تحریکِ انصاف۔کھایا پیا کچھ نہیں

قائد یا لیڈر کا کمال ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ساتھ لے کے چلتا ہے۔وہ قیادت کے منصب پہ فائز ہی اس لئے ہوتا ہے کہ اسے اللہ رب العزت نے وہ وصف عطا کئے ہوتے ہیں جو دوسروں کو ودیعت نہیں ہوتے۔وہ مقبول فیصلوں کے بر عکس وہ فیصلے کرتا ہے جس کی عام لوگ مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔وہ ہوا کا رخ دیکھ کے فیصلے نہیں کرتا۔وہ اپنے مﺅقف روز نہیں بدلتا۔وہ انتہائی غور خوض کے بعد ایک چیز کے بارے میں اپنا ذہن بناتا ہے اور بھلے وقتی طور پہ وہ معاملہ لوگوں میں غیر مقبول ہی کیوں نہ ہو،اس پہ سختی سے کاربند رہتا ہے۔عمران خان پاکستان کے انہی چند قائدین میں سے ایک ہے۔جو اکثر و پیشتر ہواﺅں کے رخ کے مخالف فیصلے کرتے اور پھر ان سے اپنی مرضی کے نتائج پیدا کرتے ہیں۔

مجھے ورلڈ کپ کا وہ میچ اچھی طرح یاد ہے جب پورا پاکستان عمران خان کی سلو بیٹنگ کی وجہ سے اسے برا بھلا کہہ رہا تھا۔ان کا خیال تھا کہ کپتان صاحب اپنی اس ٹک ٹک کی وجہ سے جیتا ہوا میچ ہروا دیں گے۔کچھ دوست تو پکا کہہ رہے تھے کہ عمران نے مخالف ٹیم سے پیسے پکڑ لئے ہیں اور اب یہ میچ جیتنا تقریباََ نا ممکن ہے۔نتیجہ لیکن کیا نکلا اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔آج اس کی طرزِ سیاست پہ انگلیاں اٹھانے والے ان دنوں اس کے ساتھ تصویر بنوانافخر کی بات سمجھا کرتے تھے۔ورلڈ کپ ہاتھ میں اٹھانے کے بعد اس نے ایک اور ناممکن کام کی ٹھانی۔اس نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان میں کینسرہسپتال بنائے گا۔لوگوں نے اس دیوانے کی بڑ قرار دیا۔کچھ نے تو باقاعدہ مضحکہ بھی اڑایا۔مستند ڈاکٹروں نے مشورے کے بعد انتہائی خلوص سے اسے اس کام سے روکا کہ تیسری دنیا کے ایک ایسے ملک میں جہاں سوائے نالائق حکمرانوں اور بے پناہ غربت کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتااس طرح کے ہسپتال کا بنانا تو دور کی بات سوچنا بھی مشکل ہے۔اس نے لیکن تہیہ کر لیا تھا۔وہ کوچہ کوچہ قریہ قریہ پھرا۔پائی پائی جوڑی اور دنیا کو دکھا دیا کہ اگر جذبہ سچا ہو تو پتھروں سے چشمے نکل سکتے ہیں۔سر پہ کدو سجائے حکمرانی کا خواب دیکھنے والے بھلے جو بھی کہیں لیکن ایک دنیا شوکت خانم کینسر ہسپتال کے معیار اور خدمات کی معترف ہے۔چاند پہ تھوک کے اپنا منہ گندا کرنے والے بہر حال ہر دور میں رہے ہیں۔اب بھی ہیں لیکن اس نے کبھی ان سے تعرض نہیں کیا۔اللہ نے کچھ جانور بہر حال ایسے پیدا کئے ہیں جو رات کی سیاہی میں چاند کی روشنی برداشت نہیں کر سکتے اور اسے دیکھ کے رات بھر اپنی تھوتھنیاں آسمان کی جانب اٹھا کے رات بھر بھونکنے کی سزا بھگتتے ہیں۔

ہسپتال کی تعمیر اس کا دوسرا خواب تھا۔وہ بھی پورا ہوا تو اس نے سیاست میں کچھ کر دکھانے کا عزم لے کے قدم رکھا۔پاکستان میں سیاست ہمیشہ ہی سے چھتریوں کے سائے تلے ہوتی رہی ہے۔چھتری برداروں نے اسے ٹانگہ پارٹی کہا۔اس کے نوجوان ساتھیوں کو سر بازار پٹوایا۔ان کی تضحیک کی۔انہیں ممی ڈیدی کے خطاب سے نوازا لیکن جب لاہور کے جلسہ میں پورا پاکستان امڈ آیا تو ساری زندگی دوسروں کے کندھوں پہ سوار ہو کے سیاست کرنے والوں نے اسے آئی ایس آئی کا شو کہہ کے اس سونامی کی حیثیت کم کرنے کی کوشش کی۔اندر سے لیکن یہ کدو جان گئے تھے کہ اب شاید پاکستان کی سیاست میں بھی ان کا کوئی حصہ نہ رہے۔انہوں نے اپنے دسترخوانوں کے پس خوردہ پہ پلنے والے بہت سارے قلم کے گھسیاروں کی فوج کو عمران کی کردار کشی پہ لگا دیا۔وہ دن اور آج کا دن یہ نابغے امڈتے بادل اور برستی بارش کو بھی عمران خان کے کھاتے میں ڈال کے اس پہ طعن و تشنیع کے تیر برساتے ہیں لیکن لوگوں کو یہ جواب نہیں دیتے کہ ان کے ممدوح آخر اسی عطار کے لونڈوں سے دوا لینے پہ کیوں مصر ہیں جس نے انہیں مار ا کم اور ڈرایا زیادہ تھا اور یہ پورے دس برس تک دانتوں میں انگلی دبائے سوائے" ہیں جی"کے اور کچھ نہیں بولے تھے۔

پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے آقاﺅں کی گھر کی لونڈیوں کی طرح ہوتی ہیں۔یہ لمٹیڈ کمپنیاں ہیں جو اپنے ڈائریکٹرز کے اشارہِ ابرو کی محتاج ہوتی ہیں۔ان میں کارکنوں کی حیثیت دولہا بھائی کے سالے کی ہوتی ہے بھلے کوئی کوئی کتنا ہی طرم خان کیوں نہ ہو لیکن جو حد سے بڑھتا ہے اسے اس کی اوقات بتا دی جاتی ہے۔یہ عمران ہی تھا جس نے پارٹی قیادت کے لئے بھی جمہوری راستہ چنا۔اس نے اپنے کارکنوں کو اختیار دیا کہ اپنے قائد آپ چنو۔اس اعلان کے بعد بد خواہوں نے اڑا دی کہ یہ پارٹی اب گئی کہ تب گئی۔اب جوتیوں میں دال بٹے گی اور اس پارٹی کا بھی شیرازہ بکھر جائے گا۔بہی خواہ بھی پریشان تھے کہ الیکشن تو بھائی کو بھائی سے دور کر دیتا ہے کہیں کوئی نقصان نہ ہو جائے۔ لیکن قائد وہی ہوتا ہے جو سوچ سمجھ کے اپنی رائے بناتا اور پھر نا ممکن کو ممکن بنا کے دکھاتا ہے۔عمران خان نے کہا کہ پارٹی الیکشن ہوں گے تو ہزار مخالفت کے باوجود بھی وہ اپنے اس فیصلے پہ قائم رہا۔اب اسلام آباد میں پارٹی الیکشن ہو چکے۔کے پی کے میں یونین کونسلز کے انتخابات کے لئے کاغذاتِ نامزدگی جمع ہو چکے۔اب ان کی جانچ پڑتال جاری ہے۔انشا ءاللہ بیس دسمبر تک یہ مر حلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔کے پی کے میں تحریکِ انصاف کے دفاتر میں کارکنوں کا جوش و خروش ایسا ہے کہ عام انتخابات میں بھی نوجوان نسل میں ہمیں تو کم ہی دیکھنے کو ملا۔مجھے یقین ہے کہ ان انتخابات کے بعد پارٹی ایک نئی شان سے ابھرے گی اور پارٹی چھوڑ کے جانے والے ایک بار پھر اپنے کشکول لئے عمران خان کے دفتر کے باہر حاضر ہوں گے اور جتنا میں اسے جانتا ہوں وہ ایک بار تو ضرور معاف کر دیتا ہے بار بار نہیں۔ناقدین کی اس بات پہ البتہ پارٹی کے اندر غور و فکر ضروری ہے کہ پارٹی ضمنی الیکشن میں سرے سے حصہ ہی نہیں لیتی تو پھر آزاد امیدوار پارٹی کے جھنڈے اور عمران خان کی تصاویر کیوں استعمال کرتے ہیں؟یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا چار آنے۔اور ہاں ضمنی انتخابات میں حکومتی دھونس اور دھاندلی کے بل پہ کامیابیوں پہ ہنس ہنس کے دھرے ہونے والے لکھ رکھیں کہ وہ وقت دور نہیں جب خلق خدا آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات میں اپنا فیصلہ دے گی توکندھوں پہ سروں کی جگہ کدو سجائے یہ سارے کے سارے نام نہاد لیڈر اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔پھر راج کرے گی خلقِ خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔ہاںنظام ِ کہن پہ اڑنے والوں کی شاید اس راج میں کم ہی کوئی گنجائش نکلے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 270092 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More