غزہ:سروں سے جبر کا موسم کبھی ٹلے تو سہی

محرم الحرام میں اس سال غزہ کے دلیر مسلمانوں نے عملاً شہدائے کربلا کی یا تازہ کر دی ۔غزہ پھر ایک بار اسرائیلی بمباری کی زد میں ہے ۔؁۲۰۰۸ کے بعد یہ اسرائیل کا سب سےبڑا حملہ ہے لیکن ان چار سالوں میں مختلف سطح پرجو تبدیلی واقع ہوئی اس کا اندازہ اس دوران رونما ہونے والے مختلف واقعات سے لگایا جاسکتا ہے مثلاًبمباری کے پانچویں دن جبکہ ۶۵ مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور ان میں اکثر نہتے شہری ہیں غزہ شہر کے اندر اپنے بچوں کی خاطر انڈے اور چاکلیٹ لے کر لوٹتے ہوئے ایک عام آدمی علی الاحمدسے جب اخبارنویس نے پوچھا کہ تمہیں کیسا لگتا ہے تو اس کا جواب تھا ‘‘دہشت ناک،ایسا مجھے محسوس ہوتا ہے۔ لیکن سرحد کی دوسری جانب وہ لوگ بھی خوفزدہ ہیں ’’ اس نے اعتماد کے ساتھ کہا ‘‘ سچ تو یہ ہے کہ میں یہ سمجھنے لگا تھا حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ و جدال بھول چکی ہے مگر وہ میری غلطی تھی ’’۔ بمباری کی گونج کے درمیان علی کے اس رد عمل کے ذریعہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے غزہ کا ماحول کیسا ہے اور عام لوگ کیا سوچتے ہیں ؟علی آگے کہتا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملہ کردیا تو سیکڑوں شہری مارے جائیں گے لیکن جن وہ واپس لوٹیں گے تو ہمارے راکٹ ان کا پیچھا کریں گے اس طرح بالآخر وہی ناکام ہوں گے ۔

تلال اوکال ایک مصری دانشور ہیں جو ماضی میں حماس سے برگشتہ رہاکرتے تھے لیکن اب ان کا کہنا کہ ہم حماس کو سلام کرتے ہیں اس لئے کہ اس بار وہ منظم نظر آرہے ہیں ۔ وہ اپنے مقاصد میں کامیابی کی قیمت چکانے کیلئے تیار ہیں اورآج ہرشخص ان کی ستائش کرنے پر مجبور ہے ۔ یہاں تک کہ محمود عباس نےجو حماس کے سیاسی حریف ہیں اور موقع بے موقع حماس پر برستے رہتے ہیں اس بار حماس کے رہنماوں سے رابطہ قائم کیا اور ان کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اسی کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ فوری جنگ بندی کی بھرپور کوشش کریں گے ۔ حماس کے ترجمان سامی ابو زہری کے مطابق ہمیں اپنی مزاحمت اور اعلیٰ درجہ کی صلاحیت پر ناز ہے جس نے دشمن کو مبہوت کردیا اور اندر گھس کر حملہ کیا ۔اگر اسرائیل ؁۲۰۰۹ کی طرح فوج کشی کرتا ہے تو اس کا جواب دینے کیلئے حماس کے پاس ٹینک اور بکتربند گاڑی نہیں لیکن اس اس کے پاس ٹینک شکن میزائل ضرور ہیں جو دشمن کو حیرت زدہ کردیں گے ۔ حماس کے مسلح بازو القسام بریگیڈ کے ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ مرتبہ ۲۲ دنوں تک مزاحمت کی اس بار ہم اسے مزید طول دے سکتے ہیں مگر اسرائیلی فوجی دیر تک مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ یہ صہیونیوں کے خلاف آخری لڑائی نہیں ہے ہم نے ان کے اس دعوے کو غلط ثابت کردیا ہے کہ وہ ہماری فوجی طاقت کو پوری طرح ختم کرچکے ہیں ۔

غزہ کے مجاہدین نے اس بار جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ غیر معمولی ہیں ۔ پہلے یروشلم اور پھر تل ابیب پر گولہ باری جس ایک گولہ امریکی سفارتخانے سے صرف ۲۰۰ میٹر دوری پر گرا اور اسرائیل کے بلند بانگ دعووں کا بھید کھل گیا ۔ اس کے بعد اسرائیل کے ایک ایف ۱۶،ایک اپاچی ہیلی کاپٹر اور دو ڈرونزبمباروں کا مارگرایاجانا اور اسرائیلی بحریہ کے ایک جنگی جہاز کو نشانہ بنانا ایسی باتیں ہیں جو اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ و یوروپ کے خواب و خیال سے پرے ہیں ۔ حماس کے عسکری شعبہ عزالدین القسام کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے تل ابیب اور بیت المقدس سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں پر ۹۰۰ حملے کئے۔ ترجمان ابوعبیدہ نے دعوی کیا کہ ان کے القسام ائر ڈیفنس یونٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ بھی مار گرایا جو غزہ سے متصل سمندر میں جا گرا۔ نیز دو اسرائیلی ڈرونز بھی مار گرانے کا دعوی کیا ہے۔ ابوعبیدہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اسرائیل کے اہم اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ ان میں بری اور فضائی فوج کی چھاونی اور ہیلی پیڈز شامل ہیں۔ ہمارے حملوں کے خوف سے پانچ ملین اسرائیلی شہری زیر زمین بنکروں اور محفوظ پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ نیز القسام نے غوش عتصیون کے اہم فوجی مرکز پر بھی میزائل سے حملہ کیا ۔ مجاہدین نے غزہ سے تین کلومیٹر دور ایک فوجی جیپ گھات لگا کر تباہ کی۔ حملے کے بعد اسرائیلی امدادی کمک کئی گھنٹے بعد جائے حادثہ پر پہنچ سکی۔

اس سےقبل؁۲۰۰۸کی اسرائیلی جارحیت میں ۱۴۰۰ فلسطینی شہید ہوئے تھے اور صرف ۱۳ اسرائیلی مارے گئے تھے اس کے باوجود کئی مسلم ممالک نے الٹا حماس کی گولہ باری کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا ۔مصر کے حسنی مبارک نے اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے رفاہ کی شاہراہ بند کر دی تھی لیکن اس بار دوران جنگ اسی شاہراہ پر سفر کرکے مصر کے وزیر اعظم ہشام قندیل نے غزہ کا دورہ کیا ۔اس کے بعد تیونس اور مصر کے وزرائے خارجہ اور ان کے پیچھے ترکی کے وزیر خارجہ احمد دفغلو بھی غزہ کی جانب نکل کھڑے ہوئے ۔عرب لیگ کا ایک وفد بہت جلد غزہ کا دورہ کرنے والاہے اور تو اور سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے بھی اسرائیل کی سخت مذمت کی ۔سعودی وزیر ِخارجہ ڈاکٹر نزار بن عبید مدنی نے قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی پر خاموش تماشائی رہنے کا کوئی جواز نہیں ۔ جارحیت کے مرتکب صہیونیوں کو اپنے جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔سعودی وزیر نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے اور ان کی تمام تر ذمہ داری صہیونی حکومت پر عائد ہو گی۔یہ مثبت تبدیلی اس بات کی غماز ہے کہ جبر کا سور ج کے ڈھلنے کا وقت قریب آلگا ہے بقول شاعر ؎
جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر
سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی

مراکشی فرمانروا شاہ محمد ششم نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو نہایت المناک اور افسوسناک قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر رکوانے کا مطالبہ کیا ہےاور غزہ کے جنگ سے متاثرہ محصور عوام کی ہنگامی مدد کے لیے شہر میں فیلڈ اسپتال قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مراکشی فوج کے زیر انتظام مجوزہ ہسپتال میں زخمیوں کی فوری سرجری، ہنگامی علاج اور ابتدائی طبی امداد سمیت عام مریضوں کو بھی علاج کی سہولت فراہم کی جائے گی۔اس کے علاوہ مصر سے ۵۵۰ رضاکاروں پر مشتمل ایک کل جماعتی یکجہتی وفد جس میں مختلف نظریات کی حامل جماعتوں کے لوگ شامل ہیں غزہ کے لوگوں کی مدد کیلئے پہنچ گیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے مصر کی مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات سے علی الرغم فلسطینیوں کی حامی ہیں لیکن ان پر مسلط غلام ذہنیت کے فرمانروا نے انہیں روک رکھا تھا اب جبکہ اسلام پسندوں اس جبر کو ختم کردیا امت محمدیہ کے اندر دبا ہوا جذبۂ اخوت و محبت ابل پڑا اور مسلمانوں ایک جسم کی طرح سرحد پار کے اپنے بھائیوں کا درد محسوس کیا اور اپنا دستِ تعاون دراز کیا بقول اقبال ؎
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بناء ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے

قاہرہ فی الحال سفارتی کوششوں مرکز بنا ہوا ہے ۔ ابتدا عرب لیگ کا اجلاس سے ہوی اس کے بعد رجب طیب اردغان قاہرہ پہنچ گئے جہاں انہوں نے اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئےکہاکہ اسرائیل کو معصوم عوام کی ہلاکت کا خراج چکانا ہوگا ۔ وزیر اعظم اردغان نے قاہرہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ فلسطینی نہ کبھی جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے ۔ اس تقریرکو براہِ راست ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔قاہرہ آتے ہوئے انہوں نے کہا تھا اسرائیل نے پہلے جنگ بندی کو پامال کیا اب اس کی دہائی دے رہا ہے ۔اس کے بعد غزہ کے دورے سے قبل ترکی وزیر خارجہ احمد دفغلو نے قاہرہ میں حماس کے رہنما خالد مشعل سے ملاقات کی ۔ اس بیچ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون بھی صدر محمدموسی سے ملاقات کی غرض سے قا ہرہ پہنچ گئے ۔ درایں اثنا اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان غزہ کی پٹی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس میں اسرائیل اور فلسطینی نمائندے شریک ہوئے۔احمد دفغلو نے امریکہ کی خارجہ سکریٹری ہیلری کلنٹن سے بھی رابطہ قائم کیا تاکہ اس جارحیت پر روک لگائی جاسکے ۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ اسرائیل اپنی من مانی کرتا رہتا تھا اور ساری دنیا خوابِ غفلت میں پڑی رہتی تھی لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے ۔ اس گفتگو میں اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ جنگ بندی سے قبل حماس گولہ باری بند کرے لیکن حماس نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا چونکہ حملہ کی ابتدا اسرائیل نے کی تھی اس لئے پہلے وہ اپنی بمباری بند کرے اس کے بغیر گولہ باری بند نہیں ہوگی ۔

ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا وہ اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے مغرب نے عرصہ دراز تک اسرائیلی جارحیت کا دفاع کیا لیکن اب اسے چاہئے کہ وہ فلسطینیوں کواپنی مقدر کافیصلہ خود کرنے دے ۔ایران کے نائب وزیرخارجہ حسین امیر عبدل لیہان نے ان کی تائید میں کہا کہ اگر اسرائیل اپنے فوجی حملے بند نہیں کرتا تو حماس سخت تر اقدامات کرے گا اور مجاہدین اسرائیل کا ناطقہ بند کردیں گے ۔ تل اببیب پر حملے نے اسرائیل کے اندازوں کوغلط ثابت کردیا ہے ۔ اسلامی بیداری نے اس خطے کے حالات بدل کر رکھ دئیے ہیں ۔حماس کے رہنما خالد مشعل نے قاہرہ آنے سے قبل سوڈان میں فرمایا اسرائیلی حملہ کا مقصد مصر اور دیگر مسلم ممالک کی نبض ٹٹولنا ہے۔وہ جاننا چاہتاہے کہ کیا اب بھی اس کیلئےماضی کی طرح اپنی بات منوا نا ممکن ہے یا نئے رہنماؤں کا نقطۂ نظر مختلف ہے ۔ ویسےاسرائیل کی اس حماقت نے ساری دنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ دنیا کس قدر بدل گئی ہے ۔ خالد مشعل نے فلسطینی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی جنگ کا ہوشیاری اور دلیر دلی کے ساتھ سامنا کریں کیونکہ اسرائیل کے ساتھ مڈبھیڑ طول پکڑ سکتی ہے۔مشعل کے مطابق اسرائیلی مہم کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ صہیونی اہالیاں غزہ کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ کمزور دشمن غزہ کو زیر نگین نہیں کر سکتا۔ ہم انہیں مار بھگائیں گے کیونکہ غاصب اسرائیل فلسطین کے اصل وارثوں کو دھمکا نہیں سکتا۔ وہ دور لد گیا جب اسرائیل، فلسطینیوں پر مظالم سے انہیں رخت سفر باندھنے پر مجبور کرتا تھا۔ جبری بے دخلی کا دور ختم ہو گیا۔ اب اسرائیل کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے۔

حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل، غزہ کے خلاف اپنی جارحیت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ کھلی جنگ میں آہستہ آہستہ تیزی آئے گی۔ ہم قابض اسرائیلیوں کے دھوکے میں مزید نہیں آئیں گے کیونکہ موجودہ حالات میں جنگ بندی کا ذکر دراصل غزہ پر اسرائیلی چڑھائی کو جاری رکھنے میں ڈھال کا کام کرے گا۔ اس بیان میں اسرائیلی حکمرانوں پر اس حملے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ خاصہ سنگین ہے۔ اس سے پہلے اسرائیلی حملہ عین انتخاب سے قبل ہوا تھا اور اس بار بھی یہی ہو رہا ہے ۔پہلے جلاد شالط کی رہائی کا بہانہ بنایا گیا تھا اب ان کو قبضہ میں رکھنے والے اور پھر ایک معاہدے کے تحت واپس کرنے والے احمد الجعبری کو شہید کیا گیا ہے ۔ یہ دراصل امریکی انتخاب کی بھونڈی نقل ہے۔ جارج بش نے انتخاب جیتنے کی خاطر عراق پر حملہ کیا اور کامیاب ہوگیا لیکن یہود اولمرٹ نے یہی کیا اور ناکام ہوگیا ۔ اوبامہ نے اسامہ کے ہم شکل کی ہلاکت کا ناٹک کیا وہ بھی کامیاب ہوگیا اب نتن یاہو احمد الجعبری کی شہادت کو انتخاب میں کامیابی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرے گا اور قوی امکان ہے کہ وہ بھی منھ کی کھائے گا۔ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک فرق یہ ہے کہ عیسائی بہت پہلے سوچتا ہے اس لئے کم سے کم نقصان سے بڑی سیاسی شعبدہ بازی دکھانے میں میں کامیاب ہو جاتا ہےاس کے برعکس یہودی آخری وقت میں ہاتھ پیر مارتا ہے اور بڑا نقصان کرکے بھی ناکام و نامراد ہو جاتا ہے ۔ مغرب کا اب یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ جب وہ سنگین داخلی مسائل میں گھر جاتے ہیں یا انہیں سیاسی و انتخابی فوائد حاصل کرنے ہوتے ہیں توا سلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے سے جہاد چھیڑ دیتے ہیں بقول شاعر ؎
کبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیں
تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے


اسلامی تحریک مزاحمت حماس کا مطالبہ ہے کہ غزہ کے خلاف جارحیت کا آغاز تو اسرائیل نے کیا لیکن اب اس جنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ تل ابیب کے اختیار میں نہیں رہا۔ فلسطینی قومی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی کوارڈی نیشن فی الفور ختم کیا جائے۔ عرب اور اسلامی ممالک مصر کے نقش قدم پر چلیں۔ یاد رہے کہ القسام بریگیڈ کے کمانڈر احمد الجعبری کی اسرائیلی میزائل حملے میں شہادت کے بعد بطور احتجاج قاہرہ نے تل ابیب سے اپنے سفیر عاطف سالم کو فوری طور پر واپس بلا لیا تھا۔ مصری صدر نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ قاہرہ میں اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کریں اور ان سے نہتے فلسطینیوں پر بلا اشتعال حملوں پر شدید احتجاج کریں۔ مصر نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر صورتحال پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو اس خطے کی سیکیورٹی کے لئے اس کے مضمرات اچھے نہیں ہوں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی اس طرح کی جارحانہ مہم کبھی بھی لمبے عرصے تک مؤثر نہیں رہی ہے۔ حماس کے بانی اور روحانی رہنماء شیخ احمد یاسین کی اسرائیل کے ہاتھوں شہادت اور اس کے فوراً بعد ڈاکٹر رنتیسی کے جامِ شہادت نوش فرمانے کے باوجودتنظیم نے ہتھیار نہیں ڈالے اور اب بھی حماس کی جانب سے اسرائیل پر اس وقت تک راکٹ داغے جائیں جب تک کہ جنگ بندی کے معاہدہ نہیں ہو جاتا۔

اسرائیل کی تازہ جارحیت کا آغاز حماس کے عسکری بازوالقسام کے سربراہ احمد الجعبری پر اسرائیلی میزائل حملے سے ہوا۔ شہید احمد الجعبری ایک ہفتہ قبل حجاز سے مناسک حج ادا کر کے لوٹے تھے۔احمدشہید ؁۱۹۶۰ میں مشرقی غزہ کی الشجاعیہ کالونی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے غزہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا۔ باون سالہ القسام کمانڈر احمد الجعبری شہید کئی برس غزہ بیس کیمپ سے صہیونی فوج کے خلاف بر سر پیکار رہے اس دوران ان کا اپنا خاندان الخلیل شہر میں قیام پذیر تھا۔ فلسطین میں آج بھی دینی اور سیاسی اعتبارسے الجعبری خاندان اثرو نفوذ رکھنے والا گھرانہ ماناہے۔ اس کے متعدد افراد حماس اور الفتح سے وابستہ ہیں۔ فلسطین میں ؁۲۰۰۰ میں دوسری تحریک انتفاضہ کے آغاز میں احمد الجعبری نے حماس کے عسکری ونگ کے لیے ایک نہایت منظم فورس تشکیل دی، جس کے ذریعے اسرائیلی فوج پر حملے کیے گئے۔ احمد الجعبری کے چچا زاد سمیر الجعبری مغربی کنارے میں فلسطینی پولیس میں کرنل کے عہدے پر تعینات ہیں۔کرنل سمیر نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا بچپن ایک ساتھ گذرا،وہ بچپن ہی سے انقلابی سوچ رکھتا تھا ۔ احمد ہمارے خاندان ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا اثاثہ تھا۔ اس کی شہادت پوری قوم کے لیے ایک المناک واقعہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن ہمیں اس بات پر خوشی بھی ہے کہ اس نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔

احمد الجعبری اپنی عسکری کارروائیوں کی وجہ سے زیادہ تر میڈیا کی چکا چوند سے دور رہتے تھے۔ ان کا میڈیا سے پہلا رابطہ گزشتہ برس اس وقت ہوا جب وہ اسرائیلی سپاہی جلاد شالیط کو مصری خفیہ ایجنسی کے حوالے کرنے مصر گئے۔ احمدالجعبری کی شہادت کے بعد حماس کے جوابی حملہ سے صہیونی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی لیکن دوسری جانب شہید الجعبری کا قبیلہ نے اپنے مایہ ناز سپوت کی عظیم قربانی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے شیرنی تقسیم کی۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں شہید کمانڈر احمد الجعبری کے اہل خانہ اپنے بہادر بیٹے کی شہادت پر اہل علاقہ سے مبارکباد وصول کرتے رہے۔ پرسہ دینے والوں کی تواضع مٹھائی سے کی گئی۔الجعبری کے بچھڑ جانے اور صہیونی دہشت گردی کا نشانہ بننے پر شہید کے عزیزو اقارب مغموم ضرور تھے، البتہ انہیں الجعبری کے شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کی خوشی بھی تھی۔ یہی وہ جذبۂ شہادت ہے جس کا مظاہرہ امام حسین ؓ نے کربلا میں کیا تھا اور احمس الجعبری نے پھر ایک بار اقوامِ عالم کے سامنے شہادت دی ہے کہ ؎
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1237976 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.