منافقت کا نیا انداز

بڑی اچھی کہاوت۔۔۔۔۔اپنے دشمنوں کے درمیان اس طرح رہو جس طرح ایک زبان 32دانتوں کے درمیان رہتی ہے ان سے ہر روز ملتی بھی ہے مگر ان کے نیچے نہیں آتی!!!کہاوت اچھی ہے اس کی اچھائی یہ ہے کہ اس کو پڑھنے اور سننے والا اپنے مطلب کا مطلب نکال سکتا ہے،مثال کے طور پرہمارے معاشرے کے اندر انسانوں کا ایک گروپ اس کہاوت کو منافقوں کیلئے ایک مثال قرار دے دیا ہے کہ دشمنوں کے اندر اگر رہنا ہے تو زبان کی طرح نہیں بلکہ شیر کے نظریے کے ساتھ رہنا چاہیے!!!اسی طرح ہمارے معاشرے کے اندر انسانوں کا دوسرا گروپ اس کو وقت کی ضرورت قرار دے رہا ہے کہ جس طرح کا وقت ہو اس وقت کے مطابق انسان کو چلنا چاہیے اب اگر انسانوں کے دونوں گروپو ںکے نظریے یا فکر مستر کر دیا جائے تو یہ غیر اخلاقی بات ہو گی کیونکہ رائے کا احترام کرنا اہل فکر و اہل دانش حلقوں کی بنیادی ذمہ داری کے علاوہ جمہوریت کی منشا بھی اسی میں ہے کہ رائے کا احترام کیا جائے اندریں حالات میرا نقطہ نظر مختلف ہے !انسان معاشرتی برائیوں کے تندور سے نکلنے والی آگ اور معاشرتی اچھائیوں کے گلستان کے پھولوں کی خوشبو دونوں سے نبرد آزماہونے کیلئے تیار رہنا چاہے لیکن ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ دونوں چیزوں سے نبردار آزما ہونے کیلئے دونو ںکے وقار، تشخص اور عزت نفس میں تمیز رکھنا ہوگی اگر آپ وقار، عزت نفس اور تشخص میں تمیز نہیں رکھیں گے تو منزل پر پہنچ کر بھی آپ اپنے آپ کو بے منزل تصور کریں گے اور بے منزل کا لفظ کسی بھی انسان کے نزدیک زندگی میں بدنما دھبے سے کم نہیں!!! بات سمجھنے کی ہے۔۔۔۔۔۔آخر آج ہم اس بات پر کیوں باضد ہیں کہ پڑھنے لکھنے کے سواءپاکستان کا اور مطلب کیا؟؟؟حالانکہ جب پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تو قوم کو اور تحریک پاکستا ن کے پروانوں کو توپاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ کہا گیا تھا ہم اپنی ہی بنیاد کی نفی کرکے آخرکیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ پڑھنے لکھنے پر زور دے رہے ہیںتو کوئی بھی باشعور پاکستانی پڑھنے لکھنے کے ماحول اور ضرورت سے کبھی انکار نہیں کرے گا لیکن بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ جو پاکستانی نوجوان اس وقت لاکھوں کی تعداد میںاعلی تعلیمی ڈگریاں ہاتھ میںلیئے بھیکاری کی طرح حواس باختگی کے عالم میں گھوم رہے ہیں ان کی تلاش کو ن کرے گا؟ان کو باعزت روزگار کون فراہم کرے گا؟ ان کو شناخت کون دے گا ؟ان کو وہ مقام کون دے گا جس پر دیکھنے کیلئے اس کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر لاکھوں روپے اخراجات کرکے اس کو اعلی تعلیم یافتہ بنوایا؟اس کو باعزت روزگار فراہم کون کرےگا؟ اس کے اندر موجودجدید سائنسی صلاحتیوں سے کام کون لے گا؟نوجوانوں کے اندر پائی جانے والی مایوسی کون دور کرے گا؟نوجوانوں کے اندر پائی جانے والی مایوسی اور محرومی جس کی وجہ سے انہوں نے ہتھیار اٹھائے اس مایوسی اور محرومی کو کون دور کرے گا؟یہ وہ حقائق ہیںجن کو بالآخر ہم نے سمجھنا ہے امریکہ،انڈیا،برطانیہ ،یا کوئی اور ملک ہمارے ملک اور قوم کی ترقی کیلئے کبھی سنجیدہ نہیںہو گا ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے اختلاف کے آغاز سے لیکر اختتام تک صرف و صرف اقتدار کی حفاظت کی بدبو آتی ہے آج پورا پاکستان معاشی طور پر غیر مستحکم ہے قوم مہنگائی،بے روزگاری،اور غربت میں دلدل میں دھنس رہی ہے ایک عام آدمی کیلئے ایک وقت کی روٹی مشکل اور بندوق کی گولی کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرناآسان ہو گیا ہے اور جب بات ہمارے حکمرانوں پر آتی ہے تو ان کی صبح کا آغاز اور شام کا اختتام لفظ جمہوریت پر ہوتا ہے اٹھتے بیٹھتے ، سوتے، جاگتے، چلتے، پھیرتے ہمارے حکمران صرف اتنی بات کرتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت کی حفاظت کی قسم کھائی ہوئی ہے یقینا ہمارے حکمران جس جمہوریت کی حفاظت کی قسم کھاتے ہیں یہ اسی جمہوریت کا کمال ہے کہ آج پورا پاکستان پاﺅں پر کھڑا ہونے کی بجائے پاﺅں پر لڑ کھڑا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
Mumtaz Ali Khaksar
About the Author: Mumtaz Ali Khaksar Read More Articles by Mumtaz Ali Khaksar: 49 Articles with 34562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.