نا مو سِ رسالت کی پا ما لی ! مسلما نو ں کو کیا کر نا چاہئے ؟

اللہ نے کا ئنا ت کو انسان کے لیے اور انسا ن کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ، مگر انسا ن محض اپنی عقل سے اللہ کی معر فت ، اس کی عبا دت اور اس کی رضاءکے طریقوں کو معلو م نہیں کر سکتا تھا ،لہٰذا نسان کی رہنما ئی کے لیے حضرا ت انبیاءعلیہم السلا م کو وقفے وقفے سے اللہ رب العز ت مبعو ث فر ما تے رہے جنہو ں نے انسا ن کی کامل رہنمائی کی صر ف اعتقا د اور عبا دت ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ معا شرت، تعلیم، حقو ق، اخلاق ، تز کیہ وغیرہ تمام ضروریات ِحیا تِ ضرو ریا ت دین کے سلسلے میں اعتد ال کی را ہ بتا ئی ۔

انبیا ءکرام علیہم السلا م نے بے لو ث ہو کر امت کی رہنما ئی کی ، مگر دنیا میں اللہ کا دستو ررہا ہے کہ ہر چیز کا مبدا اورمنتہیٰ ہو تا ہے، یعنی ہر چیز کا ایک نقطہ آ غا ز تو دوسر ا نقطہ انتہا ءہو تا ہے ۔ لہٰذا نبو ت کا نقطہ آ غا ز حضرت آ د م علیہ السلام کو اور نقطہ انتہا ءحضر ت محمد عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنا یا ۔

انبیا ءکوئی عام انسا ن نہیں ہو ا کر تے تھے بلکہ وہ اللہ کے خصو صی فضل کی وجہ سے تمام انسا نی خوبیو ں کے مالک ہو تے تھے اور تمام انسا نی و حیو ا نی رذا ئل سے پاک ہو تے تھے جنہیں اسلامی اصطلا ح میںمعصو م کہا جا تا ہے ۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیا ءمعصو م ہےں ، صحابہ محفوظ ہےں ، او راولیاءموفّق ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت اقدس اللہ کی مخلو ق میں سب سے زیادہ پا کےز ہ با اخلاق اور با بر کت ذات ہے ، اسی لیے مسلمانو ں کو ان کی اطاعت، ان سے سچی محبت اورآ پ کی عقیدت ومحبت کا حکم دیا گیا ہے بلکہ ان کی محبت اور عشق اور ان کی اطاعت پر اللہ کی رضا کو مو قو ف رکھا گیاہے ۔

فرما نِ الہٰی ہے : ﴾اِن کُنتُم تُحِبِّونَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوا نِی یُحبِبکُمُ اللّٰہُ ﴿ ”آپ کہہ دیجئے اگر تم اللہ کی محبت چا ہتے ہو تو میر ی اطا عت کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگ جا ئےں گے۔ “ اطاعت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلما ن پر فر ض عین ہے اور آدمی کسی کی اطاعت پر اسی وقت آ ما دہ ہو تا ہے جب اس سے محبت ہو ۔

خلا صہ کلا م یہ کہ انسا ن کی زندگی کا مقصد حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی اطا عت ومحبت کے واسطہ سے اللہ کی خوشنو دی حاصل کر نا ہے ، گویا مقصدحیا ت کا حصو ل ہی مو قوف ہے اتبا عِ رسو ل پر جس کو آ پ مند ر جہ ذیل نقشہ سے آ سا نی کے سا تھ سمجھ سکتے ہیں۔

مگر افسو س ہے آج امت اس مقصد کو نہیں سمجھ سکی اور نا دا نی میں ایک دوسرے کی مخالفت پراتر آئی ہے جس کا فا ئدہ غیرو ں نے اٹھا نا شروع کر دیا اور قر آ ن پر ،رسو ل پر ، شر یعت پر کیچڑاچھا لنے لگے ہیں اور ہم بس اپنے ہی اختلا ف میں مست ہیں۔ مگر افسو س ہے آج امت اس مقصد کو نہیں سمجھ سکی اور نا دا نی میں ایک دوسرے کی مخالفت پراتر آئی ہے جس کا فا ئدہ غیرو ں نے اٹھا نا شروع کر دیا اور قر آ ن پر ،رسو ل پر ، شر یعت پر کیچڑاچھا لنے لگے ہیں اور ہم بس اپنے ہی اختلا ف میں مست ہیں۔

ہمیں یہ یا د رکھنا چا ہئے کہ زندگی کا اصل مقصد خوا ہشا ت پر قا بو پاکر اپنی مرضی سے اللہ کے رضا کی حتی المقدو ر کوشش کرنا ہے ،مدا رس میں تعلیم کا مقصد بھی یہی ہے ، تبلیغ کے ذریعہ اصلا ح کا مقصد بھی یہی ہے ، دعو ت کے ذریعہ ہدایت کا مقصد بھی یہی ہے ، خا نقا ہوں کے ذریعہ تز کیہ کا مقصد بھی یہی ہے اور انسا ن کو اپنی زندگی کی ضروریات میں بھی اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر مشغو ل ہو نا چا ہئے ۔

لہٰذا سب سے پہلے تو میں امت کو بھی دعو ت دو ں گا کہ وہ اپنے آپسی اختلا ف کو چھوڑ کر متحد ومتفق ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو اور جذبا ت میں نہ آکر حدو د شریعت میں رہ کر علما ءراسخین کے ذریعہ قر آ ن و حدیث کی روشنی میں رہنما ئی حاصل کر ے ،کوئی قدم علماءرا سخین کی رہنمائی کے بغیر نہ اٹھا ئے ورنہ بجائے فا ئدہ کے نقصا ن ہو گا او ر زندگی کا اہم مقصد یعنی رضائے الہٰی حاصل نہ ہو سکے گا ۔

رسو ل اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ذا ت اقدس پر کیچڑ اچھا لنا اور آپ کی مقد س ذا ت کو داغدار کرنا یقینا ایک انتہائی گھناؤنی حر کت ہے جس کی مذمت تو کیا ایسی حر کت کے مر تکب کو قتل بھی کر دیا جائے تو کم ہے ۔ شریعت کا حکم بھی یہی ہے کہ نامو س رسالت پر حملہ کرنے والے کو تہ تیغ کر دیا جائے اور تا ریخ شا ہد ہے کہ مسلما نو ں نے ایساکیا۔ جیسا کہ آپ اگلے صفحا ت میں ملا حظہ فر مائیں گے ۔ علما ءکے یہا ں اس میں کوئی اختلا ف نہیں رہا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ نے تو ا س پر مستقل کتا ب ۱ تحریر فر ما ئی ہے ،” الصارم المسلو ل علی شا تم الرسو ل “ کتاب کے اخیر میں مصنف نے لکھا ہے :
” والحکم فی سب سائر الا نبیاءکالحکم سب نبینا،فمن سب نبینا مسمی باسمہ من الا نبیاءالمعروفین المذکورین فی القرآن او موصافا بالنبوة ۔ مثل ان یذکر فی حدیث ان نبیا فعل کذا ا و قا ل کذا فیسب ذالک القا ئل او الفا عل مع العلم با نہ نبی۔ و ان لم یعلم من ہو ا و یسب نو ع الا نبیا ءعلی الا طلا ق ۔ فا لحکم فی ہذا کما تقدم لان الا یمان بہم وا جب عمو ما و واجب الا یمان خصوصاً بمن قصہ اللہ علینا فی کتا بہ وسبہم کفر وردة ن کا ن من مسلم و محاربة ان کان من ذمی ۔

وقد تقدم فی الا دلة الماضیة ما یدل علی ذالک بعمومہ لفظا او معنی وما اعلم احدا فرق بینہما وان کا ن اکثر کلا م الفقہا ءانما فیہ ذکر من سب نبینا فا نما ذالک لمسیس الحاجة الیہ وانہ وجب التصدیق لہ والطا عة لہ جملة وتفصیلا ولا ریب ان جرم سا بہ اعظم من جر م سا ب غیرہ کما ان حرمتہ اعظم من حرمة غیر ہ وان شا رکہ سا ئر اخوا نہ من النبیین والمر سلین فی ان سا بہم کا فر حلا الدم ۔“
(الصارم المسلول علی شا تم الرسول : 401 )
۱ (تحفظ نامو س رسالت سے متعلق کتب)(۲) السیف المسلو ل علی شا تم الر سو ل ﷺ( تقی الدین السبکی ؒ )(۳)الشفا ء(قاضی عیا ض ؒ )
(۴)تنبیہ الو لا ة والحکام علی شا تم خیر الا نا م (رسا ئل ابن عابدین)
(اردو کتابیں) (۱)گستا خ رسو ل کی سزا بز با ن سیدنا محمد مصطفی ﷺ ، (مولا نا محمد حسن صاحب )
(۲)نا مو سِ رسالت کی حفا ظت کیجئے ( مو لا نامفتی محمد تقی عثما نی مدظلہ العالی)(۳) با محمد ﷺ با و قا ر (قاضی محمد زاہد الحسینی )
(۴)اسلا م میں اہا نت رسو ل ﷺ کی سزا (ڈاکٹر مولا نا محسن عثما نی ندوی )،(۵) تو ہین ِ رسالت ﷺ اور اس کی سزا (مفتی جمیل احمد تھانوی )
” صر ف نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں تمام انبیاءجن کو صرا حةً ووصفاً قرآ ن نے نبی کہا ہو ، ان کی اہانت کا حکم شریعت اسلا میہ میں قتل ہے ۔مثلا ً اگرکسی نے دورا ن گفتگو کسی نا منا سب با ت یا فعل کی نسبت کسی نبی کی جانب اس کے نبو ت کا علم رکھتے ہوئے تعیینی طور پر کی، تو ایسا کہنے والے یا کر نے والے نے شا ن نبو ت میں گستاخی کی ، اور اگر اسے ان کے منصب نبو ت کاعلم نہ تھا یا مطلقا ً گرو ہ انبیا ءکی طر ف ایسی نسبت کی تو اس کا حکم بھی وہی (قتل ) ہے ۔ کیو نکہ تما م انبیاءپر علی الا طلا ق ایما ن رکھنا واجب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خصو صا ً جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قر آ ن کریم میں بتلا دیا ہے ۔ان کو بر ا بھلا کہنے والا اگر مسلما ن ہے تو وہ کافر و مر تد ہے اور اگر ذمی ہے تو اس سے قتا ل و اجب ہے ۔

اہا نت نبو ت کے مر تکب کی سزا صر ف اور صرف قتل ہے ، اس پر دلا ئل کے انبا ر مو جو د ہیں جو اپنی عمو میت کے سبب لفظا ً اور معنی ً اس پر دال ہےں ۔ (ابن تیمیہ ؒ فر ما تے ہیں) میر ے علم میں کو ئی بھی عالم دین ، فقیہ شریعت ایسا نہیں جس نے حکم مذکو رہ سے اختلا ف کیا ہو ۔ البتہ اکثر فقہا ءکا کلا م اس سز ا کے سلسلے میں ہمار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ وشتم کرنے والوں کے متعلق ہے ۔ کیو نکہ اس کی ضرو رت زیا دہ ہے ۔آپ کی نبو ت کی تصد یق اور آپ کی اطاعت اجما لا ً و تفصیلا ً ہر طرح سے واجب ہے ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی اہا نت کا جر م دیگر انبیا ءکی اہانت سے کہیں زیا دہ ہے ۔ جیسا کہ آ پ کی حر مت و عظمت دیگر انبیا ءسے کہیں زیا دہ ہے ۔ لیکن اس با ت کا قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔کہ اہانتِ منصبِ رسالت میں تمام انبیاءو رسل آپ کے بھا ئی ہو نے کی حیثیت سے شریک ہیں ۔ (اور ان کی اہا نت آپ کی اہانت ہے) لہٰذا کسی بھی نبی کی شا ن میں گستا خی کرنے والے کا خو ن حلا ل ہے اور وہ کافر واجب القتل ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اب کہیں صحیح معنی میں اسلا می عدالت ہی نہیں۔پور ی دنیا الحاد اور دہریت کے دلدل میں پھنسی ہو ئی ہے اور وقفہ وقفہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی جسا رت کی جا رہی ہے، توہمیں کیا کر نا چا ہیے ، کیا سڑ کو ں پر آ کر ٹایر جلا نا چا ہئے ؟
کیا عوام کی املا ک کو نقصا ن پہنچا نا چاہئے ؟
کیا احتجا جات کے ذریعہ سڑ کو ں کو رو ک کر نعرہ با ز ی کرنی چا ہئے ؟
کیا قتل و غا ر ت گری کا بازا ر گرم کرنا چا ہیے ؟
کیا مذکو رہ حر کتو ں کی اسلا م اجا زت دیتا ہے ؟

ظاہربات ہے اسلا م اس کی اجا ز ت نہیں دیتا ہے ، مگر مسلما ن ہے کہ انہیں کئے جا رہا ہے ، اب سو ال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ہمیںکیا کرنا چا ہئے ؟ تاکہ صحیح معنی میں ہم شر یعت کے احکام کے مطا بق نا مو س رسا لت کا دفاع کر سکیں ۔

اگر ہم واقعة مسلما ن ہیں اور حدو د شریعت میںرہ کر نامو سِ رسالت کا دفا ع کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیںمندرجہ ذیل امو ر کی طر ف خا ص تو جہ دینی چا ہئے ۔

(۱) ....اسلا می تعلیما ت کی مکمل پیرو ی اور غیراسلا می نظریات ، افکا ر ، خیالا ت ، عادات، اطوار ، تہذیب وتمدن ،معاشرت ومعیشت ، سیا ست وغیرہ سے کلی اجتناب کرنا ہو گا۔ خاص طور پر فیشن پرستی اور مادی افکار کو پور ی ہمت اور استقلال کے ساتھ چھوڑنا ہو گا اور سادگی والی زندگی گزا رنا ہو گی ، یہی سب سے پہلے کر نے کا کا م ہے، مگر اسے چھوڑکر امت دیگر غیر شرعی طریقو ں کو اختیار کر رہی ہے ۔
(۲) ....عالمی طور پر تما م مسلمانو ں کو متحد ہوکر U.N.O. کو ایسے قا نو ن وضع کر نے پر مجبو ر کر ناہوگا ، جس میں انبیا ءکرام علیہم السلام کی اہانت کرنے والو ں کو قتل کی سزا دی جائے اور اگرایسا نہ ہو تو نامو س رسالت پر حملہ کر نے والو ں کو کسی تدبیر سے قتل کرنے کی کوشش کر نی چا ہئے ۔
(۳).... یو روپ جو ان تمام غلیظ اور نا پا ک حر کتو ں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے ، اسے مند رجہ ذیل طریقوں سے سبق سکھا یا جا ئے ۔
(الف).... مسلمان مغر بی مصنو عا ت کا مکمل با ئیکا ٹ کرےں ۔
(ب)....ڈالر،یورو، اورپا ﺅنڈکے ذریعہ معاملہ نہ کرکے اس کی ویلیو کو کم کر نا چا ہئے ۔
(ج)....پور ے عالم میںدین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح تعارف پیش کر نا چا ہئے ۔
(د) ....اپنے علاقوں میں ایسی کمیٹیا ں بنا نی چاہئے جو بائیکا ٹ پر لو گو ں کو آما دہ کر ے اور امر بالمعر و ف اورنہی عن المنکر کرے ۔
(۴)....ہر گھرمیں اسلام اور نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت اور سیر ت کی تعلیم کو عا م کرنا چا ہئے ۔
(۵)....نما ز کا مکمل اہتمام کر نا چا ہئے ۔
(۶)....زندگی کے ہر موڑ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں کو معلو م کرکے اس پر عمل کر نا چا ہئے ۔
(۷)....بد عات و خرا فا ت سے اجتنا ب کر نا چا ہئے ۔
(۸)....صحابہ سے محبت اور ان کی زندگیو ں کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔
(۹)....علما ءسے محبت اور ہر دنیوی ودینی معاملہ میں ان سے رہنما ئی حاصل کر نی چاہئے ۔
(۰۱)....اپنی اولا د کی صحیح اسلا می تر بیت کرنی چا ہئے ۔
(۱۱)....رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو پڑھ کر اس کو اپنی زندگی میں نافذ کر نا چاہئے ۔
(۲۱)....لو گو ں کو سیر ت سے وابستہ کرنے کے لیے سیرت کے عنو ا ن پر مسابقا ت رکھنے چا ہئے ۔
غرضیکہ ہم سب پر اپنی استطاعت کے مطابق رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفا ع لا ز م ہے ۔

المر ءیقیس علی نفسہ
جس ملعون نے یہ فلم بنائی ہے، وہ ایک بد اخلا ق ، بد کر دار شخص ہے ، اس پر امر یکی عدالتوں میں کئی مقدمات درج ہیں ۔ عربی کا محاورہ ہے کہ آ دمی دوسر و ں کو بھی اپنے ہی اوپر قیا س کرتاہے ،ورنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاصفا ت کے اخلاق و اطوار ،روز روشن کی طر ح عیا ں ہیں ۔

قر آ ن نے آ پ کو کہا ہے ﴾انک لعلٰی خلق عظیم﴿ اس کے بعد مز ید کسی کی شہادت کی ضرورت نہیں ۔مگر ہم انہیں انگریز وں میں سے بعض کے تاثرا ت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میںنقل کردینا چاہتے ہیں ۔ ”الفضل ما شہدت بہ الا عدا ء“ کے تحت کہ” حق تو وہ ہے جس کی سچائی پر دشمن بھی مجبو ر ہوجاتے ہیں ۔“

حکیم الا مت مجدد ملت حضرت مو لانا اشرف علی تھانوی ؒ نے ”شہادت الا قو ا م علی صدق الا سلا م “ کے نام سے ایک رسالہ مر تب فر ما یا تھا جو حقا نیت اسلا م کے نام سے شا ئع ہوا ہے ۔جس میں حضرت نے غیر مسلمو ں کے اسلا م ، قر آ ن اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے با رے میںتا ثر ا ت کو مختلف اخبار ا ت و رسا ئل سے اخذ کر کے جمع کیا ہے ۔ ہم یہاں نقل کردیتے ہیں ۔

ڈاکٹرجے ،ڈبلیو، لیٹز :آ پ کی شخصیت کا اعترا ف ان لفظو ں میں غکرتے ہیں : اگرسچے رسو ل میں ان علامتو ں کا پایا جا نا ضروری ہے کہ وہ ایثار نفس اور اخلاص نیت کی جیتی جاگتی تصویر ہو ۔ او راپنے نصب العین میں یہاں تک محو ہو کہ طر ح طر ح کی سختیا ں جھیلے ، انوا ع و اقسا م کی صعوبتیں بر دا شت کر ے ، لیکن اپنے مقصد کی تکمیل سے باز نہ آ ئے ، ابنا ئے جنس کی غلطیوں کو فو راً معلو م کر لے اور ان کی اصلاح کے لیے اعلیٰ درجہ کی دانشمندا نہ تدابیر سوچے اور ان تدابیر کو قو ت سے فعل میں لا ئے تو میں نہایت عاجزی سے اس با ت کے اقر ا ر کر نے پر مجبو ر ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے نبی تھے ، اور ان پر وحی ناز ل ہو تی تھی ۔

پروفیسر فریمین : حقیقی اور سچے ارادوں کے بغیر یقینا کوئی اور چیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا لگا تار استقلال کے ساتھ جس کا آپ سے ظہور ہو ا آ گے نہیں بڑھا سکتی ،ایسا استقلا ل جس میں پہلی وحی کی نز و ل کے وقت سے لیکر آخر دم تک نہ کبھی آپ مذبذب ہو ئے اور نہ کبھی آپ کے قدم سچا ئی کے اظہار سے ڈگمگا ئے ۔

رومن صاحب : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فقط ایک صاحب علم ہی نہ تھے بلکہ صاحب عمل بھی تھے ، انہوں نے اپنی امت کو عمل کی تا کید کی ، چنا نچہ جیسی انسا نیت و مر وت مسلما نو ں میں ہے شاذو نا در ہی کسی قو م میں پائی جا تی ہے ۔

ڈاکٹر ما رگیلوش : میں (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے بہت عظیم لو گوں میں شما ر کر تا ہو ں ، انہو ں نے قبائل عر ب سے ایک عظیم الشا ن سلطنت قا ئم کرکے بہت بڑی پولیٹکل گتھی کو سلجھا یا او ر میں ان کی کما حقہ تعظیم و تکر یم کر تا ہو ں ۔

لا لہ لا جپت ر ائے : میں مذہب اسلام سے محبت کر تا ہو ں اور اسلامی پیغمبر کو دنیا کے بڑے بڑ ے مہاپر شو ں میںسمجھتا ہو ں ۔ آپ کی شو شل اور پولیٹکل تعلیم کا مدا ح ہو ں ، اور اسلام کا بہتر ین رنگ وہ تھا جوکہ حضرت عمر ؓ کے زما نے میں تھا ۔

ایڈورڈگبن : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب صاف شک و شبہ سے بالا تر ہے اور خدا کی وحدا نیت کی تصدیق میں قر آ ن ایک شا ندا ر شہا دت ہے ۔(بحو الہ حقا نیت اسلا م منقول از اخبار ”المشرق “ یکم جولا ئی 1927ء)

ایک مسیحی عالم نے ایک کتا ب مسمیٰ بہ” قرا ن السعیدین “لکھی ہے اس میںاس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر زور دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ایما ن داری، بے تعصبی ،وسیع القلبی ، اور شر افت اس با ت کی مقتضی ہے کہ عیسا ئی دو ست اپنے دلو ں کو صا ف کریں اوریقین جا نیں کہ دینداری اس کے علا وہ کچھ اور ہے کہ آنحضرت کو بر ا بھلا کہیں اور ان سے بغض وعدا وت رکھیں بلکہ منا سب ہے کہ ان کی خوبیو ں پر نظر کریں، حسب مر تبہ ان کی قد ر کریں ، تعظیم کر یں ، او ر حتی المقدور مسلما نو ں کے جذبات کاپا س کر تے ہو ئے ان کے ساتھ رو ا داری سے پیش آئیں ۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور نر م دلی کی آ یت بھی نقل کی ہے کہ رسو ل ایما نداروں پر شفیق و مہر با ن ہیں ، اور ہم تسلیم کر تے ہےں کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشن چرا غ تھے ، رحمة للعا لمین ، صا حب خلقِ عظیم تھے کہ ان کے اوصا ف سے آخر ان کی کوشش با ر آ ور اور سعی مشکو ر ہو ئی ۔

داﺅ د آ فندی مجاعض نامو ر عیسا ئی اہل قلم کی نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ۔

دنیا کا عظیم تر ین سب سے بڑ ا انسا ن وہ ہے جس نے صر ف دس سا ل کے قلیل زما نے میں ایک محکم دین اور اعلیٰ درجہ کا فلسفہ طریقِ معاشر ت اورقوانینِ تمدن وضع کئے ۔ قا نو ن جنگ کی کا یہ پلٹ دی او رایک ایسی قو م و سلطنت بنا دی کہ وہ عرصہ در ا ز او ر مدت ِ مدید تک دنیا پر حکمر ا ں رہی ۔ اور آج تک زمانہ کا سا تھ دے رہی ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ شخص باو جو د ایسے عظیم تر ین اور بے مثل کا م کر نے کے محض نا خوا ندہ اور امّی تھا ۔ وہ مر دِ گرامی اور اجلِ اعظم ”محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب قریشی ،عربی، مسلما نو ں کے نبی ہیں ۔ “

مسٹر گووند جی ڈسا ئی: گجرا ت کے ایک فا ضل ہندو تعلیم یا فتہ گز رے ہیں ، آ پ نے اپنی زندگی میں ایک مضمو ن اسلام اور اہنسا پرتحریر فر مایا تھا ،اس مضمو ن کو گا ندھی جی نے بھی اپنے اخبار ”ینگ انڈیا “میں درج کیا تھا ، آپ نے اس مضمو ن میںآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شا ن میں عقیدت کے جو پھول بر سا ئے ہیں ، وہ آپ کے الفاظ میں حسب ذیل ہیں :

انسا نی شرافت : یہ امر واقعہ ہے کہ ذاتی طور پر رسو ل عر بی ایک ایسے شخص تھے ،جن میںبڑی انسا نیت اور شرافت تھی ، آپ کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ آپ اپنے سے کم درجہ کے لو گوں سے بڑی رعایت کرتے تھے ۔ اور آپ کا کم سن غلا م چا ہے کچھ ہی کرتا تھا آپ اس کا مضحکہ اڑا نے کی اجا زت نہ دیتے تھے ۔

بچو ں پر شفقت : آپ بچو ں سے بڑ ا انس رکھتے تھے ، آپ ان کو را ستہ میں رو ک لیتے اور ان کے سر و ں پر ہا تھ پھیر تے تھے ۔ آپ نے عمر بھر کسی کو نہیں ما را ۔ آپ نے شدید تر ین الفاظ جو کبھی مخالفین مذہب کے متعلق کہے یہ تھے کہ اسے کیا ہے ؟ خدا کر ے اس کا چہر ہ خا ک آ لو د ہو ۔ جب آپ سے کہا گیا کہ فلا ں شخص کو بددعا دیں ،تو آپ نے جوا ب دیا کہ میںبددعا دینے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہو ں ، بلکہ انسا نو ں کے ساتھ رحم کا سلو ک کر نے آیا ہو ں ۔

رسو ل عر بی میں تمام انسا نو ں سے زیا دہ انسا نیت تھی ۔ جب آ پ اپنی والدہ کی قبر پر جا تے تو روتے تھے اور ان لوگوں کو رُلا تے جو اس وقت آپ کے گر د وپیش کھڑ ے ہو تے تھے ۔

نبو ت کا تاجدا ر جھونپڑیوں میں : جس قد ر سادہ اطوار رکھتے تھے اسی قد ر آ پ مخیر تھے ۔ آپ اپنی بیو یو ں کے ساتھ جھونپڑیو ں کی ایک قطا ر میںرہتے تھے ۔ آپ خود آگ جلا تے ا ور جھونپڑیوں میں جھا ڑو دیتے تھے ۔آپ کے پاس جو کچھ کھا نا ہو تا تھا اس میں سے ان لو گو ں کو حصہ دیتے تھے جو آپ کے پاس جاتے تھے ۔ آپ کا معمو لی کھانا کھجو ریں اور پا نی یا جو کی رو ٹی ہو تی تھی ۔ دودھ اور شہد آ پ کا ساما ن عشرت تھاا ور ان دو نو ں چیزوں کے آپ بڑے شا ئق تھے مگر آپ یہ چیز یں شا ذ ونا در ہی استعمال کر تے تھے ۔جب آپ عر ب کے با دشا ہ بن گئے تو بھی آپ ریگستا نو ں کی سیا حت کو بہت پسند کر تے تھے ۔

غریبو ں کا احترام : رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے غر یبو ں کو یہ کہہ کر تقدس بخش دیاکہ غریبی آ پ کا فخر ہے ۔ آپ نے خدا سے دعا کی کہ آپ کو غریبی میں رکھے ، آپ کو حالت غریبی میں مو ت دے اور حشرکے دن آپ کو غریبوں میں اٹھائے ۔

بزرگی اور پیغامبر ی : آپ اس قد ر منکسر مزا ج تھے کہ آپ کسی کو اپنی نسبت اس سے کچھ زیا دہ نہیں کہتے تھے کہ آپ خدا کے بند ے اور اس کے پیغا مبر ہیں ۔آپ اپنے دلی معتقدو ںکو یا د دلا تے رہتے تھے کہ میں انسا ن سے بڑھ کرنہیں ہو ں اگرچہ آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ خا تم النبین اور سر آمد انبیا ءہیں یعنی سب سے آخر اور سب سے بڑے نبی ہیں مگر ساتھ ہی اپنے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں اور نیز با قی انسا ن اس وقت تک بہشت میںداخل نہ ہو ں گے جب تک کہ خدا آپ کو اپنی رحمت سے نہ ڈھا نک دے گا ۔ جہاں آپ نے ایک طر ف یہ اعلا ن کیا کہ خو د میں محض خدا کے فضل کی بدو لت نجا ت پا ﺅ ں گا وہاں آپ نے انسا نو ں کو بھی تسکین دی کہ خدا کی رحم دلی اس کے غصہ پرغالب آ جا تی ہے اور یہ کہ خدا نے بہشت کے دروا زے نام نہا د بے دینو ں پر بند بھی نہیں کئے ۔ آپ نے فر ما یا کہ اگر کسی بے دین کو معلو م ہو جا ئے کہ خدا کس درجہ رحیم ہے، تب بھی اسے بہشت کی طرف سے مایو سی نہ ہو نی چا ہئے ۔

محسن اعظم
ونکلٹا رتنام ، مدراس: محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے ساتھ اتنا احسا ن کیا ہے کہ دوسروں نے نہیں کیا ۔

لا ئق عز ت ومحبت
لالہ لاجپت رائے: مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ میر ے دل میں پیغمبر اسلا م کے لیے نہا یت عز ت ہے ۔ میر ی رائے میں ہا دیا ن دین اور رہبرا ن بنی نو ع انسا ن میں ان کا درجہ بہت اعلیٰ ہے۔

جلیل القدر مصلح
کاﺅنٹ ٹالسٹائی : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہاءمنکسر المزاج ، رحم دل ، راست با ز ، خلیق ، متحمل ، انصاف پسند اور جلیل القدر مصلح وریفا رمرتھے ........ دنیا کے تمام انصاف پسند محققین اس امر کو تسلیم کر تے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز ِ عمل ، اخلاق انسا نی کا حیرت انگیز کا رنامہ ہے ۔ہم یہ یقین کرنے پر مجبورہیںکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ و ہدایت خالص سچا ئی پر مبنی تھی ۔

بنی نو ع انسا ن کے لیے رحمت
پرو فیسر رگھو پتی سہائے /فر ا ق گو رکھپوری : میرا اٹل ایما ن ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر اسلام کی ہستی بنی نو ع انسا ن کے لیے ایک رحمت تھی ، پیغمبر اسلا م نے تا ریخ و تمدن ، تہذیب واخلا ق کو وہ کچھ دیا ہے جو شاید ہی کوئی اوربڑی ہستی دے سکی ہو ۔ پیغمبر اسلا م کے پر ستانہ جذبا ت رکھنا ، ان کا دلی احتر ا م کر نا ، ہر انسا ن کا فرض ہے ، بلکہ ہر انسا ن کے لیے سعاد ت ہے ، اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں۔

تفرقو ں سے پا ک ہے آ نسو محبت کے فر ا ق
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آ تے تو ....؟

پر وفیسر با سو رتھ اسمتھ : بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسو ل ہیں اگر پوچھا جا ئے کہ افریقہ (بلکہ پوری دنیا) کو مسیحی مذہب نے زیاد ہ فائدہ پہنچا یا یا اسلا م نے ؟ تو جو اب میں کہنا پڑے گا کہ اسلا م نے ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قر یش ہجر ت سے پہلے خدا نہ خوا ستہ شہید کر ڈالتے ،تومشر ق و مغرب د و نو ں نا کار ہ رہ جاتے ۔ اگر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آ تے تو دنیا کا ظلم بڑھتے بڑھتے اس کو تبا ہ کردیتا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے ، تو یور و پ کے تاریک زما نے دو چند بلکہ سہ چند تا ریک ترہو جا تے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تے ، تو انسا ن ریگستا نو ں میںپڑے بھٹکتے پھرتے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تے تو عیسا ئیت بگڑ کر بد سے بدتر ہو جا تی ۔ جب میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ صفا ت اور تمام کا رنا مو ں پر بحیثیت مجموعی نظر ڈا لتا ہو ں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے ،کیا ہو گئے۔اور آپ کے تا بعد ار غلا مو ں نے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کی رو ح پھونک دی تھی ۔ کیا کیا کا ر نا مے دکھا ئے ، تو آپ مجھے سب سے بزر گ تر اور بر تر اور اپنی نظیر آپ ہی دکھا ئی دیتے ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا سے لیکرانتہاءتک یعنی بعثت سے لیکر دار البقا میںجا نے تک اپنے کو نبی کہلا یا اور اس سے رتی بھر آ گے نہیں بڑھے ۔ میں یہ اعتقا د کر نے کی جر ا ت کر تا ہو ں کہ نہا یت اعلیٰ درجہ کے فلا سفر اور سا ئنس داں اور فضلا ئے عا لی دماغ اورعیسا ئی ایک دن با لا تفاق تصدیق کر یں گے کہ بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسو ل ہیں۔(محمد اینڈ محمڈن ازم ،تالیف پرو فیسر با سو رتھ اسمتھ )

یہ تھے وہ تاثرا ت جو غیر مسلموں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں بیا ن کئے ،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت تو اتنی جا مع الکمالا ت ہے کہ کوئی لکھنے والا اسے اپنے احاطہ میںنہیں لا سکتا۔ سلف صا لحین اور معاصر مولفین نے سیر ت پا ک کے ایک ایک مو ضو ع پر ہزا ر ہا ہزار صفحا ت تحریر کئے ہیں مگر پھر بھی آ پ کی سیرت کا حق ادا کر نے سے قا صر ہیں ۔ کسی شا عر نے کیا خو ب کہا ہے ۔
تھکی ہے فکر رسا ، مدح با قی ہے
قلم ہے آبلہ پا ، مدح با قی ہے
ورق تمام ہوا ، مدح با قی ہے
تما م عمر لکھا ، مدح با قی ہے
Huzaifa Vastanwi
About the Author: Huzaifa Vastanwi Read More Articles by Huzaifa Vastanwi: 5 Articles with 9905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.