ایم کیو ایم کی سیاست، سمجھ سے باہر

ایم کیو ایم نے پچھلے پچیس سال میں اپنے آپ کو کراچی اور حیدرآباد کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر منوایا ہے اور اب وہ اپنا دائرہ اثر ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیلانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ ایم کیو ایم کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ نا مساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف خود کو قائم رکھا بلکہ اپنے حلقئہ اثر کو بڑھاتی بھی رہی۔ علاوہ ازیں ایم کیو ایم نے ہمیشہ اپنی سیاسی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، ہر موقع پر اپنی سیاسی چالوں سے مخالفین کو زچ رکھا۔ ایم کیو ایم کے مخالفین بھی وقتاً فوقتاً مختلف انٹرویوز اور ٹاک شوز میں اس کے قائدین کی تعلیم، ذہانت اور سیاسی شعور کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

مگر کچھ عرصے سے ایم کیو ایم کے سیاسی اقدامات بالکل سمجھ سے باہر ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں ایم کیو ایم کی طرف سے دینی مدارس اور اس کے عملے کی رجسٹریشن کروانے کا منصوبہ سامنے آیا جو ایم کیو ایم کی خوش قسمتی کے باعث شروع بھی نہ ہو سکا ۔ میرے نزدیک یہ حق صرف حکومتِ وقت کو حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ادارے اور اشخاص کو رجسٹر کرے اور ان کے ریکارڈ کو محفوظ طریقے سے رکھے تاکہ یہ معلومات غلط طور پر استعمال نہ ہو سکیں۔ ایم کیو ایم یا کسی اور غیر ریاستی قوت کو حق نہیں پہنچتا کہ پاکستانی شہریوں کی معلومات ان کی مرضی کے بغیر حاصل کرے۔ اگر ایم کیو ایم یا کسی اور جماعت کو شک ہے کہ کچھ مدارس غیر قانونی اقدامات میں ملوّث ہیں تو ان کے خلاف پولیس کو اطلاع دینا ہی بہتر اور قانونی راستہ ہے۔

کراچی میں سرگرمِ عمل مدارس کی بٹری تعداد مذہبی سیاسی جماعتوں سے یا تو الحاق رکھتی ہے یا کم از کم فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہمدردی ضرور رکھتی ہے۔ اس صورت میں جبکہ دینی مدارس آپ کی مخالف سیاسی قوت بھی ہوں تو ان کے خلاف اس طرح کی مہم چلانے کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ سوچیں اگر 90 کی دہائی کے آپریشنز کے دوران مذہبی اور سیاسی جماعتیں، ایم کیو ایم کے کارکنوں کی فہرستیں تیار کر کے ریاستی اداروں کے حوالے کرنا شروع کر دیتیں تو حالات کسقدر زیادہ خراب ہو سکتے تھے۔

اگر ایم کیو ایم کی شکایت تسلیم بھی کر لی جائے کہ کچھ دینی مدارس غیر قانونی سر گرمیوں میں ملوث ہیں تو بھی یہ امر حیران کن ہے کہ صوبائی حکومت میں موثر نمائندگی کے باوجود بھی ایم کیو ایم آئینی اور قانونی راستوں سے ایسے مدارس کی روک تھام کے بجائے ایک ایسے طریقے کی سفارش کررہی ہے جو آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے کارکن اس طرح کی سرگرمیوں کے لئے تربیت یافتہ نہیں ہوتے لہٰذا اگر یہ مہم انتہائی نیک نیتی سے بھی چلائی گئی تو بھی زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ جذباتی اور نا تجربہ کار کارکن اس نازک ترین معاملے کو بری طرح ' مس ہینڈل' کر سکتے ہیں۔ اور اس طرح کا صرف ایک واقعہ بھی نہ صرف پوری مہم کی ساکھ برباد کر سکتا ہے بلکہ اس کے جواب میں وہ طوفان بھی اٹھ سکتا ہے کہ جس کے سامنے شائد آج کل ہونے والی ٹارگٹ کلنگ بھی امن و امان کا مثالی دور لگنے لگے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج تو سارا ملک، کراچی میں پستول اور بندوقوں سے ہونے والی لڑائی پر ہی نوحہ کناں ہے اور ایم کیو ایم کی ایک بے احتیاطی کی وجہ سے کراچی ، پختونخواہ یا بلوچستان کی طرح راکٹ لانچرز اور توپوں سے ہونے والی رزم گاہ میں تبدیل نہ ہو جائے۔

آخر میں ایک سوال، کہ ایم کیو ایم نے شروع ہی سے ہمیشہ اپنی سیاسی مہارت کا لوہا منوایا ہے مگر پچھلے 6 سالوں میں آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ ایک کے بعد ایک ایسا فیصلہ سامنے آتا ہے کہ ایم کیو ایم کی پوری قیادت اس کا دفاع کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اور زیادہ تر حالات میں اپنے اقدامات کو واپس لینے پر مجبور جاتی ہے؟ آخر ایم کیو ایم کی قیادت میں ایسی کون سی تبدیلی آئی ہے کہ اچھا مشورہ دینے والے اور عمدہ سیاسی منصوبہ بندی کرنے والے لوگ ناپید ہو گئے ہیں؟ بہتر ہو گا کہ انتہائی ٹھنڈے دل اور ہوشمندی سے اس کا جواب ڈھونڈ لیں ورنہ کراچی والے ، کہیں ایم کیو ایم کو بھی پچھلی جماعتوں کی طرح ( جو کراچی کی نمائندگی کی دعویدار ہوا کرتی تھیں) مسترد نہ کر دیں اور ایم کیو ایم کے پاس بھی ان جماعتوں کی طرح ماضی کی حسین یادوں کے سوا کچھ نہ بچے۔
MAQ
About the Author: MAQ Read More Articles by MAQ: 23 Articles with 21803 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.