مجھے فیصل رضا عابدی نہیں بننا

زبان بندی کے ان دنوں میں بھی جب چیف جسٹس پہ پہلی بار ایک آمر کی افتاد آ پڑی تھی ہم دل و جان سے چیف جسٹس اور ان کے مﺅقف کے ساتھ تھے۔دامے درمے سخنے ہم نے اس تحریک میں حصہ بھی لیا تھا جو چیف جسٹس کو بحال کرنے کے لئے وکلاءکی سر براہی میں اس ملک کے عوام نے چلائی تھی۔ہم دورِ ایوبی ہی سے کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو مطلق العنان حکمرانوں کے آ گے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑا ہوتا اور انہیں آئین اور قانون کے مطابق چلنے پہ مجبور کرتا۔چیف جسٹس جناب محمد افتخار چوہدری یہ کر گذرے تھے اور ہمارے خوابوں کو تعبیر مل گئی تھی۔ہم نے اپنی ساری توقعات ان سے وابستہ کر لیں تھیں۔انہیں بھلے ہی جنرل کیانی نے بحال کروایا ہو لیکن یہ ہم ہی تھے جو طوفان کی صورت اسلام آباد کی طرف چل پڑے تھے اور راستے کی تمام روکاوٹوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا ڈالا تھا۔اسی دباﺅ کے تحت اسلام آباد کے بزرجمہروں کو بتا دیا گیا تھا کہ اب معزول ججوں کو بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔یہ ہمی تھے جنہوں نے وہ رات جاگ کے گذاری تھی اور سوئی آنکھوں والے گیلانی سے ججوں کی بحالی کا اعلان سنا تھا۔

ڈوگر کورٹس کی رخصتی کا ایک ایک لمحہ عذاب کی صورت ہمی نے اپنی جانوں پہ سہا تھا۔پھر جب چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں نے دوبارہ کرسی ِ انصاف کو افتخار بخشا تھا تو ہم اطمینان سے سب کچھ ان عادل ججوں کے حوالے کر کے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔معزول اور پھر بحال ججوں نے بھی اپنے قائد کی قیادت میں ہمیں مایوس نہیں کیا ۔این آ ر او جو اس ملک کی تاریخ میں سب سے بد نام قانون تھا جس میں حکمرانوں کی لوٹ مار کو تحفظ دیا گیا تھا اور جس میں سینکڑوں لوگوں کے قاتلوں کو معافی مل گئی تھی۔انہی حضرات نے اٹھا کے تاریخ کے کچرہ دان میں ڈال دیا تھا۔انہی ججوں نے حکمرانوں کو عدالتوں میں گھسیٹ کے اور انہیں ان کے عہدوں سے محروم کر کے ساری دنیا کو یہ کامیاب تائثر دیا تھا کہ اب پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے۔ہماری ان گناہ گار آنکھوں نے وردی سمیت اس ملک کی طاقتور فوج کے جرنیلوں کو نہ صرف عدالتوں میں حاضر ہوتے بلکہ کان پکڑے بھی دیکھا۔فوج کو بحیثیتِ ادارہ بھی عدالتوں کے سامنے حاضر ہوتا دیکھ کے ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ اب کہیں کوئی ظالم کسی مظلوم پہ ظلم نہیں کر سکے گا۔اب کوئی من مانی نہ کر پائے گا۔اب کسی کو ریاست توڑنے کی مجال نہ ہو گی۔اب کوئی ملک سے کروڑوں ڈالر باہر کے بینکوں میں بغیر قانونی تقاضے پورے کئے نہ بھجوا سکے گا۔

اب ہمارے ملک میں انصاف ہو گا۔انصاف ہو گا تو امن ہو گا۔امن ہو گا تو ترقی ہو گی۔ترقی ہو گی تو خوشحالی آئے گی اور یوں اس صدیوں کے استحصالی نظام سے پاکستان کے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔ابھی یہ خواب ہماری آنکھوں ہی میں تھے کہ لینڈ مافیا کا ایک سر غنہ ملک ریاض اچانک اسلام آباد کے افق پہ طلوع ہوا اور اس نے دھائی دینا شروع کی کہاے لوگو ! وہ عدالت جس سے تم انصاف کی امیدیں لگائے بیٹھے ہو،اسی عدالت کے چیف جج کا بیٹا ڈان ہے اور وہ باقاعدہ باپ کے نام پہ بھتہ لیتا ہے۔ملک ریاض کی شہرتِ بد اور اس کے ہر حکمران خواہ وہ صوبائی ہوں یا وفاقی کے ساتھ تعلقات کی بناءپہ ہم نے اس الزام کو بھی نہیں مانا۔ہم مشکل کی اس گھڑی میں بھی چیف جسٹس ہی کے ساتھ رہے۔ہم نے ملک ریاض اور اس کے ثبوتوں پہ ہزار لعنت بھیجی اور چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے نعرے بلند کرتے رہے۔ہاں یہ ضرور کہا کہ ارسلان افتخار مجرم ہے تو اسے سزا ملنی چاہئیے۔انصاف کا حق ملک ریاض کا بھی بنتا ہے لیکن اگر وہ جھوٹا ہے تو اسے بھی کیفر کردار تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔کچھ لوگ چیختے رہے کہ ملک ریاض برا سہی لیکن اس کی باتوں میں دم ہے۔ہم نے ملک ریاض کے ایک اریجنڈ ٹی وی انٹرویو کو لے کے ٹی وی کے ان اینکروں کو بھی اور اس ٹی وی چینل کو بھی ٹکے ٹوکری کر دیا لیکن جب ارسلان کا کیس سننے سے چیف جسٹس نے علیحدگی کا اعلان کیا تو ہم بد نصیبوں کے کانوں کی جوئیں کلبلانا شروع ہوئیں کہ اب انصاف ہو چکا۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ چیف جسٹس ساری دنیا کی پرواہ کئے بغیر خود اس کیس کو سنتے۔ارسلان جتنا مجرم تھا اسے اس کی سزا دیتے اور ایک ہفتے میں اس معاملے سے جان چھڑا کے اپنی راہ لیتے۔یہیں شفقتِ پدری غالب آئی اور چیف جج صاحب نے ایک از کار رفتہ قانون کا سہارا لے کے اپنے آپ کو اپنی زندگی کے سب سے اہم مقدمے سے علیحدہ کر لیا اور مقدمہ اپنے ساتھی ججوں کے حوالے کر دیا۔انہوں نے اس مقدمے کے ساتھ بھی وہی کیا جو جج ایسے مقدموں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔گونگلو اور مٹی والا معامل ہوا اور اب سڈل کمیشن بھی تحلیل کر کے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں ریاست کا پیسہ شامل نہیں اور یہ دو اشخاص کے درمیان نجی معاملہ ہے۔آپ جس فورم پہ بھی چاہیں وہاں سے انصاف طلب کر سکتے ہیں۔

ملک ریاض پکا کاروباری ہے اور پاکستان میں کاروبار شاذ ہی شفاف ہوتے ہیں۔کاروباریوں کے لئے ایک سب انسپکٹر ہی بہت ہوتا ہے ۔ملک ریاض کے بحریہ ٹاﺅن کے معاملات کی تفتیش کر کے اسے آئینہ دکھا دیا گیا ہے۔اس لئے وہ بھی چپ رہے گا۔ارسلان ابا جی کو منا لے گا۔ججوں نے بھی اپنے باس سے اس کیس کو غتر بود کرنے پہ تعریفی کلمات سن لئے ہوں گے۔لیکن وہ جو پاکستانی قوم کا اعتماد متزلزل ہوا ،وہ جو انصاف کا چڑھتا سورج شک کے بادلوں میں چھپ گیا۔وہ جو غریب شعیب سڈل اپنی ساری عمر کی کمائی یعنی عزت سادات لٹا بیٹھا۔کل کس منہ سے کسی کرپٹ کو یہ کرسیِ انصاف والے للکاریں گے۔اگر کسی نے کہہ دیا کہ جناب ! رہنے دیں یہ انصاف کی باتیں ۔آپ وہی ہیں ناں جن کا ایک انتہائی نالائق اور بگڑا ہوا بیٹا بی ایم ڈبلیو پہ گھر آیا کرتا تھا۔جو آپ کی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر والوں کو بیرون ملک سیر و سیاحت کے لئے لے جایا کرتا تھا۔جس کی کمپنی راتوں رات ترقی کی سینکڑوں سیڑھیاں اکٹھی چڑھ گئی تھی تو کیا انصاف چند لمحوں کے لئے گنگ نہیں ہو جائے گا؟

میں فیصل رضا عابدی نہیں بننا چاہتا لیکن جناب والا! میں اتنا ضرور چاہتا ہوں کہ آپ کا افتخار سلامت رہے۔آپ اب بھی ہمارے سر کا تاج ہیں۔ہم ابھی بھی آپ پہ اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔ہم مان لیں گے کہ آپ نے اپنے گھر میں بی ایم ڈبلیو کھڑی نہیں دیکھی ہو گی۔ہم مان لیں گے کہ آپ کے پاس گھر کی تعمیر کے لئے اب بھی رقم نہیں ۔اس کے لئے لیکن آپ کو ایک کرپٹ اور چور کو سزا دینا ہی پڑے گی اور وہ بھی اپنے ہاتھوں سے ۔قوم کا فخر آپ سے اب قربانی کا متقاضی ہے۔بڑے لوگوں کے امتحان بھی بڑے ہوتے ہیں آنکھوں پہ پٹی باندھیے اور دل پہ ہاتھ رکھ کے وہ کر گذرئیے جس کی پوری قوم منتظر ہے۔دوسری صورت میں بس ایک فقرہ کہ بلند پہاڑ کی چوٹی سے گرنے والا بچ جاتا ہے نظروں سے گرنے والا نہیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 270103 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More