بینظیرانکم سپورٹ پروگرام ،چند مسائل اور تجاویز

اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے ارض ِوطن کواُن تمام وسائل اور بیش بہا نعمتوںسے نواز رکھا ہے جو کسی بھی قوم کواوجِ ثریا تک پہنچا سکتی ہیں لیکن کرپشن ،اقرباءپروری،جاگیرداری اور جاگیردارانہ سوچ کے ناسور کے باعث ان گوناں گوں نعمتوں کے باوجود عوام کی حالت نہ بدل سکی جس پر میں پہلے بھی متعدد کالمز لکھ چکا ہوں ہوں لیکن آج میں وفاقی حکومت کے شروع کردہ ایک منصوبے کوڈسکس کرنا چاہتا ہوں جو بیشک پیپلزپارٹی کی حکومت کا ایک بہترمنصوبہ ہے جس سے غریب افراد کو کسی حد تک ریلیف مل رہاہے اور وہ پروجیکٹ ہے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام۔ورلڈبنک کے تعاون سے غربت کے خاتمے کیلئے شروع کئے گئے اس منصوبے کے بل کی قومی اسمبلی وسینٹ سے منظوری لی گئی جس میں تمام بڑی پارٹیاں شامل تھیں اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں 35لاکھ خاندانوں کا سروے مکمل ہوچکاہے جن کو تیزی سے امداد کی فراہمی جاری ہے دوسرے مرحلے میں یہ تعداد بتدریج سترلاکھ خاندانوں تک پہنچ جائے گی اس طرح اس کوپاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا امدادی منصوبہ بھی کہاجاسکتا ہے جس کے تحت حکومت نے ماہانہ امداد کے علاوہ بھی مختلف سکیمیں شروع کررکھی ہیں جن میں وسیلہ حق،وسیلہ روزگار،وسیلہ صحت شامل ہیں اور اب وسیلہ تعلیم بھی متعارف کروادی گئی ہے اوریہ وہ طویل المیعاد سکیمیں ہیں جو غریب عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں بڑی ممدومعاون ثابت ہوں گی اور جن کے مستقبل میں پاکستان پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے پیپلزپارٹی کے بعض ناقدین یہ بھی کہتے نظرآتے ہیں کہ حکومت اس منصوبے کے ذریعے عوام کو بھکاری بنارہی ہے اور یہ کہ انہیں صرف ایک ہزار روپے کی خاطر بیشمارچکرلگانے اوردھکے کھانا پڑتے ہیں لیکن دراصل یہ تاثردرست نہیں ہے البتہ اس میں کچھ mismanagementہوسکتی ہے جس کی نشاندہی کرکے اس کو دور کیاجاسکتاہے مثلاََگزشتہ دنوں ہمارا دیپالپور آفیسرکالونی میں واقع بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحصیل آفس میں جانا ہواتو دورسے ہی وہاں خواتین کا جم غفیر دیکھ کر ہمیں بہت غصہ آیاکہ دفتر انتظامیہ ان خواتین کوکارڈ ایشو کیوں نہیں کررہی لیکن قریب جانے پر جب صورتحال کا پتہ چلاتو ہمارایہ غصہ عوام کی عوام کی غربت کیساتھ اس کی جہالت پر افسوس میں تبدیل ہوگیاکیوں کہ ہم نے دیکھا کہ دفترانتظامیہ نے اس بے پناہ رش سے نمٹنے کیلئے دفتر کے باہر ایک کاو ¿نٹر لگایا ہوا تھا جس پر ایک مستعدنوجوان لیپ ٹاپ کے ساتھ موجود تھا جس کی یہ ڈیوٹی تھی کہ اس نے خواتین کو نمبر چیک کرکے یہ بتا نا تھا کہ آپ اس سکیم سے مستفید ہونے کیلئے eiligible(اہل)ہیں یا کہ نہیں اب وہ بیچارہ تو اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہاتھا لیکن وہ خواتین یہ جاننے کے باوجود کہ ان کا bispکارڈ نہیں بن سکتا وہ ٹس سے مس نہیں ہورہی تھیں اور ہم نے خوددیکھا کہ اکثریت ان خواتین کی تھی جو کہ اس سکیم کی benificiaryنہیں تھیں لیکن وہ ہر صورت دفتر کے اندرجانے کیلئے بضد تھیں اس صورتحال سے نہ صرف eligibleخواتین کو پریشانی ہورہی تھی بلکہ سیکیورٹی گارڈ ز اورآفس انتظامیہ کو بھی دفتری امور میں شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑرہاتھا ۔اس صورتحال کوکنٹرول کرنے کا ایک بہترین حل نادرا موبائل سروس کی طرز پر bispموبائل سروس سے باآسانی نکالا جاسکتا ہے جس میں بنک و نادرا کاعملہ کی بھی ہمراہ ہو اور یہ موبائل وین ہر روز مختلف علاقوں میں اپنی سروسزفراہم کرے تو بہت حد تک اس پریشانی سے نمٹاجاسکتاہے ۔مثلاََ ہمیں دفتر سے دستیاب اعدادوشمار سے معلوم ہوا کہ دیپالپور میں بیس ہزار افراد bispکے بینیفشریز ہیں لہٰذا اگر اگر موبائل سروس کو استعمال کیا جائے تو چند ہی روز میں سب تک باعزت طریقے سے رقوم اُن کی دہلیز پر پہنچائی جاسکتی ہیں۔اس کے ساتھ ہم نے وہاں یہ دیکھا کہ ان میں بعض ایسی معذور اور ضعیف خواتین بھی تھیں جن کیلئے لائن میں کھڑا ہونا ایک عذاب سے کم نہیں تھا اس کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ نہ صرف bispبلکہ ہر دفتر میں معذورافراد کیلئے الگ کاؤنٹرز کی ہدایات جاری کرے اور اس ضمن میں حکومت کی یہ ذمہ داری اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب کہ صدرپاکستان جناب آصف علی زرداری صاحب نے خود 10اگست 2009ءکے دن معذورافراد کیلئے نہ صرف متعدد مراعات کا اعلان کرچکے ہیں بلکہ اس روز انہوں نے پاکستان کو معذوردوست ملک بنانے کا عہد بھی کیا تھا۔بلکہ میری اس موقع پر حکومت کو یہ بھی تجویز ہے کہ وہ اس خاندان کیلئے pmtسکور کی حد کو معمول سے بڑھا دے اور خصوصاَspecial familyیعنی جس خاندان میں دویادو سے زیادہ افراد ہوں انہیں pmtکی کسی حد کے بغیر ہی مستحق قراردے دیاجائے کیوں یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ معذورافراد کو ایک بوجھ اور عضومعطل بناکررکھ دیاگیا ہے اوراکثرایکھنے میں آیا ہے کہ اُن کے اپنے بھی اُن کا سہارا نہیں بنتے َاور اُن کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اس کے علاوہ bispکے قوائد کے مطابق کسی بھی خاندان کے مستحق ہونے کیلئے اس کے کم از کم چار افراد کا ہونا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے میرے خیال میں اس پر بھی غور کیاجانا چاہئے کیوں کہ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ دور میں انسان کی نہیں بلکہ دولت کی پوجا کی جاتی ہے اور جب کوئی فرد پیسے کمانے کی مشین بننے کے قابل نہیں رہتا تو سب اس بوڑھے کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں جابستے ہیں اس طرح یہ اکیلا فرد جس نے ایک دور میں دن رات ایک کرکے پورا کنبہ پالا ہوتا ہے اب اکیلا اور ناکارہ بن جاتا ہے جس کی مدد بھی ضروری ہے ۔ آخر میں میری عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ bispدفتر جانے سے قبل اگر کسی بھی کمپیوٹر سے اپنے کارڈ یا فارم کےeligibleیا ineligibleہونے کے بارے میں معلوم کرلیں اور صرف eligibleہونے کی صورت میں ہی دفتر سے رابطہ کریں تو آپ کا دفتر انتظامیہ کا وقت بھی بچ پائے گا ۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 91307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.