ڈھاکہ فال !البدر والشمس

دسمبر کا مہینہ جب ہر سال آتا تو ہزاروں وفا کے پیکر یاد آتے ہیں جنہوں نے مملکت اسلامی جمہوریہ مملکت پاکستان کو بچانے کے لیے اپنی جانیں اپنے ہی لسانیت؍ قو م پرست لوگوں کے ہاتھوں ڈھاکہ کی سڑکوں پر پیش کیں۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے انہیں بے دریغ مولی گاجر کی طرح کاٹا اور انہیں اذیتیں دے دے کر مہکتی باہنی کے تمائش بینوں کے دائرہ بنے اکٹھ کے سامنے ذبح کیا۔ظلم کی ایک رات تھی جو ختم نہیں ہو رہی تھی۔ اسلامی جمعیت کے البدر اورالشمس کے ہزاروں کارکنوں کو بے دردی سے شہید کیا۔اُردو بولنے والے ہر شخص کو تکلیفیں دیں۔ آج بھی پاکستان سے محبت کرنے والوں پاکستانی بنگلہ دیش کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں مگر بے حس پاکستان کے حکمران اور سوئی ہوئی امت مسلمہ ان کے لیے کچھ نہیں کر رہی اور تاریخ میں اپنی اس بے حسی کی داستان لکھوا رہی ہے۔آج پھر میرا پاکستان قومیتوں اور لسانیت اور حقوق کی جنگ میں گہرا ہوا ہے لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں اگر شروع ہی میں اسلامی نظام رائج کر دیا جاتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اب بھی کچھ نہیں گیا اس ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم کر دیا جائے تو اﷲ کی نعمتیں آسمان سے اتریں گیں اور زمین بھی اپنے خزانے اُغل دے گی بھائی چارہ ہو گا عدل انصاف ہو گا انسان کی قدر ہو گی اﷲ ہم سے راضی ہو گا ورنہ مقافات عمل تو جاری رہتا ہے جس میں قومیں ختم ہو جاتی ہیں حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی آج ہمارے ملک میں ظلم کا نظام ہے لوگ سسک سسک کر مر رہے ہیں ہمارے پچھتر فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یہ ظلم نہیں تو کیا ہے؟ جہاں تک مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے وقت ظلم کی داستان ہے البدر کے ان وفا کے پیکروں نے صحابہ ؓ کے دور کی یاد تازہ کر دی تھی۔ایک البدر کے کارکن کو گرفتار کر کیا گیا مکتی باہنی کے تمائش بینوں کے اکٹھ کے سامنے اسے کہا گیا کہ جئے بنگلہ دیش کا نعرہ لگاؤ اس نے انکار کیا اوراور جئے پاکستان کا نعرہ لگایا اسے گڑھاکھودنے کا کہا گیا اس مظلوم نے اپنے ہاتھ سے گڑھا کھودادوبارہ اسے جئے بنگلہ دیش کا نعرہ لگانے کا کہا گیا مگر اس البدر کے کارکن نے پھر بھی جئے پاکستان کا نعرہ لگایا گڑھا کھودا جانے کے بعد اسی قومیت کے ظالمانہ طرز عمل کو دوھرایا گیا اس نے پھروہی جئے پاکستان کا نعرہ لگایا اسے قریب پڑے کانٹے گھڑے میں ڈالنے کا کہا گیا اس نے اپنے ہاتھ سے کانٹے گڑھے میں ڈالے اس کے بعد وہی طرز عمل دوھرانے کے بعد اسے اس کانٹے بھرے گڑھے میں ڈال کر مٹی سے بھر دیا گیا بعد میں البدر کتاب کے مصنف نے ڈھاکہ جا کر اس کے والدین سے انٹرویو کیا تو اس کے والدین نے بتایا کہ ہم اس کو جمعیت میں شمولیت سے منا کرتے تھے اور جمعیت کو پسند نہیں کرتے تھے مگر ہمارے بیٹے کے اس مومنانہ ؍بہادرانہ قربانی کی وجہ اب ہم سب خاندان والے جماعت اسلامی میں شریک ہو گئے ہیں اور اس کے اسلامی اخوت کے پروگرام سے اتفاق کرتے ہیں۔

قارئین یہ ایک بنگالی خاندان کی رُوداد ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے البدر کے کارکن کا تذکرہ کرتے ہوئے کتاب کا مصنف لکھتا ہے اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکتہی باہینی کے قوم پرست متشدد لوگوں نے ایک دوسرے البدر کے کارکن کو پکڑا اسے بھی جئے بنگلہ دیش کا نعرہ لگانے کا کہا مگر اس نے بھی انکار کیا اس انکار کی وجہ سے اس کا ایک بازو کاٹ دیا گیا اور پھر جئے بنگلہ دیش کا نعرہ لگانے کا کہا مگر پھر بھی اس نے جئے پاکستان کا نعرہ لگایا اس کے دوسرا بازو کو کاٹا گیا اور جئے بنگلہ دیش کا نعرہ لگانے کا کہا مگر اس مرد مومن نے جئے پاکستان کا نعرہ لگایا آخر میں اسے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا یہ تو تحقیق کے دوران کچھ کا علم ہوا ور نہ جانے کتنے پاکستان اسلام سے محبت کرنے والوں کو قوم پرستوں نے تہ تیغ کیا اسی کتاب میں دس ہزار البدر کی کارکنوں کی شہادت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا پاکستان کی فوج کے اعلیٰ عہداروں نے بھی تسلیم کیا ہے اور البدر کے کارکنان کی بہادری کے واقعات بھی بیان کئے ہیں آج ان شہیدوں کی رُوحیں پاکستان کے لوگوں کو چیخ چیخ کے کہہ رہی ہیں کیا بھول گئے ہو اے لوگوں ؟ ڈھاکہ کی گلیاں اے لوگوں ؟البدر کا دستہ اے لوگوں ؟الشمس کے شہداء اے لوگوں ؟وہ لوگ ہم ہی تھے اے لوگوں ؟ البدر جمعیت الے لوگوں ؟بہتے لہو کی دھار جمعیت ظلم کے آگے ڈھال جمعیت ہر دم ہے تیار جمعیت اس کے علاوہ تکمیل پاکستان کی جد وجہد میں کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کے شانہ بشانہ شہید ہونے والے جمعیت کے کارکن اور افغانستان میں روسی سرخ آندھی کو روکنے میں مدد گار اور شہادت پانے والے کارکنوں کی یاد میں جمعیت پاکستان کے نوجوانوں کی یہ سدا یاد آ جاتی ہے ایٹمی قوت کا حامل ملک پاکستان اسلام کے نام سے حاصل کیا گیا تھا اسلام کے نام سے قائم و دائم ہے اور اسلام ہی کے نام سے اس کی بقا ہے انشا ء اﷲ۔

قارائین اﷲ ہمیں اس مثل مدینہ ملک کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین(حوالہ کتا ب البدر)
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 953528 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More