ملازمتوں کے مسائل عروج پر جا پہنچے, آخر ایسا کیوں؟

پاکستان وه ملک جو قائد اعظم محمّد علی جناح رحمت الله علیہ نے تحریک پاکستان کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک متحد قوم کے لئے بنایا وه آج کچھ وجوہات کی بناء پر جن مسائل کا شکار ہے اسکا حل اگر تلاش کیا جاۓ تو زیادہ مشکل نہیں آئیے دیکھتے ہیں اسکی اصل جڑ کیا ہے ؟؟؟

جس وقت پاکستان آزاد ہوا اس وقت کے ابتدائی سالوں میں پاکستان کے حالات غیر تھے جو عوام کی یکجا اور امتزاجی جدوجہد کے بعد، چند ہی سالوں میں بہتری کی جانب آۓ. اس وقت مسائل کی اہم وجہ یہ تھی کہ ہندوستان سے مسلمان ہجرت نو کرکے آۓ تھے لہٰذا مشکلات کا کاوشوں سے سامنا کرنا پڑھا..مسلمانوں میں آزادی کا ایک ایسا جنونی جذبہ موجود تھا کہ اسی جذبے کی بدولت مسلمانوں نے یکجا ہوکر تمام مشکلات کا سامنا ایسے کیا کے ملک تمام مشکلات سے نکل کر ترقی کی راہوں روانہ ہوا، جو آخر کار دن بہ دن ترقی کی جانب بڑھتا ہوا باہمی طور پر نظر آیا،تمام مشکلات دور ہوتی گئیں. ملازمتوں کے حصول کے مواقعے عام ہوتے گۓ. یہاں تک کے ہر شخص کو با آسانی ملازمتیں مہیا ہونا شروع ہوگئیں، صنعتیں بنائی گئیں جنکی بدولت روزگار مکمّل طور پر عام ہوگیا. ان لوگوں کو بھی ملازمتیں دی گئیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے. ماسٹرز، ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے والے چند ہی لوگ ہوا کرتے تھے جو عام طور پرخاص اداروں میں اپنی خدمات انجام دیتے تھے. جبکے میٹرک اور انٹرمیڈیت کرنے والے بھی فارغ نہ بیٹھتے اور نوکری حاصل کرتے ہی اپنے فرائض انجام دینے لگ جاتے.

آج ملک کی ترقی پر غور و فکر کیا جاۓ تو پاکستان کو آزاد ہوۓ 65ء سال سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے اور ملک ان حالات سے دو چار ہے کے ملک کی ترقی میں کچھ بہتری نظر نہیں آئی ہے. اسکا اندازہ آج کے حالات سے لگایا جا سکتا ہے.

"پاکستان" جسکے روپے کی قدر دن بہ دن اس قدر گرتی جا رہی ہے کے چند سالوں میں جس ڈالر کی قیمت ہمارے روپے کی قدر کے لحاظ سے 55ء روپے سے 60ء روپے تک محدود تھی، یہاں تک کے مزید کم ہونے کی امید کی کرن جاگ رہی تھی، آج چند سالوں میں 95ء روپے کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی.

حال ہی میں اسکی سب سے اہم وجہ "کرپشن" بتائی گئی ہے. "کرپشن" کی وجہ سے سب سے بڑا نقصان چند ہی سالوں میں لرز کر جو سامنے آیا ہے وه "بے روزگاری" ہے، جو اس وقت ملک میں ہونے والی بدترین معاشی صورت حال کا نتیجہ ہے. اس بدترین معاشی صورت حال نے اس قدر تنگ دستی کا عالم پھیلا دیا ہے کے طالب علموں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کری ہوئی ہے، بیروزگار ہیں اور ملازمت کے حصول کے لئے بے بس ہیں. ملک میں ملازمتوں کے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کے لوگ "بے روزگاری" سے تنگ آکر خودکشیاں کرنا شروع ہوگئے ہیں جو پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ کے ساتھ ساتھ حکومت کے لئے انتباہ بھی ہے.

خصوصأ اسکے اثرات شہر تجارت کراچی میں عام طور پر دکھائی دینے لگے ہیں. ملک اس قدر بدترین حالات سے دو چار ہوچکا ہے کہ مستقل ملازمین جن کو باقاعدہ ماہانہ تنخواہیں ملتی تھیں ان کو کئی مہینوں کی تنخواہوں سے محروم کردیا گیا، جن میں ایشیاء کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامع کراچی اور پاکستان کی سب سے مشہور و معروف اسٹیل بنانے والی مل "پاکستان اسٹیل ملز" بھی شامل ہیں. اس طرح ملازمین کو کئی مہینوں کی تنخواہیں نا دیکر رقت آمیز آزمائش میں ڈالا گیا. جبکے ملازمین اپنی ملازمت کے خاطر بغير تنخواہوں اپنے فرائض انجام دیتے رہے.

"بیروزگاری"جو ایک عام مسلۂ کی شکل اختیار کرگئی ہے. یہ مسلۂ نا صرف شہروں بلکہ دیہاتوں میں بھی عام ہوگیا ہے. یہ مسلۂ تعلیم یافتہ طبقے سمیت ان لوگوں تک میں عام ہوگیا ہے جو لوگ مکمّل طور پر تعلیم یافتہ نہیں ہیں. جس میں عام طور پر مزدور طبقہ اور کاروباری مرکز بھی شامل ہے. "بیروزگاری" ملک پاکستان کے لئے ایک خوفناک گھڑی بن چکی ہے کیوں کے اس سے نہ صرف ملک کا امن و امان خراب ہونے کا خدشہ ہے بلکے ملک مزید خسارے کی جانب بھی جا سکتا ہے. "بیروزگاری" کی کوئی ایک وجہ نہیں جو آسانی کے ساتھ اس پر قابو پا لیا جاۓ اس کے لئے مستند پالسیز شکل دینا ضروری ہیں جن کے ذریعے اس سے بچا جا سکتا ہے. اگر مسدور طبقہ کی بات کی جاۓ تو ان میں "بیروزگاری" کی اہم وجہ چھوٹی اور بڑی انڈسٹریز میں جدید مشینوں کا استعمال ہے. یہی وجہ ہے کے مسدور طبقے میں ملازمتوں کے مسائل مزید پیدا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں.

"بیروزگاری" اور "غربت" کی اہم ترین وجوہات میں آبادی کا تسلسل کے ساتھ بڑھنا بھی شامل ہے. پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کا تناسب 2.1 فیصد سالانہ سے بھی زائد ہوچکا ہے جو اجتماعی طور پر ایشیاء کی بلند ترین سطح پر شمار کیا جاتا ہے اور یہ ملک کے لئے اندیشناک معاملہ ہے کیوں کے اس وقت نہ صرف ملک کی چالیس فیصد عوام غربت کا شکار ہوچکی ہے بلکہ 5.6 فیصد سے زائد عوام بیروزگاری سے عاجز ہے. ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی 2020ء تک پچاس فیصد سے بھی زائد ہونے کا امکان ہے. جبکے اس کے مطابق ملازمتوں کے مسائل پر غور و فکر بلکل بھی نہیں کیا جا رہا جو حکومت کی نا اہلی کا ثبوت ہے. اس کے علاوہ اگر تعلیم پر توجہ دی جاۓ تو ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں میں تعصّب کی بنیاد پر تعلیمی ماحول بھی متاثر ہورہا ہے جس کی وجہ سے طالب علم صرف اور صرف لٹرل تعلیم پر توجہ دے پاتا ہے اور ٹیکہنکل تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتا نتیجتأ طالب علم جب تعلیم حاصل کرکے نوکری کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے تو صرف اور صرف ایسی نوکری کو ترجیح دے پاتا ہے جن کا حصول پاکستان میں نہ ممکن سا ہوگیا ہے.

"بیروزگاری" کی لپیٹ میں ملازمتوں کے حاصل نہ ہونے کا مطلب کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کے ملازمت کا اہل ہونے(یعنی جو کام جانتا ہو)، کے باوجود ملازمت کا حاصل نا ہونا. ملازمتوں کے مواقعوں کو عام کرنے کے لئے ملک میں انڈسٹریل سیکٹر مضبوط ہونا ضروری ہے. ملک میں بجلی اور گیس کی عدم فراہمی نہ ملنے پر مسلسل انڈسٹریز بند ہورہی ہیں. یہاں تک کے "پاکستان اسٹیل ملز" کا ایک انڈسٹریل یونٹ تک بند ہوچکا ہے. اس وقت پاکستان کی آبادی تقریبن 18 کروڑ سے بھی زائد ہوچکی ہے. پاکستان میں بیروزگاری کی شرح تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے. ملازمتوں کے حاصل نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کے ملک میں حالات کی صورت حال کچھ اس طرح کی شکل اختیار کرگئی ہے کے پرائویٹ سیکٹر کے لئے رقم کو انویسٹ کرنے والے اب بجاۓ ملک "پاکستان" میں اپنی رقم انویسٹ کرنے کے، حالات کے پیش نظر بیرون ملکوں میں بزنس پر رقم صرف کر رہے ہیں جن میں خاص طور پر دبئی اور ملیشیاء جیسے ممالک نمایاں ہیں.

اس امر کا سب سے بڑا نقصان واضح یہ ہوا ہے کے پاکستان پرائویٹ سیکٹر میں بھی انویسٹمنٹ نہ ہونے کے باعث کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے . ایسی کمپنیز جو بیرون ممالک کی ہیں اور پاکستان میں بھی انکا یونٹ موجود ہے، آہستہ آہستہ بنیادی سہولیات نا ملنے پر اپنا انڈسٹریل یونٹ دوسرے ملکوں میں منتقل کر رہی ہیں. جس سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے ٹیکسٹائل انڈسٹریل یونٹ کو پہنچا ہے. لوگوں کو مسلسل ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے. ہر سال لوگوں کو ملازمتوں سے اس لئے نکال دیا جاتا ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا پڑے، البتہ نیا ملازم کم قیمت پر واپس رکه لیا جاتا ہے. اس طرح "بیروزگاری" کی شرح میں مزید تیزی سے المناک اضافہ ہورہا ہے.

پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ سے مہنگائی نے بھی عوام کو بری طرح لپیٹ میں لے لیا ہے. مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کے لوگ "بیروزگاری اور مہنگائی" کے عالم سے تنگ آکر اتنے پریشان حال ہوچکے ہیں کے کچھ لوگ ملازمت کے حاصل نا ہونے اور مہنگائی سے تنگ آکر اپنا حواس کھو بیٹھے ہیں. خودکشی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ملازمتوں کے مسائل نے "بیروزگاروں" کو شوگر اور بلڈپریشر کا مریض بنا ڈالا ہے. عوام کے پاس ایسی اشیاء خریدنا بھی مشکل ہوچکا ہے جو بنیادی استعمال کی اشیاء ہیں. پانی، بجلی اور گیس تو دور کی بات لوگوں کا ایک وقت کا کھانا اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کے ایک "بیروزگار" شخص خریدنے کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا. ایک اندازے کے مطابق "پاکستان" میں اس وقت شہر تجارت کراچی میں سب سے زیادہ ملازمتوں کے مسائل پاۓ گۓ ہیں. جس کی سب سے اہم وجہ "دہشت گردی" ہے. "دہشت گردی" کے واقعات کے نتیجے میں شہر کا مزید امن و امان خراب ہوجاتا ہے اور رقت آمیز مناظر دکھائی دینے لگتے ہیں جسکی وجہ سے مزید "بیروزگاری" پھیل جاتی ہے نتیجتأ "بیروزگاری" کی وجہ سے کئی لوگ غیر ضروری حرکات میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں. جن میں صرف کراچی کے شہری ہی نہیں بلکے کراچی میں دوسرے شہروں اور صوبوں سے ملازمت کے حصول کے لئے آنے والے بھی شامل ہیں. لہٰذا "دہشت گردی" کے واقعات کے باعث پاکستان کا نام عالمی دنیا میں مزید بدنام ہوتا دکھائی دینے لگتا ہے اور نظام زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے. امن و امان خراب ہونے کی وجہ سے شہر کا کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اسٹاک ایكچینج کے پوائنٹ میں تیزی سے کمی واقع ہوجاتی ہے اور ملک کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے پھر ملک بجاۓ مزید ترقی کرنے کے بحران کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، بجاۓ غور و فکر کرکے مشترکہ حل نکالنے کے اسکا سارہ کا سارہ نشانہ پولیس کی نا اہلی قرار دیدیا جاتا ہے. اس بات کو ذھن سے دور دور تک نکال دیا جاتا ہے کے مسلۂ کی اصل جڑ کیا ہے؟؟؟. مسائل کے حل کے لئے بجاۓ پاکستان اور اسکی عوام کو بنیاد بنانے کے، اپنا اپنا فیصلہ پیش کردیا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کے دشمن عناصر پاکستان میں تعصّب کی لہر کو دیکھ کر فائدہ اٹھا لے جاتے ہیں.

ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بجاۓ مثبت قدم اٹھانے کے "موبائل ٹیلی کمیونیکیشن" کی سموں کو بند کرنے پر غور کیا جا رہا ہے جس سے نا صرف عوام کی کثیر تعداد میں بیروزگاری پھیلنے کا اندیشہ ہے بلکے اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کی "ٹیلی کمیونیکیشن" انڈسٹری کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق بھی ہوسکتا ہے.

اگر پاکستان کے تجارتی شہر کراچی کی بات کی جاۓ تو وہاں تعلیم یافتہ طبقہ بڑی تعداد میں بیروزگار نظر آتا ہے. ساتھ ہی شہر کراچی میں کچھ ایسے بھی مسائل دیکھنے میں آتے ہیں کے وہاں تعصّب اور لسانیت کی بناء پر اردو بولنے والے نوجوانوں کو خاص طور پر ملازمتوں کے حصول کے لئے ہر جگہ سے خاص طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اسکی بڑی دلیل اردو بولنے والے تعلیم یافتہ طبقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا فارغ نظر آتا ہے. شہریوں کے مطابق جہاں ملازمتوں کا قوٹا میرٹ پر بتایا جاتا ہے وہاں انٹرویو میں جان کر ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جنکا ملازمت اور حاصل کردہ تعلیم، دونوں سے دور دور تک تعلّق نہیں ہوتا. شہریوں کے مطابق سلام کے جواب کے بعد پہلا سوال ڈومیسائل کا کیا جاتا ہے جس میں ڈومیسائل کا ضلع پوچھا جاتا ہے اور شہر کراچی کا نام سنتے ہی اس طرح کے سوالات کردیے جاتے ہیں کے خاموشی کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں رہتا. میرٹ کی اگر صوبہ پنجاب یا اس سے آگے کے علاقوں کی بات کی جاۓ تو اردو بولنے والوں کو خاص طور پر قوٹا کم ہونے کی وجہ سے نظر انداز کرنے کا روایتی سلسلہ چلا آرہا ہے لیکن اب معاملہ اس قدر بدترین صورت حال اختیار کرگیا ہے کے اردو بولنے والے نوجوان جو شہر کراچی میں پیدا ہوے، "بیروزگاری" کی شرح میں شدّت سے اضافہ ہورہا ہے. شہریوں کے مطابق کچھ یوں دکھائی دیتا ہے کے جیسے نوکریاں صرف اور صرف خاص لوگوں کے لئے مختص کی گئیں ہیں اور ان پر کوئی اور دوسرا اپنا حق حاصل نہیں کر سکتا. "بیروزگاری" کے خاتمے کے لئے ایک منصوبہ طے پایا تھا جس میں آئ-ٹی ٹاور بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، حکومت کی جانب سے رقم کی عدم فراہمی نا ہونے پر تعطل کا شکار ہوچکا ہے.

کراچی ملک پاکستان کا سب سے اہم حصّہ ہے جو انڈسٹریز پر بنیاد رکھتا ہے. پاکستان میں "بیروزگاری" پھیلنے کی ایک عام وجہ یہ بھی ہے کے دہشت گرد مٹھی بھر عناصر شہر کراچی کے امن و امان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تاکے پاکستان مزید وسائل کی کمی کا شکار ہوتا چلا جاۓ، اس سے بچنے کے لئے "دہشت گردی" کے خلاف کوئی ایسا اقدام اٹھایا جاۓ کے شہر میں دوڑی شر کی لہر جلد از جلد امن و امان میں تبدیل ہوجاۓ اور ملک ترقی کی راہوں بڑھنا شروع کرے.

ملک میں "بیروزگاری" کے درپیش مسائل کے حل کے لئے لازمی ہے کے ملک میں موجود ایسے وسائل پر امعان نظر کی جاۓ جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں. یہ الله کا بڑا کرم ہے کے پاکستان کی زمین بہت زرخیز ہے. اگر اس سے فائدہ اٹھانے کا سوچا جاۓ تو بیشمار وسائل موجود ہیں. ایگری کلچر ایک واحد ایسا ذارئع ہے جس سے ملک کی تمام ضرورتوں کو باآسانی پورا کرکے "بیروزگاری" کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے. لیکن ان اقدامات کے لئے کئی مسائل درپیش ہیں، جن میں عام طور پر پانی اور بجلی کے مسائل نمایاں ہیں. بجلی کے مسائل کے حل کے لئے پاکستان کے با ادب سائنسداں "ڈاکٹر عبدل قدیر خان" کئی مرتبہ بجلی پیدا کرنے کے مسائل کے حل میں اپنی انمول خدمات صرف کرنے کا که چکے ہیں. لیکن انکی خدمات سے افادات حاصل کرنے کا آج تک کسی نے سوچنا بھی گوارا نہ سمجھا. پاکستان دنیا میں کرپشن کے اعتبار سے 42 نمبر پر آچکا ہے جو دنیا کی بدترین سطح شمار میں آتی ہے. یہی وجہ ہے کے پاکستان کا ایف-ڈی-آئ حد سے زیادہ گر چکا ہے.

پاکستان میں "بیروزگاری" کے عالم میں عوام کو ساتھ دینا بھی ضروری ہے, اگر ملک میں کوئی بھی جدید ٹیکنالوجی آتی ہے تو نوجوان طبقہ اسی کی تعلیم میں داخلہ لے لیتا ہے جس کی وجہ سے جب وه پڑھ لکھ کر اسی تعلیم کی مناسبت سے ملازمت تلاش کرتے ہیں تو ایک ہی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کا جھنڈ ہونے کی وجہ سے "بیروزگاری" کا سامنا کرنا پڑھتا ہے.

انڈسٹریل سیکٹر ایک واحد ایسا سیکٹر ہے جس سے پاکستان کے سرمایہ میں 30 فیصد تک انحصار کیا جا سکتا ہے. اور اسکی مدد سے "بیروزگاری" کا خاتمہ باآسانی کیا جاسکتا ہے. اسی طرح ایگری کلچر کی بات کی جاۓ تو اسکے ذریعے 22 فیصد سے بھی زیادہ جی-ڈی-پی حاصل کیا جا سکتا ہے. اسی طرح پاکستان میں انڈسٹریز کے لئے بھی ضروری ہے کے وه ایسی معیاری مصنوعات بنائیں جسکی بیرون اور اندروں ملک دونوں میں اہمیت ہو تاکے پاکستان کی تخلیق کردہ مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہو. پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بھی ملک کے سرماۓ پر گہرا اثر پڑھا ہے کیوں کے بجلی، گیس اور تیل کی کمی کے باعث کئی انڈسٹریز بند ہورہی ہیں. نتیجتاً "بیروزگاری" کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے.

پاکستان میں "بیروزگاری" کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کے لاکھوں کی تعداد میں افراد غربت میں مبتلا ہیں. یہی وجہ ہے کے پاکستان میں رقم استعمال کرنے کی شرح زیادہ ہے. عام طور پر کسی بھی ملک کا سرمایا کم از کم 30 فیصد تک ہوتا ہے جبکے پاکستان کا سرمایا صرف 13 سے 14 فیصد تک محدود ہے جو سرماۓ کے لحاظ سے بہت کم ہے. یہی وجہ ہے کے رقم استعمال زیادہ ہورہی ہے جب کے انویسٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے "بیروزگاری" کی شرح میں مزید اضافہ ہوگیا ہے.

ملک میں ملازمتوں کے سلسلے میں رشوت کا بازار عام ہوچکا ہے. موجودہ حالات کے پیش نظر حکومت اور عوام دونوں کو اس کٹھن گھڑی میں ملک کی صورت حال پر غور و فکر کرنا ہوگا، ساتھ ہی یکجہتی کے ساتھ قومی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ معاشی بحران اور دہشت گردی کے مسائل کے حل کے لئے ایسا نچوڑ نکالا جاۓ جس سے پاکستان کا نام عالمی دنیا میں بدنامی سے بچ جاۓ، ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے ملک کے معاشی وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاۓ اور ملازمتوں کے مسائل جو عروج پر جا پہنچے ہیں جلد از جلد حل ہوں.
Munir Hasan
About the Author: Munir Hasan Read More Articles by Munir Hasan: 2 Articles with 1758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.