امریکہ میں گن کلچر

امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی زبان اور محاورے قتل تشدد سے جڑے ہوئے ہیں۔ کسی قوم کی زبان، ہلاکت آفرینی کو راسخ کرتی ہے اور اسے تقویت پہنچاتی ہے۔ تو اس کے اثرات عوام پر بھی ہوتے ہیں۔ امریکی روزمرہ کی زبان میں بولتے ہیں ”اسٹاک مارکیٹ میں قتل عام کرنا“، وال اسٹریٹ کی ایک کہاوت ہے ”گلیوں میں جب خون بہہ رہا ہو تو آپ خریداری کرتے ہیں“، اور تجارتی ادارے ”قیمتوں کی جنگ“ میں مقابلہ کرتے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابی مہمات زوروں پر ہیں۔ انتخابی مہم چلانے والے کارکنوں کو ”فوجی دستہ“ یا ”پیدل سپاہی“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجالسِ قانون ساز میں بل ”قتل“ کردیے جاتے ہیں۔ غربت، جرائم، منشیات اور دیگر مسائل پر قوم ”جنگ جاری رکھتی ہے“۔۔ اسی لغت کی حامل وقم کے بچے اب درسگاہوں میں قتل کر رہے ہیں۔ بیس سالہ نوجوان کے ہاتھوں بیس بچوں اور چھ جوان افراد کے قتل نے پوری امریکی قوم کو رلا دیا ہے۔ وہ قوم جو دوسری اقوم کے لاکھوں بچوں کے قتل پر نہیں روتی اپنے بچوں کے لئے کیسے رو رہی ہے۔

امریکی پولیس تفتیش کر رہی ہے کہکنیٹی کٹ کے سکول میں 26 افراد کے قاتل ایڈم لینزا آیا کسی ذہنی بیماری کا شکار تو نہیں تھے۔یہ پہلی بارنہیں ہوا کہ امریکہ میں ایسا ہولناک واقعہ ہوا ہو۔ سال رواں میں اجتماعی قتل کا یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ جسے دبانے کے لئے امریکی حکومت اور میڈیا یک زبان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 26 افراد کا قاتل ایڈم لینزا ذہین لیکن شرمیلے تھے۔امریکی میڈیا نے بیس سالہ ایڈم لینزا کو اس حملہ آور کی حیثیت سے شناخت کیا ہے۔ اس کے سابق ہم جماعتوں کو ان کی زیادہ تفصیلات یاد نہیں ہیں۔وہ ایک ایسے لڑکے کی بات کرتے ہیں جو اچھے کپڑے پہنتا تھا اور محنت کرتا تھا، لیکن اس نے شاید ہی سکول میں کوئی لفظ بولا ہو۔ امریکی میڈیا کے مطابق 2010 کی ایر بک میں ایدم لیزا کی کوئی تصویر نہیں ہے۔ اس کی بجائے ان کے نام کے خانے کے آگے ’کیمرا شائی‘ یا ’کیمرے کے سامنے شرمیلا‘ لکھا ہوا ہے۔ اس کا فیس بک پر کوئی صفحہ نہیں بنا ہوا تھا، اور انٹرنیٹ پر ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایڈم لینزا ریاست کنیٹی کٹ کے قصبے نیوٹن کے ایک متمول مضافات میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔

وہ نیوٹن ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔ لیکن ان کے دوست بہت کم تھے۔ایڈم کی خالہ مارشا لینزا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انھیں مشفق اور محبت کرنے والے والدین نے پالا تھا، اور اگر ان کے بیٹے کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی تو وہ یقیناً اسے حاصل کرنے سے نہ ہچکچاتے۔اسکے والدین نے 2009 میں طلاق لے لی تھی، اور وہ اس طلاق سے کم از کم تین سال پہلے علیٰحدہ ہو گئے تھے۔ ان کے والد پیٹر لینزا کنیٹی کٹ ہی کے ایک اور قصبے سٹیم فورڈ منتقل ہو گئے تھے جہاں انھوں نے دوسری شادی کر لی تھی۔
ان کی والدہ نینسی اپنے گھر ہی میں رہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایڈم نے انھیں اسی گھر میں قتل کر دیا تھا۔ وہ سکول میں استانی تھیں۔دونوں بھائیوں پر اپنے والدین کی علیٰحدگی کا بہت گہرا اثر پڑا تھا۔اس حملے میں سکول کی لائبریری کلرک میری این جیک اٹھارہ بچوں کو ساتھ لے کر لائبریری کے ایک سٹور روم میں چھپ گئی تھیں اور بچوں کو خاموش رہنے کے لیے بچوں کو بتایا کہ وہ کہ یہ ایک حفاظتی مشق کا حصہ ہے۔ ایڈم لینزا اپنی ماں کو گھر پر ہلاک کرنے کے خود گاڑی چلا کر سکول پہنچا اور زبردستی سکول میں گھسں کر بیس بچوں سمیت چھبیس افراد کو ہلاک کردیا۔ ہلاک ہونے والوں میں سکول کے پرنسپل بھی شامل ہیں۔سینڈی ہک سکول کے بچوں کی عمریں پانچ اور دس برس کے درمیان تھیں۔پولیس کی لیفٹیننٹ پال وینس کا کہنا ہے کہ 18 بچے سکول ہی میں ہلاک ہو گئے تھے جب کہ دو ہسپتال میں دم توڑ گئے۔اس حملے میں چھ بالغ بھی مارے گئے، جن میں سکول کے پرنسپل ڈان ہوچسپرنگ بھی شامل ہیں۔ حملہ آور بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو گولی مار لی تھی۔صدر اوباما ٹیلی ویڑن پر تقریر کرتے ہوئے بار بار اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ رہے تھے۔انھوں نے کہا، ’ہمارا ملک اس قسم کے واقعات سے بہت زیادہ دفعہ گزر چکا ہے۔"ہمارا ملک اس قسم کے واقعات سے بہت زیادہ دفعہ گزر چکا ہے۔ ہمیں اکٹھا ہونا ہے اور سیاست سے قطع نظر اس قسم کے سانحوں کو روکنے کے لیے بامعنی اقدام کرنے ہوں گے۔"’ہمارے دل آج ٹوٹے ہوئے ہیں، ان بچوں کے والدین، دادا دادی، اور بھائیوں بہنوں سے اور ان بالغ افراد کے خاندانوں کے لیے جنھیں ہم نے آج کھو دیا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حملے میں استعمال ہونے والا تمام اسلحہ مشتبہ حملہ آور ایڈم لینزا کی ماں کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔بتایا جاتا ہے کہ فائرنگ کرنے والے شخص ایڈم لینزا نےسیاہ کپڑے پہن رکھے تھے اور بلٹ پروف جیکٹ بھی پہنی ہوئی تھی اور وہ بہت سارے ہتھیاروں سے لیس تھا۔جمعے کو ہونے والی فائرنگ کا یہ واقعہ دو ہزار بارہ میں ہونے والا تیسرا بڑا فائرنگ کا واقعہ ہے۔امریکی ریاست کولوریڈو میں جولائی کے مہینے میں ایک مسلح شخص نے سینما میں گھس کر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب سینما گھر میں فلم بیٹ مین کی نمائش ہو رہی تھی۔اسی طرح اگست میں امریکی ریاست وسکانسن میں ایک سکھ مندر پر حملے کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی ماہ دو افراد امریکی ریاست اوریگان کے ایک شاپنگ سنٹر پر فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔نیویارک کے ایک اخبار نے کولاراڈو کے شہر آرورا کے سنیما میں پیش آنے والے واقعے پر لکھا تھاکہ اگر ہالی وڈ کی تصوراتی دنیا اور حقیقی دنیا کی خوفناکی آپس میں گڈ مڈ ہوجائیں تو پھر کولوراڈو جیسے المیے جنم لیتے ہیں۔حالیہ قتل کے واقعے کے بعد امریکہ میں بندوق کلچر پر ایک دفعہ پھر میڈیا سمیت ہر جگہ بحث چھڑ چکی ہے۔امریکہ میں گن لابی اور گن کنٹرول لابی یا اینٹی گن لابی امریکی سیاست اور اقتدار میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہی ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ بہت سے ڈیموکریٹ گن کنٹرول کے حامی ہیں جبکہ رپبلکنز کی بہت بڑی تعداد گن لابی کے حق میں ہوتی ہے۔
یہاں امریکی سیاست پر بااثر نیشنل رائفل ایسوسی ایشن بھی ہے اور شہروں میں قومی گن شو بھی منعقد ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے مرد ہوں کہ خواتین جوق در جوق آتے ہیں۔لیکن ڈیموکریٹس ہوں کہ ریپبلیکنز، تقریباً ڈھائی سو سال قبل آئین میں کی گئی دوسری ترمیم کے تحت امریکی شہریوں کو ملنے والا ایسا حق مانتے ہیں جس کے تحت ہر بالغ امریکی کو اپنے دفاع میں بندوق رکھنے کا حق حاصل ہے۔
امریکہ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آئینی طور پر ہر بالغ شہری کو ہتھیار یا بندوق رکھنے کا حق حاصل ہے۔

اگر آپ کی عمر اٹھارہ سال یا اس سے زائد ہے، آپ امریکی شہری ہیں اور آپ کا کوئی پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے تو آپ محض اپنا ڈرائﺅنگ لائسنس یا ریاستی شناختی دستاویز کسی بھی اسلحے کی دکان پر دکھا کر بندوق خرید سکتے ہیں۔

امریکہ میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں آپ اپنے دفاع میں گولی چلا سکتے ہیں، یا آپ کی ملکیت میں گھس آنے والے کو آپ بلاجھجک گولی مار سکتے ہیں۔امریکہ میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں آپ اپنے دفاع میں گولی چلا سکتے ہیں-

بہت سے امریکیوں نے اپنے گھروں پر ایسی تختیاں لگا رکھی ہیں جن پر تحریر ہے کہ بغیر اجازت اندر آنے والے کو گولی ماری جا سکتی ہے۔ یا ’وی شوٹ دی ٹریس پاسر‘ یعنی ہم اندر گھس آنے والے کو گولی مار دیتے ہیں۔ ایک اینتھروپولوجسٹ دوست کے مطابق ’امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے ہیں‘ اور یہی بات آپ کو کئی امریکی فخر سے بتائیں گے۔امریکن رائفل مین کا ایک ہیرو والا ’ماچ ±و مین‘ تصور امریکی زندگی اور لوک گیتوں میں بھی موجود ہے۔مشہور امریکی افسانہ نگار ارنسٹ ہیمنگوے کی بندوقیں بھی خود ان جتنی ہی مشہور ہیں اور ان پر ایک کتاب ’ہیمنگنویز گنز" بھی شایع ہوئی ہے،۔حال ہی میں برطانوی اخبار گارڈین نے دنیا میں آتشیں اسلحہ رکھنے والے ملکوں کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جس میں امریکہ کو اول نمبر پر بتایا گیا ہے۔ اس نقشے میں میں بندوقیں رکھنے والے ملکوں میں سب سے زیادہ بندوقیں امریکیوں کی بتائی گئی ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اٹھاسی اعشاریہ آٹھ فی صد افراد بندوق سے مارے جانے کے خطرے کی زد میں ہیں-

سفید فام آباد کاروں کے ہاتھوں7 کروڑ ریڈانڈینوں کی نسل کشی کے بعد ،،ریاستہائے متحدہ امریکہ عرف یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیریکہ وجود میں آیا تھا۔ پندرہویں صدی کے اواخر میںیوروپی مہم جوئی کا آغاز ہوا تویکے بعد دیگرے مختلف ممالک اور خطے دریافت ہوتے چلے گئے حتی کہ 12 اکتوبر 1492 کو کولمبس امریکہ کے مشرقی ساحل کے قریب بہاماز پہنچا۔یو ںپہنچنے کو تو کولمبس سے قبل مسلم جہاز رانوں کا ایک قافلہ بحر ظلمات کو عبور کر کے امریکی سرزمین تک پہنچا تھا۔لیکن امریکہ کے جنوب مشرقی ساحل پر فلوریڈا کے قریب واقع امریکہ کی سرزمین پرکولمبس کی شکل میں کسی یوروپی کا یہ پہلا قدم تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف مقامات کی دریافت کا سلسلہ چل پڑا۔

امریکہ کیونکہ فی زمانہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی و عسکری قوت ہے جس کا دنیا بھر کے معاملات پر اس اثر و رسوخ ہے اور اس کی اہمیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںلیکن اگر آپ امریکہ کے دورے پر جائے اور وہاں کے شہریوں سے گفتگو کریں تو آپ پر تھوڑی دیر میں ایک انکشاف ہوجائیگا کہ امریکی شہری اپنے گھروں سے باہر چہل قدمی یہاں تک کے اپنے گھر کے باہر بھی اکیلے گھومنے سے خوفزدہ ہیں۔اسی گن کلچر کے ہاتھوں گلیوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا طوفان گرم ہے جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔امریکی محکمہ انصاف کے مطابق امریکہ کے شہروں میںاسی گن کلچر کے ہاتھوں اوسطاً ہر بائیس منٹ میں کسی فرد کا قتل ہوجاتا ہے، ہر پانچ منٹ میں ایک آبروریزی کی واردات ہوتی ہے تو ایک ڈکیتی 49سیکنڈ بعد رپورٹ ہوتی ہیںجبکہ چوریوں کی شرح تو ہر دس سکینڈ کی ہے۔محکمہ انصاف کے ہی مطابق ہر برس جرائم کے باعث امریکہ کو 675ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے جس میں جانی نقصان یا ذہنی صدمے کا کوئی حساب شامل نہیں۔ اسی طرح امریکہ کی جیلوں میں دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ قیدی موجود ہیں جنکی تعداد بائیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں پچاس ہزار غیرامریکی ہیں جو دہشتگردی کے شبہ میں بناکسی عدالتی احکامات کے جیلوں میں مقید ہیںاور انھیں کسی قسم کے حقوق بھی حاصل نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی جیلوں میں قید ایک لاکھ افراد بے گناہ ہیںجبکہ ایسے بے گناہ افراد کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہیں جنھیں حالیہ برسوں کے دوران سزائے موت دی جاچکی ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گونتاموبے یا عراق کی ابوغریب جیل کی طرح امریکہ کی اپنی جیلوں میں بھی نہ صرف تشدد عام ہے بلکہ وکلاءکے علاوہ یہاں کے جج بھی عوام کو غیرقانونی طور پر جیل بھیجنے کی دھمکی دیتے رہتے ہیںتاہم اس رپورٹ کوامریکہ میں بین Banکردیا گیا ہے۔ یہ عجیب صورت حال ہے کہ آئے دن امریکہ میںعام شہریوں کے ہاتھوں تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، لیکن گرفتاریوں، بیان بازیوں اور بحث و مباحثہ سے آگے بات بڑھتی ہی نہیں ہے اورسارا معاملہ ایک مخبوط الحواس کی جنونی کاروائی کے خانہ میں فٹ کردیا جاتا ہے۔ اب امریکہ ایک ایسا ملک ہے۔ جہاں تشدد نام کی ایک تہذیب کا راج قائم ہو چکا ہے۔ جہاں ماں اپنی پانچ سال کی بچی کو حقیقی رائفل کو نہارتے دیکھ کہتی ہے کہ بٹیا یہ رائفل تمہاری عمر کے لحاظ سے بڑی ہے۔ابھی تم چھوٹی بندوق پر گزارا کر لو۔ جہاں گھروں کے دروازوں پر کتے سے ہوشیار کی جگہ ، مالک سے ہوشیار رہنے کی دھمکی کچھ انداز میں لکھی ہوتی ہے کہ ”خبردار، بلا اجازت داخل ہوئے تو گولی مار دی جائے گی“۔ 1997 سے 2008 تک امریکی درسگاہوں میں فائرنگ اور تشدد کے بیسوں واقعات میں سو سے زائد ا فراد کو اپنی جانیں گنوانی پڑتی ہیں۔ ورجینایونیورسٹی میں اسی قسم کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں بتیس لوگوں کی دردناک موت کو یاد کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ تعلیمی اداروں کی فیگرس ہیں ورنہ تو ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 2000سے 2009 تک 298,000 اموات یعنی سالانہ تقریباً 30,000 اموات گن فائرنگ سے ہوئی ہیں۔ فروری 2009 میں محض بارہ دن کے وقفہ میں فائرنگ سے شکاگو کے شاپنگ مال میں پانچ خواتین کی ہلاکت اور الینوانے یونیورسٹی میں پانچ طلباءاور ایک استاد کی اموات نے امریکی معاشرہ کی چکا چوند کے پیچھے کے سچ کو دنیا کے سامنے پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا۔

امریکی معاشرہ کا سچ بندوق رکھنے اوراس کے استعمال میں نہیں، بلکہ اس تہذیبی انتشار اورسماجی اقدار کے بکھراﺅمیں پوشیدہ ہے دوسری جنگ عظیم اور سوویت یونین کے بکھر نے کے بعد نیو ولڈ آرڈر کا نعرہ دینے والا امریکہ دوسری طرف خود اس کے عوام کے لئے مواقع تو دور ، اتنے مسائل کھڑے کر دئے ہیں کہ وہ ”وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو“ جیسی مہم چلانے پر مجبور ہیں۔ امیر و غریب کے درمیان وسیع ہوتی خلیج کے چلتے عوام امیروں سے نفرت تک کرنے لگے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 9 فیصد سے زائد ہے جو نوجوانوں میں پچیس فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ تعلیم اور علاج عام آدمی کی پہونچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ ’بہترین مواقع کی سرزمین‘غریب لوگوں کے رہنے کے لئے تلخ تر ہوگئی۔“پے در پے تکالیف،نت نئی پریشانیاں۔ کہیں نوکری چھن جانے کا غم تو کہیں بے گھری اور دربدری کا خوف۔ کہیں زندگی کی معمولی معمولی سہولیات سے محرومی کا احساس توکہیںوعدوں کا ایفا نہ کر پانے والی حکومتوں کے خلاف غصہ۔ جب ذہن اس حد تک پریشاں ہوں اور دلوں پر اس قدر بوجھ۔ اوپر تلے امید کی کوئی کرن بھی دکھائی نہ دے تو مخبوط الحواس ہو جانا، فرسٹریشن کا شکار ہوجانا عین ممکن ہے۔ اس وقت بندوقوں کے علاج کی نہیں ، انسانوں کے علاج کی ضرورت ہے۔یوںبھی کسی نے سچ کہا ہے کہ بندوقیں خود بخود نہیں چلتیں انہیں انسان چلاتا ہے۔ کسی قوم کے اذہان پر دہشت گردی، تشدد اور بہیمیت کا ایسا غلبہ نظر نہیں آتا جیسا کہ امریکیوں کے ہاں ہے۔ گزشتہ صرف نصف صدی میں امریکا میں ہونے والے جرائم کی خبروں کا جائزہ لیں، آپ کو نظر آئے گا کہ ایک بیٹی اپنی ماں کا سر تن سے جدا کردیتی ہے، کَٹی ہوئی گردن بالوں سے پکڑ کر بڑے اسٹائل سے وہ پولیس اسٹیشن جاتی ہے اور فٹ پاتھ پر کٹا ہوا سر پھینک دیتی ہے۔ دو بیٹے اپنے والدین کو قتل کردیتے ہیں۔ ایک سیریل کِلر دو طوائفوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔

ایک ہم جنس پرست بدکاری کی ترغیب دیتا ہے، اپنے نوجوان شکار کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے فریزر میں محفوظ کرلیتا ہے اور پھر یہ گوشت کھاتا رہتا ہے۔ ایک خاموش پراسرار قاتل یونیورسٹی میں 15 افراد کو قتل کردیتا ہے۔ کولمبین ہائی اسکول کولوراڈو میں بھاری ہتھیاروں سے مسلح لڑکے 13 ہم جماعتوں کو قتل اور 28 کو زخمی کرکے خودکشی کرلیتے ہیں۔ ایک شخص اسکول کے بچوں کا ان کے کھیل کے میدان میں خودکار اسلحے سے قتلِ عام کردیتا ہے۔ ویت نام جنگ میں حصہ لینے والا ایک فوجی فاسٹ فوڈ فیملی ریسٹورنٹ میں موجود گاہکوں کو مشین گن سے بھون ڈالتا ہے، 20 ہلاک 13زخمی۔ دوبدو فوجی لڑائی کا ماہر چرچ میں گھس کر عبادت میں مصروف لوگوں کا قتلِ عام کرتا ہے، ساتھ ہی بلند آواز میں کہتا جاتا ہے ”میں نے اِس سے قبل ایک ہزار قتل کیے ہیں، ایک ہزار قتل اور کروں گا“ وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب آخر کیا ہے؟ یہ کیسا معاشرہ ہے؟ یہ کیسی ترقی ہے؟ یہ ذہنیت کس چیز کی غماز ہے؟ انسانی تاریخ نے ایسی ہلاکت خیز ذہینت کے حامل افراد کبھی نہیں دیکھے۔ 1961 میں امریکا میں فی ایک لاکھ افراد پرتشدد جرائم کی شرح 158.1 تھی جو 2010 میں 403.6 ہوگئی۔ امریکی حکومت کے یہ اعداد و شمار غماز ہیں کہ معاشرہ کس سمت میں ترقی کر رہا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386913 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More