اربوں روپے مالیتی کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا سکینڈل

وفاقی وزارت امورکشمیر نے جموں وکشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی دیکھ بھال کرتے ہوئے نصف کے قریب کشمیر سٹیٹ پراپرٹی فروخت کردی ہے اور خطرہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ روکا نہ گیا اور کشمیر پراپرٹی کی حفاظت اور دیکھ بھال پر توجہ نہ دی گئی تو سیاسی نوازشوں کے طور پر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی تمام جائیدادیں فروخت کر دی جائیں گی۔وزارت امور کشمیر پاکستان میں واقع اربوں روپے مالیتی کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی 468 کنال شہری اور 452ایکڑ زرعی اراضی فروخت کرچکی ہے ۔ فروخت کردہ کشمیر پراپرٹی کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ۔ وفاقی وزارت کو کشمیر پراپرٹی فروخت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ نیب کیلئے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی میں کی جانے والی کرپشن بڑا موضوع ہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل 1048کنال شہری پراپرٹی میں سے اب صرف 580 کنال اور 2426 ایکڑ دیہی اراضی میں سے 1974 ایکڑ باقی بچی ہے ۔
آزادکشمیر حکومت کے پاس کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں ۔ آزادکشمیر حکومت کا مسلسل مطالبہ رہا ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام آزاد کشمیر حکومت کو واپس دیا جائے ۔کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام 1947ءسے1955ءتک آزاد کشمیر حکومت کے پاس رہا ہے ۔مہاجرین مقیم پاکستان مشکلات و مسائل کا شکار ہیں اور دوسری طرف کشمیر سٹیٹ پراپرٹی پر غیرریاستی باشندوں کی عیش کا سلسلہ جاری ہے۔

ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961 ءکے تحت متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام و انصرام آزادکشمیر حکومت سے لیکر وفاقی وزارت امور کشمیر کو دیا گیا۔ وزارت امورکشمیر لاہورمیں قائم ایڈمنسٹریٹر جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے دفتر کے ذریعے اس سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ ایڈمنسٹریٹر جموںوکشمیرسٹیٹ پراپرٹی لاہور کے مطابق 1947 ءمیں آزادی کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی جائیدادیں (یا مہاراجہ آف جموںکشمیر یا مہاراجہ پونچھ) جو ریاست جموںوکشمیر کی علاقائی حدود سے باہر واقع تھیں ، ان کا انتظام آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر نے لے لیا اوراس سٹیٹ پراپرٹی کے قیام کیلئے منیجر قائم کیا۔ پنجاب حکومت نے اس کشمیر پراپرٹی کو متروکہ جائیدادتصورکیا۔ ایڈمنسٹریٹر آفس کے مطابق قانونی و انتظامی مشکلات کی وجہ سے آزادکشمیر حکومت نے جون 1955 ءمیں حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ کشمیر پراپرٹی کا انتظام سنبھال لے۔ حکومت پاکستان ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961ءکے تحت کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ یوں 15 اگست 1947ءسے ریاست جموںوکشمیر ، مہاراجہ کشمیر و مہاراجہ پونچھ کی پاکستان میں واقع جائیدادیں حکومت پاکستان کے زیر انتظام قرار پائیں۔ وزارت امورکشمیر نے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے انتظام کیلئے لاہور میں ایڈمنسٹریٹر آفس ، معہ ضروری سٹاف ، ایکوپمنٹ ، ٹرانسپورٹ متعین کیا اور کوالیفائیڈ پروفیشنل منیجر کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹرکو مزید مضبوط کیا گیا۔

کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا زیادہ حصہ پنجاب اور کچھ خیبر پختونخواہ میں واقع ہے۔ پاکستان میں ریاست جموں وکشمیر کی کل شہری سٹیٹ پراپرٹی 1048 کنال تھی جس میں سے 468 کنال فروخت کردی گئی ہے۔ جبکہ اب 580 کنال پرمبنی جائیداد باقی بچی ہے۔ اسی طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل زرعی اراضی تقریباً 2426 ایکڑ تھی جس میں سے 462 ایکڑ فروخت کردی گئی اور اب 1974 ایکڑ باقی بچی ہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی ان 35 جائیدادوں میں سے 14 جائیدادیں 1961 ءسے اب تک وزارت امورکشمیر کے خطوط پر مبنی اجازت کے ذریعے منظور نظر افراد کو فروخت کی جاتی رہی ہیں۔ کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کردہ جائیدادوں کی مالیت کیا ہے ؟کس کس کو کتنے کتنے میں فروخت کی گئیں؟ اس بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ آزادکشمیر حکومت کے پاس پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی سے متعلق یہ انکشافات پہلی مرتبہ کہیں بھی شائع ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میںمیری تحقیقات کے مطابق
(1)۔ حویلی دیال سنگھ لاہورمیں 55 کنال 6 مرلہ 150 مربع فٹ آراضی تھیںجس میں سے 32 کنال 10 مرلہ 203 مربع فٹ لیٹر نمبرKP-3/11/72 مورخہ 3-9-1980 اور لیٹر نمبر KP1-1/1/81 مورخہ 15-7-1981 کے ذریعے نامعلوم افراد کو فروخت کردی گئیں۔ اب اس میں سے 22 کنال 17 مرلہ 128 مربع فٹ جائیداد باقی بچی ہے۔

(2)۔لنڈا بازار لاہور (3)۔لوہا بازار لاہور (4)۔ٹرنک بازار لاہور (5)۔چانگڑ محلہ لاہور (6)۔تھاریاں لاہور (7)۔جھگیاں لاہور (8)۔سرد چاہ باغ لاہور (9)۔کٹیر لاہور(10)۔احاطہ غلام بی بی لاہور (11)۔احاطہ میاں سلطان لاہور (12)۔احاطہ کرپا رام لاہور اور (13)۔سرائے میاں سلطان لاہور ، کی کل اراضی 289 کنال 5 مرلہ 200 مربع فٹ تھی جس میں سے 32 کنال 17 مربع 127 مربع فٹ لیٹر نمبر KP-9(3)/62(K-1) مورخہ 27-3-1963 اور KP-4/1/81(K-1) مورخہ 31-7-1962 کے تحت فروخت کردی گئیں۔اور اب اس میں سے 256 کنال 8 مربع 7 مربع فٹ باقی ہے۔

(14)۔نو لکھا گڈز ٹرانسپورٹ لاہور کل اراضی 1 کنال 12 مرلہ 221 فٹ تھی جو کہ تمام کی تمام لیٹر نمبر KP-10(17)64.KII مورخہ 5-3-1965 کے ذریعے فروخت کردی گئی۔

(15)۔کشمیر ہاﺅس کشمیر رو ڈ لاہور کل اراضی 100 کنال 12 مربع 13 فٹ ، اور (16)۔حسن دین نرسری ایجرٹن روڈ لاہور کی 13کنال 216 فٹ جائیداد لیٹر نمبر KII(3)/61(K-1) مورخہ 21-3-1961 تمام کی تمام فروخت کردی گئیں۔

(17)۔A-10 کشمیر روڈ کی 6 کنال 12 مرلہ جائیداد میں سے 2 کنال 3 مرلہ 53 مربع فٹ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے اکوائر کرلی۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 8 مرلہ 172 مربع فٹ جائیداد باقی ہے۔

(18)۔پونچھ ہاﺅس لاہور کی کل 212 کنال اراضی میں سے 36 کنال لیٹر نمبر K-8(6)/53(K-2) مورخہ 1-11-1965 فروخت کردی گئی اور اب یہاں کوئی اراضی باقی نہیں ہے۔یوں پونچھ ہاﺅس لاہور کی باقی 176 کنال جائیداد کا کچھ پتہ نہیں ہے ، ایڈمنسٹریٹر آفس کے ریکارڈ کے مطابق پونچھ ہاﺅس لاہور کی 212 کنال اراضی میں سے کچھ باقی نہیں ہے۔

(19)۔پونچھ ہاﺅس کنسٹریکشن سکیم ایریا لاہور کی کل جائیداد 174 کنال 11 مرلہ 194 مربع فٹ تھی جو تمام کی تمام زیر لیٹرنمبر KP-3(3)/82 مورخہ 9-6-1992 کو فروخت کردی گئی۔ اور اب کشمیر پراپرٹی کی اس جائیداد کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔

ضلع گوجرانوالہ میں ، (20)۔فاریسٹ ریسٹ ہاﺅس وزیر آباد میں کل 5کنال 13 مرلہ پر مبنی کشمیر پراپرٹی کی جائیدادتھی جس میں سے 4 کنال 16 مرلے لیٹر نمبر KP-1/1/81 مورخہ 15-7-1981 فروخت کر دی گئی اور اب اس میں سے صرف 17 مرلہ باقی ہے۔

ضلع سیالکوٹ (21)۔سرائے مہاراجہ سیالکوٹ کی کل 19 کنال 1 مرلہ جائیداد ہے اور یہ اب تک فروخت ہونے سے بچی ہوئی ہے۔ (22)۔بنگلہ نمبر 13 ہسپتال روڈ سیالکوٹ کی 1.87 ایکڑ اراضی تھی جسے B-1 قرار دیا گیا اور اس کا قبضہ پاکستان آرمی کو دیا گیا۔

ضلع جہلم (23)۔فاریسٹ ریسٹ ہاﺅس جہلم کی کل 17 کنال 12 مرلہ اراضی پر مبنی جائیداد تھی جس میں سے 13 کنال 3 مرلہ لیٹر نمبر K-23(1)-K-1 مورخہ 26-8-1963 اور لیٹر نمبر KP-4/3/71 مورخہ 14-2-1981 فروخت کردی گئیں۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 19 مرلہ 47 مربع فٹ کی جائیداد باقی بچی ہے۔

(24)۔فاریسٹ ہاﺅس شاداب روڈ جہلم کل اراضی 43 کنال 11 مرلہ تھیں جس میں سے 38 کنال 9 مرلہ 47 مربع فٹ زیر لیٹر نمبر KP-4/3/71 مورخہ 14-2-1981 فروخت کردی گئی۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 18 مرلے 47 مربع فٹ باقی ہے۔ (25)۔پونچھ ہاﺅس راولپنڈی 23 کنال 11 مرلہ ۔ یہ اب تک فروخت ہونے سے بچی ہوئی ہے۔ (26)۔سرائے خردو کلاں راولپنڈی 10 کنال اراضی ہے ۔جس میں 83 کرایہ دار مقیم ہیں۔
(27)۔پنڈی ہزارہ ٹرانسپورٹ کمپنی اینڈ ناردرن پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کی 17 کنال 13 مرلہ پر مبنی جائیداد تھی جو تمام کی تمام زیر لیٹر نمبر KP-30/(2)/56-(-1) مورخہ 7-3-1964 فروخت کر دی گئی۔ (28)۔سرائے گنڈا سنگھ کی 4 کنال 9 مرلہ 6 مربع فٹ اراضی پر مبنی جائیداد تھی، یہ بھی تمام کی تمام زیر لیٹر نمبرK-II(6)61(K-1) مورخہ 7-3-1964 فروخت کردی گئی۔

(29)۔راجہ بازار راولپنڈی میں 7 کنال 162 مربع فٹ اراضی پرقائم 17 دوکانیں تھیں جو زیر لیٹر نمبر K-II(4)61(K-1) مورخہ 14-2-1962 فروخت کر دی گئیں۔

(30)۔آزاد پتن میں 16 کنال 12 مرلہ اراضی ، ریکارڈ کے مطابق یہ تمام زمین دریائے جہلم کے کٹاﺅ میں آگئی۔

(31)۔سرائے مہاراجہ کہوٹہ ساڑھے پندرہ مرلہ ، یہ اب بھی باقی ہے۔

(32)۔پونچھ ہاﺅس مردان میں 15 کنال کشمیر سٹیٹ پراپرٹی KAD کے زیر لیٹر نمبر K-81(14)53(K) مورخہ 15-11-1965 کو ڈاکٹر امیر محمد خان کو فروخت کردی گئی، یوں اب خیبر پختون خواہ میں کشمیر سٹیٹ کی کوئی پراپرٹی موجود نہیں ہے۔

اسی طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی زرعی اراضی کے ریکارڈ کے مطابق ، (33)۔گاﺅں سلطان پور لاہور میں 111 ایکڑ اراضی تھی جس میں سے 234 کنال 14 مرلہ لیٹر نمبر K.6(8)/60(K-1) مورخہ 14-2-1962 کے ذریعے 1091 کنال بی آر بی نہر اور ریلوے لائن کیلئے ایکوائر کی گئی ، اب اس میں سے 12 ایکڑ 1 کنال 12 میٹر باقی ہے۔

(34)۔ضلع شیخوپورہ گاﺅں پوراب تحصیل فیروز والا میں 1259 ایکڑ اراضی میں سے 353 ایکڑ 9 مرلہ زیر لیٹر نمبر KP-3/1/75 مورخہ 10-8-1981 فروخت کردی گئی۔اوراب اس میں سے 906 ایکڑ اراضی باقی بچی ہے۔

(33)۔گاﺅں جنگھو چک شیخوپورہ میں 1056 ایکڑ اراضی موجود ہے۔

آفس آف دی ایڈمنسٹریٹر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی لاہور کی 2004-5 ءکے مالی سال میں آمدن تقریباً 6 کروڑ روپے تھی جس میں سے 3 کروڑ روپے اخراجات ظاہر کئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ اس کشمیر سٹیٹ پراپرٹی سے متعلق یہ جائیدادیں برائے نام کرایہ پر دی گئی ہیں۔

ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961 ءکا مقصد متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے حتمی فیصلے تک پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں موجود کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا اچھا انتظام کرنا ہے۔ یوں وزارت امور کشمیر کی طرف سے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کا یہ سلسلہ حاصل مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی اور قومی و ریاستی خزانے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کرپشن اور اقرباءپروری کے زمرے میں آتاہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے حوالے سے یہ بھی حیران کن امر ہے کہ اس کی آمدن آزادکشمیر یا پاکستان کے خزانے میں نہیں جاتی بلکہ صرف وزارت امور کشمیر کی صوابدید پر ہے۔ جبکہ آزادکشمیر کیلئے حکومت پاکستان کے منظور کردہ عبوری آئین 1974 ءکے تحت پاکستان میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا سبجیکٹ کشمیر کونسل کو دیا گیاہے۔ یوں آزادکشمیر کے عبوری آئین 1974 ءمیں پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا سبجیکٹ کشمیر کونسل کو تفویض کئے جانے کی وجہ سے 1961 ءکا ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس منسوخ کر دینا چاہئے (وزیراعظم پاکستان ہی کشمیر کونسل کے بھی سربراہ ہیں)۔

اسی حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ میاں محمد نوازشریف نے اپنے دور حکومت میں لاہور میں کشمیر سنٹر قائم کرنے کیلئے جیل روڈ پہ 2 کنال زمین آزادکشمیر حکومت کو دی تھی اور اس موقع پر یہ شرط عائد کی گئی کہ 4 سال کے اندر کشمیر سنٹر کی بلڈنگ تعمیر کرلی جائے گی اور ایسا نہ کرنے کی صورت الاٹمنٹ کینسل ہو جائے گی۔ چار سال گزر گئے لیکن کشمیر سنٹر کی عمارت تعمیر نہ ہو سکی۔ اب آزادکشمیر حکومت چار سال کی قدغن ختم کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے اسی دوران ایل ڈی اے کے بائی لاز میں تبدیلی کی وجہ سے کشمیر سنٹر کیلئے دی جانیوالی دو کنال اراضی کاسائز آدھے سے بھی کم ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے اب تک کشمیر سنٹر کی عمارت کا نقشہ بھی منظور نہیں ہوسکا۔ یوں کشمیر سنٹر کے قیام یا آزادکشمیر حکومت کی کسی اور ضرورت کیلئے آراضی کشمیر سٹیٹ پراپرٹی میں سے دی جاسکتی ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام آزادکشمیر حکومت کو سونپا جائے اور کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی آمدن آزاد کشمیر حکومت کو دی جائے۔

یہ بڑا سوال ہے کہ پنجاب اور صوبہ پختون خواہ میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا یہ بڑا حصہ کس کس کو کس مالیت پر فروخت کیا گیا ، فروخت سے حاصل ہونے والی رقوم کہاں گئیں؟ ایک اطلاع کے مطابق وفاقی وزیر امورکشمیر نے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے ایڈمنسٹریٹر آفس لاہور میں بڑی تعداد میں اپنے علاقے کے افراد بھرتی کئے ہیں۔ اس طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی بدانتظامی اور فروخت کے معاملات میں کرپشن ، اقربا پروری اور اختیارات سے تجاوز کی صورتحال نیب کی تفتیش کیلئے ایک بڑا موضوع ہے۔ مناسب یہی ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام واپس آزاد کشمیر حکومت کو دیا جائے اور اس کی آمدن بھی آزاد کشمیر حکومت کو دی جائے۔ایڈمنسٹریٹر آفس میں ملازمت کا سب سے پہلا حق بھی کشمیریوں کو ہی حاصل ہونا چاہئے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی اس طرح کی صورتحال کشمیریوں کے پاکستان پر اعتماد کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613867 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More