تتلیاں اڑتے پھرتے رنگوں کی بہار جانفزا

شیریں خواب ،رنگ بکھیرتی قوس و قزح،لہلاتے اور جھومتے شگوفے ،اچھلتے کودتے جھرنے ،ناچتی گاتی آبشاریں،بادلوں میں اڑتی پریاں اور ھنک رنگ تتلیاں ہمیشہ سے ہی خوش مزاج ،رومان پرور اور فطری حسن کے عاشقوں کے لئے دل جوئی اور بزم آرائی کا ایک ایسا زریعہ بنی رہی ہیں جن سے پھوٹنے والی مسحور کن خوشبوئیں ،چمکتے دمکتے رنگ اور ابدی خوشی کے زندگی سے بھرپور لمحات عاشقان فطرت کو تادیر اپنے سحر میں جکڑے رہتے ہیں فطرت کی صناعی کی ان حسین اور دل پزیر علامتوں میں ایک علامت ایسی ہے جس کا رنگ و روپ کہیں پھولوں کا پرتو محسوس ہوتا ہے تو کہیں دھنک کے رنگوں کا عکس نظر آتا ہے آوارہ گردوں کی مانند ڈالی ڈالی اور شاخ شاخ اپنے یکتا اور دل فریب رنگین حسن سے دیکھنے والوں کی نظروں کو خیرہ کرنے والی یہ چھوٹی سے مخلوق جسے دنیا ’’ تتلی‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ایسے حشرات میں شمار کی جاتی ہے جن کی پہچان اور پسندیدگی کی عالمگیر وجہ ان کی خصوصیات کے بجائے ان کی خوبصورتی میں پنہاں ہے بظاہر چھوٹی اور نازک اندام سی نظر آنے والی یہ مخلوق سوائے برفانی براعظم انٹارکیٹکا کے دنیا کے تقریبا ہر مقام پر اپنی موجودگی سے ہر حسن پرست اور فطرت کی نعمتوں پرتحقیق کرنے والوں کو اپنی مختلف عادات اور بھانت بھانت کی اقسام سے محظوظ اور متوجہ کئے ہوئے ہے ۔

ماہرین حشریات کی جانب سے تتلیوں کی مختلف اقسام اور انواع پر تحقیق کے بعد پتہ چلتا ہے کہ حشرات کے Lepidoptera خاندان یعنی چھلکے نما اور رنگین نقطوں سے بنے پروں سے تعلق رکھنے والی ایک لاکھ اسی ہزار انواع میں سے لگ بھگ سترہ ہزار پانچ سو انواع کا تعلق تتلیوں سے ہے جنہیں علم حشرات کی تکنیکی زبان میں Papilionoideaکہا جاتا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق تتلیوں کی موجودگی ماضی میں 65ملین سال قبل کے زمانے میں بھی تھی اگرچہ ماضی کے اس زمانے کی کسی تتلی کا فوسل (Fossil)ابھی تک دریافت نہیں ہوا ہے تاہم ڈنمارک کے بالائی پہاڑی علاقے’ فر‘ میں تتلی کا ایک ایسا فوسل دریافت ہوا ہے جس کی کاربن ڈیٹنگ(Carbon Dating) سے ثابت ہوا ہے کہ اس تتلی کا تعلق 57ملین سال قبل کے زمانے سے ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تتلیاں اپنے خوبصورت وجود سے کرہ ارض کو خاصے طویل عرصے سے رنگین کررہی ہیں اس کے علاوہ ایک اور حسین تتلی کا فوسل جسے Metalmark Butterflyکہا جاتا ہے ’ عنبر ‘ (Amber)کی شکل میں ڈومینکن ریاستوں کے علاقے سے ملا ہے تتلی کے اس فوسل کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ 25ملین سال پرانا ہے تتلیوں کے حوالے سے ایک دلچسپ اور قابل زکر پہلویہ بھی ہے کہ کئی اقسام کی تتلیاں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ہجرت کرتی ہیں اور اپنی اس نقل مکانی کے دوران وہ بڑے پیمانے پر عمل زیرگی(Pollination)انجام دیتی ہیں جس کے دوران مختلف اقسام کے پھولوں اور پودوں کے بیج ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوکر پروان چڑھتے ہیں جس سے نہ صرف دنیا بھر میں پودوں کی اقسام میں اضافہ ہوتا ہے بل کہ عمل زیرگی کی وجہ سے نئے علاقوں کے پھولوں کے بیجوں کی منتقلی مختلف علاقوں کے فطری حسن میں نت نئے پھولوں کی آمیزش کی وجہ بنتی ہے ۔

بنیادی طور پر تتلیوں کے تین خاندان ہیں جن میں حقیقی تتلیاں (Ture Butterfilies)جنہیں Papilionoideaخاندان میں شمار کیا جاتا ہے ان کی پہچان یہ ہے کہ ان کی دم لمبی ہوتی ہے ا س کے بعد Skippersتتلیوں کی قسم ہے جس کے خا ندان کو Hesperioideaکہا جاتا ہے اور ان کی پہچان یہ ہے کہ یہ عموما گھاس کے میدانوں میں پائی جاتی ہیں تیسری قسم ’ پروانہ یا پتنگا‘(Moths) سے ہے جنہیں ماہرین نے Hedyloideaخاندان میں شامل کیا ہے واضح رہے تتلیوں اور پروانوں کے درمیان نہایت معمولی فرق ہوتا ہے لہذا عموما تتلیوں کے شوقین حضرات اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے اور وہ پروانوں کو بھی تتلیاں سمجھتے ہیں اگرچہ تتلیوں اور پروانوں میں تخصیص خاصہ مشکل کام ہے تاہم ماہرین نے اس حوالے سے تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تتلیو ں اور پروانوں کے صرف آرام کرنے کے طریقے کار میں فرق سے ہی ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کونسا حشرات تتلی ہے اور کونسا پروانہ ہے واضح رہے تتلیاں آرام کرتے وقت اپنے پروں کو اپنی پشت پر عمودی انداز میں سمیٹ کر آرام کرتی ہیں جب کہ پروانے آرام کرتے وقت اپنے پروں کو دائیں بائیں پھیلا کر رکھتے ہیں اسی طرح تتلیوں کے اور پروانوں کے Antennae کی بناوٹ میں بھی فرق ہوتا ہے تتلیوں کے انٹینا کے سرے پر ایک گول نقطہ سا ہوتا ہے جب کہ پروانوں کے انٹینا کے سرے پر چھوٹے ریشے یا رؤاں ہوتا ہےAntennaeکے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ چونکہ تتلیوں کے کان نہیں ہوتے لہذا وہ سننے یا محسوس کرنے کا عمل اپنے Antennaeسے ہی لیتی ہیں اسی طرح اکثر حشرات کی طرح تتلیوں کی ٹانگوں کی (legs) تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے جن میں دد ٹانگوں کے تین جوڑے یعنی چھے ٹانگیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں جب کہ دد ٹانگوں کے پانچ جوڑے پیٹ کا حصہ ہوتے ہیں اس طرح مجموعی طور پر تتلیوں کی سولہ (16)ٹانگیں ہوتی ہیں جسمانی ساخت کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ تتلیاں کبھی بھی آنکھیں بند نہیں کرتی حتی کے سوتے وقت بھی ان کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں لہذا کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کے خوابوں میں بسنے والی تتلیاں خود خواب دیکھنے سے عاری ہوتی ہیں۔

*پر۔ (Wings)
تتلیوں کے پروں کی ساخت قدرت کی تخلیق کا نہایت عظیم الشان ، خوبصورت اور مہارت سے بھرپور مظہر ہے تتلی کے پر بھی انڈے دینے والے دیگر حشرات کی مانند اپنی تخلیق کے آخری مرحلے میں ظاہر ہوتے ہیں جن پر ابتدا ہی سے خوبصورت رنگوں اور ڈیزائینوں کا حسین امتزاج نمایاں ہوتا ہے تتلی کے پر وں پر نظر آنے والے یہ رنگوں کے نقطے جو اس کے ہزاروں انتہائی ننھے منے چھلکے جیسی ساخت پر ہوتے ہیں تتلی کی بیرونی سطح پر پروٹین کا اہم ماخذ بھی ہوتے ہیں خوبصورت اور شوخ رنگوں سے سجے یہ پر(Wings) جو چھوٹے چھوٹے چھلکے (Scales)پر مشتمل ہوتے ہیں ان کے درمیان مظبوطی کا اہم اور واحد زریعہ وہ نسیں (Veins)ہوتی ہیں جو ان چھلکوں کو نہ صرف آپس میںیک جان بنا کر ایک بازو کی شکل دیتی ہیں بل کہ پروں میں لچک اور جھکاؤ کا ایسا میکنیزم (Mechanism)بھی پیدا کرتی ہیں جس کی مدد سے تتلیاں تیز ہوا کے تھپیڑوں سے خود کو باآسانی بچائے رکھتی ہیں جہاں تک تتلیوں کے پروں میں رنگوں کی موجودگی کی وجوہات کا تعلق ہے تو خوبصورتی کے علاوہ ان کا سب سے اہم کام تتلیوں کو شکار ی پرندوں یا دیگر حشرات سے بچاناہے کیوں کہ وہ ان رنگدار پروں کی مدد سے خود کو پودوں اور پھولوں کے ساتھ اس طرح یک رنگ کرلیتی ہیں کہ شکاری پرندے یا حشرات انہیں دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں اس کے علاوہ تتلیوں کے لئے اپنی نسل یا قبیلے کی پہچان کا بھی اہم ترین زریعہ پروں پر پھیلے ہوئے رنگ ہوتے ہیں جس کی مدد سے وہ بارآوری کے عمل سے پہلے رنگوں کی بنیاد پر ہی اپنی نسل یا قبیلے کی پہچان کرتی ہیں اس کے علاوہ کچھ مخصوص نسل کی تتلیاں جن پر انتہائی شوخ اور چمک دار رنگ تو ہوتے ہیں مگر ان کے یہ رنگ انتہائی بد زائقہ ہوتے ہیں چناچہ بظاہر دلفریب نظر آنے والے یہ شوخ رنگ اپنے زائقے کے باعث ان تتلیوں کو عام طور پر پرندوں اور حشرات سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، تتلیوں کے پروں پر موجود شوخ اور گہرے رنگوں کا ایک مصرف انہیں سرد موسم میں سورج کی حرارت جذب کر کے سرد اور ٹھنڈے موسم کی صعوبتوں سے بچاؤ فراہم کرنا ہے واضح رہے تتلیوں کا تعلق سرد خون حشرات(Cold Blooded)سے ہے جن کے جسم کے درجہ حرارت کا تعلق اردگرد کے ماحول کے درجہ حرارت سے ہوتا ہے ۔تتلیوں کے پروں کے بیرونی اور اندرونی ڈیزائنوں میں بھی فرق ہوتا ہے اسی طرح ان کے دائیں اور بائیں پر(Wings)کے سائز میں بھی معمولی سا فرق ہوتا ہے جہاں تک تتلیوں کے اڑنے کی رفتا ر کا تعلق ہے تو مختلف اقسام کی تتلیوں کی رفتار مختلف ہے جو پانچ میل فی گھنٹے سے لیکر 30میل فی گھنٹے تک محیط ہے البتہ بارشوں کے موسم میں تتلیاں اڑنے سے گریز کرتی ہیں کیوں کہ تیز بارشیں ہی تتلیوں کی اموات کی اہم ترین وجہ ہیں ۔

*جنس کا تعین۔
تتلیوں کی جنس کو پرکھنا خاصا مشکل کام ہے تاہم تتلیوں کے رویوں پر کئے جانے والے بعض مشاہدات سے ثابت ہوا ہے کہ نر عموما باغات وغیرہ میں اونچی اور کھلی جگہوں پر اڑتے پھرتے ہیں یا پھر ان کا زیادہ تر وقت مادہ تتلیوں کی تلاش میں گذرتا ہے جب کہ مادہ تتلیاں اپنا زیادہ وقت پھولوں کے پاس گذارتی نظر آتی ہیں اور وہ اس دوران ان پھولوں اور پودوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں جن کے پتوں پر وہ اپنے انڈے محفوظ طریقے سے رکھ سکیں تاہم جسمانی ساخت کی بنیادپر تتلیو ں کی جنس کاتعین ایک مشکل عمل ہے البتہ ان کے پیٹ(Abdomen) کی بناوٹ میں انتہائی خفیف سے فرق سے جنس کی شناخت کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ تتلیوں کے پروں پر موجود رنگوں سے ان کی جنس کا تعین بھی کیا جاتا ہے ایک طویل تحقیق کے بعد ثابت ہوا ہے کہ جن تتلیوں کے پروں پر چمکدار نیلا رنگ موجود ہو وہ اٹھانوے فیصد نر ہوتے ہیں جب کہ جن تتلیوں کے پروں پر کتھئی یا بھورے (Brown)رنگ کی بہتات ہو وہ مادہ تتلیاں ہوتی ہیں۔

*رابطے اور پیغام رسانی کے طریقے کار:
حشرات کے حوالے سے چیونٹیوں اور شہد کی مکھی کے برعکس تتلیوں کا باہم رابطے کا نظام زیادہ موثراور مربوط نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان رابطے کے مختلف رویے ہیں جس میں قابل زکر طریقوں میں رنگ کی بنیاد پر رابطہ ، کیمیائی رابط،صوتی رابطہ اور جسمانی اظہارشامل ہیں رنگوں کے مخصوص عکس اور ڈیزائن پیغام یا باہم رابطے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں اسی طرح تتلیاں کیمیائی محلول کی بوچھاڑ(Spray)سے بھی اپنے قبیلے یا جنس سے رابط کرتی ہیں بعض تتلیاں جس میں گھاس کے میدانوں میں پروان چڑھنے والی تتلیاں(Hamadryas, Chrysalides) خاص طور پر شامل ہیں وہ خطرے کی حالت میں ’’کٹ کٹ‘‘(Click)کی آوازیں نکال کر ایک دوسرے کو خطرے سے آگاہ کرتی ہیں جہاں تک جسمانی اظہار کے زریعے رابطے کا تعلق ہے تو بعض تتلیاں خطرے کے وقت برق رفتاری سے مختلف زاویوں سے پرواز کرتی ہیں اور یہی عمل وہ عموما کسی ایسے پھول کی حفاظت کرتے ہوئے بھی انجام دیتی ہیں جو ان کی غذا یا انڈوں کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔

*تتلیوں کے باغات
یوں تو تتلیاں ہر اس جگہ پر پائی جاتی ہیں جہاں خوش رنگ پھول اور سبزے کی فراوانی ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے مقام بھی ہیں جہاں پرفطرت سے محبت کرنے والے افراد نے تتلیوں پر تحقیق ، افزائش نسل اور ان سے دل بہلانے کے لئے تتلیوں کو ان کے پسندیدہ ماحول کے لحاظ سے ایک جگہ جمع کر رکھا ہے ایسے مقامات کو’’ تتلیوں کا پارک ‘‘ یاButterfly Zooبھی کہاجاتا ہے ان قابل دید مقامات میں سے صف اول کے کچھ پارکوں کا مختصر تعارف اور خصوصیات اس طرح ہے ۔

*Penang Butterfly Farm
ملائیشیا دنیا بھر میں تتلیوں کے بارے میں مربوط ڈیٹا اور تازہ ترین معلومات کے حوالے سے ایک ایسا ملک ہے جہاں پر تقریبا 1000اقسام کی تتلیوں کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے واضح رہے دنیا میں کسی بھی ملک میں تتلیوں کی اقسام کے بارے میں اتنی بڑی تعداد میں اکھٹا معلومات موجود نہیں ہے تتلیوں کی مختلف اقسام کے بارے میں اس مفید معلومات کو اکھٹا کرنے میں سب سے اہم کردار ملائیشیا کی رقبے کے لحاظ سے دوسری سب سے چھوٹی ریاست ’ پیننگ‘ میں واقعPenang Butterfly Farmکا ہے جہاں پر تتلیوں کے بارے میں تحقیقی امور اور قدرتی ماحول میں افزائش کے طریقوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے1986میں تتلیوں کے لئے قائم کئے جانے والے اس فارم ہاؤس کے بانی اور مالک David Gohکا کہنا ہے کہ ان کا یہ تتلی گھر دراصل تتلیوں کا ’ زندہ عجائب گھر ‘ ہے جہاں طالبعلموں اور سیاحوں دونوں کے لئے ہر قسم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں اس’ پیننگ بٹر فلائی فارم‘ میں صرف ملائیشیا میں پائی جانے والی 120قسام کی تقریبا4000ہزار تتلیاں ہیں جن پر علمی بنیادوں پر تحقیقی کام بھی جاری رہتاہے اور بعد ازاں انہیں دوسرے ممالک میں بھی برآمد کیا جاتا ہے جس میں انڈیا میں معدوم ہونے والی تتلی Kallima paralektaجسے مقامی زبان میں ’ انڈین لیف‘ کہتے ہیں کے علاوہ Troides Helenaجس کے چمکتے پیلے پروں کے باعث Yellow Bird wing کہا جاتا ہے موجود ہیں واضح رہے فارم ہاؤس میں ملائیشیا کی سب سے خوبصورت تتلی جسے 1855میں مشہور ماہر حشریات’ اے آر ویلس‘ نے دریافت کر کے اس وقت کے راجہ کے نام کی مناسبت سے ’ راجہ بروک برڈ ‘ کا نام دیا تھا کی بھی افزائش کر کے دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ ’ پیننگ بٹر فلائی فارم‘ میں تتلیوں کو بہتر ماحولیاتی طریقوں کے مطابق رکھنے اور ان کی مناسب دیکھ بھال سے متاثر ہوکر Convention of International Trade of Endangered Species (CITES).نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے تتلیوں اور ان کے انڈوں کو بطور تجارتی مقاصد کے لئے جمع کرنے پر پابندی میں نرمی بھی کی ہے جس کی تائید انٹر نیشنل یونین برائے کنسرویشن آف نیچر کے ڈائریکٹر ’مارک کولنس‘ نے بھی کی ہے پارک کی انتظامیہ کو سن دوہزار میں تتلیوں کی بین الااقوامی کانفرنس برائے نمائش کنندگان اور سپلائرز کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔

*Victoria Butterfly Gardens
کینیڈا میں سیاحوں کے لئے پرکشش علاقے ’’وکٹوریہ ‘‘ کے نواح میں واقع ’’ برنٹ وڈ‘‘ وکٹوریہ بٹر فلائی گارڈن‘‘ بھانت بھانت کی رنگی برنگی تتلیوں سے سجا ایک ایسا باغ ہے جہاں پر تتلیوں کو ان کے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ کرکے رکھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نومبر، دسمبر اور جنوری میں چونکہ اس علاقے میں سورج کی روشنی میں خاصی کمی واقع ہوجاتی ہے لہذا ان مہینوں میں باغ کے تتلیوں کے حصے کو بند کردیا جاتا ہے کیوں کہ ان مہینو ں میں نامناسب درجہ حرارت ہونے کے باعث تتلیوں کا زندہ رہنا محال ہو تاہے اگرچہ اس باغ کا درجہ حرارت کمپیوٹرز کی مدد سے برقرار رکھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود تتلیوں کو مصنوعی ماحول میں رکھنے سے احتراز کیا جاتا ہے متعدد آبشاریں اوربارہ ہزار اسکوائر فٹ کے رقبے پر مصنوعی بارآنی جنگلات پر مشتمل اس باغ میں تقریبا دوسوپچاس مختلف اقسام کے پودے ، بڑی تعداد میں پرندے اور خوبصورت مچھلیوں کے ساتھ ساتھ تقریباپینتیس مختلف اقسام کی تین ہزار کے لگ بھگ رنگی برنگی تتلیاں تفریح کی غرض سے آنے والوں کو خوش آمدید کہتی نظر آتی ہیں’وکٹوریہ بٹر فلائی گارڈن‘ میں آنے والے مہمانوں کو نہ صرف ہر ہفتے پیدا ہونے والی تتلیوں کے بارے مختلف معلومات فراہم کی جاتی ہے بلکہ باغ میں بنی مخصوص کھڑکیوں کی مدد سے سیاح ان کے رہن سہن ، خوراک اور دیگر افعال کا قدرتی ماحول میں نظارہ بھی کرسکتے ہیں ۔

*Monsanto Insectarium
امریکہ کی ریاست میسوری میں دریائے’ مس سسپی‘ کے مشرقی علاقے ’ سینٹ لوئیس‘ میں واقع سینٹ لوئیس کے چڑیا گھرسے متصل حشرات الارض کے وسیع ذخیرے پر مشتمل Monsanto Insectarium میں لاتعداد حشرات کے ساتھ مختلف اقسام کی تتلیو ں کی بھی بھرمار ہے جو یہاں آنے والوں کو اپنی خوبصورتی سے لبھاتی ہیں سن دوہزار میں چار ملین ڈالر کی لاگت سے نو ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل اس باغ میں بھی تتلیوں کو ان کے قدرتی ماحول کے مطابق رکھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس باغ کی سب سے بنیادی سہولت یہاں پر تتلیوں کی افزائش کے حوالے سے ایسے قدرتی ماحول کی فراہمی ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں اور تحقیق کاروں کی دلچسپی کا مرکز بھی ہے ۔

*Bukit Timah Nature Reserve And Parks
سنگاپور کے ویسے تو تقریبا ہرعلاقے میں مختلف اقسام کی نہایت خوبصورت تتلیاں پائی جاتی ہیں لیکن Bukit Timahکے علاقے میں واقع پہاڑیوں پر قائم 410ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے اس قدرتی پارک میں تتلیوں کی 284انواع و اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے کئی تتلیوں کی نسلیں نا پید ہوتی جارہی ہیں جن کی بقا ء کے لئے اس قدرتی پارک میں تحقیقی کام زور و شور سے جاری ہے اس پارک کا ایک دلچسپ پہلو پارک میں موجود وہ مخصوص گوشہ ہے جہاں پر تتلیوں کے زندگی کے مختلف مدارج (Life Cycle)کو نہایت عمدہ طریقے سے شائقین اور تحقیق کاروں کے سامنے بصری میڈیم کے زریعے پیش کیا جاتا ہے ۔

*کوسٹا ریکا پارک
وسطی امریکا کے ملک کوسٹا ریکا میں واقع ’ کوسٹا ریکا بٹر فلائی پارک‘ اپنی گوناں گوں خصوصیات اور تتلیوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتا ہے اس پارک میں موجود معلومات فراہم کرنے والے گائیڈ اپنے شعبے کے ماہر شمار کئے جاتے ہیں جنہیں باقاعدہ علمی اور تکنیکی بنیادوں پر اس کا م پر فائز کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارک میں تفریح کی غرض سے آنے والے بھی تتلیوں کے بارے میں علمی حقائق سے آگاہ ہوتے ہیں اس کے علاوہ اس پارک سے ہزاروں کی تعداد میں تتلیو ں کے انڈے اور پیوپا(Pupae)دوسرے ممالک میں تتلیوں کی افزائش کی فروغ کے لئے ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں انڈے اور پیوپا کے پھولوں پر سے چناؤ کے اس منفرد منظر کو بھی سیاح باغ میں بنی مخصوص کھڑکیوں کے زریعے دیکھ سکتے ہیں ۔

*Collodi Butterfly House
اٹلی کے شہر میلان میں واقع اٹلی کا اولین ’کولوڈی بٹر فلائی ہاؤس‘ایک ایسا نجی ملکیت کا بٹر فلائی ہاؤس ہے جس کے مالکان ’ایمولی فارولڈی’اور ’ماریہ پلر ویٹوری‘تتلیوں، پرندوں اور پودوں کو جمع کرنے کے حوالے سے عالمگیر شہرت رکھتے ہیں بنیادی طور پر یہ بٹر فلائی ہاوس پودوں کے لئے بنائے گئے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے گرین ہاؤس کا ایک حصہ ہے جس میں ان گنت تتلیاں پھولوں کے گرد منڈلاتی پھرتی ہے اس انتہائی جدید انداز کے بنائے گئے بٹر فلائی ہاؤس میں جدید کمپیوٹر سلائیڈ ز اور آلات کی مدد سے ایک بڑے اسکرین پر تتلیوں کی زندگی سے متعلق معلومات مہمانوں اور سیاحوں کو فراہم کی جاتی ہے بٹر فلائی ہاؤس کی ایک منفرد خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں پر موجود ماہرین تتلیوں اور پروانوں کے درمیان جسمانی اور ان کی عادات کے فرق کے حوالے سے بھی طالبعلموں کو علمی بنیادو ں پر آگاہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چاروں طرف سے شفاف شیشوں سے ڈھکے اس بٹر فلائی ہاوس کو نجی ملکیت کے حوالے سے بنائے گئے بٹر فلائی ہاؤسز میں دنیا بھر میں منفر د مقام حاصل ہے ۔

*Bannerghatta National Park
انڈیا کے علاقے کرناٹک میں وزارت ماحولیات اور جنگلات کے تعاون سے قائم کیا گیا ’ بینر گھاٹا نیشنل پارک ‘ دیگر انواع و اقسام کے پرندوں اور حشرات کے علاوہ تتلیوں کے بیش بہا خزانے اور دلفریب مناظر کی وجہ سے ساری دنیا میں پہچانا جاتا ہے پچیس ہزار ایکڑ کے رقبے پر پھیلے ہوے اس قدرتی باغ میں تتلیوں کو محفوظ انداز میں رکھنے اور ان کی افزائش کے لئے سات اعشاریہ پانچ ایکڑ رقبے پر مخصوص کئے جانے والے حصے کا افتتاح اگرچہ صرف دو سال قبل پچیس نومبر 2006 ہی کو ہوا ہے مگر انڈیا کے اس اولین بٹر فلائی پارک کی شہرت تقریباتمام دنیا میں فطرت کی صناعی سے محبت کرنے والے افراد میں پھیل چکی ہے جہاں پر تتلیوں کو معدومی سے بچاؤ ، تتلیو ں کے عجائب گھر اور تتلیوں سے متعلق معلومات کے حصول کے لئے نہایت جدید آلات سے آراستہ آڈیو ویڈیو روم بھی ہے جہاں سیاح اور محقق اپنی علم اور جستجو کی پیاس بجھا سکتے ہیں تتلیوں کے بچاؤ اور انہیں قدرتی ماحول سے ہم آہنگ رکھنے والے علاقے میں دس ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل polycarbonateکی چھت ڈالی گئی ہے جو تتلیوں کو نہ صرف بیرونی ماحول سے بچا کر رکھتی ہے بل کہ کم از کم تتلیوں کی 20ایسی انواع کو بھی بقا فراہم کررہی ہے جو اس خطے سے آہستہ آہہستہ معدوم ہوتی جارہی ہیں’ بینر گھاٹا نیشنل پارک ‘ میں قائم اس تتلی گھر کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس پارک میں مقامی ’یونیورسٹی برائے زرعی سائنس اور تحقیقی ادارے’ اشوکا ٹرسٹ برائے Ecology ‘اور’ ماحولیات ریسرچ سینٹر‘ کے تعاون سے تتلیوں پر جدید بنیادوں پر عالمی معیار کی تحقیقی سرگرمیاں جاری ہیں ۔

*پاکستان میں تتلیاں
2003میں ورلڈ وائلڈ فیڈریشن (WWF)کی جانب سے کئے گئے ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق پاکستان میں حشرات کی تقریباپانچ ہزار اقسام ہیں جن کی خاصی بڑی تعداد کو پشاور میں واقع پاکستان فارسٹ انسٹیٹوٹ میں محفوظ حالت میں دیکھا جاسکتا ہے اور جن میں شامل تتلیوں کی کئی اقسام پر شعبہ حیاتیات کے ماہرین تحقیق میں مصروف ہیں اس کے علاوہ تقریبا نو برس قبل شروع کی جانے والی ایک دوسری تحقیق جو ’ پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری (PMNH)‘اور’ آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم‘ کے باہمی اشتراک سے گلگت، قراقرم ہائی وے ، خنجراب اور ملحقہ وادیوں میں حشرات کی انواع کی دریافت کے حوالے سے جاری ہے اس مطالعاتی تحقیق میں اب تک اس خطے میں سو کے قریب تتلیوں کی اقسام دریافت ہوچکی ہیں جن میں سے بہت سی انواع ماہرین کے لئے بالکل نئی نوع کا درجہ رکھتی ہیں اس طرح وادی ہنزہ میں سن دوہزار میں کی جانی والی ایک تحقیق میں بھی تتلیوں کی تقریبا 40اقسام شناخت کی جاچکی ہیں جب کہ اسی دوران اسکردو، شیگر، کارمنگ، سدپارا، کچورو اور دیوسائی کی وادیوں میں بھی حشرات کی 400نت نئی اقسام دریافت کی جاچکی ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق تتلیوں کے خاندان سے ہے واضح رہے پا کستان میں پائی جانے والی اکثر تتلیوں کا تعلق انہی تتلیوں کے زیلی خاندانوں سے ہے پاکستان میں پائی جانے والی تتلیوں میں Parnassius charltoniusتتلی جولائی سے اگست ، Pieris rapae اور Pieris brassicaeاپریل سے ستمبر،Pontia callidiceجون سے اگست،Colias erateجولائی سے ستمبر،Colias fieldiiجون سے اگست،Lycaena phlaeasجون سے ستمبر،Zizeeria knysnaجون سے اگست،Zizina otisمئی سے ستمبر،Everes argiadesجون سے جولائی،Aricia agestisمئی سے اگست،Plebejus argusجون سے اگست،Aglais cashmiriensisمئی سے جون،Cynthia carduiمئی سے اگست،Maniola pulchraجولائی سے اگست اور Pararge menavaجون سے جولائی کے مہینوں میں پورے پاکستان کے باغوں ، سبزہ زارو ں وادیوں اور جنگلوں میں باآسانی دیکھی جاسکتی ہیں یاد رہے ان تتلیوں کے مقامی نام ہر علاقے میں مختلف ہیں تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں نہ صرف ملکی سطح پر تتلیوں پر تحقیق کا فقدان ہے بل کہ قدرت کا یہ حسین اور بیش بہا خوبصورت تحفہ جو عمل زیرگی (Pollination)کا اہم ترین زریعہ بھی ہے وہ ابھی تک کسی مناسب اور باضابط ڈیٹا ا ور بہتر ماحولیاتی سہولیات سے دور ہے ۔

*تتلیو ں کی نمائش گاہیں
خوبصورت اور دلکش ہلکے پھلکے پروں پر مشتمل اڑتے رنگوں سے سجی تتلیوں کی پہلی باضابطہ نمائش1976میں فطرت سے محبت کرنے والے برطانوی شہری اور ماہرحشریات ’ڈیوڈ لو‘نے برطانیہ میں واقع علاقے Guernsey کے جزائر میں منعقد کی تھی چونکہ یہ ایک نئے انداز کی نمائش تھی لہذا اسے زیادہ شہرت تو نہ مل سکی مگر وہ سیاح جو ان جزیروں میں تفریح کی غرض سے آئے ہوئے تھے ان کی جانب سے نہ صرف اس نمائش کو خاصا سراہا گیا بل کہ اس نمائش کے انعقاد کے بعد ہی Butterfly Houseesبنانے کا خیال بھی زور پکڑتا گیا اور بالاآخر 1980میں مشہور محققClive Farrellنے پہلا باقاعدہ بٹر فلائی ہاؤس’’ لندن بٹر فلائی ہاؤس‘‘قائم کر کے عوام الناس کے لئے تفریح کا ایک نیا باب کھول دیا1980کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں اس بٹر فلائی ہاوس کے بعد برطانیہ میں اوریورپ کے دیگر مقامات پرتقریباپچاس بٹر فلائی ہاوسز قائم کئے گئے 1988میں فلوریڈا میں کوکونٹ کریک‘میں بٹر فلائی ورلڈ اور جارجیا میں ’ ڈے بٹر فلائی سینٹر ‘ میں ہونے والی تتلیوں کی نمائشوں نے بھی اس شعبے کی ترقی میں اہم کردار اداکیا ہے جس کے بعد پورے یور پ ، امریکہ، کینیڈا اور دیگر کئی ممالک میں سالانہ بنیادوں پر تتلیوں کی نمائشیں تفریح اور تعلیم کا ایک اہم ایونٹ بن چکی ہیں جس میں نہ صرف تفریحی عنصر شامل ہے بل کہ تعلیمی حوالے سے بھی خاصامواد اور معلومات طالبعلموں کو فراہم کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے اکثر تعلیمی اداروں میں طالبعلم اپنے تفریح دوروں میں تتلیوں کی نمائش اور بٹر فلائی ہاوسز میں جانے پر زور دیتے ہیں ۔

*مشہور تتلیاں
Southern Swallowtail
جنوبی یورپ کے پہاڑوں میں پندرہ سو میٹر کی بلندی پر پائی جانے والی اس تتلی کے پر گہرے پیلے رنگ کے ہوتے ہیں جن پر مختلف رنگوں کی پٹیاں بھی ہوتی ہیں Papilio alexanorکے سائنسی نام سے پہچانے جانے والی اس تتلی کی چھوٹی سی دم ہوتی ہے جس کے سرے پر پیلا رنگ نمایاں ہوتا ہے مادہ تتلی نر سے سائز میں نسبتا بڑی ہوتی ہے یہ تتلی اپنے مسکن میں اپریل سے جولائی کے دوران دیکھی جاسکتی ہے ۔
Black-veined White
شفاف پروں میں کالی رگوں (Veins)کے امتزاج سے آنکھوں کو حیرت کے سمندر میں ڈبونے والی یہ تتلی جسکا سائنسی نام Aporia Crateagiہے اڑنے کے حوالے سے کمزور صلاحیت کی تتلی سمجھی جاتی ہے جو صرف پانچ سے چھے فٹ کی بلندی تک ہی پرواز کر سکتی ہے بنیادی طور پر یورپ سے تعلق رکھنے والی اس تتلی کے پروں کا پھیلاؤ تقریبا دو انچ تک ہوتا ہے ۔

Apollo
اپنے پروں پر انسانی آنکھ کے دیدوں کے مانند سرخ گول نشانوں سے سجی یہ تتلی آٹھ سو سے دوہزار میٹر کی بلندی پر پہاڑی ڈھلوانوں پر پائی جاتی ہے اس تتلی کی مختلف نسلوں کے رنگوں کا انداز جدا جدا ہوتا ہے لیکن گول دائر ے ہر تتلی کے پروں پر پائے جاتے ہیں جو ان کی سب سے واضح پہچان ہے تیز سورج کی روشنی میں آرام کرنے والی اس یورپی تتلی کا سائنسی نام Parnassius Apolloہے ۔

Orange Tip
اپریل سے جون تک پھولوں کی کیاریوں اور سڑکوں کے گرد اگے پھولوں سے رس چوستی اور اڑتی دکھائی دینے والی اس چاک وچوبند تتلی کی خاص بات اس کے پھولوں سے رس چوسنے کے دوران اپنے پروں کو سمیٹ کر چھپ جانے کا عمل ہے جس کی وجہ سے یہ تتلی رس چوسنے کے دوران پھول ہی کا حصہ معلوم ہوتی ہے پرو ں پر نارنجی رنگ کے شیڈز کی حامل اس تتلی کو Anthocaris Cardaminesکے سائنسی نام سے جانا جاتا ہے ۔

Purple Emperor
فالسے کے رنگ سے مشابہ یہ دلفریب تتلی اپنی پروں کے چمکدار عکس کے باعث ہر کسی کو متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے عموما یہ تتلی درختوں کے اوپر ہی منڈلاتی ہے لیکن خوراک کی تلاش میں پھولو ں کے علاوہ دلدلی زمین کے آس پاس بھی نظر آتی ہے مادہ تتلی کے فالسئی پروں پرسفید لہردار دھاریاں ہوتی ہیں اگست سے ستمبر اور پھر مئی سے جون میں دکھائی دینے والی اس چمکیلے پروں کی برق رفتار تتلی کا سائنسی نام Apatura irisہے ۔

Small Tartoiseshell
گھروں اور شہروں کے باغوں میں عام طور پر نظر آنے والی اس تتلی کے پر نصف گہرے بھورے اور نصف کم گہرے بھورے ہوتے ہیں جن پر لہردار پٹیاں بھی ہوتی ہیں موسم بہار کے ساتھ نمودار ہونے والی اس تتلی کو اپنی دھیمی رفتار کی اڑان کے باعث ہر کوئی پکڑنے کے لئے بیتاب رہتا ہےAglais Urticae کی سائنسی شناخت رکھنے والی یہ تتلی اسی وجہ سے بچوں میں بھی خاصی پسند کی جاتی ہے ۔

Pearl Bordered Fritillary
نارنجی ، سفیداور کالے رنگوں پر مشتمل یہ سہ رنگ تتلی نرم جھاڑیوں کے گرداپریل سے اگست کے درمیان نظر آتی ہے جہاں پر وہ زمین کو چھوتی ہوئی ان نرم جھاڑیوں میں لگے پھولوں سے اپنی خوراک ڈھونڈنے میں مگن رہتی ہے چھوٹے چھوٹے پھولوں سے اپنی خوراک حاصل کرنے والی اس تتلی کی سائنسی پہچان Clossiana euphrosyneہے ۔

Adonis Blue
انتہائی منفرد نیلے رنگ اور اس میں بنی سیاہ لکیروں میں ڈھلی اس تتلی کو باآسانی پھولوں میں شناخت کیا جاسکتا ہے کیوں کہ پھولوں میں نیلا رنگ نہایت کم یاب ہے اسی لئے تتلیوں کے شوقین حضرات کو عام طور پر اس تتلی کو شناخت کرنا خاصہ آسان ہوتا ہے چکنی مٹی اور چونے پر مشتمل میدانوں میں لہلاتے ہوئے مخصوص پھولوں سے رس چوسنے والی اس تتلی کا سائنسی نام Lysandra bellargusہے ۔

*انوکھی اور منفرد مونارک تتلی
خوبصور ت رنگوں پر مشتمل دلکش تتلی مونارک (Monarch)نے ماہرین حشریات اور سائنس دانوں کو اپنی یادداشت اور اڑنے کی صلاحیت کے حوالے سے ورطہ حیرت میں ڈبویا ہوا ہے مونارک تتلیوں کو ان کے مرکزی مسکن جنوبی امریکہ کے علاقوں کے علاوہ صرف نقل مکانی کی صلاحیت کی وجہ سے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، کینری آئس لینڈ، روس، سوئیڈن ، اسپین اور یورپ کے دیگر کئی جزائر میں دیکھا جاسکتا ہے نارنجی اور کالے پروں (Wings)سے سجی ان تتلیاں کے پروں کا پھیلاؤ 8.9سے 10.2سینٹی میٹر تک ہوتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ تتلیاں اگست کے مہینے میں بڑے جھنڈ کی شکل میں جنوب کی جانب سفر کرتی ہیں اور جاڑے کے موسم کے بعد موسم بہار میں شمال کی جانب اپنا سفر شروع کردیتی ہیں اس دوران مادہ تتلیاں اپنی انڈے مختلف علاقوں میں نسل بڑھانے کی غرض سے چھوڑ دیتی ہیں اور بالا آخر اکتوبر کے اختتام پر مونارک تتلیاں میکسیکو کے پہاڑی مقام پر پہنچ جاتی ہیں اپنے اس ہزاروں میل کے سفر کے دوران تتلیاں زمین کے لینڈ اسکیپ میں تبدیلیاں واقع ہونے کے باوجود بغیر کسی غلطی کے عرصہ دراز سے بالکل درست سمت میں سفر کرتے ہوئے میکسیکو پہنچتی ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران جو تتلیاں میکسیکو میں جنم لیتی ہیں وہ بالکل اسی راستے کو استعمال کرتے ہوئے واپس اپنے مسکن جا پہنچتی ہیں جسے ماہرین ایک حیرت انگیز عمل قرار دیتے ہوئے خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایسا شاید تتلیاں سورج کی شعاعوں اور ہوا میں موجود کیمیائی مادوں کو استعمال کرتے ہوئے کرپاتی ہیں اسی طرح جنوبی امریکہ میں پائی جانے والی مونارک تتلیاں حشرات کی واحد قسم ہیں جو بحریہ اوقیانوس کی دوسری جانب بھی موسمی تغیرات کے باوجود موجود ہیں کچھ مخصوص نسل کی مونارک تتلیاں اگر موسمی حالات صحیح ہوں تو جنوب مغرب کی جانب سفر کرتے ہوئے برطانیہ تک جا پہنچتی ہیں اس دوران وہ اپنے راستے کا تعین ایسے علاقوں سے کرتی ہیں جہاں پر انہیں خوراک ملنے کا یقین ہوتا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ ان تتلیوں کا ان علاقوں سے اس سے پہلے گذر بھی نہیں ہوا ہوتا چناچہ ماہرین کے لئے مونارک تتلیوں کی ہجرت کا لگا بندھا عمل ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

*آرٹ اور کھیل
اگر ہم فن مصوری کے قدیم اورجدیدادوار میں تتلیوں کے حوالے سے نقش نگاری یاتصاویر پر نظر ڈالیں تو علم ہوتا ہے کہ اکثر مصوروں نے تتلیاں کو صنف نازک سے تشبیہ دیتے ہوئے کئی مصوری کے شاہ کار بنائے ہیں جن میں شوخ رنگوں کا استعمال کرتے ہوئے امید سے بھرپور جذبات اور خیالات کی ترجمانی کی گئی ہے دور جدید میں امریکہ سے تعلق رکھنے والی ’کیلی مارفی‘ نے تتلیوں اور ان کے رنگوں پر زبردست مہارت کے ساتھ انتہائی خوبصورت پینٹگز بنائی ہیں ان کی مصوری کا موضوع تتلیوں کی مناسبت سے ’اڑتے ہوئے لعل و جواہر‘ ہے جس کی دنیا بھر میں کئی نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں اس کے علاوہ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والےJOHN ARTHURاپنی رومانوی تصاویر میں تتلیوں کو بطور علامت استعمال کرتے ہیں ،براعظم یورپ میں فطرت کے مناظر پر اپنی بنائی ہوئی خوبصورت تصاویر کے باعث شہرت رکھنے والی برطانوی مصورہ Myrea Pettitبھی اپنی تصاویر میں تتلیوں کی اڑان کو آذادی کا نشان قرار دیتی ہیں کینیڈا سے تعلق رکھنے والی مصور ہ KimTurnerنے بھی اپنی مصوری میں تتلیوں کے رنگ و روپ کا بھر پور استعمال کیا ہے کینیڈا ہی سے تعلق رکھنے والے Charles Sandwyk نے پرندوں، پھولوں اور تتلیوں کے باہم ملاپ سے مصوری کے Mixمیڈیم کو استعمال کرتے ہوئے کئی شاندار تصاویر بنائی ہیں حشرات کے منہ اور انسانی جسم کو باہم ملا کر خوبصورت تصاویر کے حوالے سے مشہور و معروف جاپان کے آرٹسٹ Ryu Takeuchiنے تتلیوں کو اس حوالے سے اپنا موضوع بنا کر اہم مقام حاصل کیا ہے برازیل کے شہر’ سانتا کیتارائن‘میں اپنے فن پاروں کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی Katharina Woodworth Emerim تتلیوں کی تجریدی انداز میں بنائی گئی تصاویر کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے ماضی کے آرٹسٹوں میں1895میں انگلینڈ میں جنم لینے والی Cicely Mary Barkerاور 1899میں جنم لینے والی Peg Maltbyجرمنی میں 1901میں پیدا ہونے والیSulamith Wulfingکے علاوہ انگلینڈ کے مشہور آرٹسٹ John Anster Fitzgerald جنکی تتلیوں ،پودوں اور پرندوں پر بنائی گئی تصاویر کی نمائش 1845سے 1902تک رائل اکیڈمی آف لندن میں منعقد کی گئی تھی ماضی کے ایسے شہرہ آفاق آرٹسٹ ہیں جنہوں نے اپنے تخلیقی کام سے پورے ایک عہد کو جگمگایا ہے۔ اس کے علاوہ جسم پر گودے جانے والے نقش و نگار) (Tattoosمیں خواتین کی اولین پسند بھی تتلیاں ہیں جب کہ کمپیوٹر گرافکس کے زریعے بنائے جانے والے Clip Artکے نمونوں میں بھی تتلیوں کے لاکھوں کی تعداد میں ڈیزائن موجود ہیں جنہیں ڈیجیٹل آرٹسٹ اکثر و بیشتر اپنی تخلیقات میں استعمال کرتے ہیں اسی طرح خوبصورت پتھروں اور ہیروں سے آراستہ جیولری کے ڈیزائنوں میں بھی تخلیق کارو ں نے تتلی کو ہمیشہ اہمیت دی ہے ۔

یہ حقیقت تو سب پر عیاں ہے کہ تتلیاں پانی سے کوسوں دور بھاگتی ہیں بل کہ تیز بارش میں تو تتلیوں کی اموات سب سے زیادہ ہوتی ہیں لیکن اگر ہم تتلیوں کے تناظر میں انجام دی جانے والی تعمیر ی اور تخلیقی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ تیراکی کے ایک اہم ترین ایونٹ کا نام ہی Butterflyہے جس میں مہارت کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سائنس کی ایک نسبتا نئی شاخ ’کیوس ‘(Choas)کی تھیوری بیان کرتے ہوئے سائنس دان Butterfly Effectکی اصطلاح استعما ل کرتے ہیں جس کے مطابق کسی بڑے واقعہ مثلا موسمی تبدیلی، جسمانی بیماری، اسٹاک ایکس چینج میں مندی یا تیزی وغیرہ کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ تتلی جیسے نازک پروں سے ہونے والا بظاہر معمولی انتشار یا ایسا کوئی بھی معمولی عمل ہوسکتا ہے اس کے علاوہ تتلیو ں سے متاثر ہوکر کئی ویڈیو /پی سی گیم بھی بنائے گئے ہیں جس میں اگلے سال نومبر میں مکمل ریلیز ہونے والے ویڈیو/پی سی گیم Butterfly Gardenکاشائقین کو شدت سے انتظار ہے کیوں کہ ایکس بوکس، ونڈوز وسٹا اور Wiiپلیٹ فارم کے لئے مائیکروسافٹ کی جانب سے پیش کئے جانے والے اس گیم کے Betaورژن نے شائقین سے پسندیدگی کی سند حاصل کر رکھی ہے واضح رہے اس گیم میں تتلیوں اور انسانوں کے درمیان رہن سہن اور ماحولیاتی حوالے سے زبردست Simulationپیش کی گئی ہیں ۔

حالیہ برسوں میں درختوں کے کاٹنے اور پودوں کے ختم ہونے سے جہاں ایک طرف درختوں اور پودوں کی شکل میں قدرت کا قیمتی تحفہ ختم ہوتا جارہا ہے تو دوسری جانب اس وحشیانہ عمل سے تتلی جیسے نازک حشرات الارض بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں تتلی جو عمل زیرگی میں اہم ترین کردار ادا کرنے کے علاوہ انسان کی حس لطافت میں اضافہ کا بھی باعث ہے وہ اس ماحولیاتی بگاڑ سے سب سے زیادہ متاثر ہے کیو ں کہ تتلیوں کی بقا کا انحصار صرف اور صرف پودوں اور پھولوں پر ہی ہے حتی کے وہ اپنی افزائش کے لئے بھی انڈے پھولوں اور پتوں پر دیتی ہیں اگر زمین پر سے پھول ہی ناپید ہوجائیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کے تتلیوں کی نسل میں اضافہ ہو لہذا ان اڑتے اور لہلاتے پھولوں کو جنہیں تتلی کہا جاتا ہے ضروری ہے کہ ان کے ماحولیاتی نظام میں کسی بھی قسم کے عدم توازن سے گریز کیا جائے تاکہ آنے والی انسانی نسلیں تتلیو ں کی معدوم نسلوں کو صرف تصویروں اور کہانیو ں ہی میں نہ یاد کریں ۔
ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 109902 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More