گلتاسب خان عرف خورشید خواجہ سراء

جنیوا میں موجود UN کے آفس ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) نے Transgenders کے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں پہلی مرتبہ خواجہ سراﺅں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔اس رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مختلف نمونے پیش کئے گئے ہیں جیسے کہ کسی کے خواجہ سرا ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ تشدد آمیز اور مجرمانہ رویہ رکھا جانا، جبر اور قید و بند کی صعوبتیں دینا، ملازمتوں،صحت اور تعلیم کی سہولیات میں تعصب برتنا شامل ہیں۔اس رپورٹ میں حکومت اور سول سوسائٹی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ جہاں حکومتوں نے خواجہ سراﺅں پر ہونے والے تشدد اور استحصال کی صورتحال کو نظر انداز کیا ہے وہاں وہ اپنا مثبت کردار ادا کریں۔تا کہ ان امتیازی قوانین اور رویوں کو تبدیل کیا جاسکے اور اس عمل کو یقینی بنایا جائے تا کہ کوئی بھی خواجہ سرا کسی کے بھی ظلم و تشدد کا شکار نہ ہو۔ اور کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں ایسے واقعات کا ریکارڈ رکھا جا سکے۔لہذا ضروری ہے کہ پاکستان میں بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں، ادارے اور سماجی کارکن اس ظلم و تشدد کو روکنے میں اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کریں اور اپنے اپنے شہر میں خواجہ سراﺅں پر ہونے والے ایسے واقعات کو رپورٹ کریں۔اتحاد برائے حقوق خواجہ سرا، پاکستان نے اس عمل کا آغاز سند ھ اور پنجاب کے بارہ شہروں میں کردیا ہے جہاںاتحاد برائے حقوق خواجہ سراءپاکستان کے کارکن اپنے اپنے شہر میں ایسے تما م واقعات کو رپورٹ کریں گے تاکہ حقائق اور شواہد کی بنیاد پر خواجہ سراﺅں کے حقوق کی جدوجہد کو مزید موثر بنایا جا سکے۔لیکن پاکستان میں اکثریت ان کو صرف ناچ گانوں،تھیٹروںوغیرہ وغٰیرہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یا کام لیا جاتا ہے۔جبکہ اس کے برعکس نیشنل کونسل برائے سوشل ویلفیئر نے خواجہ سراﺅں کے حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے بل کی تیاری کے سلسلے میں اسلام آباد میں ایک مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد کیا ۔ جس میں اتحاد برائے حقوق خواجہ سرا پنجاب کی قیادت نے شرکت کی اور بل میں پیش کئے گئے نکات پر اپنی تجاویز دیں۔جنہیں شرکاءنے بہت سراہا۔ اس بل کی مشاورتی عمل مکمل کرنے کے بعد حتمی شکل دی جائے گی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ اس بل کے اہم نکات یہ ہیں۔ خواجہ سراﺅں کے حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لئے ایک بورڈ تشکیل دیا جائے گا جس کی بنیادی ذمہ داری خواجہ سراﺅں کے حقوق کا تحفظ اور فلاح وبہبود کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس بل کے تحت خواجہ سراﺅں کو ووٹ ڈالنے کا حق، تعلیم اور ملازمت کاحق ہوگا اس کے تحت کسی کی جنس کا تعین کرنے کےلئے میڈیکل کی سہولت فراہم کی جائے گی۔اب مسئلہ یہاںپر بابا کشمیر ،حاجی فیروز اور بابا عبدالعزیزخواجہ سراءکے مکان کا ہے ۔بابا عبدالعزیز خواجہ سرائ(مرحوم) کے بعد جانشین کے طور پر ان کا چیلا گلتاسب خان عرف خورشید خواجہ سراءمحلہ کوہاٹیاں چوک انصاری میانوالی اپنی روٹی روزی کے لئے یہا ں کافی عرصہ سے مقیم ہے۔لیکن بابا عبدالعزیز خواجہ سراءمورخہ 3دسمبر2012ءکو وفات پاگئے تھے ان کی وفات پر آنے والوں میں چند رشتہ دار اور اکثریت خوجہ سراﺅں کی تھی۔ جس مکان میں وہ رہتے تھے وہ مکان عرصہ دراز سے پیڑی در پیڑی خواجہ سراءکی ملکیت تھی۔ جس میں بابا کشمیری اور ان کا چیلا حاجی فیروز اور ان کا چیلا بابا عبدالعزیز کو خواجہ سراءکی وراثت سمجھ کر اب اس کا مالک گلتاسب خان عرف خورشید کو وصیت نامہ اپنا جانشین بنا کر ان کے نام کر دیا ہے جو رہائش کے طور پر تا حیات اور اس کے بعد اپنے چیلے کو دے سکتے ہے کسی بھی حال میں کوئی بھی خواجہ سراءاس فقیر خانہ کو بیچ نہیں سکتا۔ لہذا تما ثبوت اور تما گواہ اور پورا محلہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ مکان نسل در نسل خواجہ سراﺅں کی ملکیت ہے اور رہے گی۔گلتاسب خان عرف خورشید خواجہ سراءنے اتحاد برائے حقوق خواجہ سرائ پاکستان کے صوبائی کوآرڈینیٹر شاہانہ عباس شانی کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ پریس کلب میانوالی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں ضلع میانوالی کے تمام مشہور ٹی وی چینلز ، کالم نگا اور صحافی اشخاص نے شرکت کی اور گلتاسب خان عرف خورشید خواجہ سراءکا موقف سنا۔اتحاد برائے حقوق خواجہ سراءکی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ باقاعدہ طور پر خورشید خواجہ سراءکو مکان وقف کرنے کی وصیت ان کے پاس موجود ہے اور وہ مزید ثبوت ضلعی عدالت میں بھی پیش کریں گے اور اپنے حق کی خاطر وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جائیں گے۔میں نے اتحاد برائے حقوق سربراہ سے پوچھا کہ آیا اس قسم کا پہلے بھی پاکستان میں واقعہ پیش آیا تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں ایک جگہ پہلے بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا اور کورٹ نے ہمارے ہی حق میں فیصلہ دیا تھا ۔بقول خواجہ سراﺅں کے کہ جس شخص نے اب اس مکان پر قبضہ کرنے کے لئے جعلی طریقوں سے Stayلیا ہوا ہے اپنے آپ کو بابا عبدالعزیز خواجہ سراءکا بیٹا ظاہر کرتا ہے۔تو یہ بات میرے لیے کافی حیران کن ثابت ہوئی ہے۔اس پریس کانفرنس کے بعد خواجہ سراءاپنے دفاع کےلئے پرعزم ، پرجوش اور مختلف طریقوں سے احتجاج کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ انہوں نے تمام اداروں کے نمائندﺅں کو کہا کہ ہم دعوت دیتے ہیں کہ مذکورہ مکان کا معائنہ کریں جہاں پر اب بھی وقف کی تختی دروازہ پر لگی ہوئی۔اور اس گلی و محلہ کے لوگوں سے مزید بھی رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب بابا عبدالعزیز خواجہ سراءزندہ تھا تو اس وقت یہ صاحب کیوں نہیں آیا تھا؟گلتاسب خان عرف خورشید خواجہ سراءکے بقول اس شخص نے میرے مکان پر قبضہ کر رکھا ہے۔لہذا اب معاملہ اس وقت عدالت میں ہے۔کسی قسم کا حتمی فیصلہ دینا ہمیں زیب نہیں دیتا۔لہذاہم اتنا کہ سکتے کہ صلح صفائی سے جو کام ممکن ہواس میں بہتری ہوتی ہے۔ویسے بھی اب سپریم کورٹ،ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتیں خواجہ سراءکے حقوق اور فلاح و بہبود پر کافی سخت کاروائی کر رہی ہیں۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90624 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.