خاموشی

رونق وہاں ہوتی ہے جہاں زندہ دل انسان بستے ہوں۔ رونق اس دل میں ہوتی ہے جس میں اللہ اور اس کے آخری نبیﷺ کا ڈیرہ ہو۔ رونق وہاں ہوتی ہے جہاں خلوص دلوں میں روانی رکھتا ہو۔رونق وہاں ہوتی ہے جہاں احترام انسانیت کے چرچے ہوں۔رونق وہاں ہوتی ہے جہاں زبانی کلامی اور اشارتاً امن قائم ہو جائے۔رونق وہاں ہوتی ہے جہاں بندوقوں کی دھن گرج کی بجائے مسجدوں میں قرآن پاک اور اللہ اکبر کے نعروں کی گونج سنائی دے۔رونق وہاں ہوتی ہے جہاں کے لوگ غم و الم میں یکجا ہو جائیں۔رونق وہاں ہوتی ہے جہاں بچے کھیل کود میں مصروف ہوں،نوجوان اپنی محنت مزدور ی اور ملازمت میں مگن ہوں،بزرگ خاندانی اور ملکی امن سے مطمن ہوں۔رونق وہاں ہوتی ہے جہاں غریبوں کے چولہے جلتے ہوں۔

جہاں خاموشی ہو،خوف ہو اور وہم کے سائے ہوں وہ علاقہ یا ملک موت یا قبرستان کا منظر پیش کرتا ہے۔کراچی پاکستان کا ایک ایسا شہر بن چکا ہے جس کے حالات قابل افسوس ہیں۔ہر روز لاشوں پہ لاشیں گرتی ہیںمگر پھر بھی خون کی ہولی کھیلنے والے نہ تو کسی کی گرفت میں آتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان کے چہرے بے نقاب کرتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کی اکثریت مسلمان ہے اور یہ ملک اسلامی طرز زندگی کو اپنانے اور پرامن زندگی گزارنے کے لئے بنایا گیا ہے مگر آج جب ہم بلوچستان ، خیبر پختوانخواہ اور کراچی کے مناظر دیکھتے ہیں تو دل دہل اٹھتا ہے ۔دہشت گرد اور ملک دشمن گویا اپنی زندگی کا مقصدخدانخواستہ محض ہمارے دیس میں تباہی مچانا ہی رکھتے ہیں۔ہر انسان کے اتنے قیمتی رشتے جو ہر روز غم و الم کی تصویر بن جاتے ہیں ،جنہیں دیکھ کر خون کے آنسوآنکھوں سے رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔کسی نوجوان کی اندوہناک موت اور قتل پر اس کے بہن ،بھائی،ماں،باپ اور بچے روتے دھوتے نظر آتے ہیں تو کسی یتیم کے بچے اور بیوہ پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔

کیا یہ ملک خدانخواستہ قتل عام کے لئے تو نہیں قائم ہوا تھا۔کہیں کسی دلہاُ کو قتل کر دیا جاتا ہے تو کہیں کسی ملازم کی موت دفتر سے گھر آتے ہوئے کسی گمنام گولی سے ہو جاتی ہے۔کوئی کسی بیمار کی میڈیکل سٹور پر دوائی لیتے ہوئے خود ہسپتال پہنچ کر یا رستے میں فوت ہو جاتا ہے تو کوئی کسی ڈاکو کی مزاحمت پر دھر لیا جاتا ہے۔بھائی جان ہم سب پاکستانی ایسے حالات کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔کوئی شیعہ ،سنی کے چکر میں مروا دیا جاتا ہے تو کوئی جائیداد یا کاروبار کے قبضے میں اغوا یا قتل کر دیا جاتا ہے۔چھین لینے اور لوٹ مار کرنے کی روایات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ہم سارے چاہیں تو کیا سے کیا نہیں ہو سکتا۔ہم سب کا اتفاق ،ہم سب کا اتحاد اور ہم سب کا بھائی چارہ دنیا کی تمام سیکورٹی فورسز سے زیادہ طاقتور ہے مگر افسوس صد افسوس اس طاقت کی طرف نہ تو ہماری نگاہیں جاتی ہیں او ر نہ ہی ہمارے دل میں اس کو قائم کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے۔ہمارے چاروں طرف موت اور افلاس کے سائے کیوں؟

اگر ایمانداری سے سوچا جائے تو ہماری غلطی اس لئے کہ ہم ایماندار قیادت اور نمائندگی کا انتخاب نہیں کرتے؟ہمارا تمام انتخاب اورہمارے نمائندے ڈبل شاہ جیسے۔بات نکلے گی تو بہت دور جائے گی،احقر کی پیش گوئی کوئی حتمی نہیں لیکن تجربہ بھی کوئی چیز ہے۔ہماری عوام کی آنکھیں ضرور کھلنی چاہیں۔اس ملک کو کتنا عرصہ ہو گیا ہے مگر ہم لوگ الیکشن میں ایمانداری سے ووٹ کاسٹ نہیں کرتے۔آزمائش شرط ہے۔عدالتی فیصلہ سر آنکھوں پر۔اگر کسی نے پیشے تقسیم کئے،لئے یا دیے بہت غلط ہوا ،مگر جیسی حکومت چلائی جارہی ہے وہ بھی نشان عبرت ہے۔عوام کو مہنگائی کے دورے ڈالے جا رہے ہیں،غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کئے جا رہے ہیں۔کراچی جیسے پیارے شہر کو سیاسی بھینٹ کا نشانہ چڑھایا جا رہا ہے اور اس سے ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔بلوچستان جیسے قیمتی صوبے میں ملک دشمن حالات خراب کر رہے ہیں۔خیبر پختوانخواہ میں بذریعہ افغانستان دہشت گردی کرائی جا رہی ہے۔

عدلیہ اور فوج دونوں اداروں کاہر ملکی سالمیت میں بہت ہی زیادہ کردار ہوتا ہے۔دونوں کا چولی امن کا ساتھ ہے۔اگر عدلیہ اور آئین کو پامال کیا جائے تو قومیں اور ملک ترقی نہیں کرتے۔فوج ملکی تحفظ اور امن کا ادارہ ہے اس ادارے کو بھی ملک و قوم کی حفاظت کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنا چاہیئے ۔پاکستانی سیاستدانوں کو عوام وملک کے فلاح کی قسمیں اٹھا کر ان سے انحراف اور بے ایمانی ہر گز ہر گز نہیں کرنی چاہیں۔ہمیںقائد اعظم جیسے نڈر،عمر فاروقؓ جیسے عوامی خدمت گاراورمیاں شہباز شریف جیسے ایماندار لیڈر کی ضرورت ہے۔

ابھی بھی وقت ہے کہ ہم کراچی اور بلوچستان کے حالات کو ٹھیک کریں۔کراچی اور بلوچستان کی لہو سے بھری خاموش لاشیں ہم عوام کی اور ہمارے لیڈران کی نالائقی اور نا اہلی کی کھلی تصویریں ہیں۔خاموشی اور خوف صرف قبرستان میں اچھا لگتا ہے انسانوں میں تو رونق کی ضرورت ہے اور رونق صرف خلوص نیت اور بے لوث خدمت سے آتی ہے۔ایسی رونق مزہ کرتی ہے جو روحانی خوشی دے اور یہی روحانی خوشی جنت میں لے جاتی ہے۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 59986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.