رسولِ انقلاب ﷺ

یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے تیئیس سال کی قلیل مدت میں انسانی تہذیب و تمدن کے دھارے کے رُخ کو موڑا اور پھربدل کر رکھ دیا ۔اِس صالح انقلاب سے پہلے عرب و عجم سمیت دنیا کے دیگر معاشروں و سماجوں میں جہالت وگمراہی کا عجب عالم تھا ۔۔۔ہر سو انسانیت کی تذلیل ہو رہی تھی ۔انسان ،انسانوں پر حاکم بنے بیٹھے تھے ۔۔۔اور یہ غلامی اس قدر بدترین شکل میں تھی کہ انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ۔۔۔چھوٹی چھوٹی باتوں اور معاملات پر طویل عرصہ تک باہمی جنگ و جدل کے الاؤ دہک جاتے تھے اور امن کی پوہ کہیں بھی پھوٹتی نظر نہیں آتی تھی ۔ظالم مردوں کا عجب راج تھا کہ وہ عورت کو انسانوں جیسے حقوق اور مقام دینے کو تیا رنہ تھے ۔اپنے گھر میں جو عورت بیا ہ کر کے لائی جاتی ،اُس سے محض ایک تقاضا تھاکہ اُسے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جاتا اور پھر یہ کہ اُن کے لیے صرف بیٹوں کو جنم دے اگربیٹی پیداہو جاتی تواُسے گڑھا کھود کر اس حال میں زندہ درگورکر دیا جاتاکہ وہ پکار تی رہتی کہ اباجا ن !مجھے کس جُرم میں زندہ دفن کر رہے ہو ۔۔۔!

رسول عربی ﷺکے پہلے کے دور کو قرآن حکیم نے ’’و ان کا نو من قبل لفی ضلال مبین ‘‘کے جامع الفاظ میں بیا ن کر کے پوری تصویر کھینچ کر گویا کہ دریا کو کوزے میں بندکردیا ہے ۔۔۔کھلی گمراہی و جہالت کا ہر طرف اورزندگی کے ہر ہر شعبے میں راج تھا ۔۔۔ان جہالت کے تاریک اندھیر وں میں قافلہ انسانی دھکے کھارہا تھا اوراُسے کہیں شاہراہ ہدایت نہیں مل پارہا تھا ۔۔۔انسانی عقل و فکر مختلف قسم کے اوہام میں جکڑکر جمود کا شکا رہو گئی تھی ۔۔۔انسانی ذہن کو توہم پرستی نے مفلوج کر کے رکھ دیا تھا جس کی وجہ سے قافلہ انسانی اپنے اصلی اورحقیقی معبود اللہ رحمان ورحیم کو چھوڑ کر مظاہر پرستی اور غیر مقد س کو مقدس بنا کرپُوج رہاتھا ۔۔۔بُت پرستی عام تھی ،اپنے ہی ہاتھوں پتھروں کو گھڑ کر بُت بنائے جاتے اورپھر اُن سے مرادیں مانگی جاتیں اوراُن کے نام کی نذریں مانی جاتیں۔۔۔

حضرت جعفرطیا رنے شاہ حبشہ نجاشی کے دربارمیں جوتقریر کی تھی ،اُس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ رسول عربی ﷺکے ظہو رنبوت سے قبل قافلہ انسانی کس قدر گمراہی کا شکا ر ہو کر ٹھوکریں کھا رہا تھا اورتباہی وہلاکت کے کنارے کھڑاتھا اورقریب تھا کہ وہ تباہ وبرباد ہوکر اُس کا نام ونشان مٹ جاتا۔۔۔ایسے میں اللہ رب العزت نے محمد رسول اللہ ﷺکو ہدایت کا ملہ عطا فرماکر مبعوث فرمایا تاکہ نوع انسانی کواپنے تخلیقی مشن ومقصد کی یا ددہا نی کرائی جائے اوراُنہیں جہا لت وگمراہی کی تاریکی سے نکال کر ہدایت وصراط مستقیم کی روشن شاہراہ کی طرف موڑاجائے باالفاظ قرآنی ’’ہو الذی ینزل علی عبدہ آیا ت بینت لیخرجکم من الظلمت الی النور‘‘۔۔۔حضرت جعفرنے نبی ﷺکے پہلے اوربعد کے دور کااپنے الفاظ میں کچھ یو ں نقشہ کھینچاہے ۔’’ہم لوگ جہا لت میں پڑے ہو ئے تھے ،نہ اللہ کو جانتے تھے ،نہ اُس کے رسولوں سے واقف تھے ،پتھروں کوپوجتے تھے ،مُردار کھاتے تھے ،بُرے کا م کرتے تھے ،رشتے ناتوں کو توڑتے تھے ،ہم میں قوی ضعیف کوہلاک کردیتاتھا ،ہم اس حال میں تھے کہ اللہ نے اپنا ایک رسول بھیجا،جس کے نسب کو ،اُس کی سچائی کو ،اُس کی ایمانداری کو ،پرہیزگاری کوہم خوب جانتے ہیں ۔،اُس نے ہم کو ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف بلایا اورپتھروں اوربُتوں کے پُوجنے سے منع فرمایا ۔۔اُس نے ہم کو اچھے کا م کرنے کاحکم دیا ۔بُرے کا موں سے منع کیا ۔اُس نے ہم کوسچ بولنے کا حکم دیا ۔امانت داری کا حکم دیا ،صلہ رحمی کا حکم دیا ،پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کاحکم دیا ،نماز ،روزہ ،صدقہ ،خیرات کا حکم دیا اوراچھے اخلاق تعلیم کیے ،زنا ،بدکاری ،جھوٹ بولنے ،یتیم کا مال کھانے ،کسی پر تہمت لگانے اوراس قسم کے دیگربُرے اعمال سے منع فرمایا۔ ہم کوقرآن پاک کی تعلیم دی ،ہم اس پرایمان لائے اور اُس کے فرمان کی تعمیل کی ،جس پرہماری قوم ہماری دشمن ہوگئی اورہم کو ہرطرح ستایا ۔۔۔‘‘یہ تھی وہ تاریک اورابتر صورت حال جس وقت نبی اکرم ﷺنے اپنی دعوت و تعلیم کا آغاز فرمایا ۔۔۔ایک ایسے معاشرے میں جس کے دلوں و دماغوں پر قفل لگے ہوں ۔۔۔کس قدر مشکل ہوتاہے کہ ایسے سماج میں کسی اصولی اور حقیقی سچائی کی دعوت وتعلیم کو پھیلایا جائے اور افراد معاشرہ کی ذہن سازی کی جائے ۔ایسے بنجردل و دماغ رکھنے والے انسانی معاشرے میں کوئی ایسی دعوت پیش کرنا جواُن کے مفادات اور رسوم ورواجات کے خلاف ہو ،کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے ۔۔۔؟جاہلانہ اورتوہم پرستانہ ذہنیت رکھنے والے معاشرے میں حق وسچ کی دعوت کا پرچار کرناگویا پورے سماج کو للکارنے کے مترادف ہو تاہے ،اس لیے کہ رائج الوقت نظام اوررسوم ورواجات سے ہرایک نے اپنے مفادات وابستہ کیے ہوتے ہیں اورجب کسی ایسی دعوت و تعلیم سے اُن کے مفادپر ست طبقات پر زد پڑتی ہے تووہ چونک کر رہ جاتے ہیں اورحرکت میںآجاتے ہیں اپنے نظام اوراپنی چودھراہٹوں کے تحفظ کے لیے ۔۔۔چناں چہ محمد عربی ﷺکوبھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ۔جب آپﷺ نے اپنی دعوت وتبلیغ کا آغازفرمایا اوریہ دعوت دی کہ ’’قولو لاالہ الا اللہ تفلحون‘‘اور’’اللہ لا الہ الا ہو‘‘۔۔۔’’قل ہو اللہ احد،اللہ الصمد ‘‘۔۔۔اورپھر یہ کہ ’’ان اللہ ربی و ربکم فاعبدوہ ہذا صراط مستقیم ‘‘۔۔۔معاشرے میں بلاشرکت غیر ے حاکم بنے بیٹھنے والوں کے سامنے جب ’’ان الحکم الا للہ ‘‘اور ’’الا لہ الخلق و لامرکی دعوت کی گونج بلند ہو نے لگی تووہ اِس دعوت کو روکنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے اور آپﷺ کے خلاف پروپیگنڈا شروع کرکے افراد معاشرہ کو یہ باورکرانے کی کوشش شروع کی کہ یہ محمد بن عبد اللہ اپنے آبائی دین کا باغی ہوگیا ہے ۔۔۔ہمارے عقائد و نظریات ،اعمال وافعال اور رسوم ورواجات کو غلط کہتاہے ۔۔۔وہی لوگ جو پہلے آپ ﷺ کو صادق وامین کہتے تھے وہ اب مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ۔۔۔آپﷺ کی ملامت کرنے اورپریشان کرنے کی غرض سے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ پاگل ہوگیا ہے ،اس پر کسی نے جادو کردیا ہے ،یہ مجنوں ہے ۔۔۔غرض یہ کہ جوبھی ملامت کرنے کا کوئی طریقہ و گُر اُن کے پاس تھا وہ آزماتے تاکہ اپنی چودھراہٹوں کا تحفظ کر سکیں۔۔۔مگرنبی رحمت ﷺ نے اس سب کچھ کے باوجود پوری استقامت کے ساتھ قرآنی دعوت و تعلیم جاری رکھی ۔۔۔۔یہ انقلاب ایسے ہی نہیں برپاء ہوگیا بلکہ اِس راہ میں محمدعربی ﷺکوطرح طرح کے جن مصائب و مشکلات کے طوفانوں سے گزرنا پڑا ،اُس کا تصورکرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔نبی ﷺکا خودیہ فرمانا کہ تمام انبیاء ورسولوں کو جو تکلیفیں اُٹھائیں وہ سب تنہا میں نے اُٹھائیں ۔۔۔آپ ﷺکوستانے اورتکلیفیں دینے والوں میں اپنے بیگانے سب پیش پیش تھے ۔۔۔اس لیے کہ ان سب کے نقطہ نظرمیں محمد بن عبد اللہ اپنے آبائی دین سے منحرف ہو گئے تھے ۔حالانکہ وہ خود جہالتوں اورگمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے اور جب محمد رسول اللہ ﷺ انھیں ہدایت کی راہ پر لگانے کے لیے کمر بستہ اورفکر مند ہوئے تو سب آپ ﷺ کے خلاف ہوگئے ۔۔۔اور صورت حال یہ ہو گئی کہ ’’اپنے بھی بیگانے بھی ہیں مجھ سے ناخوش ! میں زہر ہلاہل کو کہہ نہ سکا کند !آپ ﷺ کو اپنی دعوت حق سے دستبردار کر نے کے لیے طرح طرح کے لالچ کی پیش کشیں بھی کی گئیں مگرآپﷺ کے پایہء استقامت میں لمحے بھر کے لیے بھی لڑکھڑاہٹ اور پھسلاہٹ نہیںآئی ۔۔۔محمد عربی ﷺجس حق وسچ کی دعوت کے علمبردار تھے وہ کیسے باطل قوتوں اور عقائد و نظریات سے ہم آہنگی اختیارکر کے مصلحت کا رویہ اختیار کرسکتے تھے ۔۔۔آپ کو تو حکم تھا کہ ’’فاصد بماتوئمرو و اعرض عن الجاہلین ‘‘اور’’ولو کرہ المشرکون ‘‘کے مصداق مشرکوں کو کتنا ہی یہ پیغام ہدایت ناگوار ہو ،بُرالگے ،وہ جتنے بھی اس سے الرجک ہوں ۔۔۔آپ بلا کم و کا ست اس پیغام حق کو پھیلائیے ۔۔۔پھر آپ کو اپنے خالق ومالک کی طرف سے حکم تھا کہ ’’فلاتطع الکفرین و جاہد ہم بہ جھا داََ کبیرا‘‘اورپھر یہ کہ ’’یا ایھاالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ‘‘اِس الہدٰی کی اشاعت اور دین الحق کی اقامت کے لیے آپﷺ پہلے دن سے لے کر اپنی حیا ت دنیوی کے آخر ی لمحات تک مسلسل تیئیس سا ل اس فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے محنت و مشقت ،صبرومصابرت ،جہاد ومجاہدہ ،استقامت ومقاومت ،ایثار وقربانی اورباطل سے مسلسل فکری ونظریا تی اور عملی سطح پر کشمکش جاری رکھی ۔۔۔اِ س راہ میں طائف کے بازار میں رسوابھی ہوکر سختیا ں بھی جھیلنا پڑیں۔۔۔بدر و اُحد کے میدان کا رزار سے بھی گزرنا پڑا ۔۔۔غزوہ ء خندق میں شدید بھوک کے باعث پیٹ کے اوپر دو پتھر بھی باندھنا پڑے ۔۔۔تین سال کی قید بھی کاٹنا پڑی ۔۔۔اس انقلابی جدوجہد میں جسم سے خون بھی بہا ۔۔۔دندان مبارک بھی ٹوٹے ۔۔۔اپنے قریبی ساتھیوں اوراصحاب کی جانیں بھی اس انقلاب میں صرف ہوئیں ۔۔۔یہ ساری جدوجہد اورمجاہدہ انسانی سطح پر ہوا ۔۔۔یہ محض کوئی معجزاتی انقلاب نہ تھا۔۔۔معجزوں کا عمل دخل اور تناسب بہت کم ہے ،یہ نہیں ہواکہ بھوک لگی تو آسمان سے من و سلوٰی اتر گیا ہو ،پیاس لگی ہو تو زمین سے فوراََچشمے پھوٹ پڑے ہوں ،دریا سامنے آیا ہو تو ایک عصا مارنے سے راستے بن گئے ہوں ۔۔۔اللہ کی طرف سے مدد ہو ئی ہے لیکن اُس سے پہلے پوری طرح جانچا اور پرکھا گیا ۔۔۔اورپوری طرح امتحان میں ڈالا گیا ۔۔۔پہلے فضائے بدر پیداہوئی توپھر فرشتے اُترے ۔۔۔اللہ کی مد د تب آتی ہے جب اُس کے دین کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے لیے کمر ہمت کس کراور جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلاجائے اور ساری سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے ایثارو قربانی کی راہ پر چلاجائے باالفاظ قرآنی ’’ان تنصر اللہ ینصر کم و یثبت اقدامکم ‘‘۔۔۔شدیدمخالفت اورمشکلات کے علی الرغم پیغمبر انقلاب ﷺنے قرآن کی دعوت و تعلیم کا عمل مسلسل جاری رکھا۔۔۔قرآن حکیم جسے نبی اکرم ﷺکی انقلابی جدوجہد کے ضمن میں’’آلہء ا نقلاب ‘‘کی حثییت حاصل ہے اورجس کے ذریعے محمدعربی ﷺنے وہ عظیم ترین اورکامل ترین انقلاب برپاء فرمایاکہ پوری تاریخ انسانی میں جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی ۔۔۔کیونکہ یہ ایک منفرد اورکامل ترین انقلاب تھا کہ جس میں ایک ہی شخصیت نے ابتداء میں دعوت کا آغاز بھی کیا اورپھر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنی زندگی میں ہی اس کی تکمیل کی ۔جس میں انسانی زندگی کے انفرادی اوراجتماعی دھارے کے رُخ کو بدل کررکھ دیا گیا ۔۔۔معلم اخلاق اور داعی وامام انقلاب کی حثییت سے آپﷺ کاکرداراور شان اس حوالے سے بھی منفرد خصوصیات کی حا مل ہے کہ آپ ﷺنے جوکچھ کہا اورجو دعوت و تعلیم دی پہلے خود اُس پر عمل کر کے دکھایا جس طرح کے عمل کرنے کا حق ہوتاہے ۔۔اس دعوت قرآنی کے ذریعے آپﷺ نے لوگوں کی فکروسوچ کوبدلا ،نقطہء نظر بدلا،عقائد بدلے ۔اقداربدلیں،عزائم بدلے ،آرزوئیں و امیدیں اورامنگیں بدلیں،ذوق و شوق کے زاویے بدلے ، دل چسپیاں بدلیں،خوف بدلے ،اخلاق بدلے ،کردار بدلے ،خلوت وجلوت بدلی ،انفرادیت بدلی ،اجتماعیت بدلی ،دن بدلا ،رات بدلی حتیٰ کہ ’’تبد ل الارض غیرالارض والسموات‘‘کے مصداق آسمان بدلا،زمین بدلی ،الغرض پوری کائنا ت بدل کررکھ دی ۔۔۔مولاناحالی نے اپنے ایک شعرمیں اس انقلاب کی ترجمانی یوں کی ہے ۔’’وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی ۔۔۔عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی !ہے کوئی تاریخ انسانی میں کسی دوسری شخصیت کی مثال کہ جس نے تن تنہا دعوت و تعلیم کا آغاز بھی کیا ہو اور پھر اُسی دعوت وتعلیم کی بنیا د پر ایک معاشرہ بھی قائم کیا ہو۔۔۔اگرچہ دنیا میں بہت بڑے نامی گرامی واعظ،مبلغ ،داعی اور مصلح گزرے ہیں کہ جنہوں نے نوع انسانی کی زندگیوں میں تبدیلیوں کے حوالے سے جدوجہد اور کوششیں کی ہیں ۔۔۔بڑے خوبصورت اور خوشنما قسم کے واعظ کیے ۔۔۔انسانی سماج کی بہتری کے حوالے سے بڑی بڑی باتیں کی مگر وہ اپنی زندگی میں کسی معاشرے کو اپنے پیش کردہ فکر و نظریے کے مطابق ڈھال نہ سکے اور اجتماعی نظام و چلن کو بد ل نہ سکے ۔اگر کسی کی دعوت و فکر سے کوئی تبدیلی آئی بھی تو وہ صرف زندگی کے کسی ایک جز ،کسی ایک دائرے یا کسی ایک شعبے تک محدود رہی ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ایچ جی ویلز اگر چہ عیسائی ہے لیکن خطبہ حجۃ الوداع کا حوالہ دینے کے بعد وہ اس حقیقت کا اعتراف کر نے پر اپنے آپ کو مجبور پاتاہے کہ ’’ اگرچہ انسانی اخوت ،مساوات اورحریت کے واعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے ہیں اور ایسے واعظ مسیح ناصری کے ہا ں بھی ملتے ہیں ۔لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (ﷺ)ہی تھے ،جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا ۔۔۔‘‘ایچ جی ویلز کا یہ بیا ن ہم نے یہاں اس لیے کوڈکیا تاکہ یہ با ت واضح ہو جائے کہ محمد عربی ﷺ کے برپاء کیے ہوئے عظیم ترین اورکامل ترین انقلاب کا اعتراف صرف ماننے والے یعنی صرف مسلمان ہی نہیں کرتے بلکہ نہ ماننے والے یعنی غیر مسلم بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر ا پنے آپ کو مجبور پاتے ہیں ۔الفضل ما شھد ت بہ الاعداء کے مصداق اصل فضیلت بھی وہ ہوتی ہے جس کا دشمن بھی اعتراف اور اقرار کریں ۔ماننے والے یعنی ایمان لانے والے تواقرار و اعتراف کریں گے ہی ،اس لیے کہ یہ اُن کی عقید ت و محبت کا تقاضا ہوتا ہے ۔۔۔لیکن پیغمبر انقلاب ﷺنے جو انسانی سماج میں ہمہ جہت اور ہمہ گیرانقلاب برپاء فرمایا ۔۔۔نہ ماننے والے بھی پکاراُٹھے کہ تاریخ انسانی میں محمدﷺوہ واحد کامیا ب شخصیت ہیں کہ جنہوں نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر انسانی زندگی کے دھارے کا رُخ موڑکر رکھ دیا ۔۔۔ایچ جی ویلز کے اعتراف کے ساتھ ساتھ امریکی مو رخ ڈاکٹر مائیکل ہا رٹ نے ایک کتاب The 100کے نام سے لکھی ۔اس کتاب میں پانچ ہزار سالہ انسانی تاریخ میں ایسے ایک سو انسانوں کا انتخاب کیا اوردرجہ بند ی کی کہ جنہوں نے انسانی تمدن کے دھارے کے رُخ کو موڑنے میں موئثرکردار اداکیا ۔۔۔وہ اس درجہ بندی میں نمبر ایک پر محمدرسول اللہ ﷺ کولایا ہے ۔وہ محمد ﷺکے بارے میں اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ۔He was the only man in the history who was successful on both the religious and secular levels . پھر ایک بنگالی ہندو ایم این رائے نے 1920 میں بریڈلا ہال لاہور میں’’اسلام کا تاریخی کردار ‘‘کے عنوان سے ایک لیکچر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب محمد(ﷺ)نے برپاء کیا ۔۔۔یہ بات پیش نظر رہے کہ وہ کوئی عقید ت مند تو نہیں تھا ،وہ تو ہندو تھا اور پھر کمیونسٹ !مگراس کے باوجود وہ تسلیم کر رہا ہے کہ محمدﷺتاریخ انسانی میں وہ واحد شخصیت ہیں کہ جنہوں نے انسانی تہذیب و تمد ن کے دھارے کا رُخ بدل کراپنے اصولوں پرایک معاشرہ قائم کیا ۔۔۔

انقلاب محمدی ﷺ کا انقلاب فرانس اورانقلاب روس سے تقابل کیاجائے تو یہ نظر آتاہے کہ انقلاب فرانس میں صرف سیا سی نظام بدلا اور انقلاب روس میں معاشی نظام بدلا ۔لیکن انقلاب محمدی ﷺ میں ہر چیز بدل گئی مذہب بھی بدل گیا ،عقائد وافکا ر بھی بدلے ،نظریا ت و خیا لات بھی بدلے ،رسوم ورواجات کی بیڑیوں سے بھی لوگوں کو آزادکرایا گیا ،سیاسی نظام بھی بدل گیا ،معاشی نظام بھی بدل گیا ،معاشرت بھی بد ل گئی ۔۔۔کوئی بھی شے اپنی سابقہ حالت پرقائم نہ رہی ۔۔۔تویہ بات بالکل مبرم حقیقت بن کر سامنے آتی ہے کہ دنیا کا جامع ترین ،عظیم ترین اور کامل ترین انقلاب محمد ﷺکا برپاء کردہ انقلاب تھا ،کوئی دوسراانقلاب اس کے مقابلے میں نہیں۔۔۔باقی سب جزوی انقلابا ت تھے ۔۔۔پھر ان انقلابات میں نظریہ و فکر اوردعوت دینے والے کوئی اور لوگ تھے اورعملاََانقلاب برپاء کرنے والے کچھ اور لوگ تھے ۔۔۔انقلاب فرانس کی تحریک میں فکری و نظریا تی طور پر والٹیئر اور روسو جیسے اصحاب قلم نے آزادی اورجمہوریت کے حوالے سے پرچارکیا ۔۔۔اسی طرح انقلا ب روس کا فکری و نظریا تی محرک مارکس اور اینجلز کا فکرو فلسفہ تھا جواپنی زندگی میں کسی ایک خطہ زمین میں بھی اس کو بروئے کا ر نہ لاسکے تھے ۔۔۔اوربہت بعد روس میں لینن اور اس کے دیگرساتھیوں نے مارکس کے فکروفلسفہ پر تحریک برپاء کرکے کپیٹلزم کی جگہ سوشلسٹ نظام قائم کردیا ۔۔۔اس حوالے سے اگر دیکھاجائے تومحمدﷺکا برپاء کیا ہو ا دنیا کا واحد انقلاب ہے کہ ابتداء سے انتہا تک اس کی قیا دت ایک ہی شخصیت کررہی ہے ۔فکرونظریہ اوردعوت وتعلیم سے لے کر تنظیم و تربیت اورجہاد ومجاہدہ اور کشمکش و تصادم سب مراحل کی قیادت ایک ہی شخصیت محمدﷺکے پاس ہے ۔۔۔اور جاء الحق و ذھق الباطل کے مصداق تیئیس سال کے قلیل عرصے میں محمدﷺ جزیرہ نمائے عرب میں اس عظیم ترین اور کا مل ترین اسلامی انقلاب کی تکمیل کرتے ہیں۔۔۔اس مختصر مضمون میں انقلاب نبویﷺ کا احاطہ کرنامشکل ہی نہیں ناممکن ہے اوپر جوکچھ بیان ہو ا اُسے مُشتے نمونہ ازخروارے کے مصداق سمجھاجائے ۔۔۔’’سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لیے !‘‘اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے ضروری ہے کہ امت مسلمہ کا ہر ہر فرد پیغمبر انقلاب ﷺ کے منہج کو سمجھ کر جدوجہد کے لیے متحرک ہو۔۔۔اسوہ رسول ﷺ سے ہٹ کرکامیابی ممکن نہیں ۔اس سلسلے میں امام دارالہجرت امام مالک کا یہ قول قابل غورہے کہ لایصلح ا خر ھذہ الامۃ الا بما صلح اولھا ۔یعنی ا س اُمت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہوسکے گی ،مگر اسی طریقے پرجس پر کہ پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی ۔۔۔آج اسلامی انقلاب برپاء کرنے کے لیے ہمیں رسول اللہ ﷺکے انقلاب کے طریق کا ر کا اچھی طرح فہم و شعور حاصل کرکے اپلائی کرناہوگا ۔صلائے عام ہے !
سید عمر اویس گردیزی
About the Author: سید عمر اویس گردیزی Read More Articles by سید عمر اویس گردیزی: 6 Articles with 5741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.