اصلی چاندی اور سونا

گذشتہ دنوں ایک قریبی شادی کے سلسلے میں میں بذریعہ سڑک اسلام آباد سے کراچی جانے کا اتفاق ہوا سفر نہایت اچھا،تفریحی اور معلوماتی رہا اور اس بات پر یقین پختہ ہوا کہ پاکستان کتنے ہی لاینحل سیاسی مسائل کا شکار کیوں نہ ہو ایک عام پاکستانی چاہے وہ شہری ہو یا دیہاتی پاکستان کے اچھے اور سنہرے مستقبل سے مایوس ہرگز نہیں ہے۔ الحمد للہ وہ محنتی بھی ہے اور ملک و قوم سے مخلص بھی۔ کسی حد تک مایوس ضرور ہے مگر وہ مایوسی ابھی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں تبدیل نہیں ہوئی ہے۔

پاکستان کے زرعی شعبہ جس کا براہ راست تعلق گاﺅں اور دیہاتوں سے ہے سخت جان فشانی اور محنت سے کام کررہا ہے اس کا ثبوت جی ٹی روڈ اور شاہراہ کے دونوں اطراف پائے جانے والے کھیت اور کھلیان ہیں۔ لہلہاتے ہوئے یہ کھیت اور باغات پاکستان کا حال بھی ہیں اور اس کا مستقبل بھی ان ہی میں پوشیدہ ہے۔

ہمارا ملک بنیادی طور پر زرعی ملک ہے کشمیر کی بلندیوں سے لے کر کراچی سمندر کی گہرائیوں تک تمام مقامات کی زرعی ترقی ہی ہمیں بے مثال کامیابی اور خود مختاری عطا کرسکتی ہے یہ بات ایک حقیقت ہے کہ آبادی کا بیشتر حصہ دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں رہتا ہے جو کہ بہت محنتی، جفاکش اور ملک و قوم سے پرخلوص ہوتے ہیں لیکن دیہی آبادی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کوئی بھی ذمہ داری کسی بھی سطح پر پُرخلوص نظر نہیں آتا ہے۔

جو ملک کبھی زراعت میں خود کفیل نظر آتا تھا اب کبھی گندم درآمد کرتا ہے کبھی چینی اور اس پر کثیر زرمبادلہ خرچ کرکے کرپشن کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کرتا دھرتا بہتی گنہگا میں ہاتھ دھوتے ہیں اور عوام بے چارے کف افسوس کرسکتے ہیں اور غربت کی چکی میں پستے ہیں۔

دور سے کپاس کے کھیتوں کا منظر بہت ہی دلکش نظر آتا ہے تاحد نظر ایسا محسوس ہوتا ہے سفید چادر تان دی گئی ہے یا پھر آسمان سے بادلوں کا قافلہ زمین کی سیر کو اُترآیا ہے۔ یہی سفید گالے ہماری اصلی چاندی ہے اور مستحکم پاکستان کی کلید ہے اس کی حفاظت اور پیداوار میں اضافہ کی کوششیں ہمارا فرض ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ان دنوں جب کہ کپاس کی فصل پک کرتیار ہے اور کٹائی کے مراحل میں ہے اس کے نقل و حمل کے طریقہ کار پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے کپاس کو ٹرکوں، سوزوکیوں اور کھلی گاڑیوں میں بھر بھر کر فیکٹریوں تک پہنچایا جارہا ہے اور کھلے ٹرکوں پر لدے سفید چاندی کے یہ گولے تیز ہوا کے جھونکوں سے اُڑاُڑ کر بری طرح ضائع ہورہے ہیں ہم اپنی چاندی جیسی دولت سے محروم ہورہے ہیں۔ ایسے مناظر اس شاہراہ عام پر ہیں اگر نقل و حمل کے ذریعے پر ذرا سی توجہ دی جائے تو ہم انتہائی مشقت سے حاصل ہونے والی اس چاندی کو باآسانی بچا کر محفوظ کرسکتے ہیں۔ کرم آباد، ترانڈہ اور رحیم یار خان پر روڈ کے دونوں اطراف گنے کے لہلہاتے پیڑ نظر آتے ہیں چونکہ موسم کٹائی کا تھا گنے کٹائی کے بعد ٹرکوں پر لوڈ کئے جارہے تھے۔ یہ تمام کے تمام ٹرک اور لوڈرز کھلے ہوئے تھے جن پر کسی قسم کا ترپال یا کور ڈالنے کا کوئی انتظام نہ تھا اور جیسے ہی کسی ٹول پلازہ یا رش میں ٹریفک بلاک کے دوران ٹرک کی رفتار کم ہوتی قریبی گاﺅں کے کچھ نو عمر اور جوان لڑکے لپک کر آتے اور انتہائی تیز رفتاری سے گنے ٹرکوں پر سے کھینچ کھینچ کر روڈ پر ڈال دیتے 8سے 10کی تعداد میں یہ لڑکے بلامبالغہ درجنوں گنے ڈرائیوروں کی لاعلمی میں نکال کر ضائع کررہے تھے یہ مناظر بھی ٹول پلازہ پر اور ٹرک کے رفتار آہستہ ہونے پر جابجا نظر آئے۔

سکرنڈ، سانگھڑ اور نواب شاہ میں کیلوں کے باغات بھی ان مہینوں میں جوبن پر ہیں لہلہاتے ہوئے باغات محنت کشوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں مگر نقل و حمل کے لئے انہیں بھی کھلے ٹرکوں اور سوزوکیوں میں ڈال کر لے جایا جارہا ہے جس سے ان کیلوں کی کوالٹی اور کوانٹٹی دونوں کم ہورہے ہیں۔

وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے گندم کے کھیت بھی قدرت کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت ہیں مگر انسانی ہاتھوں کی کرامات تک پہنچتے ہی ان کی حفاظت اسٹوریج اور ترسیل کا کوئی مناسب اور محفوظ طریقہ کار نظر نہیں آتا ہے سونے کی یہ بالیاں اگر صحیح معنوں میں ان کی حفاظت کی جائے تو یہ نہ صرف ہماری خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے کافی ہوں گی بلکہ ہم اسے برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

65برس گزرگئے مگر ہم اپنی زمین سے اُگلتے اپنے سونے اور چاندی کی حفاظت اور ترسیل کا کوئی مناسب طریقہ کار وضع نہیں کرپائے ہمارے ملک کی چاندی ہواﺅں میں اُڑا کر اورپیروں میں رل رل کر ماتم کررہی ہے تو گندم کی سونے کی بالیاں کھلے آسمان تلے پڑی کراہ رہی ہیں کف افسوس سب کے لئے مقام ندامت ہے ہم اپنے سونے اور چاندی کی حفاظت سے غافل ہیں۔

اگر مقامی طور پر بڑے بڑے اسٹوریج بنا دیئے جائیں تو ہم اپنی پیداوار کا بیشتر ضائع ہونے والا حصہ بچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کھلے اور غیر محفوظ ٹرکوں پر گندم، کپاس اور گنوں کی نقل و حمل کے بجائے بند اور محفوظ ٹرکوں کا استعمال کرکے سفید کپاس کے گولوں کو ہا میں اُڑکر ضائع ہونے سے اور بارش میں بھیگ کر بے کار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

پیدوار کی بڑھوتی کی اہمیت اپنی جگہ مگر حاصل ہونے والی پیداوار کی حافظت کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے ہم اپنے اصلی سونے اور چاندی کی حفاظت سے غافل ہیں۔

حکمران صرف بلند و بانگ دعوﺅں زبانی کلامی مسائل کی ان دیکھی نادیدہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

زراعت کی ترقی اور فصلوں کی حفاظت کے عمل کو فروغ دینے کےلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی زرعی پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کریں زرعی تعلیم کے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور زرعی تحقیقات کے مراکز قائم کئے جائیں۔ زراعت کے لئے جدید زرعی آلات کا حصول آسان بنایا جائے کاشت کاروں کو سہولیتیں مہیا کی جائیں پانی کی تقسیم کا منصفانہ نظام بنایا جائے جو فرد واحد کے بجائے کاشت کاروں کے اجتماعی مفاد میں ہو۔ خام مال کی ترسیل اور دوران ترسیل ان کی حفاظت کا معقول انتظام کا طریقہ کار وضع کرکے ہم اپنے ملک کے اصل سونا اور چاندی کو بچا کرملک کو خود کفالت کی منزلوں تک پہنچاسکتے ہیں ملک کی ترقی اور زراعت کی ترقی کا دراصل چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر ہمارے حکمران اور متعلقہ ادارے چاہیں تو بلند و بانگ زبانی کلامی دعوے کرنے اور دوسروں کے اوپر نکتہ چینی کرنے کے بجائے اپنے اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے صرف اپنے شعبہ سے پر خلوص ہو جائے تو بہتری اور ترقی بہت واضح طو رپر نظر آئے۔

اللہ رب العزت ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے،بلند وبانگ دعوے کرنے اور نیچا دکھانے کے مظاہرے کرنے کے بجائے جلسے، جلوس اور ریلیوں پر کثیر رقم خرچ کرنے کے بجائے اپنے اپنے دائرہ کارہ میں رہتے ہوئے اپنااپنا کردار ادا کرنے کی وفیق عطا فرمائے اور ملک و قوم کے اصلی سونے اور چاندی کی حفاظت کی جائے کہ زرعی خود کفالت ہی ہماری ترقی کا پہلا زینہ ہے۔
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44798 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.