بول و براز اور "اشرف المخلوقات"

بول و براز کی گندگی میں لتھڑے پانی کو کوئی استعمال کرتا ہے یقینا نہیں بلکہ اس کو سوچ کر جس طرح مجھے کراہیت آرہی ہیں اس طرح آپ کو بھی یقینا میری یہ بات بری لگی ہوگی لیکن یہ واقعی ہم کررہے ہیں کسی کو یقین نہیں آتا تو شہر کے مختلف علاقوں میں پینے کے پانی کے زنگ آلودہ پائپ کو دیکھ لیں بہت ساری جگہوں پر گٹروں سے نکلنے والا گند نالیوں میں شامل ہو کر پینے کے صاف پانی کے پائپوں میں غلاظت شامل کررہا ہے اور ہم گھروں میںپائپوں کے ذریعے آنیوالے اسی پانی کوپیتے ہیں-میں روزانہ کئی علاقوں سے ہوتے ہوئے گندے نالیوں میں پینے کے صاف پانی کے زنگ آلود پائپ دیکھتا ہوں جس میں سب کچھ مکس ہورہا ہے اور یہی نہیں بلکہ ہمیں اورہماری آنیوالی نسلوں کو بھی مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن رہا ہے لیکن اس کی طرف توجہ دینے والا کوئی نہیں-کہتے ہیں کہ انسان پر ماحول بہت اثر کرتا ہے اور یہی ماحول اسے اچھا برا بھی بناتا ہے ماحول ہی لوگوں کے عادات و اطوار میں تبدیلی لانے کا سبب بھی بنتا ہے -

گذشتہ رات کیبل ٹی وی چینل پر چلنے والی جانوروں کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری دیکھ رہا تھا جس میں جنگل کا بادشاہ شیر شکار کھا رہا تھا سب سے عجیب بات جو میں نے محسوس کی اور بعد میں اپنے ساتھیوں کیساتھ اسے شیئر بھی کی کہ جنگل کے شیر بھی ہمارے " بے دم والے شیر" کی طرح مال مفت کس طرح کھاتے ہیں- بچپن میں یہ سنا تھا کہ جنگل کا بادشاہ شیر اپنا شکار کیا ہوا جانور کھاتا ہے اور کسی دوسرے کا چھوڑا ہوا شکار نہیں کھاتا لیکن اس ڈاکومنٹری میں دکھایا گیا کہ شیروں پر فلم بنانے والے افراد نے ایک گائے کو مارا اور اسے جنگل میں رکھ دیا جس کے بعد شیر غراتے ہوئے آئے اور وہ کسی اور کاشکار کیا ہوا جانور کھاگئے -مجھے تو حیرت ہوئی لیکن دوستوں نے مجھے بتایا اور اس بات پر قائل بھی کیا کہ ہ شائد جس طرح ہمارے اشرف المخلوقات"اپنی اوقات سے نیچے "گر گئے ہیں " اسی طرح جنگل کے شیر بھی "مفت میں آئے گوشت" کی پروا نہیں کرتے کہ کون شکا ر کرے تیار ملتا ہے تو یہی بہتر ہے - یقینا یہی حال ہم سب لوگوں کا بھی ہے جو اپنے آپ کو "اشرف المخلوقات" بولتے اور سمجھتے ہیں لیکن ہمارے کام "جانوروں"سے بھی بدتر ہیں ہمارے ارد گرد کے ماحول نے ہم سے وہ حس ہی چھین لی جس میں ہم کم از کم کسی غلط بات کو غلط کہہ سکیں-اس موقع پر وہ پشتو کی ایک مثل یاد آرہی ہے جو پشتو میں تو بہت لغو لگتی ہے لیکن اس کا اردو میں مہذبانہ ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے کہ "غریب تو تمھیں اللہ نے پیدا کیا کمینہ تمھیں نے کس بنادیا" یہ ترجمہ میں نے "اخلاقیات"کے دائرے میں رہنے کیلئے کچھ بہتر بنایا ورنہ اس کا پشتو میں براہ راست کچھ اور ہی مطلب نکلتا ہے -ویسے بھی آ ج کل کچھ مہربان مجھے "اخلاقیات"کا سبق پڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ "اپنے آپ "میں رہو"دو ٹکے "کے صحافی ہو تمھارا تو پتہ بھی نہیں چلے گا جنہیں میں نے ہنس کر جواب دیا کہ "میرے پاس ہے کیا جو مجھ سے رہ جائیگا" خیر میں کہیں اور نکل گیا -

اسی شہر کے مختلف علاقوں سے کابل ریور کینال گزر رہا ہے اور یہ ہم جیسے "اشرف المخلوقات "کا کمال ہے کہ جو نہر ابتدا میں شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی اور ماحول کی بہتری کیلئے رکھی گئی تھی آج اس میں گندگی و غلاظت کی انتہا ہے ہم جیسے ہی لوگوں نے اپنے گھروں سے نکلنے والے باتھ رومز کے گٹروں کا رخ اس نہر کی طرف کردیا ہے اسی نہر کے دونوں اطراف میں جانوروں کے باڑے موجود ہیں جہاں پر کام کرنے والے مزدور صبح و شام جانوروں کا بول و برازاسی نہر میں ڈال کراپنے گھروں /باڑوں کا گند تو صاف کررہے ہیں لیکن دوسری طرف پورے معاشرے میں گندگی پھیلا رہے ہیں- ہر کوئی دوسرے کو دیکھ کر یہی کام کررہا ہے کہ چھوڑ دو یار میں نہیں کرونگا تو کیا ہو جائیگا سب لوگ ایسا ہی کررہے ہیں اور یہی عمل مجھ سمیت ہر کوئی کررہا ہے اس میں غریب امیر تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ کا کوئی فرق نہیں ہر کوئی اپنے اوقات کے مطابق گندگی پھیلا رہا ہے - شہر میں گندے پانی کے نکاسی کیلئے استعمال ہونیوالی نالیوں میں صاف پینے کے پائپ ہیںجو اتنے پرانے ہیں جتنے ہمارے ہاں "سیاستدان "لیکن جس طرح ہمارے "سیاستدان " کام چلا رہے ہیں گندے نالیوں سے آنیولا پانی بھی ہمیں اس طرح ہی مل رہا ہے اور ہم کام چلا رہے ہیں -گندے پائپوں کا پانی ہم استعمال تو کررہے ہیں لیکن انہیں تبدیل کرنے کیلئے جس طرح ہم پر مسلط " حکم رانوں"کو فرصت نہیںکیونکہ وہ تو " منرل واٹر" بھی گھروںمیں پیتے ہیں انہیں "دو ٹکے"کی لوگوں کیا کیا پروا اسی طرح ہم بھی اپنے آپے میں نہیںایک طرف ہم گندہ پانی استعمال کررہے ہیں اور دوسری طرف یہی گندہ پانی شہر میںماحولیاتی آلودگی پھیلا رہا ہے گندہ پانی شہر کے مضافاتی علاقوں میں سبزیوں /پھلوں کے باغات کو پانی دینے کیلئے بھی استعمال ہورہا ہے شہر میں آنیوالے سبزیوں پھلوں کی لیبارٹری ٹیسٹنگ کا کوئی انتظام نہیں کہ "بول و براز" کے کونسے کیمیکل ہم اپنے گھروں میں "سبزیوں"کی شکل میں حلق میں انڈیل رہے ہیں-

آلودہ پانی کو صاف کرنے او ر اسے قابل استعمال بنانے کیلئے 1992 میں پشاور میں ایک بہت بڑے منصوبے پر کام شروع کیا گیا تھا جس پر اس وقت 95 لاکھ روپے سے زائد کی لاگت آئی تھی جس میںشہر کے مختلف علاقوں میں آلودہ پانی کو صاف کرنے کیلئے پلانٹ لگائے جانے تھے لیکن یہ منصوبہ آج تک مکمل نہ ہوسکا اس وقت سے لیکر آج تک " بے دم کی شیر"سمیت " شہیدوں کے پارٹی " اور اسلام کے نام پر"ٹھیکیداری "کرنے والے بھی آئے ساتھ میں "کچھ دور تو بیلٹ والی سرکار کا بھی رہا لیکن جس طرح پشاور شہر کے ساتھ صوبے کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے وزراء اعلی نے "سوتیلی ماں"کا سلوک کیا اسی طرح یہ لوگ بھی "چل چلائو"کی پالیسی پر عمل پیرا رہے اور یہ منصوبہ ابھی تک قابل عمل نہ ہوسکااس منصوبے کے باقیات حیات آباد چارسدہ روڈ کوہاٹ روڈ اور چمکنی کے علاقے میں ابھی بھی بڑے بڑے تالابوں کی شکل میں اب بھی موجود ہیں لیکن اس کیلئے مخصوص فنڈز بھی "فرشتے"کھا گئے اور ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا نہ شہریوں کو صاف پانی میسر آیا نہ ہمارے کھیتوں کو صاف پانی مل سکا - نہ ہی ہمیں آلودہ ماحول سے نجات ملی-

اب تو سننے میں آ رہا ہے کہ شہر میں گندے پانی کی ری سائکلنگ اور پرانے اور زنگ آلودپائپ جو کہ شہریوں کو "وٹامن"بھرا پانی فراہم کررہے ہیں کو تبدیل کرنے کیلئے آٹھ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس کے تحت شہر میں تین بڑے ٹریٹمنٹ پلانٹ بنائے جائینگے جس میں پانی کو ری سائیکل کیا جائیگا اس کیلئے رقم بھی امریکی ادارہ یو ایس ایڈ فراہم کریگا تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ "خیراتی "رقم ہے یا پھر "ٹٹ پونجئے قوم کو "قرض "کے مد میں رقم دی جائیگی خیر جیسا بھی ہے ہم امید کرتے ہیں کہ اس منصوبے سے شہریوں کو گندے پانی سے نجات مل جائیگی تاہم اگر اس منصوبے پر اگر صحیح انداز میں عمل کرایا گیا ورنہ جس طرح اب مخصوص لوگوں کے حلقوں کو اس پروگرام میں شامل کرکے "لالٹین والی سرکار" کے لئے اگلے انتخابات جتوانے کیلئے کام شروع کیا گیا اس سے اتو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ آٹھ ارب روپے بھی "خیراتی قوم" کے " خیراتی لیڈر" خیرات سمجھ کر ہڑپ کر جائینگے اور دو ٹکے کے عوام ساری عمر " بول و براز والا وٹامن سے بھرپور"پانی پی کر "زندہ باد اور مردہ باد"کرتے رہینگے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 424167 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More