فسادی "مجاہدین"

گذشتہ دنوں ہندوستان میں ایک مبینہ پاکستانی دہشت گرد جس کو فرضی یا "نفلی" طور پر اجمل قصاب کا نام دیا گیا، پھانسی گھاٹ پر لٹکا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق پاکستان کی ایک جہادی تنظیم سے تھا اور وہ تربیت یا فتہ "مجاہد" تھا۔ ممبئی حملوں کے بعد جب اس نے پاکستانی جہادی تنظیم کے ساتھ اپنے تعلق ظاہر کیا تو پاکستان میں موجود اس تنظیم کے رہنماؤں نے اس کو اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے نا صرف عاق کر دیا ۔ حتٰی کہ اس تنظیم نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم تو جہادی سرگرمیوں میں کبھی ملوث ہی نہیں رہے۔ مگر کون نہیں جانتا کہ اس ملک کے طول و عرض میں در و دیوار اور عام شاہرات پر ہر طرف مختلف لشکر، تنظیمات اور جہادی تربیت گاہوں ،ان کے مجاہدین اور امیر المجاہدین سے منسوب وال چاکنگ کی بھر مار رہی ہے۔

میٹرک کے دوران ہمارے سکول میں مورننگ اسمبلی میں لمبی لمبی داڑھیوں، اونچی شلواروں اور جہادی جیکٹوں میں ملبوس نوجوان آکر ہمیں دعوت و فکر جہاد دیتے رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری تھا اور سکولوں کالجوں کی انتظامیہ انہیں بڑے فخر سے اجازت بھی دیتی تاکہ مسلمان بچوں میں جذبہ جہاد پیدا ہو۔ مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس جہاد کو نا تو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہے اور نا ہی شرعی اور فقہی لحاظ سے اس کا کوئی جواز موجود تھا۔ آج وہی جہاد پاکستان کو عبرت ناک سبق سکھا رہا ہے۔ کشمیر کا جہاد تو رک گیا مگر اس جہاد کے عملی تجربے اب پاکستان میں ننھے بچوں کی زندگیوں کے ساتھ ہو رہے ہیں، کوئی ماں گود خالی لئیے بیٹھی ہے ،کوئی بہن بھائی کی منتظر، دلہن سہاگ اجاڑ بیٹھی، بوڑھا باپ پتر کے انتظار میں آنکھیں پتھر کئیے بیٹھا ہے اور چمن میں آنے والے تازہ پھول ان کی آبیاری کرنے والے بابا کے منتظر۔۔۔پھر خبر یہی ملتی ہے کہ خودکش حملہ میں بھیا، میرا جگر، مجھے ناز و نعم بخشنے والا بھائی، میری کل کائنات، میری زندگی کا وارث اپنی زندگی ہار گیا۔

یہ بات بھی اب واضح ہو چکی کہ جہاد کے نام پر جمع ہونے والا چندہ پاکستان اور اسلامیانِ پاکستان کے خلاف ہی استعمال ہوتا رہا ہے۔ کبھی کسی اجتماع میں تو کبھی کسی امریکہ مخالف ریلی میں۔ اس جہادی چندے کا استعمال شرک و بدعت کے بارے آگاہی اور شعور پیدا کرنے کے لئیے بھی استعمال ہوا اور سرکاری و شاملاٹ کی اراضی پر زبردستی کی مسجد تعمیر کرنے کے لئیے بھی۔ جہاد کے اس سفر پر اکثریت ان نوجوانوں کی نظر آئی جو کم علم، غریب طبقہ، آوارہ گرد، والدین کے نافرمان، جنونی ذہن، شرعی علوم سے بے بہرہ، فقہِ اسلامی سے نابلد اور ملکی قوانین سے ناواقفیت جیسی منفی صفات کے حامل تھے۔ یہ نوجوان جذباتی گفتگو سنتے اور ان کے جہادی کمانڈر انہیں بتاتے کہ کشمیر میں ہماری ماؤں بہنوں کی عزتیں لٹ رہی ہیں، ہمارے ننھے منے بچوں کو شہید کیا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ گفتگو سن کر نوجوان کشمیر کے جہاد میں شریک ہونے کے لئیے تیار ہوجاتے اور والدین، شریعت اور ریاستی قوانین کی پرواہ کئیے بغیر آنکھوں پر گمراہی اور جذبات کی پٹی باندھے کشمیر روانہ ہو جاتے، اس احمق مجاہد کو کون بتائے کہ کشمیر کی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کرنے چلا گیا مگر اس کے اپنے گھر میں نا تو ماں سلامت رہی، نا بہنوں کے سر پر سایہ رہا اور بوڑھا باپ عمر کے آخری حصہ میں جھکی ہوئی کمر کے ساتھ گھر کی رکھوالی کرتا رہا۔

آج پاکستان کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے، فرقہ پرستی، مذہبی بنیادوں پر قتل، ایک دوسرے کی مساجد پر قبضے اور کفر و شرک کے فتوے جاری کرنے کا بزنس بہت سستا اور عام ہو چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان اور روس کی جنگ سے پہلے ہمارے ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ قتل وغارت نا ہونے کے برابر تھی۔ مگر جب سے جہادیوں نے فنڈ اور چندے جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا تب سے بے گناہوں کا خون پاکستان کے گلی کوچوں میں بہہ رہا ہے۔ 2005 کے زلزلے میں پاکستان کے شمالی علاقوں اور کشمیر کے متعدد اضلاع میں ان جہادی تنظیموں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ مدد اور خیرات کی شکل میں ایک نئے کاروبار نے جنم لیا، جہادی چندے سے کئی ایسی مساجد پر قبضہ کیا گیا جو شہید ہو گئی تھیں، جس سے مسالک کے درمیان نئی لڑائی کا آغاز ہوا۔ متاثرینِ زلزلہ کی مدد اور ان کے بچوں کو تعلیم کی فراہمی کے نام پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر سکول اور مدارس بنائے گئے اور مزید بنائے جا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ مستقبل قریب میں اس وقت سامنے آئے گا جب پاکستان کی مزید ایک نسل انتہا پسندی اور شدت پسند ذہنیت کے ساتھ سامنے آ کر پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ بنے گی۔

ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہی کہ ان تنظیموں کے پاس اس قدر دولت کہاں سے آئی؟؟؟

بہت گہرا سوال ہے، کچھ لوگ جانتے بھی ہیں اور جو نہیں جانتے وہ اب جان لیں۔ کیا آپ کو بھول گیا کہ جب آپ کے محلے کی مسجد میں ایک مجاہد یا علامہ صاحب آ کر نعرے لگوایا کرتے تھے کہ ہم نے روس کے ٹوٹے کر دئیے ہیں اور اب ہم انڈیا کو توڑ کر دم لیں گے، اب ہم کشمیر کو آزاد کروائیں گے،پھر ہم فلسطین، چیچنیا، سربیا، بوسینیا اور دیگر مسلم مقبوضہ ریاستوں کو آزاد کروائیں گے۔ تب ہماری مائیں بہنیں ان کے نرغے میں آجاتی تھیں، اپنا زیور تک اتار کر دیا ہماری عورتوں نے، کشمیری مظلوموں کی داستانیں اس قدر دردناک انداز میں پیش کی جاتی تھیں کہ لوگ خود بھوکے رہ جاتے مگر ان مجاہدوں کی تواضع دیسی مرغوں کے ساتھ کی جاتی تھی، جب فصلیں پکتی تھیں تو لوگ گندم ، چاول اور دیگر اناج ان کو بطور صدقہ دیتے تھے۔ فطرانہ، قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور فیکٹریوں سے زکوٰۃ تک ان مجاہدوں نے سمیٹی۔ پاکستان کے کچھ قریبی دوست ممالک بھی اب کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس جہاد نے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچایا؟ یہ جہادی تنظیمیں اگر سچی ہیں تو ان پر پاکستان میں پابندی کیوں لگ گئی؟ انہوں نے اپنے نام کیوں تبدیل کئیے؟ یہ تنظیمیں جہادِ کشمیر کی علمبردار تھیں، انہوں نے اس جہاد کو ادھورا کیوں چھوڑ دیا؟ دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے وہ مجاہد آج کروڑوں کی بلٹ پروف گاڑیوں کی مالک کیسے بن گئے؟ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ ان تنظیموں کے سربراہان و کارکنان اپنی آمدنی کے ذرائع ظاہر کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کشمیر کے جہاد کے نام پر جمع کیا جانے والا چندہ انہوں نے کہاں استعمال کیا؟ جن نوجوانوں کو انہوں نے جہادی تربیت فراہم کی، پھر وہ جہاد پر نا بھیجے گئے، وہ نوجوان اب کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ آج تک جتنے خود کش حملہ آور اور دہشت گرد پکڑے گئے ان کا تعلق کن تنظیموں اور فرقوں سے ہے؟ جن نوجوانوں کی جوانی انہوں نے اسلام کی غلط ترجمانی کرنے میں ضائع کر دی ان کے روزگار کا اور ان کے لواحقین کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو ریاست کو پوچھنے چاہئیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ قانون کی دھجیاں اڑانے والی حکومتِ پاکستان سب کچھ جانتی ہی، حکومت کے پاس تمام معلومات ہیں، پاکستان میں اسلام کو کون نقصان پہنچا رہا ہے، فرقہ وارانہ دہشت گردی کون پھیلا رہا ہے، یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے، مگر کس منہ سے پوچھیں، حکومت اپنی گرفت اس وقت تک مضبوط نہیں کر سکتی جب تک وہ خود قانون کی تابع نا ہو جائے۔

اہل، وطن سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جہاد اور فساد میں فرق کو سمجھیں، پر امن اور مستند علماء کی قربت اختیار کریں، اپنے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کیجئیے، جس دل میں رحمۃ اللعالمینﷺ کی محبت ہو وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ اسلام کو سمجھئیے، مسلمان اور شیطان کا فرق سمجھئیے۔ مولوی صاحب کی بھڑکیں اور شعلہ بیانی سن کر جوش میں نا آئیے بلکہ اپنا ہوش قائم رکھئیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں فکر کی دعوت دی ہے۔ جہاد اسی وقت فرض ہوتا ہے جب حکومتِ وقت اس کا حکم دے یا پھر علماء حق اس کے لئیے فتویٰ جاری کر دیں اور یہ فتوٰٰی جارے کرنے والے علماء حق تب ہی ہو سکتے ہیں جب انہیں اس فتوٰی کے جاری کرنے کے بعد اس پر کوئی افسوس نا ہو۔ جہادِ کشمیر کے لئیے فتوٰی جاری کرنے والے کئی ابن الوقت مفتی اب منہ چھپا رہے ہیں۔
Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 237703 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More