا دور -سوال پرانا

کہتے ہیں زمانہ بدل گیا ہے،زمانے کی گردش کی گردش نے لوگوں کی سوچ کو بھی تبدیل کردیا ہے ۔عورت جسے کچھ دہائیوں قبل زرخرید لونڈی سے زیادہ نہیں سمجھا جاتا تھا ۔آج وہی عورت ایک کارآمد فرد کی حیثیت سے معاشرے میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہے ۔جہاں ایک جانب ذاتی کاروبار چلارہی ہے وہی ملازمت پیشہ بھی ہے ۔جب سڑک سے گزرتی ہے تو کچھ غلط نگاہیں اس کی پاکیزگی کو اذیت دیتی ہیں بعض تعظیم میں جھکتی ہیں ۔عورت ان رکاوٹوں کو باہمتی سے عبور کرتی ہے پر ایک سوال جو وہی صدیوں پرانا ہے یک دم سامنے آتا ہے تو اس کی توانائییوں کو زیر کرلیتا ہے ۔اس سوال کا سامنا نچلے،متوسط ،اعلی،تعلیم یافتہ،ان پڑھ ہر لڑکی کو کرنا پڑتا ہےکہ ‘تمہاری شادی ہوگئی‘،کب تک ہوگی،اتنی عمر ہوگئی اب تک تو ہوجانی چاہیئے اسی طرح کے لاتعداد سوالات دوستوں ،رشتہ داروں کی جانب سے کئے جاتے ہیں ایک جانب وہ خود کو لبرل کہتے ہیں وہیں ایسے دقیانوسی سوالات کی بوچھاڑ اس لڑکی پر کردیتے ہیں ۔

اس ایک سوال کے سامنے اس لڑکی کی دیگر صلاحیتیں و ہنر پس پردہ چلے جاتے ہیں ۔وہ یکدم خود کو ہم عمر لڑکییوں سے کم تر سمجھنے لگتی ہے پیشتر مرتبہ گھروالے بھی اسی کو کہتے ہیں ،ہمدردی یا حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے بارہاں باور کرواتے ہیں کہ تم میں ہی کوئی کھوٹ ہوگا جب ہی کوئی رشتہ نہیں آیا اس موقع پر بھول جاتے ہیں یہ وہی بیٹی ہے جس کی تعلیمی قابلیت کا احباب کو فخر سے بتاتے تھے ۔وہی بیٹی ہے جو ماں باپ کی تکلیف پر ان کی صحتیابی کے لئے دعائیں کرتی،خود کو خدمت کے لئے وقف کر دیتی تھی ایک شادی نہیں ہوئی تو وہ کیا بیکار ہوگئی،ہرگز نہیں بلکل غلط مفروضہ ہے ۔اس رسم کا پورا نہ ہونا زندگی کو روک نہیں دیتا ہے ۔خدا نے انسان کے ہاتھوں میں کھینچھی لکیروں میں طے کردیا ہےکب،کہاں،کس وقت انجام پائے گی پھر سطحی سوال پر وقت ضائع کرنا اور لڑکی کو ذہنی اور جسمانی زدوکوب کرکے صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے والے خدا کے گناہگار ٹھرتے ہیں ۔

معاشرے اور لڑکی کے گھروالوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس سوال کو باربار سامنے لاکر کھڑا نہ کریں،حوصلہ افزائی و دلجوئی کریں،گھریلوں محافل اور سماجی تقریبات میں ایسے سوالات سے گریز کیا جائے جو لڑکی کی دل آزاری اور شرمندگی کا باعث بنئں ۔جن کے باعث وہ خود پر زندگی کے دروازے بند کرنے لگے کیونکہ بعض تو سوالات سہ لیتی ہیں مگر کچھ کے اعصاب اتنے مضبوط نہیں ہوتے ہیں ۔ایسے موقع پر خاندان کے بزرگوں کودقیانوسی خیالات کے حامل افراد کی حوصلہ شکنی کرنی کرنی چاہئیے تاکہ ہوا کی بیٹی کھلی ہوا میں سانس لےسکے ۔وہ ہرے بھرے شجر کی مانند اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑی ہوسکے ۔یہ مثبت سوچ معاشرے کو ذہنی صحتمند معاشرہ بنائے گی ۔
madiha khalid
About the Author: madiha khalidi am doing M.A in MASS COMM... View More